آدھا بھٹو
مرتضی بھٹو کو کو پولیس پارٹی نے آخر چوراہے پر جا لیا ، محاصرہ ہوا ، تلخ و مشکوک جملوں کا تبادلہ جاری رہا ، پھر اچانک ، لائٹس بجھا دی گئیں ، اندھا دھند فائرنگ شروع ہوئی ، مرتضی بھٹو اپنے ساتھیوں سمیت قتل کردیا گیا ، اقتدار بنظیر بھٹو کا تھا ، قتل مرتضی بھٹو کا ہوا ، قاتل و مقتول جب آمنے سامنے ہوے تو ، دونوں طرف بس بھٹو تھا ، ایک اور بھٹو ختم ہوا تھا ، آدھا بھٹو رہ گیا تھا
ایس ایچ او کلفٹن حق نواز سیال ، اس واردات کا اہم چشم دید گواہ بھی تھا ، جو موقع واردات پر گولی لگنے سے زخمی ہوا ، لیکن میڈیکل بورڈ نے اس کے زخم کو خود ساختہ / چاقو کا گھاؤ قرار دیا ، حق نواز سیال کو گھر میں نظر بند کردیا گیا ، اور پھر چند ہی دن میں یہ گواہ بھی قتل کردیا گیا ، بیوی اور بیٹے نے گھر میں دو نقاب پوشوں کے گھسنے اور حق نواز کو قتل کرنے کی گواہی دی ، لیکن پولیس کا موقف یہی رہا کہ یہ خودکشی ہے ، مرتضی بھٹو کے قتل میں شعیب سڈل (آئ جی سندھ) ، شاہد حیات (اے ایس پی) ، واجد درانی (ایس ایس پی ڈسٹرکٹ ساوتھ) ، راے طاہر (اے ایس پی) ، مسعود شریف (ڈی جی اینٹیلجنس بیورو - آئ بی ) ، سمیت اٹھارہ زمہ داران کا کا نام لیا گیا ، تفتیش و تحقیق میں ان سب کا نام آتا رہا ، لیکن آخر ، سب کے سب اس معاملے سے فارغ کردیے گیے ، کسی نے گلہ تک نا کیا
___________________________________________________________________________________
کسی بھی واردات بعد ، لوگ کہتے ہیں ؟ اس کا فائدہ کس کو ہوا ؟ ، اس معاملے میں ، اس سوال ساتھ ساتھ ، یہ بھی کہا جا سکتا ہے ، کہ ؟ فائدہ کس کس کو دیا گیا ؟ مرتضی بھٹو کے خونی پولیس مقابلے میں جو جو پولیس زمہ داران ملوث تھے ، یا جن کا نام لیا جاتا رہا ، وہ بعد میں تیز تر ترقیاں پاتے رہے ، پیپلز پارٹی و زرداری نے انہیں ہمیشہ نوازا ، شعیب سڈل سے لے کر شاہد حیات تک ، سب نے پراسرار طور پر انعام وصول کیے ، آج بھی ان میں سے چند نام ، زرداری کے بہت پسندیدہ ہیں ، زرداری بنظیر کے قاتلوں کا پوچھتا ہے ، لیکن مرتضی بھٹو کے قاتلوں کا سوال نہیں کرتا ، پیپلز پارٹی بنظیر کے ذکر پر ہچکیاں بھرتی ہے ، مرتضی کا ذکر تک نہیں کرتی ، آدھے بھٹو
فائدہ کس کو ہوا ؟ بنظیر بھٹو کے لیے ایک خطرہ ختم ہوا ، ختم کیا گیا ، سیاسی وراثت کا دعوے دار ، چراغ (لائیٹس) بجھا کر ، بجھا دیا گیا ، قتل کو نامعلوم رکھا گیا ، گمنام بنا دیا گیا ، مرتضی بھٹو کی لبنانی نزاد بیوی نے خود کو سیاست میں زندہ رکھنے کی کوشش کی ، نتیجہ نا ملا ، پھر تمام تر توجہ اپنی بیٹی فاطمہ بھٹو پر صرف کی ، اب بھٹو تنہا نہیں ، ذوالفقار بھٹو نہیں ، بنظیر بھٹو بھی نہیں ، لیکن ؟ فاطمہ بھٹو تو ہے ، صرف فاطمہ ہی نہیں ، بلاول بھی ہے ، بلاول "بھٹو" بھی ہے زرداری بھی ہے ، بھٹو کے ساتھ زرداری کی حادثاتی شراکت بھی ہے ، وراثت بھی ملی ، سیاست بھی جھولی میں آگری ، اب سیاسی وراثت بلاول کو منتقل کرنے کی تیاری ہے ،
_____________________________________________________________________________________
پاکستانی عوام ، کے لیے ایک بت اور تیار ہو چکا ہے ، خانوادوں ، صاحبزادوں ، اولادوں ، چشم چراغوں ، برخوداروں کے دیس میں ، ایک لونڈا آتا پڑا ہے ، ابا حضور نے سیاست میں کیا کیا گل کھلاۓ ، اب بیٹا کاشت ہوتا پڑا ہے ، پاکستان کی عوام ، ایک بار پھر ، مزید و مسلسل "برانڈ" زدہ سیاست دیکھ رہی ہے ، بہت سے پرانے و گھاگ سیاستدان دربار میں ہاتھ باندھے مودب کھڑے ہوں گے ، رضا ربانی کو رونا نہیں آے گا ، اعتزاز احسن کی دانش نا تو کلبلاے گی نا ہی بلبلاے گی ، سب کو بھٹو جوان ہوتا نظر آتا ہے ، جو (فاطمہ) خالص بھٹو تھی وہ اخباروں میں رہتی ہے ، جو آدھا بھٹو ہے ، وہ سڑکوں سڑکوں آتا پڑا ہے ، سندھ والوں کو چالیس سال میں بھی روٹی کپڑا مکان نا ملا ، بس اس نعرے کا تعویذ ہی دیا گیا ، چبا لو ، نگل لو ، بار بار دہرا لو ، اس کے سوا کچھ بھی نہیں ، بس بھٹو ہی ملا ہے ، ہر دس سال بعد ایک نیا بھٹو ملتا گیا ہے ، تصویر لگا لو ، آنکھوں میں بسا لو ، امید لگا لو ، مستقبل پھنسا لو ، لونڈا آتا پڑا ہے ، آدھا بھٹو ، آدھا زرداری ، دونوں کا ملغوبہ بنا پڑا ہے ، آدھا بھٹو آتا پڑا ہے
مرتضی بھٹو کو کو پولیس پارٹی نے آخر چوراہے پر جا لیا ، محاصرہ ہوا ، تلخ و مشکوک جملوں کا تبادلہ جاری رہا ، پھر اچانک ، لائٹس بجھا دی گئیں ، اندھا دھند فائرنگ شروع ہوئی ، مرتضی بھٹو اپنے ساتھیوں سمیت قتل کردیا گیا ، اقتدار بنظیر بھٹو کا تھا ، قتل مرتضی بھٹو کا ہوا ، قاتل و مقتول جب آمنے سامنے ہوے تو ، دونوں طرف بس بھٹو تھا ، ایک اور بھٹو ختم ہوا تھا ، آدھا بھٹو رہ گیا تھا
ایس ایچ او کلفٹن حق نواز سیال ، اس واردات کا اہم چشم دید گواہ بھی تھا ، جو موقع واردات پر گولی لگنے سے زخمی ہوا ، لیکن میڈیکل بورڈ نے اس کے زخم کو خود ساختہ / چاقو کا گھاؤ قرار دیا ، حق نواز سیال کو گھر میں نظر بند کردیا گیا ، اور پھر چند ہی دن میں یہ گواہ بھی قتل کردیا گیا ، بیوی اور بیٹے نے گھر میں دو نقاب پوشوں کے گھسنے اور حق نواز کو قتل کرنے کی گواہی دی ، لیکن پولیس کا موقف یہی رہا کہ یہ خودکشی ہے ، مرتضی بھٹو کے قتل میں شعیب سڈل (آئ جی سندھ) ، شاہد حیات (اے ایس پی) ، واجد درانی (ایس ایس پی ڈسٹرکٹ ساوتھ) ، راے طاہر (اے ایس پی) ، مسعود شریف (ڈی جی اینٹیلجنس بیورو - آئ بی ) ، سمیت اٹھارہ زمہ داران کا کا نام لیا گیا ، تفتیش و تحقیق میں ان سب کا نام آتا رہا ، لیکن آخر ، سب کے سب اس معاملے سے فارغ کردیے گیے ، کسی نے گلہ تک نا کیا
___________________________________________________________________________________
کسی بھی واردات بعد ، لوگ کہتے ہیں ؟ اس کا فائدہ کس کو ہوا ؟ ، اس معاملے میں ، اس سوال ساتھ ساتھ ، یہ بھی کہا جا سکتا ہے ، کہ ؟ فائدہ کس کس کو دیا گیا ؟ مرتضی بھٹو کے خونی پولیس مقابلے میں جو جو پولیس زمہ داران ملوث تھے ، یا جن کا نام لیا جاتا رہا ، وہ بعد میں تیز تر ترقیاں پاتے رہے ، پیپلز پارٹی و زرداری نے انہیں ہمیشہ نوازا ، شعیب سڈل سے لے کر شاہد حیات تک ، سب نے پراسرار طور پر انعام وصول کیے ، آج بھی ان میں سے چند نام ، زرداری کے بہت پسندیدہ ہیں ، زرداری بنظیر کے قاتلوں کا پوچھتا ہے ، لیکن مرتضی بھٹو کے قاتلوں کا سوال نہیں کرتا ، پیپلز پارٹی بنظیر کے ذکر پر ہچکیاں بھرتی ہے ، مرتضی کا ذکر تک نہیں کرتی ، آدھے بھٹو
فائدہ کس کو ہوا ؟ بنظیر بھٹو کے لیے ایک خطرہ ختم ہوا ، ختم کیا گیا ، سیاسی وراثت کا دعوے دار ، چراغ (لائیٹس) بجھا کر ، بجھا دیا گیا ، قتل کو نامعلوم رکھا گیا ، گمنام بنا دیا گیا ، مرتضی بھٹو کی لبنانی نزاد بیوی نے خود کو سیاست میں زندہ رکھنے کی کوشش کی ، نتیجہ نا ملا ، پھر تمام تر توجہ اپنی بیٹی فاطمہ بھٹو پر صرف کی ، اب بھٹو تنہا نہیں ، ذوالفقار بھٹو نہیں ، بنظیر بھٹو بھی نہیں ، لیکن ؟ فاطمہ بھٹو تو ہے ، صرف فاطمہ ہی نہیں ، بلاول بھی ہے ، بلاول "بھٹو" بھی ہے زرداری بھی ہے ، بھٹو کے ساتھ زرداری کی حادثاتی شراکت بھی ہے ، وراثت بھی ملی ، سیاست بھی جھولی میں آگری ، اب سیاسی وراثت بلاول کو منتقل کرنے کی تیاری ہے ،
_____________________________________________________________________________________
پاکستانی عوام ، کے لیے ایک بت اور تیار ہو چکا ہے ، خانوادوں ، صاحبزادوں ، اولادوں ، چشم چراغوں ، برخوداروں کے دیس میں ، ایک لونڈا آتا پڑا ہے ، ابا حضور نے سیاست میں کیا کیا گل کھلاۓ ، اب بیٹا کاشت ہوتا پڑا ہے ، پاکستان کی عوام ، ایک بار پھر ، مزید و مسلسل "برانڈ" زدہ سیاست دیکھ رہی ہے ، بہت سے پرانے و گھاگ سیاستدان دربار میں ہاتھ باندھے مودب کھڑے ہوں گے ، رضا ربانی کو رونا نہیں آے گا ، اعتزاز احسن کی دانش نا تو کلبلاے گی نا ہی بلبلاے گی ، سب کو بھٹو جوان ہوتا نظر آتا ہے ، جو (فاطمہ) خالص بھٹو تھی وہ اخباروں میں رہتی ہے ، جو آدھا بھٹو ہے ، وہ سڑکوں سڑکوں آتا پڑا ہے ، سندھ والوں کو چالیس سال میں بھی روٹی کپڑا مکان نا ملا ، بس اس نعرے کا تعویذ ہی دیا گیا ، چبا لو ، نگل لو ، بار بار دہرا لو ، اس کے سوا کچھ بھی نہیں ، بس بھٹو ہی ملا ہے ، ہر دس سال بعد ایک نیا بھٹو ملتا گیا ہے ، تصویر لگا لو ، آنکھوں میں بسا لو ، امید لگا لو ، مستقبل پھنسا لو ، لونڈا آتا پڑا ہے ، آدھا بھٹو ، آدھا زرداری ، دونوں کا ملغوبہ بنا پڑا ہے ، آدھا بھٹو آتا پڑا ہے
______________________________________________________________________:)
All 18 policemen acquitted in Murtaza murder case
PUBLISHED DEC 06, 2009 12:00AM
http://www.dawn.com/news/856658/all-18-policemen-acquitted-in-murtaza-murder-case
New city police chief Hayat a profile
http://www.dawn.com/news/1042444
What became of police officers involved in Murtaza Bhuttos murder?
Saturday, September 20, 2008
From Print Edition
http://www.thenews.com.pk/TodaysPrintDetail.aspx?ID=136932&Cat=4&dt=9/20/2008