وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان کا ایک ایک بال قرض میں جکڑا ہوا ہے، آج بھی پتہ نہیں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدہ ہو گا یا نہیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ بجٹ میں جو بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اس کی کبھی کوشش نہیں کی گئی، 60 فیصد سے زائد بجٹ سود اور قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دو انسٹیٹیوٹ کا قرض ایک ہزار ارب روپے سے زائد ہے، ان اداروں کی نجکاری جتنی جلدی کر دی جائے اتنا ہی بہتر ہے، معاشی ابتری وہاں تک پہنچ چکی کہ عوام کا سانس لینا بھی دشوار ہو چکا ہے، حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہے، پاکستان کو قرض سے زیادہ سود ادا کرنا پڑتا ہے۔
’’ملک میں غربت ختم نہیں ہوئی‘‘
خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ملک میں غربت ختم نہیں ہوئی، سی ای او وغیرہ کی 35 لاکھ روپے تنخواہ ہے، رئیل اسٹیٹ میں 500 ارب روپے ٹیکس نہیں دیا جاتا، چائے امپورٹ میں 45 ارب روپے ٹیکس چوری ہے، اسٹیل سیکٹر میں 30 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ریٹیل سیکٹر میں 2880 ارب روپے کا ٹیکس چوری کیا جا رہا ہے، تمباکو انڈسٹری میں 240 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہے، ملک میں ہزاروں ارب روپے کی ٹیکس چوری ہے، بجٹ میں عوام کو ریلیف دے کر اسحاق ڈار نے بڑی بہادری کا کام کیا ہے، غربت ختم کرنے کے لیے جو لوگ آ رہے ہیں وہ پہلے اپنی غربت ختم کر رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ریٹیل سیکٹر میں 2880 ارب روپے کا ٹیکس چوری کیا جا رہا ہے، تمباکو انڈسٹری میں 240 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہے، ملک میں ہزاروں ارب روپے کی ٹیکس چوری ہے، بجٹ میں عوام کو ریلیف دے کر اسحاق ڈار نے بڑی بہادری کا کام کیا ہے، غربت ختم کرنے کے لیے جو لوگ آ رہے ہیں وہ پہلے اپنی غربت ختم کر رہے ہیں۔
’’لوگ تین تین وزیرِ اعظم کھا گئے‘‘
ان کا کہنا ہے کہ وائس چانسلر کرپشن کر کے ارب پتی بن گئے اور عہدے پر اسٹے لیتے ہیں، ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے کوئی پوچھنے والا نہیں، قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس دائر ہوا تو اس ادارے میں دراڑ آئی، لوگ تین تین وزیرِ اعظم کھا گئے، ہضم کیا اور ڈکار بھی نہ لی، وزیرِ اعظم کو پھانسی دی گئی اور کسی نے معافی بھی نہیں مانگی، آپ کے ریونیو میں بہت بڑی لیکج ہے مزید کوئی لفظ استعمال نہیں کرتا، بڑے بڑے شاپنگ سینٹر پر کوئی ٹیکس نہیں، جو ادارے نہیں چل سکتے ان کو بند کر کے 300 ارب روپے بچا سکتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ ایف بی آر کے ملازمین کہتے ہیں ہماری تنخواہ کم ہے، یہ ہمارے ساتھ عدلیہ کا بھی کام ہے کہ اسٹے آرڈرز نہ دیں، ہمیں بیرونی خطرہ نہیں ، اندرونی معاشی حالات سب سے بڑا خطرہ ہے، آج بھی سر پر بادل منڈلا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف قرض دے گا یا نہیں، ہم اگر ایم این اے نہ رہیں تو پارلیمنٹ لارجز میں بھی نہ گھسنے دیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ ایف بی آر کے ملازمین کہتے ہیں ہماری تنخواہ کم ہے، یہ ہمارے ساتھ عدلیہ کا بھی کام ہے کہ اسٹے آرڈرز نہ دیں، ہمیں بیرونی خطرہ نہیں ، اندرونی معاشی حالات سب سے بڑا خطرہ ہے، آج بھی سر پر بادل منڈلا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف قرض دے گا یا نہیں، ہم اگر ایم این اے نہ رہیں تو پارلیمنٹ لارجز میں بھی نہ گھسنے دیں۔
’’عدلیہ اس ملک کے ساتھ کیا کر رہی ہے کچھ اپنا احتساب کریں‘‘
خواجہ آصف کا کہنا ہے عدلیہ اس ملک کے ساتھ کیا کر رہی ہے کچھ اپنا احتساب کریں، ایک شخص چند ہزار آدمیوں کے ساتھ ریاست کی رٹ چیلنج کرتا ہے، 9 مئی کو بغاوت ہوئی، 75 سال میں کسی نے کیا ایسے ریاست کو چیلنج کیا، ایک شخص کا اقتدار کیا چھن گیا اس نے کوشش کی کہ ریاست کو یرغمال بنالے، کل اس شخص نے ٹوئٹ کیا کہ یہ سب کچھ منصوبہ بندی کر کے کرایا گیا، آپ کی بہنیں اور پارٹی کے ارکان وہاں کھڑے تھے یہ کونسی سازش ہوئی، جس میں سارے افراد آپ کے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو انہوں نے پاکستان کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا، ساڑھے تین ہزار کے قریب لوگوں کی نشاندہی ہوئی ہے ابھی سب گرفتار نہیں ہوئے، جن اثاثوں پر حملے کیے گئے وہ قوم اور ملک کے اثاثے ہیں، ملک اور قوم کے اثاثوں پر حملے کرنے والے پاکستانی نہیں ہو سکتے، اس اندرونی دشمن، اس سانپ کو ہم نے خود دودھ پلایا اور اس نے 9 مئی کو ڈسا، اس نے دونوں حکومتیں ہمارے یا نگراں کے حوالے کر دیں، پرویز الہٰی ترلے کرتا رہا کہ اسمبلی نہ توڑ، اس نے کے پی اسمبلی بھی توڑ دی، ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے، یہ صورتحال یہاں کیسے پہنچی، غربت مکاؤ کے لیے جو آرگنائزیشنز ہیں انہوں نے غربت ختم نہیں کی۔
وزیرِ دفاع کا کہنا ہے کہ 70، 80 فیصد آبادی دو وقت کا کھانا نہیں کھا سکتی، اس وقت عدلیہ میں ٹیکس کے کیسز چل رہے ہیں، آٹو موبائل میں 50 ارب روپے کی چوری ہو رہی ہے، تعلیمی اداروں میں اس وقت مافیا بیٹھے ہوئے ہیں، گزشتہ چار سال میں مافیاز کو تحفظ دیا گیا، ہم پر تنقید ہوتی ہے تو برداشت کرتے ہیں، جب تک کڑوی گولی کھا کر علاج نہیں کریں گے معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو انہوں نے پاکستان کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا، ساڑھے تین ہزار کے قریب لوگوں کی نشاندہی ہوئی ہے ابھی سب گرفتار نہیں ہوئے، جن اثاثوں پر حملے کیے گئے وہ قوم اور ملک کے اثاثے ہیں، ملک اور قوم کے اثاثوں پر حملے کرنے والے پاکستانی نہیں ہو سکتے، اس اندرونی دشمن، اس سانپ کو ہم نے خود دودھ پلایا اور اس نے 9 مئی کو ڈسا، اس نے دونوں حکومتیں ہمارے یا نگراں کے حوالے کر دیں، پرویز الہٰی ترلے کرتا رہا کہ اسمبلی نہ توڑ، اس نے کے پی اسمبلی بھی توڑ دی، ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے، یہ صورتحال یہاں کیسے پہنچی، غربت مکاؤ کے لیے جو آرگنائزیشنز ہیں انہوں نے غربت ختم نہیں کی۔
وزیرِ دفاع کا کہنا ہے کہ 70، 80 فیصد آبادی دو وقت کا کھانا نہیں کھا سکتی، اس وقت عدلیہ میں ٹیکس کے کیسز چل رہے ہیں، آٹو موبائل میں 50 ارب روپے کی چوری ہو رہی ہے، تعلیمی اداروں میں اس وقت مافیا بیٹھے ہوئے ہیں، گزشتہ چار سال میں مافیاز کو تحفظ دیا گیا، ہم پر تنقید ہوتی ہے تو برداشت کرتے ہیں، جب تک کڑوی گولی کھا کر علاج نہیں کریں گے معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے۔
’’لوگوں نے سلیب کا فائدہ اٹھانے کیلئے بجلی کے 3، 3 میٹرز لگائے ہیں‘‘
مسلم لیگ ن کے رہنما نے مزید کہا کہ لوگوں نے سلیب کا فائدہ اٹھانے کے لیے بجلی کے تین تین میٹرز لگائے ہیں، تخفیف غربت کے چیئرمین کی تنخواہ 27 لاکھ ہے، یہاں پھر وہی ہو گا جو 2018 میں ہوا اور پھر وہ ہو گا جو چار سال میں ہوا، بھارتی فوج نے بھی کرنل شیر خان کی عزت کی، آپ نے اس کی بھی بے حرمتی کی اور نفرت کا اظہار کیا، اگر وہ استعفے نہ دیتے تو آج یہاں پر بیٹھے ہوتے، یہاں میں نے کہا تھا کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے، بجٹ ایک ٹرانزیکشننگ ایونٹ ہوتا ہے، اگر کچھ معاملات کو درست نہ کیا تو معاشی حالات درست نہیں ہوسکتے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے پاس قومی دولت بڑھانے کے وسائل موجود ہیں لیکن ہمارے پاس عزم نہیں ہے، پرائیویٹائزیشن کی بات کرتے ہیں تو لوگوں کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں کہ نیب نہ بلا لے، باہر انگریزی بولنے والے کہتے ہیں ریمیٹنس نہیں بھیجیں گے، ریمیٹنس تو خلیجی ممالک میں کام کرنے والے لوگ بھیجتے ہیں، عرب ممالک والے اوورسیز دونوں عیدوں پر ملک آتے ہیں، انگریزی بولنے والے اوورسیز یہاں جائیداد بیچنے آتے ہیں۔
Source
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے پاس قومی دولت بڑھانے کے وسائل موجود ہیں لیکن ہمارے پاس عزم نہیں ہے، پرائیویٹائزیشن کی بات کرتے ہیں تو لوگوں کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں کہ نیب نہ بلا لے، باہر انگریزی بولنے والے کہتے ہیں ریمیٹنس نہیں بھیجیں گے، ریمیٹنس تو خلیجی ممالک میں کام کرنے والے لوگ بھیجتے ہیں، عرب ممالک والے اوورسیز دونوں عیدوں پر ملک آتے ہیں، انگریزی بولنے والے اوورسیز یہاں جائیداد بیچنے آتے ہیں۔
Source
- Featured Thumbs
- https://pbs.twimg.com/media/FylNEhUaMAEL7C5.jpg