Irteqa-e-Shaoor
Citizen
پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اور طویل عرصہ تک رہنے والا عوام کا احتجاجی دھرنا حکومت وقت کے خلاف جاری ہے. جس میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی نمایندگی موجود ہے. ایک مزدور سے لے کر ایک ٣ ارب روپے سالانہ آمدن کمانے والا اس احتجاج میں حکومتی ناانصافی اور ظلم سے خود کو اور اپنے آنے والی نسلوں کو آزاد کرانے کے لئے کوشاں ہے. ان میں بڑی تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہے جو پاکستان کی پسی ہوئی غریب عوام کی نسبت اپنے بل بوتے پر ایک آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں.
ناقص سرکاری ہسپتالوں سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا, یہ اپنا اور اپنے بچوں کا علاج بہترین پرائیوٹ ہسپتال میں کراتے ہیں جہاں ہر بنیادی سہولت میسر ہے. ان کی وہاں موجودگی کی وجہ یہ ہے کہ یہ پاکستان کی اس ٨٠ فیصد عوام کے لئے بھی وہی سہولتیں چاہتے ہیں جو انہیں پرائیویٹ ہسپتالوں میں میسر ہیں. یہ پاکستان کے پسے ہوئے طبقے کے لئے بہتر تعلیم کے لیے کھڑے ہیں. ورنہ ان کے بچوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان کے سکولوں کی حالت کیا ہے. ان کے بچے بیکن ہاؤس اور گریمر سکولوں میں پڑ رہے ہیں. انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بجلی آئے یا جائے. ان کے گھروں میں یو پی ایس و جینریٹر لگے ہوئے ہیں.
یہ آپ کی بجلی کے لیے گرمی و بارش میں ننگے آسمان اور سخت زمین پر بیٹھے لڑ رہے ہیں. ان میں بیشتر نوجوان کسی بیوروکریٹ, جج, وکیل, ڈاکٹر,بزنس مین اور سرمایہ دار کی اولاد ہیں. انہیں اپنے کام کروانے میں گاؤں کے کسی چودھری و وڈیرے کی منّتیں نہیں کرنی پڑتیں . ایک فون کال پہ خود ہی کام کروا لیتے ہیں. مگر یہ اس غلام قوم کو چودھری و پٹواری کے سائے سے نکال کر اپنے پیروں پہ کھڑا کرنے کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں.
تو آیئے ان سر پھرے آزادی کے متوالوں کو مختلف القابات سے نوازتے ہیں. انہیں کوس کر اور ان کی کردار کشی کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں. ان کا تمسخر اڑا کر ان کے اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں کے حوصلے پست کرتے ہیں. تا کہ آئندہ کوئی ہمارے حق کے لئے آواز نہ اٹھا سکے. ہم تو ٹھہرے غلام ابن غلام . تو یہ کیوں آزادی کے پروانے بننے ہوئے ہیں
ناقص سرکاری ہسپتالوں سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا, یہ اپنا اور اپنے بچوں کا علاج بہترین پرائیوٹ ہسپتال میں کراتے ہیں جہاں ہر بنیادی سہولت میسر ہے. ان کی وہاں موجودگی کی وجہ یہ ہے کہ یہ پاکستان کی اس ٨٠ فیصد عوام کے لئے بھی وہی سہولتیں چاہتے ہیں جو انہیں پرائیویٹ ہسپتالوں میں میسر ہیں. یہ پاکستان کے پسے ہوئے طبقے کے لئے بہتر تعلیم کے لیے کھڑے ہیں. ورنہ ان کے بچوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان کے سکولوں کی حالت کیا ہے. ان کے بچے بیکن ہاؤس اور گریمر سکولوں میں پڑ رہے ہیں. انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بجلی آئے یا جائے. ان کے گھروں میں یو پی ایس و جینریٹر لگے ہوئے ہیں.
یہ آپ کی بجلی کے لیے گرمی و بارش میں ننگے آسمان اور سخت زمین پر بیٹھے لڑ رہے ہیں. ان میں بیشتر نوجوان کسی بیوروکریٹ, جج, وکیل, ڈاکٹر,بزنس مین اور سرمایہ دار کی اولاد ہیں. انہیں اپنے کام کروانے میں گاؤں کے کسی چودھری و وڈیرے کی منّتیں نہیں کرنی پڑتیں . ایک فون کال پہ خود ہی کام کروا لیتے ہیں. مگر یہ اس غلام قوم کو چودھری و پٹواری کے سائے سے نکال کر اپنے پیروں پہ کھڑا کرنے کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں.
تو آیئے ان سر پھرے آزادی کے متوالوں کو مختلف القابات سے نوازتے ہیں. انہیں کوس کر اور ان کی کردار کشی کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں. ان کا تمسخر اڑا کر ان کے اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں کے حوصلے پست کرتے ہیں. تا کہ آئندہ کوئی ہمارے حق کے لئے آواز نہ اٹھا سکے. ہم تو ٹھہرے غلام ابن غلام . تو یہ کیوں آزادی کے پروانے بننے ہوئے ہیں
- Featured Thumbs
- http://www.supportimrankhan.org/images/dharna.jpg
Last edited by a moderator: