آسمانی امت۔۔۔ خدافراموش قیادتیں.. لادین ا&#174

ibneislam

Banned
islamic.jpg


آسمانی امت۔۔۔خدافراموش قیادتیں.. لادین ایجنڈے!

عَنْ أبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صلى اللہ عليہ وسلم، قَالَ:کَانَتْ بَنُوْ إسْرَاءِیْلَ تَسُوْسُہُمُ الأنْبِیَاءُ، کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ، وِإنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ، وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ، فَیَکْثُرُوْنَ۔ قَالُوْا: فَمَا تَأمُرُنَا؟ قَالَ: فُوْا بِبَیْعَۃِ الأوَّلِ فَالأوَّلِ، أعْطُوْہُمْ حَقَّہُمْ فَإنَّ اللّٰہَ سَاءِلُہُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاہُمْ۔ (متفق علیہ۔ البخاری رقم: 3248، مسلم رقم: 1842)حضرت ابو ہریرہؓ ، نبی پاک ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
بنی اسرائیل کا معاملہ یوں رہا کہ اُن کے معاملاتِ کار کو انبیاء چلایا کرتے تھے؛ جیسے ہی ایک نبی فوت ہوتا اُس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا۔ اب یقیناًمیرے بعد کوئی نبی تو نہیں ہے۔ البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت زیادہ ہوں گے۔* صحابہؓ نے عرض کیا: تو ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ فرمایا: ہمیشہ یوں کرنا کہ جس خلیفہ کی بیعت پہلے ہو اُسی کی بیعت نبھاتے چلے جاؤ۔ تم اُن کا حق ادا کرتے رہنا۔ اللہ نے اُن کو رعیت کی جو ذمہ داری سونپی، اللہ اُن سے اُس کی بابت خود پوچھنے والا ہے۔
ایک آسمانی امت کی ناؤ پار لگانا صرف اُن قیادتوں کا منصب ہے جو خداشناس ہوں اور امت کو آسمانی ایجنڈے پر چلانے کا شعور اور اہلیت رکھتی ہوں۔
مندرجہ بالا حدیث کی رُو سے: آسمانی امت کے معاملاتِ کار کو چلانا اور سنبھالنا اصلاً کارِ نبوت ہے۔ اور نبوت کی جانشین ہے تو وہ صرف اور صرف خلافت، جس پر ہماری پوری تاریخ گواہ ہے۔
البتہ اقتدار کا کچھ دیر کے لیے ہاتھ سے چلا جانا (تاریخ بنی اسرائیل میں) انبیاء کی موجودگی میں بھی واقع ہوجاتا رہا ہے۔ حتیٰ کہ ہم جانتے ہیں، بابل کا دورِ اسیری انبیاء کے ہوتے ہوئے رونما ہوا ہے۔ جبکہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے پیش گوئی فرمائی ہے کہ آپؐ کی امت پر بھی ہوبہو ویسا معاملہ گزرے گا جیساکہ بنی اسرائیل پر گزرا:
لَیَاْتِیَنَّ عَلیٰ أمَّتِیْ مَا أتیٰ عَلیٰ بَنِیْ إسْرَاءِیْلَ، حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ۔
(سنن الترمذی، عن عبد اللہ بن عمرو، رقم: 2641 ، وحسنہ الألبانی)
ضرور میری امت پر ویسا ہی معاملہ گزرے گا جیسا بنی اسرائیل پر گزرا، ایسی مشابہت جیسے جوتے کے دو پاؤں۔
لہٰذا کچھ ایسے وقفوں کا آجانا جب اقتدار ہاتھ سے چلا جائے، ایک آسمانی امت کے حق میں انہونا نہیں۔ انہونی بات ہے تو وہ یہ کہ ایسے لوگ اِس امت کے لیڈر بن بیٹھیں جن کو آسمانی شریعت سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ ایسے دستور اور قانون اس امت کو پڑھائے جائیں جو انبیاء سے ماخوذ نہ ہوں.. اور توقع یہ رکھی جائے کہ آسمانی ہدایت سے بے نیاز، کچھ معاشی وانتظامی نسخے برت کر، اور انبیاء کے منکروں سے کامیابی اور خوشحالی کے کچھ فارمولے مستعار لے کر، اِس امت کو ترقی وکمال کی شاہراہ پر دوڑا لیا جائے گا! پینسٹھ سال سے اِسی سراب کا پیچھا کرتے ہوئے، جس کو کبھی ڈیموکریسی کا عنوان دیا گیا تو کبھی جدید طرز کی ریاست کا تو کبھی روٹی کی فراوانی کا۔۔۔ قوم کو تباہی کے ایک سے بڑھ کر ایک گھڑے میں دھکیلا جاتا رہا۔ نت نیا کفر اِس امتِ قرآن پر آزمایا جاتا رہا۔ سراب کے تعاقب کا یہ سلسلہ ہر پانچ سال بعد ایک نئے زوروشور سے شروع کردیا جاتا ہے.. فلاح کے اُس حتمی ودائمی نسخے کو پس پشت ڈالتے ہوئے جو نبی ﷺ پر آسمان سے اترا ہی اِس لیے تھا کہ اِس قوم کو ہردوجہان کی سرخروئی دلائے۔
نصوصِ کتاب شاہد ہیں۔۔۔ صرف آخرت نہیں، دنیا بھی آسمانی امت ہی کی میراث ہے (اپنی خاص شروط کے ساتھ)..، اور نبوت کی یہ جانشینی زمین پر تااَبد ہے:
وَلَوْ أَنَّہُمْ أَقَامُواْ التَّوْرَاۃَ وَالإِنجِیْلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْہِم مِّن رَّبِّہِمْ لأکَلُواْ مِن فَوْقِہِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِہِم (المائدۃ: ۶۶)
اور اگر وہ تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) اُن کے پروردگار کی طرف سے اُن پر نازل ہوئیں اُن کو قائم رکھتے تو (اُن پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ) اپنے اوپر سے، پاؤں کے نیچے سے کھاتے۔ (ترجمہ: جالندھری)
امتِ موسی ؑ و عیسی ؑ ، توراۃ اور انجیل کی شریعت کو قائم کرتیں تو اُن پر رزق مینہ کی طرح برستا۔۔۔، ہم امتِ محمدؐ قرآن کی شریعت کو قائم کرتے تو ہم پر کیا کچھ خیر نہ برستی؟! اور صدیوں تک کیا کچھ خیر نہیں برستی رہی؟!
جبکہ ہمارے اِن ولایتی نابغاؤں کے زیرانتظام۔۔۔ ایک روٹی کا مسئلہ ہی قوم کے پینسٹھ سال لے لیتا ہے! اور روٹی ہے کہ
مسلسل دور ہوتی چلی جارہی ہے! یہ وقت بھی ہم پر آنا تھا، وقت کی آسمانی امت اور پون صدی تک صرف ایک روٹی کا سوال! دوجہان کی کنجیاں پاس رکھنے والی قوم جہان کی سب سے بڑی گداگر! قرآن پڑھنے والی امت کے ہاتھوں میں کشکول!
فَاعْتَبِرُوْا یَا أولِی الأبْصَارِ !!
!
عبرت پکڑو، اے نگاہ والو !
شرعِ محمدؐ سے وفا کرنے کا وہ انعام تھا۔۔۔، تو شرعِ محمدؐ سے بے وفائی کے انجام میں آج یہ ذلت اور مسکنت!
وائے یہ ہدایت سے بیگانہ قیادتیں.. حصولِ کامرانی کے یہ دین ناآشنا ایجنڈے۔۔۔ جو ہماری دنیا بھی اجاڑ گئے اور ہماری آخرت بھی برباد کیے جاتے ہیں! رسولؐ کی جانب پشت کروا کر قوم کو سرپٹ دوڑانے والے یہ منشور اور یہ پروگرام اور یہ دیدہ وَر جو اِس امت پر کسی عذاب کی صورت مسلط ہیں!
وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُوراً
(الفرقان: ۳۰)
اور رسولؐ نے نالش کی: اے میرے رب! میری قوم نے اِس قرآن کو چھوڑنے کے قابل ٹھہرایا
بطورِ قوم۔۔۔
ہمارا سب سے پہلا فرض یہ بنتا ہے کہ اُن قیادتوں سے برگشتہ ہوجائیں اور اُن ایجنڈوں سے بیزاری کردیں جن کا آسمانی ہدایت سے کوئی رشتہ نہیں۔ نہ ایسی حکومتیں ہماری ضرورت اور نہ ایسی اپوزیشنیں۔ نہ پرانے چہرے اور نہ نئی معرض وجود میں آنے والی پارٹیاں۔ نہ وہ نسخے جو آزما لیے گئے اور نہ وہ نعرے جو ابھی سامنے لائے جارہے ہیں۔ صاف اعلان کردیں، اللہ اور رسولؐ کی جانب پشت کروا کر، کوئی دجال ہمیں دودھ اور شہد کی نہریں بہا کر دے دے تو بھی ہمیں منظور نہیں۔ ہاں اللہ اور رسولؐ کی جانب رخ ہو تو بھوک کیا موت بھی قبول ہے۔
وہ قیادتیں اور وہ راستے جن کو کچھ سروکار نہیں کہ آسمانی امت کی ترقی وعروج کن شروط کے ساتھ مشروط کررکھی گئی ہے، بلکہ وہ اِس بات سے ہی بیگانہ ہیں کہ زمین کے وسط میں بیٹھی یہ عظیم الشان امت دنیا کے کس حقیقی مرض کا علاج ہے اور کس آسمانی منصوبے کا مرکزی کردار؟۔۔۔ ایسی قیادتیں خواہ کتنی ہی تعلیم یافتہ ہوں اور ایسے راستے خواہ کتنے ہی روشن نظر آتے ہوں.. ہمارے وقت اور پیسے کا ضیاع ہیں، نسلوں کی تباہی، وسائل کی بربادی اور صلاحیتوں کا اجاڑا۔ آسمانی امت کے حق میں غیرآسمانی ایجنڈے اور دستور سے بڑھ کر کوئی نحوست نہیں۔ یہ قیادتیں اور یہ راستے ہی وہ مرض ہیں جس کو آج تک ہم علاج سمجھتے رہے! اور کچھ افاقہ نہ پا کر اسی کی خوراکیں بڑھاتے چلے گئے۔۔۔!! اور آخر موت کے کنارے جا پہنچے!!!
؂ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَاء وَرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلاَ یَزِیْدُ الظَّالِمِیْنَ إَلاَّ خَسَاراً (بنی اسرائیل: ۸۲)
اور نازل فرماتے ہیں ہم تو بذریعہ قرآن وہ چیز جو سراسر شفا ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے۔ اور وہ ظالموں کے لیے گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔
وقت آچکا کہ اُن مذہبی پیشواؤں کو بھی مسترد کر دیا جائے جو اِسی باطل کی امامت قبول کیے بیٹھے ہیں۔ جو آج تک باطل کے دیے ہوئے مذہبی خانوں کو ہی پر کرتے آئے ہیں۔ جو قوم کے مذہبی جذبے اور ولولے کو باطل کی پگڈنڈیوں پر ہی دوڑاتے اور تھکاتے چلے آرہے ہیں؛ اور بالآخر اسی کی بھول بھلیوں میں گم کردیتے رہے ہیں۔ اور جو اِس اہلیت سے ہی عاری ہیں کہ قوم کو باطل سے الگ تھلگ ایک راستہ بنا کر دیں اور امت کو اُس تاریخی شاہراہ کا اِحیاء کرکے دیں جس پر یہ صدیوں کامیابی کے ساتھ چلتی اور زمانے میں اپنا بہترین کردار ادا کرتی آئی ہے۔ ایسی مذہبی پیشوائی بھی، جو وراثتِ نبوت (الْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ الأنْبِیَاءِ) کا حق ادا کرنے سے قاصر ہے، ہرگز ہرگز ہماری ضرورت نہیں۔ پون صدی اِس نااہلی اور نارسائی کو ثابت کرنے کے لیے کچھ کم عرصہ نہیں۔
قومی سطح پر ہماری صرف ایک ضرورت ہے: خداآگاہ قیادت اور خدا تک پہنچانے والا راستہ۔ یعنی شریعت اور اہل شریعت۔ ہماری متاعِ گم گشتہ واپس آنے میں دیر نہ لگے گی اور وہ تاریخی عمل جو ہمارے حق میں رک سا گیا ہے ان شاء اللہ دنوں کے اندر بحال ہوجانے والا ہے۔
مغلوبیت اور کسمپرسی سے نکلنا اِس عظیم قوم کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ اصل چیلنج ہے: خداناآشنا قیادتوں کو مسترد کرنا اور دین سے بیگانہ ایجنڈوں کو دریابرد کرانا۔
منزل پر پہنچنے کے لیے راستہ درست ہونا پہلی شرط ہے۔ سب سے تباہ کن سفر وہ ہے جو آپ کو منزل سے مسلسل دور کرتا چلا جا ئے۔ پون صدی سے ہمارے ساتھ یہی ہو رہا ہے!
مجوزہ عمل.. شرح و وضاحت_________________________________________________* صحیحین کی یہ روایت اُن حضرات کی توجہ چاہتی ہے جن کا خیال ہے ہماری تاریخ میں خلفاء صرف چار یا پانچ ہوئے ہیں، یعنی کل تیس بتیس سال کا عرصہ، اور اِس کے بعد گھپ اندھیرا؛ ان کے بقول ڈیڑھ ہزار سال سے خلافت دنیا میں ناپید چلی آئی ہے! حدیث میں نبی ﷺ فرما رہے ہیں: میرے بعد نبی نہیں ہے، خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ پھر یہ بات آپؐ بنی اسرائیل کی تاریخ کے ساتھ موازنہ کے سیاق میں فرما رہے ہیں، (کَانَتْ بَنُوْ إسْرَاءِیْلَ تَسُوْسُہُمُ الأنْبِیَاءُ، کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ، وِإنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ، وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ، فَیَکْثُرُوْنَ بنی اسرائیل کے معاملاتِ کار انبیاء چلاتے رہے، ایک نبی فوت ہوتا تو اُس کی جگہ ایک دوسرا نبی آجاتا، میرے بعد نبی نہیں ہے، خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے) جبکہ ہم آگاہ ہیں تاریخ بنی اسرائیل میں نبوت کتنا لمبا عرصہ چلی ہے۔ ادھر اِن حضرات کے نکتہ نظر کی رو سے: نبوت تیئس سال، خلافت تیس سال، اور پھر صدیوں تک سائیں سائیں! ہاں اگر یہ کہیں کہ خلافت راشدہ بہت تھوڑا عرصہ چلی ہے مگر خلافت (جس میں کچھ نہ کچھ ظلم اور زیادتی اور اکھاڑ پچھاڑ بھی ہوجاتی رہی ہوگی) طویل صدیاں باقی رہی، تو یہ عین برحق ہے۔

 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
Re: آسمانی امت۔۔۔ خدافراموش قیادتیں.. لادین ا&

دعا

يا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دے
پھر وادي فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے
پھر شوق تماشا دے، پھر ذوق تقاضا دے
محروم تماشا کو پھر ديدئہ بينا دے
ديکھا ہے جو کچھ ميں نے اوروں کو بھي دکھلا دے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے
پيدا دل ويراں ميں پھر شورش محشر کر
اس محمل خالي کو پھر شاہد ليلا دے
اس دور کي ظلمت ميں ہر قلب پريشاں کو
وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرما دے
رفعت ميں مقاصد کو ہمدوش ثريا کر
خودداري ساحل دے، آزادي دريا دے
بے لوث محبت ہو ، بے باک صداقت ہو
سينوں ميں اجالا کر، دل صورت مينا دے
احساس عنايت کر آثار مصيبت کا
امروز کي شورش ميں انديشہء فردا دے
ميں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا
تاثير کا سائل ہوں ، محتاج کو ، داتا دے!
 

Back
Top