آداب نماز

ابابیل

Senator (1k+ posts)
دروس حدیث ۔۔۔ ابو کلیم فیضی

آداب نماز


حدیث نمبر :20


عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : ذا أقیمت الصلاۃ فلا تأتوھا وأنتم تسعون وأتوھا وأنتم تمشون وعلیکم السکینۃ فما أدرکتم فصلوا وما فاتکم فأتموا۔

(صحیح البخاری : ۹٠۸، الجمعۃ ٭ صحیح مسلم : ۶٠۲، المساجد)

ترجمہ: حضرت أبوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جب نماز کی اقامت ہو جائے تو تم لوگ اس کے لئے دوڑتے ہوئے نہ آو، بلکہ عام چال چلتے ہوئے آؤ اور سکینت اختیار کرو، پھر جو نماز مل جائے اسے پڑھ لو اور تم سے فوت ہو جائے اسے (بعد میں) پورا کر لو۔


تشریح : نماز اسلام کا ایک عظیم رکن ہے جس کی مشروعیت میں بڑی عظیم حکمتیں پوشیدہ ہیں اور یہ حکمتیں اسی وقت پوری ہوسکتی ہیں جبکہ انہیں خشوع و خضوع اور حضور قلب سے ادا کیا جائے ، اس لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اسباب کے استعمال کا حکم دیا ہے جو خشوع و خضوع میں معاون ثابت ہوں اور ایسے تمام اسباب سے منع کیا ہے جو خشوع و خضوع میں رکاوٹ بنتے ہوں، نمازی کے خشوع و خضوع میں جو چیزیں خلل انداز ہونے والی ہیں انہیں میں سے ایک چیز اوپر ذکر کی گئی حدیث میں بیان ہوئی ہے ، یعنی جب بھی کوئی نمازی نماز کے لئے مسجد کا رخ کرے تو سکینت و وقار کو اختیار کرنا چاہئے ،

نمازی کی کیفیت یہ ہونی چاہئے کہ جیسے وہ کسی بڑی اہم مجلس میں حاضر ہونے جا رہا ہے ، ایسا محسوس ہو کہ وہ کسی بڑی ہی عظیم شخصیت سے ملاقات کے لئے جا رہا ہے ، لیکن بہت سے لوگ جب نماز کے لئے مسجد کی طرف نکلتے ہیں تو ان کے بازار کی طرف نکلنے ، کسی کھیل تماشے کی مجلس کی طرف نکلنے اور نماز جیسی عظیم عبادت کی طرف نکلنے ، مسجد جیسی مبارک و لائق احترام جگہ کی طرف نکلنے میں کوئی فرق نہیں ہوتا، خاص کر جب دور ہی سے اقامت کی آواز سن لیتے ہیں یا مسجد کے قریب پہنچنے کے بعد یہ محسوس کرتے ہیں کہ امام صاحب رکوع کے قریب ہیں یا رکوع کے لئے تکبیر کہہ دئے ہیں

تو ان کی حرکت میں مزید تیزی آ جاتی ہے ، بلکہ بہت سے لوگ مکمل دوڑ لگا دیتے ہیں، جس سے جہاں ایک طرف نماز جیسی عبادت اور مسجد جیسی مبارک جگہ کی بے حرمتی ہوتی ہے وہیں دوسری طرف ان کی سانس اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے جس سے ان کا خشوع و خضوع جاتا رہتا ہے ، اور تیسری طرف نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے ، جس سے اللہ کی عبادت کرنے والوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔



نیز دوڑ کر آنے والا یہ بھی سوچے کہ دوڑ کر جہاں وہ مذکورہ خرابیوں سے دوچار ہو رہا ہے وہیں آثار قدم پر ملنے والے اجر سے بھی محروم ہو رہا ہے کہ وہ جس قدر تیز چلے گا مسجد تک پہنچنے میں اتنے ہی قدم کم ہوں گے اور جس قدر آہستہ چلے گا مسجد تک پہنچنے میں اتنے ہی قدم زیادہ لگیں گے اور یہ بات مسلّم ہے کہ نماز کے لئے جو بندہ نکلتا ہے تو جب وہ اپنا قدم اٹھاتا ہے تو اس پر اسے ایک نیکی ملتی ہے اور جب وہی قدم نیچے رکھتا ہے تو اس پر اس کا ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے ، چنانچہ سنن أبو داؤد میں ایک انصاری صحابی سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

جب کوئی شخص وضو کرتا ہے اور اچھی طرح سے وضو کرتا ہے پھر نماز کے لئے نکلتا ہے تو اس کے دائیں قدم اٹھا نے پر اللہ تعالیٰ ایک نیکی لکھ دیتا ہے ، اور بائیں قدم رکھنے پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے اس لئے تم میں سے جو چاہے اپنے قدموں کو نزدیک نزدیک رکھے اور جو چاہے دوردور رکھے پھر جب مسجد میں آکر جماعت سے نماز پڑھتا ہے تو اسے معاف کر دیا جاتا ہے اور اگر مسجد میں پہنچا اور نماز کا بعض حصہ لوگوں نے پڑھ لیا ہے اور کچھ حصہ باقی ہے تو اسے جو نماز ملی وہ پڑھ لیا اور جو فوت ہو گئی اسے پورا کر لیا تو اسے بھی یہی اجر ملنے والا ہے ،

اوراگر (مسجد میں پہنچا لوگ نماز سے فارغ ہوچکے ہیں تو اس نے اپنی نماز (اکیلے ہی) پڑھ لی تواسے بھی یہی اجر ملنے والا ہے۔ یعنی مسجد کی طرف آنے والا کسی بھی صورت میں خسارے میں نہیں ہے بلکہ اگر اس کی نیت درست ہے اور اس نے آنے میں کوتاہی سے کام نہیں لیا تواسے جماعت میں حاضری کا پورا اجر ملنے والا ہے ، خواہ اسے پوری نماز ملے ، آدھی ملے یا کچھ بھی نہ ملے ، اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے نا امید نہیں کرتا۔



فوائد


(۱) نماز کی اقامت سن لینے کے بعد دوڑنا یا ایسا تیز چلنا جس سے سانس اوپر نیچے ہونے لگے شریعت کی نظر میں نا پسندیدہ فعل ہے۔
(۲) اگر کوئی رکعت امام کے ساتھ چھوٹ جائے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اسے پورا کرنا چاہئے۔

(۳) امام کے ساتھ ملنے والی رکعت نمازی کی پہلی رکعت ہو گی، یعنی اگر ظہر کی نماز میں کسی کو امام کے ساتھ تین رکعت ملتی ہے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ اپنی ایک رکعت پوری کرے گا جو اس کی چوتھی رکعت ہو گی، یعنی اس میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھے گا۔

(۴) اگر کسی شخص کو مغرب کی ایک رکعت امام کے ساتھ ملتی ہے تواس کی پہلی رکعت وہی ہے جو اس نے امام کے ساتھ پڑھی ہے ، لہذا امام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ شخص اٹھ کر ایک رکعت پڑھ کر بیٹھ جائے گاجس میں وہ سورۂ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت بھی پڑھے گا پھر تشہد کے بعد اٹھ کر ایک رکعت اور پڑھے گا، جس میں صرف سورۂ فاتحہ پر اکتفا کرے گا۔

٭٭٭
 
Last edited by a moderator:

Back
Top