بی بی سی کی خبر کے مطابق اردوگان نے کردی علاقوں پر حملہ کر کے 260 کردیوں کو مار ڈالا ہے (بشمول شہری آبادی)۔سوال یہ ہے کہ ترکی کو یہ اچانک کردوں پر حملے کی کیا ضرورت پڑ گئی؟
بی بی سی نے جس لب و لہجے میں یہ خبر پیش کی ہے، اس سے لگتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اور یہ نارمل چیز ہو۔ پورے مغربی میڈیا کی یہ حالت ہے کہ وہ اسے اسی طریقے سے پیش کر رہے ہیں جیسے یہ نارمل روٹین ہو اور کوئی بڑا مسئلہ نہ ہو۔
مغربی میڈیا کے علاوہ امریکی حکومت کا بھی یہی رویہ ہے کہ اس نے کردوں پر حملہ کرنے اور شام کے شمالی علاقے میں ترکی کے بفر زون بنانے پر کوئی لفظ مذمت کا نہیں بولا ہے۔
اردوگان جھوٹا ہے۔
اس نے پہلے جھوٹا بہانہ گھڑا کہ چونکہ شام کے شمالی علاقے سے داعش نے اس پر ایک حملہ کیا ہے، چنانچہ وہ داعش پر جوابی حملے کے لیے شام میں داعش پر حملہ کر رہا ہے۔ مگر پھر ترکی کے طیاروں نے داعش پر حملہ کرنے کی بجائے شمالی شام اور اور اسکے ساتھ ساتھ شمالی عراق میں کرد آبادی پر فضائی حملے کر دیے جس میں ابتک 260 کرد مارے جا چکے ہیں۔
یہ جھوٹ اور یہ منافقتیں کیوں؟
ترکی اور امریکہ وغیرہ کو کیوں کردوں کے قتل عام کی ضرورت پیش آ گئی کہ وہ داعش کے بہانے ان پر براہ راست ٹوٹ پڑیں؟
یاد رہے کہ ترکی بذاتِ خود داعش کو امریکی ہتھیاروں کی سپلائی لائن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اسلحہ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے جہادی ترکی ہی فلائی کرتے ہیں اور ترکی سے ہی داعش کے پاس پہنچتے ہیں۔ واحد قدغن یورپ اور امریکہ نے یہ لگائی ہے کہ وہ یورپ اور امریکہ سے آنے والے جہادیوں پر نظر رکھے، کیونکہ وہ واپس یورپ و امریکہ جا کر دہشتگردی کر سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ بقیہ پوری دنیا کے جہادی آسانی سے ترکی فلائی کر کے داعش تک پہنچ سکتے ہیں اور ترکی کی حکومت نے بذات خود داعش کے جہادیوں کے کیمپ اپنی سرزمین پر لگائے ہوئے ہیں اور اپنی سرحدیں داعش کے جہادیوں کے لیے مکمل طور پر کھولی ہوئی ہیں۔
الحسکہ (شامی صوبے) میں کردوں/شامی فوج کے ہاتھوں داعش کی شکست
وجہ یہ تھی کہ شام کے مشرقی صوبے الحسکہ میں کردوں اور شامی افواج نے مل کر داعش کا تقریباً خاتمہ کر دیا ہے
فروری، 2015 میں داعش آدھے سے زیادہ صوبے پر قابض تھی مگر اسکے بعد سے اسے مسلسل الحسکہ میں کردوں کے ہاتھوں مار پڑ رہی ہے۔
مگر پھر کردوں منظم ہوئے اور شامی فوج بھی منظم ہوئی اور انہوں نے مل کر داعش کی پورے علاقے میں بینڈ بجا دی۔
موجودہ صورتحال کے لیے آپ وکیپیڈیا پر نقشہ (لنک) دیکھئے جہاں نہ صرف یہ کہ داعش کو الحسکہ میں بری طرح شکست کا سامنا ہے، بلکہ وہ اس سے کہیں آگے بڑھتے ہوئے ملحقہ صوبے الرقہ کے پورے شمال (ترکی شامی سرحدی علاقوں) پر قابض ہو چکے ہیں اور انکے یہ پیشقدمی مغرب کی طرف جاری ہے جسکے بعد شدید خطرہ پیدا ہو چکا ہے کہ کرد پوری ترکی/شامی سرحد پر قبضہ کر کے داعش اور ترکی کے درمیان تعلق کو منقطع کر دیں گے اور ترکی اس پوزیشن میں نہیں رہے گا کہ وہ داعش کو کوئی اسلحہ سپلائی کر سکے۔
صرف اسی چیز کو روکنے کے لیے ترکی نے کردوں پر حملہ کیا ہے اور امریکہ کی آشیرواد اس حملے میں شامل ہے کیونکہ امریکہ کا مقصد کردوں کی مدد نہیں بلکہ امریکہ اصل ہدف یہی ہے کہ اس خطے کی تمام قوتیں مسلسل ایک دوسرے کے خلاف لڑتی رہیں اور کسی ایک کو بھی فیصلہ کن فتح حاصل نہ ہو۔ چنانچہ جو بھی فریق کمزور پڑنے لگتا ہے، امریکہ ایک بہانے یا دوسرے بہانے اسکی مدد کرتا ہے یا پھر مخالف فریق پر حملہ کر کے اسے کمزور کر دیتا ہے۔