اخوان المسلمون کی کامیابی اور عقل کے اندھ®
اخوان المسلمون کی کامیابی اور عقل کے اندھے
کسی جگہ چند اندھے جمع تھے۔ انہیں ہاتھی کو چھونے کا اتفاق ہوا۔ کسی نے کان چھوا، کسی نے سونڈ، کسی نے ٹانگ پکڑی، کسی نے پیٹ۔ ہر کسی نے جس جس حصے کو چھوا اسی کے مطابق کہنے لگا کہ ہاتھی تو ایسا ہوتا ہے۔ فرعونوں کی سرزمین مصر پر کبھی اخوان المسلمون کا نمائندہ عوام کی نمائندگی سے ملک کا سربراہ بنے گا، یہ کسی کے گمان میں بھی نہ تھا۔ بہت سوں کے لیے یہ حیرت انگیز بات ہے، تو بہت سوں کے لیے یہ ناقابلِ برداشت واقعہ بھی ہے۔ سب سے پہلے تو پاکستانی میڈیا کو ہی لیتے ہیں۔ ذہنی طور پر مفلوج لوگ مصر کے اس انقلاب کو اپنی بند آنکھوں سے چھو چھوکر تبصرے کررہے ہیں۔ ہمدردی سے زیادہ تکلیف اور بغض ظاہر ہورہا ہے۔ مسلمان ہونے کے ناتے ہی سہی، اخوان المسلمون کی تقریباً ایک صدی کی تاریخ کے اس موڑ پر فتح و کامیابی کی تعریف نہ سہی، اپنی خواہشات بھرے تبصرے تو نہ کریں۔ ہمسایہ ملکوں کو ڈرانا کہ یہ انقلاب برآمد بھی کرسکتے ہیں، یا اس کے برے اثرات یہ بھی ہوسکتے ہیں اور وہ بھی ان باتوں کو سن کر یقینا خود تختے الٹ کر بادشاہ بننے والوں کو تو اپنی تاریخ نہیں بھولی۔ وہ تو ڈر سہم ہی جائیں گے۔ مصر میں منتخب ہونے والا شخص ایک فرد نہیں بلکہ 80 سالہ جدوجہد میں خون بہانے، جانیں دینے اور جہاد پر ایمانِ کامل رکھنے والے اخوان کا نمائندہ ہے۔ اس کے ساتھ ایک پوری ٹیم ہے۔ یہودی اور عیسائی میڈیا بھی مسلمانوں کے حالات پر تبصرے کرنے سے پہلے اپنے مسلمان دوستوں سے بحث و تمحیص کے بعد ہی مسلمانوں کے خلاف لکھتے ہیں۔ لیکن مسلمان ہونے کے دعویدار صحافیوں کو اس انقلابی سمت میں جانے والے مصر کے حالات پر اپنی خواہشات کے مطابق آنے والے خیالات سے رخ موڑنے سے اجتناب کرنا چاہیے، حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے تو منہ کو بند ہی رکھیں۔ جتنی اخوان المسلمون تحریک کی عمر اور قربانیاں ہیں، انہیں ان حالات کی پیداوار صحافیوں کے مشوروں کی ضرورت نہیں ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کا فون سننے سے انکار اور پھر امریکی دبائو کہ فون سن لیں، اس کو بھی دھتکار دینا ان کی سمجھ میں نہیں آسکتا کیونکہ ان کی پرورش جس ماحول میں ہوئی اور ان کا آئیڈیل صدر پرویزمشرف ایک امریکی فون کال پر ڈھیر ہوکر اور پھر یہ کہتا ہوا اتراتا پھرتا تھا کہ ہر ملک کا صدر مجھ سے بات کرنا پسند کرتا ہے۔ ان کی اصل تکلیف کا سبب یہ بھی ہے کہ خاتونِ اوّل کہلانے سے انکار کرنا، اور اصرار کرنا کہ مجھے بہن کہہ کر پکارو اور حاجیہ کہو۔ پاکستانی حکمرانوں کی 60 سالہ تاریخ نے ہمارا مزاج ہی کچھ ایسا بنا دیا ہے کہ جب تک پولیس کے ڈنڈے نہ کھائیں اور حاکمانہ انداز نہ دیکھیں اسے حکمران بھی تسلیم نہیں کرتے۔ صدرِ مصر مسجد میں نماز کی امامت کرتے ہیں۔ 1433 سال پہلے کی تاریخ ان کی اصل تکلیف کی وجہ ہے۔ ایران کا صدر ساٹھ سال پرانی کار پر سفر کرے، زمین پر سوئے، پرانے مکان میں رہے تو اسے صدر ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ پاکستان کے ایک صوبے کے سینئر وزیر کی مثال سامنے ہے کہ یورپ کے دورے پر جاتا ہے تو حکومت کے خرچ پر ہوٹل میں ٹھیرنا پسند نہیں کرتا اور شہر میں کسی مسجد کا پتا پوچھتا پھرتا ہے۔ ایسے لوگ ان صحافیوں کے لیے قابلِ نفرت ہیں۔ یہ لاکھ جتن کرلیں اب حالات بدلنے والے ہیں۔ مصر کا انقلاب بھی برآمد ہوگا اور پُرامن طریقے سے برآمد ہوگا۔ علامہ اقبال کی خواہش کے مطابق اب وہ وقت آنے والا ہے کہ تہران ہی عالم مشرق کا جنیوا بنے گا۔ اگر پاکستان کے میڈیا پر قابض کچھ لوگوں کی خواہش کے مطابق مصر کا انقلاب ناکام ہوگا تو ہمیں بھی یہ خواہش ہے کہ بہت جلد اس خطے میں بھی انقلاب آئے۔ امریکا کے افغانستان سے نکلنے کی دیر ہے۔ آج جو امریکا سے نبرد آزما ہیں اور پاکستانی حکمرانوں کے خلاف غم و غصہ لیے بیٹھے ہیں کل ان کا رخ پاکستان کی طرف ہو گا۔ نشانہ پاکستانی حکمران اور مقابلہ فوج سے ہو گا۔ شمال کی طرف سے آنے والا یہ طوفان اس غلاظت کو بہا لے جائے گا اور ایک نیا پاکستان وجود میں آئے گا۔ پاکستان کے صدر کی یہ آرزو کہ فلاں بہت جلد چلا جائے گا، پوری نہیں ہو گی۔ ایک سال بعد چلا جائے گا۔ دو سال بعد پابندیاں ختم ہوں گی تو ایک نئی شان سے اس انقلاب کی قیادت کرے گا۔ اخوان المسلمون کی کامیابی پر پاکستان کے ایک نامور کالم نگار اور اینکرپرسن کا یہ تبصرہ ملاحظہ فرمائیے: اخوان نے 1952ء میں قاہرہ کی ساڑھے سات سو عمارتوں کو آگ لگادی۔ سید قطب سے لے کر محمد ہادی تک شدت پسند اس کے لیڈر رہے۔ دنیا کے مشہور ترین دہشت گردوں سے رابطہ رہا۔ اس کے لنکس جرمن نازیوں سے بھی رہے۔ موصوف کی معلومات کا منبع کیا ہے، یہ تو نہیں معلوم، لیکن اسلام کی نام لیوا جماعت اخوان المسلمون کی 80 سالہ جدوجہد کی کامیابی سے جلنے کی شدید بو آرہی ہے، جانے کیوں؟