UsmanSial
Senator (1k+ posts)
ادبی لطائف
پطرس بخاری ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر تھے ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خان صاحب کو تقریر کے لیے
بلایا تقریر کی ریکاڈنگ کے بعد مولانا پطرس کے دفتر میں آکر بیٹھ گئے۔
بات شروع کرنے کی غرض سے اچانک مولانا نے پوچھا۔
پطرس یہ تانپورے اور تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے‘‘۔’’
پطرس نے ایک لمحہ سوچااور پھربولے۔’’مولانا آپ کی عمر کیا ہوگی؟‘‘۔
اس پر مولانا گڑ بڑاگئے اور بولے۔ ’’بھی یہی کوئی پچھترسال ہوگی‘‘۔
پطرس کہنے لگے۔ ’’مولانا آپ نے پچھتر سال یہ فرق جانے بغیر گذار دیے تو دو چار سال اور گذار لیجئے‘‘۔
شاعر انور صابری نےراولپنڈی کے مشاعرہ میں شرکت کے بعد تفریحاً بس سے مری جانے کی ٹھانی اور تنہا ہی نکل کھڑے ہوئے۔ بس میں ان کے ساتھ والی نشست پر انہی کے سے جان جثہ کی ایک بزرگ خاتون آ کر بیٹھ گئیں۔ انور صابری صاحب نے وقت گزاری کے لئے ان خاتون سے پوچھا: آپ کہاں جا رہی ہیں ؟
خاتون نے کہا:میں مری جا رہی ہوں۔
صابری صاحب خاموش بیٹھے رہے۔ اب ان خاتون نے پوچھا، اور بھائی آپ کہاں جا رہے ہیں ؟
انور صابری صاحب نے بڑی متانت سے جواب دیا:میں مرا جا رہا ہوں !۔
طارق غازی، سلمان غازی اپنی کتاب علمی و ادبی لطائف میں لکھتے ہیں کہ صحافتی لطائف کی اکثریت کا تعلق ترجمے سے ہوتا ہے۔ ایسے ہی دو ترجمے ہم نے بھی دیکھے تھے۔
خاتون نے کہا:میں مری جا رہی ہوں۔
صابری صاحب خاموش بیٹھے رہے۔ اب ان خاتون نے پوچھا، اور بھائی آپ کہاں جا رہے ہیں ؟
انور صابری صاحب نے بڑی متانت سے جواب دیا:میں مرا جا رہا ہوں !۔
طارق غازی، سلمان غازی اپنی کتاب علمی و ادبی لطائف میں لکھتے ہیں کہ صحافتی لطائف کی اکثریت کا تعلق ترجمے سے ہوتا ہے۔ ایسے ہی دو ترجمے ہم نے بھی دیکھے تھے۔
A Tale of two Cities
بچپن میں چارلس ڈکنس کی مشہور کتاب اے ٹیل آف ٹو سٹیز پر فلم بنی تھی اس کا ترجمہ اخباروں کے اشتہارات میں تھا: دو شہروں کی د م۔
Air Strikes
دوسرا لطیفہ مجھے ظ۔انصاری صاحب نے سنایا تھا۔ ان کا ہفتہ وار آئنہ بند ہوا تو اس کے عملہ کے ایک صاحب نے کہیں نوکری دلوانے کی درخواست کی۔ ظ۔ انصاری صاحب نے حیدرآباد کے روزنامہ سیاست کے مدیر عابد علی خان مرحوم کے نام سفارشی خط لکھ کر ان صاحب کو حیدرآباد بھجوا دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ویتنام کی جنگ زور پر تھی اور امریکی فضائیہ روزانہ شہری علاقوں پر بمباری کر رہی تھی۔ ان ہوائی حملوں کے لئے انگریزی میں سرکاری اصطلاح ائیر سٹرائیکس تھی۔عابد علی خاں نے امتحاناً ان صاحب کو ایک چھوٹی سی خبر ترجمہ کے لئے دی۔
ان صاحب نے ترجمہ کیا:امریکہ نے ویتنام میں ہوائی ہڑتالیں کر دیں
عابد علی خان نے ترجمہ شدہ خبر ڈاک سے اور ان صاحب کو ٹرین سے ظ۔انصاری صاحب کے پاس بھیج دیا۔
جرات نابینا تھے۔ ایک روز بیٹھے فکرِ سخن کر رہے تھے کہ انشاء آ گئے۔ انہیں محو پایا تو پوچھا حضرت کس سوچ میں ہیں؟جرات نے کہا : کچھ نہیں۔بس ایک مصرع ہوا ہے۔شعر مکمل کرنے کی فکر میں ہوں۔انشاء نے عرض کیا کچھ ہمیں بھی پتا چلے۔جرات نے کہا: نہیں ۔تم گرہ لگا کر مصرع مجھ سے چھین لو گے۔ آخر بڑے اصرار کے بعد جرات نے بتایا۔ مصرع تھا:۔
اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی
انشاء نے فوراً گرہ لگائی:۔
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
جرات لاٹھی اٹھا کر انشا کی طرف لپکے۔ دیر تک انشاء آگے اورجرات پیچھے پیچھے ٹٹولتے ہوئے بھاگتے رہے۔
Last edited: