ماضی قریب میں کبھی فضلو یا بلو یا مریم اور حمزہ ککڑی مارچیاں لے کر نکلے تو کسی نے کوئ کنٹینر سڑکوں پر لگا دیکھا؟ بلکہ حمزہ اور مریم کا مہنگائ مارچ تو کب چلا کب پہنچا کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئ ۔ اس لئے کہ ان کے ساتھ عوام تھی نہ عمران کو ان سے کوئ ڈر تھا۔لیکن جب جب پی ٹی آئ گھر سے نکلے بوسیدہ نظام کے ڈریکولے اپنی موت کے لمحے ٹالنے کو صبح کی روشنی سے بچنے کو کنٹینروں کے جنگل سڑکوں پر اگا.دیتے ہیں ۔اچھی طرح سے جانتے بوجھتے کہ اب نوجوانوں کو بھی ان سے گزر کر عمران خان کے جلسوں میں جانے کا ہنر اتنی ہی مہارت سے آتا ہے جتنا لگانے والوں کو ۔ ۔جب چوری بچاتے بچاتے امپورٹڈ اور سہولت کاروں نے ہر چیز تباہ کر دی ہے ۔کاروبار ہی نہیں چل رہا اور ویسے بھی کاروباریوں کے کنٹینر جب سال بھر سے سڑکوں پر عوام کا راستہ روکنے اور ایلیٹ کی چوریاں بچانے کے کاروبارمیں کھپے پڑے ہیں تو کاروبار کیسے چل سکتا ہے ؟ ۔الٹا لٹے پٹے کاروباریوں کی اپنی جیب سے ہی ان کنٹینروں کا کرایہ ہر چیز پر آسمان سے باتیں کرتی مہنگای سے ہر چیز پر لگے ٹیکس کی صورت جا رہا ہے
یہ سڑکوں پر لگے کنٹینر اب قومی زندگی کے منظر کا ایک اہم حصہ اور چوروں اور سہولت کاروں کے خوف کی علامت ہیں ۔