
اسلام آباد ہائی کورٹ نے آڈیو لیکس اور ریکارڈنگز کے کیس میں وزارت دفاع کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے دوبارہ جواب طلب کرلیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی فون بگنگ، آڈیو لیکس کے خلاف درخواست، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی آڈیو لیک کے بعد پارلیمانی کمیٹی میں طلبی کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس بابرستار نے ان درخواستوں پر سماعت کی۔
درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے موقف اپنایا کہ بشریٰ بی بی کو روزانہ ایف آئی اے طلب کرلیتا ہے، انہیں بار بار ایف آئی اے کی جانب سے طلب کرکے ہراساں کیا جارہا ہے، عدالت ایف آئی اے کو ایسا کرنے سے روکے۔
جسٹس بابرستار نے ریمارکس دیئے کہ عدالت ایک انویسٹی گیشن ایجنسی کو نہیں روک سکتی، قانون کی خلاف ورزی ہو تو اسے چیلنج کیا جاسکتا ہے، ہم یہ آرڈر جاری کردیتے ہیں کہ ایف آئی اے قانون کے مطابق کام کرے تو یہ بے معنی ہوگا کیونکہ ایف آئی اے قانون کے مطابق ہی کام کررہا ہے۔
دوران سماعت وزارت دفاع نے عدالت کو بتایا کہ موجودہ کیس میں نا تو کوئی ریکارڈنگ کی گئی اور نا ہی آڈیو لیکس میں وزارت کا کوئی کردار ہے۔
جسٹس بابرستار نے وزارت داخلہ، پی ٹی اے کے جوابات کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ جوابات سے تو لگتا ہے کہ کسی کے پاس بھی ٹیلی فون گفتگو ریکارڈ کرنے کی سہولت موجود نہیں ہے اور نا ہی کوئی ریکارڈنگ کرسکتا ہے۔
جسٹس بابرستار نے ریمارکس دیئے کہ عدالت تحمل کا مظاہرہ کرتےہوئے آخری موقع دے رہی ہے، وفاقی حکومت عدالتی سوالوں کےتسلی بخش جوابات دے ورنہ عدالت حساس اداروں کو براہ راست فریق بنا کر جواب طلب کرے گی۔