ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہنا جہاد ہے۔ اور یہ جہاد آج کل بہت ہی کم لوگ کر رہے ہیں۔
رب نواز کو اغوا کیا گیا۔ مگر جب پولیس نے اس کو عدالت میں پیش کیا تو رب نواز کہنے لگا، مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا تھا، میں اپنی مرضی سے وہاڑی گیا تھا۔
مگر رب نواز کے بھائی نے حقیقت سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہا کہ اس کے بھائی کو کچھ نامعلوم افراد اغوا کر کے لے گئے تھے، جسمانی اور ذہنی تشدد کے بعد چھوڑ دیا اور دھمکی دی کہ عدالت کے سامنے وہی بیان دینا ہے جیسا ہم کہہ رہے ہیں ورنہ نتائج کی ذمہ داری خود تم پر ہوگی۔
جی ہاں یہ مقبوضہ کشمیر یا غزہ کی پٹی نہیں ہے، یہ ہمارا پاکستان ہے۔ اور یہ کوئی اسرائیلی یا ہندستانی فوج نہیں، ہماری ہی پاک فوج کی دنیا کی نمبر ایک ایجنسی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کچھ دن قبل جب نواز شریف لندن میں تھے تو مسلم لیگ نواز کے ایک امیدوار کو اسی طرح کچھ نامعلوم افراد نے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد دھمکی دی تھی کہ نون لیگ کا ٹکٹ واپس کردو ورنہ۔۔۔ اس کے ردعمل کے طور پر نواز شریف نے لندن سے احتجاج ریکارڈ کروایا، مگر نون لیگ کا یہ امیدوار مذکورہ رب نواز کی طرح اپنے پہلے بیان سے پھر گیا کہ نہیں ایسا تو کچھ نہیں ہوا تھا۔
عمران نیازی کی سپر ہیومن پولیس کی موجودگی میں جب ہارون بلور کو 20 ساتھیوں سمیت راستے سے ہٹایا گیا تو اس کے ردعمل کے طور پر غلام احمد بلور بولے کہ یہ حملہ طالبان نے نہیں بلکہ اپنوں یعنی نامعلوم افراد نے کیا ہے۔ مگر اگلے ہی دن وہ اپنے بیان سے پھر گئے۔ غالباً ان کو ہارون بلور کے پاس بھجوانے کی دھمکی دی گئی ہوگی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس نے جو فرعون کے سامنے نطق موسیٰ کی مثال پیش کر رہے ہیں، حق بات کہنے اور ظالم کو للکارنے کی پہلی کوشش نہیں کی ہے۔ اس سے پہلے بھی پچھلے سال جب آئی ایس آئی نے خادم حسین رضوی اور حکومت کے درمیان ضامن بن کر ہیرو بننے کی کوشش کی تو جسٹس شوکت عزیز نے فوج سے سوال کیا کہ آپ کس قانون کے تحت ضامن بن رہے ہیں؟
لاپتہ افراد کا نام و نشان دریافت کرتے کرتے جسٹس شوکت نے آئی ایس آئی اور فوج کی دوسری ایجنسیوں کی ریاست کے تیسرے ستون عدلیہ میں کھلی اور ڈھکی چھپی مداخلت پر سخت احتجاج کرتے ہوئے نشان دہی کی کہ پیشیوں اور مقدمات میں مداخلت کے ذریعے من پسند فیصلے کروائے جارہے ہیں۔ (پاکستان اور اس کے نظام عدل کی توہین کی جارہی ہے)۔
آئی ایس آئی اور اس کے متعلقہ ادارے بنچوں کی تشکیل اور مقدمات کی مختلف بنچوں کو حوالگی بھی اپنی پسند اور مرضی سے کروا رہے ہیں۔
جسٹس شوکت نے تنبیہ کی کہ یہی وقت ہے جب عدلیہ کو ہر قسم کی مداخلت اور اثر انگیزی سے بچایا جائے، ورنہ اللہ کو کیا جواب دیں گے؟
جسٹس شوکت عزیز نے عدالتی افسران کو ہدایت کی کہ فیصلے کی نقول آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، دفاع و داخلہ کے سیکریٹریوں کو بھجوائی جائیں۔
رب نواز کو اغوا کیا گیا۔ مگر جب پولیس نے اس کو عدالت میں پیش کیا تو رب نواز کہنے لگا، مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا تھا، میں اپنی مرضی سے وہاڑی گیا تھا۔
مگر رب نواز کے بھائی نے حقیقت سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہا کہ اس کے بھائی کو کچھ نامعلوم افراد اغوا کر کے لے گئے تھے، جسمانی اور ذہنی تشدد کے بعد چھوڑ دیا اور دھمکی دی کہ عدالت کے سامنے وہی بیان دینا ہے جیسا ہم کہہ رہے ہیں ورنہ نتائج کی ذمہ داری خود تم پر ہوگی۔
جی ہاں یہ مقبوضہ کشمیر یا غزہ کی پٹی نہیں ہے، یہ ہمارا پاکستان ہے۔ اور یہ کوئی اسرائیلی یا ہندستانی فوج نہیں، ہماری ہی پاک فوج کی دنیا کی نمبر ایک ایجنسی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کچھ دن قبل جب نواز شریف لندن میں تھے تو مسلم لیگ نواز کے ایک امیدوار کو اسی طرح کچھ نامعلوم افراد نے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد دھمکی دی تھی کہ نون لیگ کا ٹکٹ واپس کردو ورنہ۔۔۔ اس کے ردعمل کے طور پر نواز شریف نے لندن سے احتجاج ریکارڈ کروایا، مگر نون لیگ کا یہ امیدوار مذکورہ رب نواز کی طرح اپنے پہلے بیان سے پھر گیا کہ نہیں ایسا تو کچھ نہیں ہوا تھا۔
عمران نیازی کی سپر ہیومن پولیس کی موجودگی میں جب ہارون بلور کو 20 ساتھیوں سمیت راستے سے ہٹایا گیا تو اس کے ردعمل کے طور پر غلام احمد بلور بولے کہ یہ حملہ طالبان نے نہیں بلکہ اپنوں یعنی نامعلوم افراد نے کیا ہے۔ مگر اگلے ہی دن وہ اپنے بیان سے پھر گئے۔ غالباً ان کو ہارون بلور کے پاس بھجوانے کی دھمکی دی گئی ہوگی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس نے جو فرعون کے سامنے نطق موسیٰ کی مثال پیش کر رہے ہیں، حق بات کہنے اور ظالم کو للکارنے کی پہلی کوشش نہیں کی ہے۔ اس سے پہلے بھی پچھلے سال جب آئی ایس آئی نے خادم حسین رضوی اور حکومت کے درمیان ضامن بن کر ہیرو بننے کی کوشش کی تو جسٹس شوکت عزیز نے فوج سے سوال کیا کہ آپ کس قانون کے تحت ضامن بن رہے ہیں؟
لاپتہ افراد کا نام و نشان دریافت کرتے کرتے جسٹس شوکت نے آئی ایس آئی اور فوج کی دوسری ایجنسیوں کی ریاست کے تیسرے ستون عدلیہ میں کھلی اور ڈھکی چھپی مداخلت پر سخت احتجاج کرتے ہوئے نشان دہی کی کہ پیشیوں اور مقدمات میں مداخلت کے ذریعے من پسند فیصلے کروائے جارہے ہیں۔ (پاکستان اور اس کے نظام عدل کی توہین کی جارہی ہے)۔
آئی ایس آئی اور اس کے متعلقہ ادارے بنچوں کی تشکیل اور مقدمات کی مختلف بنچوں کو حوالگی بھی اپنی پسند اور مرضی سے کروا رہے ہیں۔
جسٹس شوکت نے تنبیہ کی کہ یہی وقت ہے جب عدلیہ کو ہر قسم کی مداخلت اور اثر انگیزی سے بچایا جائے، ورنہ اللہ کو کیا جواب دیں گے؟
جسٹس شوکت عزیز نے عدالتی افسران کو ہدایت کی کہ فیصلے کی نقول آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، دفاع و داخلہ کے سیکریٹریوں کو بھجوائی جائیں۔