no_handle_
MPA (400+ posts)
اختر مینگل نے اپنے اسمبلی کے خطاب میں کہا کہ یہ غدار غدار کھیلنا بند کرو۔ کہتے ہیں کہ فاطمہ جناح کو غدار کہا گیا،باچا خان، ولی خان، غوث بخش بزنجو، عطاالله مینگل، خیر بخش مری، اکبر بگٹی، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، نواز شریف بھی غدار، یہاں تک کہ الطاف حسین بھی غدار
پھر کہا گیا کہ ووٹ جنہوں نے دیا وہ بھی غدار ہوں گے۔ کہتے ہیں قبائلیوں نے تو کشمیر آزاد کروا کر دیا اور آج ان کو غدار کہا جا رہا ہے
مگر
یہ لفظ آخر کو لغت میں درج ہے، کوئی تو صورت بنتی ہو گی جس میں یہ لاگو ہو سکتا ہو
وہ صورت مینگل صاحب نے نہیں بتائی
معلوم یہ پڑتا ہے کہ سیاسی اختلاف پر غدار کہنا بری بات ہے۔ ریاست کو اگر کوئی برا بھلا کہے تو پھر بھی نہیں کہا جانا چاہیئے۔ ریاست کو مارنا پیٹنا شروع کر دے تو پھر بھی غدار نہیں کہا جا سکتا۔ ریاست کے میڈیا پر بیٹھ کر ریاست مردہ باد کے نعرے لگانے والا غدار نہیں ہوتا۔ را سے تھوڑے بہت پیسے لے لینا بھی عیاشی تو ہو سکتی ہے، غداری نہیں۔ جب را سے لیے تو افغان تو اپنے بھائی ہیں ان سے لے کر اگر کچھ غل غپاڑہ کر دیا تو اس میں کیا برائی ہے؟ ریاست کا نقشہ ٹیڑھا میڑھا ہے، جغرافیہ پڑھتے وقت معصوم بچوں کو مشکل ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی خیر خواہ ریاستی نقشہ میں اصلاح کی کوشش کر رہا ہے تو اسے غدار کہنا کہاں کا انصاف ہے؟ ریاست کو یا اس کی فوج کو دہشت گرد قرار دینا غداری صغیرہ بھی نہیں ہے۔
یہ فوجی جس دن غدار غدار کا شور مچانا بند کر دیں گے، اسی دن اس ملک میں امن ہو جائے گا
Last edited: