آج 6 بچّے جن کی عمريں 6 سے 11 سال کے درمیان تھيں ایمرجنسی روم میں لاے گۓ جو تقريبا 20 سے 70 فیصد جسمانی طور جل گۓ تھے- ان میں سے 2 کو قندھار ايرفیلڈ کے خصوصی نگہداشت یونٹ بھیج دیا گیا- 2 بچّوں کو طبّی امداد بہم پہنچادیگئ حبکہ 2 کو انتہای حسّاس یونٹ میں نرسیں متوّقع امداد پہنچانے لگیں قبل اس کے وہ دم توڑدیں-
باسٹن کیمپ اسپتال میں اس نوعیت کی صورتحال غیرمعمولی نہیں- ہر ہفتے بیشمار ایسے بچّوں کی دیکھ بھال کیجاتی جو زخموں سر کی چوٹوں جلنے اورفايرنگ کی لپیٹ میں آجاتے ہیں- جب اس خبر کےليۓ انٹرويو کیا گیا تو نرسوں نے بتایا کہ تقریبا 50 فیصد مریض جو آی-سی-یو میں ہیں وہ بچّے تھے- میرا خیال ہے کہ ہمارا اسٹاف آزمودہ کار ہے یہ بات رآیل ایر فورس اسکواڈرن لیڈر سارہ چارٹرز نے بتای جو اسپتال کے ایمرجنسی روم کی آفیسر انچارج ہیں- چارٹرز نے مزید کہا لیکن ہمارے پاس 2 ماہر اطفال نرسیں ہیں جنہوں نے ہمارے اسٹاف سے ٹریننگ حاصل کی ہے اور اسبتال میں موجود ہوتی ہیں اور بیشتر اسٹاف بیمار بچّوں کی دیکھ بھال کرلیتا ہے-
ہمیں یہ نہیں معلوم کہ افغان اکثریت ہمارے بارے میں کیا محسوس کرتی ہے؟ کمانڈر شیرل کاٹریل نے کہا جو آی-سی-يو کی اسٹاف نرس ہیں- اور جب وہ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں میں سمجھتی ہوں کہ یہ ہمارے کلچر کا حصّہ ہے کہ انکے ساتھ اچھے میزبان کے طریقے سے پیش آیں اور بتایا جاے کہ ہم نفیس لوگ ہیں اور انکا اتنا ہی خیال کریں گے جتنا کہ ہم ایک امریکی یا برطانوی سپاہی کا کرتے ہیں-
بہت سے افغانی سمجھتے ہیں کہ اگر وہ زخمی بچّوں کو یا فیملی کے ارکان کو قريبی اتحّادی فوج کے مرکز لايں گے تو انہیں ایمرجنسی طبّی توجّہ مل جایگی- انہیں معلوم ہے کہ اگر وہ قریبی پواینٹ جہاں اتحاّدی فوجیں ہوتی ہیں کارپ مین انہیں دیکھ لے گا-
یہ بات نیوی اسپتال کے کارپ مین حوزہ بیلن نے کہا، پھر کارپ مین فیصلہ کریگا کہ آیا زخموں کی نوعیت تشویشناک ہے کہ اسے (زخمی) کہیں منتقل کیا جاے- یہ دیکھ بھال باسٹن پر ہی ختم نہیں ہوتی وہاں پر ایک بے مثال ٹیم جو اسپتال پر ہے اس بات کی ذمہ دار ہے کہ وہ مریضوں کو مزید دیکھ بھال کیلیۓ دوسرے اسپتالوں سے رابطہ رکھے-
پانچ افراد پر مشتمل یہ (سی-سی-اے-ایس-ٹی) رایل ایر فورس ٹیم ائرکرافٹ پر ہر سطح کے کام کرنے کی صلاّحيت رکھتی ہے- یہ ٹیم افغان شہریوں ، افغان نیشنل سیکوریٹی اور آیساف کے ارکان کی تیمارداری کرتی ہے-
مجھے ہمیشہ حیرانگی ہوتی ہے کہ اس کام کے بارے میں لوگ کیا راۓ رکھتے ہیں، اسٹاف نرس کورٹز نے کہا، انکا قیاس ہمارے بارے میں کیا تبدیل ہوا؟ کیا وہ دیکھتے ہیں کہ ہم ان کیلیۓ دیکھ بھال میں کتنا خیال رکھتے ہیں؟ مجھے امید ہے کہ وہ ہمارے بارے میں بہترخیال کرتے ہونگے جیسا کہ انہوں نے سنا تھا- ایک نو سالہ بچّہ جس کے جسم کا 32 فیصد حصہ جلا ہوا ہے اس نے بھی ایسا ہی سوچا ہوگا-
ایک مترجم کو بلواگیا، کارٹل نے وضاحت کی، بچّے کو بتایں کہ اسے ایک پالکی میں بٹھاکر پرواز کے ذریعے دوسرے اسپتال لیجایا جایگا مگروہ جانا نہیں چاہتا تھا- وہ یہیں رہنا چاہتا تھا- اسٹاف نے اس بجّے کو باسٹن کی جانب سے تحفے دیۓ کچھ اضافی کپڑے اور اسپتال کی جانب بچّوں کو دیۓ گۓ عطیات-
نرسيں کہتی ہیں یہ مشکل ہے کہ گہرے زخموں سے متاثرہ یہ بچّوں کو آی-سی-یو سے جاتا ہوا دیکھیں- کورٹز، کارٹل اور بہت سے جو والدین بھی ہیں بچّے کے درد کو محسوس کرتے ہیں- بہر کیف! ان کا یہ جذبہ جو وہ بچوں اور بیمار افغان عوام کی مدد کیلیۓ کرتے ہیں فروغ پارہا ہے کیونکہ اسکی مثال وہ نو سالہ بچہ ہے جو وہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا- وہ یہاں اپنے آپ کو محفوظ اور آرام دہ محسوس کرتا ہے، کارٹل نے کہا-
ڈی ای ٹی ۔۔ یو اس سنٹرل کمانڈ
باسٹن کیمپ اسپتال میں اس نوعیت کی صورتحال غیرمعمولی نہیں- ہر ہفتے بیشمار ایسے بچّوں کی دیکھ بھال کیجاتی جو زخموں سر کی چوٹوں جلنے اورفايرنگ کی لپیٹ میں آجاتے ہیں- جب اس خبر کےليۓ انٹرويو کیا گیا تو نرسوں نے بتایا کہ تقریبا 50 فیصد مریض جو آی-سی-یو میں ہیں وہ بچّے تھے- میرا خیال ہے کہ ہمارا اسٹاف آزمودہ کار ہے یہ بات رآیل ایر فورس اسکواڈرن لیڈر سارہ چارٹرز نے بتای جو اسپتال کے ایمرجنسی روم کی آفیسر انچارج ہیں- چارٹرز نے مزید کہا لیکن ہمارے پاس 2 ماہر اطفال نرسیں ہیں جنہوں نے ہمارے اسٹاف سے ٹریننگ حاصل کی ہے اور اسبتال میں موجود ہوتی ہیں اور بیشتر اسٹاف بیمار بچّوں کی دیکھ بھال کرلیتا ہے-
ہمیں یہ نہیں معلوم کہ افغان اکثریت ہمارے بارے میں کیا محسوس کرتی ہے؟ کمانڈر شیرل کاٹریل نے کہا جو آی-سی-يو کی اسٹاف نرس ہیں- اور جب وہ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں میں سمجھتی ہوں کہ یہ ہمارے کلچر کا حصّہ ہے کہ انکے ساتھ اچھے میزبان کے طریقے سے پیش آیں اور بتایا جاے کہ ہم نفیس لوگ ہیں اور انکا اتنا ہی خیال کریں گے جتنا کہ ہم ایک امریکی یا برطانوی سپاہی کا کرتے ہیں-
بہت سے افغانی سمجھتے ہیں کہ اگر وہ زخمی بچّوں کو یا فیملی کے ارکان کو قريبی اتحّادی فوج کے مرکز لايں گے تو انہیں ایمرجنسی طبّی توجّہ مل جایگی- انہیں معلوم ہے کہ اگر وہ قریبی پواینٹ جہاں اتحاّدی فوجیں ہوتی ہیں کارپ مین انہیں دیکھ لے گا-
یہ بات نیوی اسپتال کے کارپ مین حوزہ بیلن نے کہا، پھر کارپ مین فیصلہ کریگا کہ آیا زخموں کی نوعیت تشویشناک ہے کہ اسے (زخمی) کہیں منتقل کیا جاے- یہ دیکھ بھال باسٹن پر ہی ختم نہیں ہوتی وہاں پر ایک بے مثال ٹیم جو اسپتال پر ہے اس بات کی ذمہ دار ہے کہ وہ مریضوں کو مزید دیکھ بھال کیلیۓ دوسرے اسپتالوں سے رابطہ رکھے-
پانچ افراد پر مشتمل یہ (سی-سی-اے-ایس-ٹی) رایل ایر فورس ٹیم ائرکرافٹ پر ہر سطح کے کام کرنے کی صلاّحيت رکھتی ہے- یہ ٹیم افغان شہریوں ، افغان نیشنل سیکوریٹی اور آیساف کے ارکان کی تیمارداری کرتی ہے-
مجھے ہمیشہ حیرانگی ہوتی ہے کہ اس کام کے بارے میں لوگ کیا راۓ رکھتے ہیں، اسٹاف نرس کورٹز نے کہا، انکا قیاس ہمارے بارے میں کیا تبدیل ہوا؟ کیا وہ دیکھتے ہیں کہ ہم ان کیلیۓ دیکھ بھال میں کتنا خیال رکھتے ہیں؟ مجھے امید ہے کہ وہ ہمارے بارے میں بہترخیال کرتے ہونگے جیسا کہ انہوں نے سنا تھا- ایک نو سالہ بچّہ جس کے جسم کا 32 فیصد حصہ جلا ہوا ہے اس نے بھی ایسا ہی سوچا ہوگا-
ایک مترجم کو بلواگیا، کارٹل نے وضاحت کی، بچّے کو بتایں کہ اسے ایک پالکی میں بٹھاکر پرواز کے ذریعے دوسرے اسپتال لیجایا جایگا مگروہ جانا نہیں چاہتا تھا- وہ یہیں رہنا چاہتا تھا- اسٹاف نے اس بجّے کو باسٹن کی جانب سے تحفے دیۓ کچھ اضافی کپڑے اور اسپتال کی جانب بچّوں کو دیۓ گۓ عطیات-
نرسيں کہتی ہیں یہ مشکل ہے کہ گہرے زخموں سے متاثرہ یہ بچّوں کو آی-سی-یو سے جاتا ہوا دیکھیں- کورٹز، کارٹل اور بہت سے جو والدین بھی ہیں بچّے کے درد کو محسوس کرتے ہیں- بہر کیف! ان کا یہ جذبہ جو وہ بچوں اور بیمار افغان عوام کی مدد کیلیۓ کرتے ہیں فروغ پارہا ہے کیونکہ اسکی مثال وہ نو سالہ بچہ ہے جو وہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا- وہ یہاں اپنے آپ کو محفوظ اور آرام دہ محسوس کرتا ہے، کارٹل نے کہا-
ڈی ای ٹی ۔۔ یو اس سنٹرل کمانڈ