Afaq Chaudhry
Chief Minister (5k+ posts)
کیا جماعت اسلامی مفقود ہو جائے گی؟
میرے عزیز
میں نے محسوس کیا ہے کہ تمہیں جماعت کی بڑی فکر لاحق رہتی ہے کہ جماعت آج تک انتخابی سیاست میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کر سکی اور وہ ستر سالوں میں عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول نہیں کروا سکی لہٰذا اب یہ جماعت زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتی۔
میرے عزیز! آ تجھے تیری ہی آنکھوں سے مشاہدہ کرواؤں کہ پارٹیوں اور جماعتوں کی موت کسے کہتے ہیں!
دوست! ذرا ماضی کے جھرونکوں سے جھانک کر تو دیکھ۔ ستر سالوں میں، ملکی سیاست کے افق پر کتنی جماعتیں نمودار ہوئیں اور پھر غروب ہوئیں۔
آج مجھے جنرل ایوب کی کنونش مسلم لیگ کوئی دکھلادے، کوئی مجھے خان عبدلقیوم کی مسلم لیگ (قیوم) دکھلادے، کوئی مجھے، مسلم لیگ (جونیجو) دکھلا دے، کوئی مجھے، میاں منظور وٹو کی جناح لیگ دکھلا دے، کوئی مجھے چوھدری شجاعت کی ق لیگ دکھلا دے۔ کوئی مجھے ضیاءالحق کی موت کے بعد اس کے بیٹے کی بنائی ہوئی مسلم لیگ (ضیاء) دکھلادے اور کوئی مجھے مشرف کی ’آل پاکستان مسلم لیگ‘ ہی دکھلا دے، جسے گزرے ہوئے بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔۔۔۔ اور اگر حالات بدستور یوں ہی چلتے رہے تو لوگ کہا کریں گے کہ کراچی و حیدرآباد میں ایم آ ایم نامی کوئی تنظیم ہوا کرتی تھی ،کشمیر میں مسلم کانفرنس ہوا کرتی تھی
اور ایک وقت تھا کہ پنجاب، نون لیگ کا گڑھ تھا۔
یہ سب پارٹیاں بھی اسی طرح غائب ہوں گی جیسے دوسری ہوئیں۔
الحمدللہ جماعت پچھلے ستر سالوں سے قائم ہے۔ بکھری نہیں، منتشر نہیں ہوئی، کراچی میں ایم کیو ایم کے جبر کے سامنے بھی ڈٹی رہی، جنرل ایوب سے بھی باوجود پوری کوشش کے جھکائی نہ جا سکی۔ جن جن پارٹیوں کے اوپر نام گنوائے گئے ہیں یہ سب اپنے اپنے وقت کی ’پی ٹی آئی‘ ہی تھیں، جیسے قاف لیگ تھی۔ اگر اقتدار ہی سب پارٹیوں کی کامیابی کی ضمانت ہے تو مذکورہ بالا پارٹیوں میں سے اکثر اقتدار بھی حاصل کر چکیں اور یہ سب پارٹیاں اپنے دؤر میں خوب طمطراق کے ساتھ سیاست کے افق پر موجود رہیں۔ ان کے لیڈرز کے آگے پیچھے ہوٹر والی گاڑیاں اور ہٹو بچو کی صدائیں لگانے والے ہرکارے تھے۔ ان کے بیانات، شہ سرخیوں کے ساتھ اخبارات کی زینت بنتے تھے اور ان کے انٹرویوز ریڈیو اور ٹی وی پر چلتے تھے۔ ٹی وی خبرنامے ان کے تذکرے سے شروع ہو کر ان ہی کے تذکرے پر ختم ہوتے تھے، یہ قوم کے سامنے بھاشن دیتے اور اپنے فلسفے بگھارتے تھے، ہزاروں اور لاکھوں کے جلسوں سے خطاب کرتے تھے۔۔۔ مگر آج حالت یہ ہے کہ ان کا تذکرہ کیا، نام و نشان تک موجود نہیں۔ یقین کریں کہ آج اگر کوئی کسی بیس پچیس سالہ نوجوان سے ان پارٹیوں کے بارے میں پوچھے تو وہ ان کو پہچاننے تک سے انکاری ہوگا۔
میرے عزیز! گزارش ہے کہ تم ذرا جنرل ایوب کی باقیات، جنرل ضیاء کی اولاد، پرویز مشرف، شوکت عزیز، الطاف حسین وغیرہم کے بارے میں جانکاری حاصل کرو کہ کہاں اور کس حال میں ہیں تو مجھے تم کو یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ سیاسی پارٹیوں کی موت کسے کہتے ہیں؟ اور اگر تلخ نوائی گوارا ہو تو سنو: جن مفقود اور مردہ حال پارٹیوں کا اوپر ذکر ہوا، مصنوعی انداز سے پرورش پانے والی پی ٹی آئ کا حشر بھی ان سے جدا نہ ہوگا کیوں کہ جو جو اسباب و کردار ان پارٹیوں کی تحلیل و تباہی کی وجہ رہے، وہی اسباب و کردار آج تحریکِ انصاف کے بیم اور کالم بنے ہوئے ہیں۔
میرے عزیز، آ تجھ کو بتاؤں کہ پارٹیوں کی موت کیا ہوتی ہے۔
پارٹیوں کی موت یہ ہوتی ہے کہ وہ انسانوں کے لیے نفع بخش نہ رہے۔
پارٹیوں کی موت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے قریب آئے انسانوں کے اخلاق و کردار کی تعمیر نہ کر سکے۔
پارٹیوں کی موت یہ ہوتی ہے کہ اس کے لیڈر خائن، کرپٹ، بدکردار، زانی، شرابی اور نشئی ہوں مگر پھر بھی عھدے سے چمٹے رہیں اور قیادت سے دستبردار نہ ہوں،
پارٹیوں کی موت یہ ہوتی ہے کہ ان کے اندر جمہوری رویے پروان نہ چڑھیں، میرٹ کا قتل ہو اور پارٹیاں خاندانی و موروثی ملکیت بن کر رہ جائیں،
پارٹیوں کی موت یہ ہوتی ہے کہ ان کی قیادت بغیر کسی نظریے اور اعلیٰ مقصد کے سیاست کرے، اقتدار کی خاطر نظریے اور اصولوں کو قربان کر دے، پیسوں کی خاطر ووٹ بیچ دے
اور پارٹیوں کی موت یہ ہوتی ہے کہ ان کی لیڈرشپ الیکٹبلز کے نام پر ستر سالوں سے ملک کے اوپر مسلط فیوڈلز اور کرپٹ ٹولے کو ٹکٹ دے کر دوبارہ عوام کے اوپر مسلط کر دے۔
رہی جماعت اسلامی اور اس کے چاہنے والوں کی بات۔۔۔۔ تو ان لوگوں کا خمیر کسی اور ہی مٹی سے اٹھا ہے۔ یہ اوپر کی باتیں ہیں جو شاید تمہاری عقل سے ماورا ہوں۔ ان دیوانوں نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ پتھر کھا کر بس دعائیں ہی دینی ہیں، کانٹوں کے جواب میں پھول ہی نچھاور کرنے ہیں۔ قوم ووٹ دینا تو درکنار، اگر جان کے درپے بھی ہو جائے گی، تب بھی اس کی خیرخواہی ہی کرنی ہے۔ یہ تو دیہاڑی کے مزدور ہیں، جن میں سے ہزاروں اپنے اپنے حصے کا کام کرکے اپنے مالک کے حضور پنہچ چکے اور جو زندہ ہیں وہ اسی کام پر لگے ہوئے ہیں۔ افسوس مگر تم پر ہے کہ تم پھولوں کو ابھی اسی ترازو میں تولتے ہو جن میں کوئلوں کو تولا جاتا ہے۔