https://twitter.com/x/status/1881357830399091097
سابق وزیراعظم عمران خان کی اڈیالہ جیل میں وکلاء اور میڈیا سے گفتگو:
"اردلی حکومت خوف کا شکار ہے، انہیں مسلسل ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ ان کا پہلا ڈراؤنا خواب ان کے اعصاب پر سوار عمران خان اور اس کی رہائی کا خوف ہے۔ دوسرا ڈراؤنا خواب یہ ہے کہ فارم 47 کا کچا چٹھا نہ کھل جائے۔ ان خوابوں سے گھبرا کر بیدار ہوتے ہی یہ 9 مئی کی گردان کرنے لگتے ہیں۔ اس خوف کی بدولت انہوں نے مجھے ایک ایسے بے ضمیر جج سے سزا دلوائی جسے خود سپریم کورٹ نے 2004 میں عدالتی خدمات کے لیے نا اہل قرار دیا تھا۔
القادر یونیورسٹی منصوبہ ملک ریاض اور این سی اے کے معاہدے سے سال پہلے سے چل رہا تھا اور ہمارے دور کی کابینہ کا القادر ٹرسٹ معاملے میں کوئی کردار نہیں تھا نہ ہی یہ رقم ہم نے سپریم کورٹ منتقل کروائی۔ کابینہ نے صرف عدم انکشاف معاہدے کی رازداری کی منظوری دی تاکہ اتنی بڑی رقم/غیر ملکی زرمبادلہ ایک ساتھ پاکستان آ جائے۔ نام نہاد "بند لفافے" کو حکومت اور تحقیقاتی ادارے کھول سکتے ہیں، اسے کھولیں، اس میں کیا لکھا ہے عوام کو بتائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔
ذلفی بخاری نے اس کیس میں ویڈیو لنک یا سفارت خانے کے ذریعے پیش ہونے کی درخواست کی تھی کیونکہ اگر وہ پاکستان آتے تو انہیں عدالت تحفظ نہ دیتی اور باقیوں کی طرح انہیں بھی گرفتار یا اغوا کر کے تشدد کیا جاتا۔ ذلفی بخاری کے گھر پر غیر قانونی چھاپہ مار کر توڑ پھوڑ کی گئی، خاندان کو ہراساں کیا گیا اور ڈیلز آفر کی گئیں۔ شہزاد اکبر نے بھی کئی مرتبہ گواہ بننے کی پیشکش کی، مگر چونکہ جعلی حکومت اس مقدمے میں مجھے سزا دینے کا فیصلہ کر چکی تھی اس لیے انہیں ویڈیو لنک یا سفارت خانے کے ذریعے پیش ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ شہزاد اکبر کے بھائی کو بھی اغوا کیا گیا۔
القادر ٹرسٹ ایک فلاحی ادارہ ہے جس کے ذریعے غریب طلباء کو سیرت النبی ﷺ سے روشناس کروایا جا رہا ہے۔ اس سے مجھے کوئی ذاتی فائدہ ہے نہ ہی میری اہلیہ کو۔ پہلے بھی ساڑھے نو ماہ بشریٰ بیگم کو قید میں رکھا گیا اور میرا ساتھ دینے کی سزا دی گئی۔ گھریلو خواتین کو سیاست میں گھسیٹنا شرمناک ہے اور ہماری روایات کے منافی ہے۔ بشریٰ بیگم مضبوط اعصاب کی حامل خاتون ہیں، وہ میری کمزوری نہیں طاقت ہیں۔
یہ مجھ پر جتنے مرضی مقدمات بنائیں، میں نواز شریف یا زرداری کی طرح ڈیل کے ذریعے نہیں بلکہ عدالتوں کا سامنا کر کے انصاف کی طاقت سے جیل سے باہر آؤں گا۔ ان سے ڈیل پر میں جیل میں رہنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ میرے مقدمات یا رہائی کا حکومت یا کسی سے بھی ہونے والے مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذاکرات کا عمل اگر سبوتاژ ہوا تو اس کی وجہ حکومت کی غیر سنجیدگی اور جوڈیشل کمیشن کا قیام نہ کرنا ہو گا۔ ہمارے جو لوگ شہید ہوئے ہیں ان کی طرف سے ہم پر دباؤ ہے، وہ انصاف کے متلاشی ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بغیر مذاکرات کرنے کا کوئی مقصد ہی نہیں۔
سلمان اکرم راجہ اور بیرسٹر گوہر کو ہدایت کرتا ہوں کہ چیف جسٹس اور آئینی بینچ کے سربراہ امین الدین خان کو انسانی حقوق سے متعلق ہمارے مقدمات ترجیحی بنیادوں پر سننے کے لیے خط لکھیں اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی اس متعلق خط تحریر کریں۔ علی امین گنڈا پور ایپکس کمیٹی کو خط لکھ کر شہباز شریف کے لگائے بھونڈے الزامات کا جواب دے۔
ہم کسی سے کوئی رعایت نہیں مانگ رہے، صرف قانون کے مطابق انصاف مانگ رہے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کا جو حال ہو چکا ہے وہ قابل افسوس ہے۔ سپریم کورٹ میں آج جو ہوا وہ اسی ترمیم کا نتیجہ ہے۔ نامکمل اسمبلیوں سے ہونے والی قانون سازی بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ ہم عدلیہ پر دباؤ اور ان کے احکامات ہوا میں اڑانے کی مذمت کرتے ہیں۔ جس ملک میں نظام انصاف ہی زنجیروں میں جکڑا ہو گا وہاں کسی اور کو کیا ہی آزادی ملے گی۔"
https://twitter.com/x/status/1881281419001082004
سابق وزیراعظم عمران خان کی اڈیالہ جیل میں وکلاء اور میڈیا سے گفتگو:
"اردلی حکومت خوف کا شکار ہے، انہیں مسلسل ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ ان کا پہلا ڈراؤنا خواب ان کے اعصاب پر سوار عمران خان اور اس کی رہائی کا خوف ہے۔ دوسرا ڈراؤنا خواب یہ ہے کہ فارم 47 کا کچا چٹھا نہ کھل جائے۔ ان خوابوں سے گھبرا کر بیدار ہوتے ہی یہ 9 مئی کی گردان کرنے لگتے ہیں۔ اس خوف کی بدولت انہوں نے مجھے ایک ایسے بے ضمیر جج سے سزا دلوائی جسے خود سپریم کورٹ نے 2004 میں عدالتی خدمات کے لیے نا اہل قرار دیا تھا۔
القادر یونیورسٹی منصوبہ ملک ریاض اور این سی اے کے معاہدے سے سال پہلے سے چل رہا تھا اور ہمارے دور کی کابینہ کا القادر ٹرسٹ معاملے میں کوئی کردار نہیں تھا نہ ہی یہ رقم ہم نے سپریم کورٹ منتقل کروائی۔ کابینہ نے صرف عدم انکشاف معاہدے کی رازداری کی منظوری دی تاکہ اتنی بڑی رقم/غیر ملکی زرمبادلہ ایک ساتھ پاکستان آ جائے۔ نام نہاد "بند لفافے" کو حکومت اور تحقیقاتی ادارے کھول سکتے ہیں، اسے کھولیں، اس میں کیا لکھا ہے عوام کو بتائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔
ذلفی بخاری نے اس کیس میں ویڈیو لنک یا سفارت خانے کے ذریعے پیش ہونے کی درخواست کی تھی کیونکہ اگر وہ پاکستان آتے تو انہیں عدالت تحفظ نہ دیتی اور باقیوں کی طرح انہیں بھی گرفتار یا اغوا کر کے تشدد کیا جاتا۔ ذلفی بخاری کے گھر پر غیر قانونی چھاپہ مار کر توڑ پھوڑ کی گئی، خاندان کو ہراساں کیا گیا اور ڈیلز آفر کی گئیں۔ شہزاد اکبر نے بھی کئی مرتبہ گواہ بننے کی پیشکش کی، مگر چونکہ جعلی حکومت اس مقدمے میں مجھے سزا دینے کا فیصلہ کر چکی تھی اس لیے انہیں ویڈیو لنک یا سفارت خانے کے ذریعے پیش ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ شہزاد اکبر کے بھائی کو بھی اغوا کیا گیا۔
القادر ٹرسٹ ایک فلاحی ادارہ ہے جس کے ذریعے غریب طلباء کو سیرت النبی ﷺ سے روشناس کروایا جا رہا ہے۔ اس سے مجھے کوئی ذاتی فائدہ ہے نہ ہی میری اہلیہ کو۔ پہلے بھی ساڑھے نو ماہ بشریٰ بیگم کو قید میں رکھا گیا اور میرا ساتھ دینے کی سزا دی گئی۔ گھریلو خواتین کو سیاست میں گھسیٹنا شرمناک ہے اور ہماری روایات کے منافی ہے۔ بشریٰ بیگم مضبوط اعصاب کی حامل خاتون ہیں، وہ میری کمزوری نہیں طاقت ہیں۔
یہ مجھ پر جتنے مرضی مقدمات بنائیں، میں نواز شریف یا زرداری کی طرح ڈیل کے ذریعے نہیں بلکہ عدالتوں کا سامنا کر کے انصاف کی طاقت سے جیل سے باہر آؤں گا۔ ان سے ڈیل پر میں جیل میں رہنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ میرے مقدمات یا رہائی کا حکومت یا کسی سے بھی ہونے والے مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذاکرات کا عمل اگر سبوتاژ ہوا تو اس کی وجہ حکومت کی غیر سنجیدگی اور جوڈیشل کمیشن کا قیام نہ کرنا ہو گا۔ ہمارے جو لوگ شہید ہوئے ہیں ان کی طرف سے ہم پر دباؤ ہے، وہ انصاف کے متلاشی ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بغیر مذاکرات کرنے کا کوئی مقصد ہی نہیں۔
سلمان اکرم راجہ اور بیرسٹر گوہر کو ہدایت کرتا ہوں کہ چیف جسٹس اور آئینی بینچ کے سربراہ امین الدین خان کو انسانی حقوق سے متعلق ہمارے مقدمات ترجیحی بنیادوں پر سننے کے لیے خط لکھیں اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی اس متعلق خط تحریر کریں۔ علی امین گنڈا پور ایپکس کمیٹی کو خط لکھ کر شہباز شریف کے لگائے بھونڈے الزامات کا جواب دے۔
ہم کسی سے کوئی رعایت نہیں مانگ رہے، صرف قانون کے مطابق انصاف مانگ رہے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کا جو حال ہو چکا ہے وہ قابل افسوس ہے۔ سپریم کورٹ میں آج جو ہوا وہ اسی ترمیم کا نتیجہ ہے۔ نامکمل اسمبلیوں سے ہونے والی قانون سازی بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ ہم عدلیہ پر دباؤ اور ان کے احکامات ہوا میں اڑانے کی مذمت کرتے ہیں۔ جس ملک میں نظام انصاف ہی زنجیروں میں جکڑا ہو گا وہاں کسی اور کو کیا ہی آزادی ملے گی۔"
https://twitter.com/x/status/1881281419001082004
Last edited by a moderator: