

ایسا معلوم ہورہا ہے کہ پنکی دا ٹشو پیپر کا آخری مقام وزارت عظمیٰ کی حلف برداری تھا۔ پنکی جو نیازی کو اپنے تعویز گنڈوں سے باندھ کر ننگے پاؤں پاکپتن سرکار پر سجدے کروارہی تھی، داتا دربار پر سوئے ہوئے خدا سے دعا مانگنے کے طریقے سکھا رہی تھی، آج مزار قائد پر نظر نہیں آئی۔ نیازی نے یہاں کوئی سجدہ نہیں کیا۔ دربار کی چوکھٹ کو چومنے اور چاٹنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
چومنا چاٹنا جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کے حضور عمل میں آیا۔ کیوں کہ چوری اور سینہ زوری کی یہ حکومت ان ہی بندوق بردار سپاہ کی کرم نوازی ہے۔
ڈاکٹر عامر لیاقت راندہ درگاہ قرار پائے کیوں کہ انہوں نے نیازی کو یاد دلایا کہ جناح کے دیس میں تم جناح کو ہی نظر انداز کر رہے ہو۔
نئے پاکستان کے فراڈیے صدر عارف علوی جب اپنے پروٹوکول کے ساتھ کراچی تشریف لائے تو پہلا اہم کام قائد کے مزار پر حاضری تھا، جو یقیناً ایک مستحسن اقدام تھا۔
اب بیچارہ نیازی مرتا کیا نہ کرتا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی مزار قائد پر آنا پڑا۔