Waqia e Karbala & Shahadat e Hussain [Full] Maulana Tariq Jameel واقعہ کربلا و شہادت حسین

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
اب صرف یہ ایک واقعہ ہی رہ گیا
ہمارےزیادہ تر عالم بکاؤ ہیں ....صرف تاریخ گو


افسوس کہ الله کے پیارے نبی کے خاندان نے اپنی جانوں کی قربانی دے دی کہ کرپٹ حکمرانوں کی بیعت نہی کرنی
اور ہماری قوم کے لئے یہ ایک صرف قصہ ٹہرا
اس سے سبق کافر سیکھ گئے
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
اب صرف یہ ایک واقعہ ہی رہ گیا
ہمارےزیادہ تر عالم بکاؤ ہیں ....صرف تاریخ گو


افسوس کہ الله کے پیارے نبی کے خاندان نے اپنی جانوں کی قربانی دے دی کہ کرپٹ حکمرانوں کی بیعت نہی کرنی
اور ہماری قوم کے لئے یہ ایک صرف قصہ ٹہرا
اس سے سبق کافر سیکھ گئے
نا بکنے والا نا جھکنے والا عالم
 

drkhan22

Senator (1k+ posts)
Few indisputable facts which none of these Qisa-Go Maulanas and Zakirs, Allamas will narrate.

Hussain Pak RA did agree to give his hand in Yazeeds hand to do Bayt as part of his 3 terms to avoid a fight in Karbala. Saying he refused to do that till death is a lie.
ZainulAbideen did bayt in Yazeeds hands and accepted his Khilafat in Damascus. He was returned with lots of gifts and honor along with protection of soldiers to Madeena where he spent his life after.
Zainul Abideen never claimed to be Khalifa or successor during Yazeeds life and after his death as well nor he made any efforts to achieve that.
Most of Banu Umayyads took refuge in Zainul Abideen house when they were attacked on by people of Madeena during their rebellion against Yazeed.

First lady who did Matam e Hussain was Yazeeds Wife who was x wife of Hussain pak RA.

There more facts to narrate but Allamas n Zakir including Tariq Jameel only love to narrate what suits the emotions of public and appeals the masses.
 

Asif Rana

MPA (400+ posts)
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:اگر دنیا میں میرے لیے کوئی پر امن جگہ نہ بھی ہو پھر بھی یزید کی بیعت نہیں کرونگا،
‘‘
مِثلی لا يُبایعُ مثلَہ’’ یعنی مجھ جیسا شخص اُس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔
یعنی کبھی بھی حق،باطل کی بیعت نہیں کرسکتا۔

حق و باطل کے اوضاع کو سامنے رکھتے ہوئے اور اظہار فرمایا:

اَلا تَرَونَ الی الحق لا يُعمل بہ والی الباطل لا یتناھی عنہ
کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے روکا نہیں جارہا۔
(سیرہ ٔ امام حسین علیہ السلام ص۱۳۰)
یعنی حق کی مظلومیت و محرومیت دیکھنا حجت حق کے لیے قابل برداشت نہیں تھا۔
ایک مقام پر قیام کا ہدف اس انداز میں بیان فرمایا:
اے لوگو میں نے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے:
جو شخص بھی ظالم و ستمگر سلطان و حاکم کو دیکھے جو خداوند کے حرام قراردیے ہوئے کو حلال کررہا ہو(اور حلالِ خدا کو حرام کررہا ہو)،خدا کے وعدے کو توڑ رہا ہو،پیغمبرِ خدا کی سنت،سیرت اور قانون کی مخالفت کررہا ہو،خدا کے بندوں کے درمیان گناہ،معصیت اور دشمنی و عداوت کے راستے پر چل رہا ہو اور یہ سب کچھ دیکھنے والا شخص ایسے ستمگر سلطان و حاکم کے سامنے اپنے قول یا فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے اور خاموش رہے،خداوند پر لازم ہے کہ ایسے شخص کو آتش جہنم میں وہیں پر رکھے جہاں اُس ستمگر حاکم کو رکھے گا
(سیرۂ امام حسین علیہ السلام ص ۱۳۰، ۱۳۱)
 

Asif Rana

MPA (400+ posts)

یزید کے دربارمیں جب حضرت زینب کبری (علیہا السلام) کی نظر اپنے بھائی امام حسین (علیہ السلام) کے خون آلود سر پر پڑی تو آپ نے ایسی غمناک آواز میں فریاد کی جس سے سب لوگوں کے دل دہل گئے :
یا حسیناہ ! یا حبیب رسول اللہ ! یا بن مکه و منی ، یابن فاطمه الزہراء سیده النساء العالمین ، یابن بنت المصطفی ۔ اے حسین ، اے محبوب رسول خدا ، اے مکہ و منی کے بیٹے ! اے فاطمہ زہرا سیده نساء العالمین کے بیٹے ، اے محمد مصطفی کی بیٹی کے بیٹے
یزید نے خیزران کی لکڑی لانے کا حکم دیا ، پھر یزید نے اس لکڑی کو امام حسین (علیہ السلام) کے لبوں اور دانتوں پر لگایا ۔ ابوبرزہ اسلمی (جو کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صحابی تھے اور وہاں پر موجود تھے ) نے یزید کو مخاطب کرکے کہا : اے یزید ! کیا تو اس چھڑی سے حسین فرزند فاطمہ کے دندان مبارک پر مارر ہا ہے ؟ ! میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) ، حسین اور ان کے بھائی حسن (علیہما السلام) کے لبوں اور داندان مبارک کو بوسہ دیتے تھے اور فرماتے تھے :
: «اَنْتُما سَیِّدا شَبابِ اهْلِ الْجَنَّهِ، فَقَتَلَ اللهُ قاتِلَکُما وَلَعَنَهُ، وَاَعَدَّلَهُ جَهَنَّمَ َوساءَتْ مَصیراً»؛ ۔ تم دونوں جوانان جنت کے سردار ہو ، جو تمہیں قتل کرے ، خدا اس کو قتل کرے اور اس پر لعنت کرے اور اس کے لئے جہنم کو آمادہ کرے اور وہ بہت خراب جگہ ہے ۔
یزید غصہ میں چیخنے لگا اور حکم دیا کہ صحابی رسول (ص) کو باہر نکال دو ۔
یزید اپنے غرور میں مست تھا اور سمجھ رہا تھا کہ کربلا میں کامیاب ہوگیا ہے اوران اشعار کو بلند آواز سے پڑھ رہا تھا جو اس کے اور آل امیہ کے دین مبین اسلام پر ایمان نہ رکھنے کی زندہ دلیل ہے (١)
:
لَیْتَ اَشْیاخی بِبَدْر شَهِدُوا جَزِعَ الْخَزْرَجُ مِنْ وَقْعِ الاَْسَلْ
فَاَهَلُّوا وَ اسْتَهَلُّوا فَرَحاً ثُمَّ قالُوا یایَزیدُ لاتَشَلْ
لَسْتُ مِنْ خِنْدَفَ اِنْ لَمْ اَنْتَقِمْ مِنْ بَنی اَحْمَدَ، ما کـانَ فَعَلْ

کاش کہ میرے وہ بزرگ جو جنگ بدر میں قتل کردئیے گئے تھے وہ آج ہوتے اور دیکھتے کہ کس طرح قبیلہ خزرج نیزہ مارنے کے بجائے گریہ وزاری میں مشغول ہیں ۔اس وقت وہ خوشی میں فریاد کرتے اور کہتے : اے یزید ! تیرے ہاتھ شل نہ ہوں !
میں ""خندف"" (٢) کی اولاد میں سے نہیں ہوں جو احمد (رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اولاد سے انتقام نہ لوں

حوالہ جات:

١۔ ان اشعار کا دوسرا شعر ، رسول خدا کے دشمن عبداللہ بن زبعری کا ہے ، اس نے یہ اشعار جنگ احد میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اصحاب کے شہید ہونے کے بعد کہے تھے اور ان اشعار میں آرزو کی تھی کہ کاش جنگ بدر میں ہمارے قتل ہونے والے بزرگ ہوتے اور دیکھتے کہ قبیلہ خزرج (مدینہ کے مسلمان قبیلے ) کس طرح گریہ وزاری کررہے ہیں ۔ اس شعر سے استفادہ کرتے ہوئے باقی شعر خو د اس نے کہے ہیں ۔
٢۔ خندف ، قریش کے مورث اعلی ہے جوخود یزید کا بھی دادا شمار ہوتا ہے ۔ (ر.ك: تاريخ طبرى، ج 1، ص 24ـ25.)
 

Asif Rana

MPA (400+ posts)

دربار یزید میں حضرت زینب (س) کا تاریخی خطبہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
«اَلْحَمْدُللهِِ رَبِّ الْعالَمینَ، وَصَلَّى اللهُ عَلى رَسُولِهِ وَآلِهِ اجْمَعینَ، صَدَقَ اللهُ کَذلِکَ یَقُولُ: (ثُمَّ کَانَ عَاقِبَهَ الَّذِینَ اَسَاءُوا السُّواَى اَنْ کَذَّبُوا بِآیَاتِ اللهِ وَکَانُوا بِهَا یَسْتَهْزِئُون).
اَظَنَنْتَ یا یَزِیدُ حَیْثُ اَخَذْتَ عَلَیْنا اَقْطارَ الاَْرْضِ وَآفاقَ السَّماءِ، فَاَصْبَحْنا نُساقُ کَما تسُاقُ الاُسارى اَنَّ بِنا عَلَى اللهِ هَواناً، وَبِکَ عَلَیْهِ کَرامَهً وَاَنَّ ذلِکَ لِعِظَمِ خَطَرِکَ عِنْدَهُ، فَشَمَخْتَ بِاَنْفِکَ، وَنَظَرْتَ فِی عِطْفِکَ جَذْلانَ مَسْرُوراً حِینَ رَاَیْتَ الدُّنْیا لَکَ مُسْتَوْثِقَهٌ وَالاُْمُورَ مُتَّسِقَهٌ وَحِینَ صَفا لَکَ مُلْکُنا وَسُلْطانُنا، فَمَهْلاً مَهْلاً، اَنَسِیتَ قَوْلَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ: (وَ لاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا اَنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ خَیْرٌ لاَِّنْفُسِهِمْ اِنَّمَا نُمْلِی لَهُمْ لِیَزْدَادُوا اِثْماً وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِینٌ).

سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے ۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت(علیهم السلام) پر۔ اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا ۔ اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے[مختلف طرح سے] تنگ کر دئیے ہیں اور آلِ رسول کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز هوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟۔ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے ۔ بلکہ ہم نے انہیں اس لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں ۔ اور ان کے لئے خوفناک عذاب معین کیا جا چکا ہے ۔
اس کے بعد فرمایا :
«
اَ مِنَ الْعَدْلِ یَابْنَ الطُّلَقاءِ! تَخْدِیرُکَ حَرائِرَکَ وَ اِمائَکَ، وَ سَوْقُکَ بَناتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّم سَبایا، قَدْ هَتَکْتَ سُتُورَهُنَّ، وَ اَبْدَیْتَ وُجُوهَهُنَّ، تَحْدُو بِهِنَّ الاَْعداءُ مِنْ بَلد اِلى بَلد، یَسْتَشْرِفُهُنَّ اَهْلُ الْمَناهِلِ وَ الْمَناقِلِ، وَ یَتَصَفَّحُ وُجُوهَهُنَّ الْقَرِیبُ وَ الْبَعِیدُ، وَ الدَّنِیُّ وَ الشَّرِیفُ، لَیْسَ مَعَهُنَّ مِنْ رِجالِهِنَّ وَلِیُّ، وَ لا مِنْ حُماتِهِنَّ حَمِیٌّ، وَ کَیْفَ یُرْتَجى مُراقَبَهُ مَنْ لَفَظَ فُوهُ اَکْبادَ الاَْزْکِیاءِ، وَ نَبَتَ لَحْمُهُ مِنْ دِماءِ الشُّهَداءِ، وَ کَیْفَ یَسْتَبْطِاُ فِی بُغْضِنا اَهْلَ الْبَیْتِ مَنْ نَظَرَ اِلَیْنا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَآنِ وَ الاِْحَنِ وَ الاَْضْغانِ، ثُمَّ تَقُولُ غَیْرَ مُتَّاَثِّم وَ لا مُسْتَعْظِم:
لاََهَلُّوا و اسْتَهَلُّوا فَرَحاً *** ثُمَّ قالُوا یا یَزیدُ لا تَشَلْ
مُنْتَحِیاً عَلى ثَنایا اَبِی عَبْدِاللهِ سَیِّدِ شَبابِ اَهْلِ الجَنَّهِ، تَنْکُتُها بِمِخْصَرَتِکَ، وَ کَیْفَ لا تَقُولُ ذلِکَ وَ قَدْ نَکَاْتَ الْقَرْحَهَ، وَ اسْتَاْصَلْتَ الشَّاْفَهَ بِاِراقَتِکَ دِماءَ ذُرّیَهِ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، وَ نُجُومِ الاَْرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِالمُطَّلِبِ، وَ تَهْتِفُ بِاَشْیاخِکَ، زَعَمْتَ اَنَّکَ تُنادِیهِمْ، فَلَتَرِدَنَّ وَ شِیکاً مَوْرِدَهُمْ وَ لَتَوَدَّنَّ اَنَّکَ شَلَلْتَ وَ بَکِمْتَ، وَ لَمْ تَکُنْ قُلْتَ ما قُلْتَ وَ فَعَلْتَ ما فَعَلْتَ
».
اے طلقاءکے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹها رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے ۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسول کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے ۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں ۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ۔آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں ۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے ۔
اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں کے جگر کو چبایا هو ۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت(علیهم اسلام) پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے ۔
اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں ۔
اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی (علیه السلم) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے ۔
اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندانی ستاروں کا خون بها کر ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے ۔تو نے اولاد رسول کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کئے ہیں ۔
تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں ۔
آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے ۔ تو سمجهتا هے که وه تیری آواز سن رهے هیں؟ ! (جلدی نه کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا ۔
اس کے بعد حضرت زینب نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا
!
«اَللّهُمَّ خُذْ بِحَقِّنا، وَ انْتَقِمْ مِنْ ظالِمِنا، وَ اَحْلِلْ غَضَبَکَ بِمَنْ سَفَکَ دِماءَنا، وَ قَتَلَ حُماتَنا، فَوَاللهِ ما فَرَیْتَ اِلاّ جِلْدَکَ، وَلا حَزَزْتَ اِلاّ لَحْمَکَ، وَ لَتَرِدَنَّ عَلى رَسُولِ اللهِ بِما تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْکِ دِماءِ ذُرِّیَّتِهِ، وَ انْتَهَکْتَ مِنْ حُرْمَتِهِ فِی عَتْرَتِهِ وَ لُحْمَتِهِ، حَیْثُ یَجْمَعُ اللهُ شَمْلَهُمْ، وَ یَلُمُّ شَعْثَهُمْ، وَ یَاْخُذُ بِحَقِّهِمْ (وَ لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِى سَبِیلِ اللهِ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ). وَ حَسْبُکَ بِاللهِ حاکِماً، وَ بِمُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّمَ خَصِیماً، وَ بِجَبْرَئِیلَ ظَهِیراً، وَ سَیَعْلَمُ مَنْ سَوّى لَکَ وَ مَکَّنَکَ مِنْ رِقابِ المُسْلِمِینَ، بِئْسَ لِلظّالِمِینَ بَدَلاً، وَ اَیُّکُمْ شَرٌّ مَکاناً، وَ اَضْعَفُ جُنْداً
».
اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے ۔ اے پردگار تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے ۔ اور اے خدا تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا ۔ اے یزید ! (خدا کی قسم ) تو نے جو ظلم کیا ہے یه اپنے ساتھ ظلم کیا ہے ۔ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے ۔ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹا ہے ۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا ۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا ۔
اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا ۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا ۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں ۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں ۔
اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا ، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے ۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے ۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعه تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے ۔
عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا ۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں ۔
اس کے بعد فرمایا :
«
وَ لَئِنْ جَرَّتْ عَلَیَّ الدَّواهِی مُخاطَبَتَکَ، اِنِّی لاََسْتَصْغِرُ قَدْرَکَ، وَ اَسْتَعْظِمُ تَقْرِیعَکَ، وَ اَسْتَکْثِرُ تَوْبِیخَکَ، لکِنَّ العُیُونَ عَبْرى، وَ الصُّدُورَ حَرّى، اَلا فَالْعَجَبُ کُلُّ الْعَجَبِ لِقَتْلِ حِزْبِ اللهِ النُّجَباءِ بِحِزْبِ الشَّیْطانِ الطُّلَقاءِ، فَهذِهِ الاَْیْدِی تَنْطِفُ مِنْ دِمائِنا، وَ الاَفْواهُ تَتَحَلَّبُ مِنْ لُحُومِنا، وَ تِلْکَ الجُثَثُ الطَّواهِرُ الزَّواکِی تَنْتابُها العَواسِلُ، وَ تُعَفِّرُها اُمَّهاتُ الْفَراعِلِ.
وَ لَئِنِ اتَّخَذْتَنا مَغْنَماً لَتَجِدَ بِنا وَ شِیکاً مَغْرَماً حِیْنَ لا تَجِدُ الاّ ما قَدَّمَتْ یَداکَ، وَ ما رَبُّکَ بِظَلاَّم لِلْعَبِیدِ، وَ اِلَى اللهِ الْمُشْتَکى، وَ عَلَیْهِ الْمُعَوَّلُ، فَکِدْ کَیْدَکَ، وَ اسْعَ سَعْیَکَ، وَ ناصِبْ جُهْدَکَ، فَوَاللهِ لا تَمْحُو ذِکْرَنا، وَ لا تُمِیتُ وَحْیَنا، وَ لا تُدْرِکُ اَمَدَنا، وَ لا تَرْحَضُ عَنْکَ عارَها، وَ هَلْ رَایُکَ اِلاّ فَنَدٌ، وَ اَیّامُکَ اِلاّ عَدَدٌ، وَ جَمْعُکَ اِلاّ بَدَدٌ؟ یَوْمَ یُنادِی الْمُنادِی: اَلا لَعْنَهُ اللهِ عَلَى الظّالِمِینَ.
وَ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعالَمِینَ، اَلَّذِی خَتَمَ لاَِوَّلِنا بِالسَّعادَهِ وَ الْمَغْفِرَهِ، وَ لاِخِرِنا بِالشَّهادَهِ وَ الرَّحْمَهِ. وَ نَسْاَلُ اللهَ اَنْ یُکْمِلَ لَهُمُ الثَّوابَ، وَ یُوجِبَ لَهُمُ الْمَزیدَ، وَ یُحْسِنَ عَلَیْنَا الْخِلافَهَ، اِنَّهُ رَحیمٌ وَدُودٌ، وَ حَسْبُنَا اللهُ وَ نِعْمَ الْوَکیلُ
».
اے یزید ! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد [برے انسان] سے ہمکلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں ۔ لیکن یاد رکھ میری نظر میں تو ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفوں کی توہین ہے ۔ میری اس جرائت سخن پر تو مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر و استقامت اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بدسلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔اے یزید ! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں ۔
افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنوا اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کرڈالا ہے ۔ اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں ۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑیئے ان پاکباز شہیدوں کی مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں ۔
اے یزید ! اگر آج تو ہماری مظلومیت پر خوش ہو رہا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رہا ہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بد کرداری کی سزا پائے گا تو اس کا برداشت کرنا تیرے بس سے باہر ہو گا ۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔ ہم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ اور ہر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ہمارا بھروسہ ہے ۔
اے یزید ! تو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تجهے معلوم ہونا چاہیئے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے ۔تو یہ خیال خام اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا ۔تو نے جس گھناونے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بد نما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پائے گا ۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے ۔تری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں ۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے ۔ تیرے پاس اس دن کی حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا ۔ جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لئے خدا کی لعنت ہے ۔
ہم خدائے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ہمارے خاندان کے پہلے فرد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سعادت و مغفرت سے بہرہ مند فرمایا اور امام حسین علیہ السلام کو شہادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا ۔ ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شہیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمائے اور ہم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے، بے شک خدا ہی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مہربان ہے ۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ہمیں کچھ مطلوب نہیں اور ہمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے اس لئے کہ اس سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہے”
یہ خطبہ تاریخ اسلام کا بہت ہی فصیح اور طاقت ور خطبہ ہے ،گویا اس خطبہ میں علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کی بلند و بالا روح اور بے نظیر شجاعت ، ان کی شیر دل بیٹی زینب کبری کی زبان پر جاری ہوگئی ہے جو اسی زبان و لہجہ اور اسی منطق میں تقریر کی ہے

حوالہ جات
ابن طيفور، بلاغات النساء - ص23؛ أحمد زكي صفوت، جمہرۃ خطب العرب في عصور العربيۃ الزاہرۃ، ج 2 ص 126-129، عمر رضا كحالہ، اعلام النساء ج 2 ص 95-97

اجوبة المسائل الدینیة المجلد الثالث عشر، رجب 1389 - الجزء 8. معنی عسلان الفلوات صص 262 تا 264.
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج45 ص135. السيدة مريم نورالدين فضل الله، المرأة في ظلّ الاسلام ج1 ص305 259۔

 
Last edited:

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
نا بکنے والا نا جھکنے والا عالم
جس بندے نے داڑھی اس طرح رنگی ہو کہ بیچ میں سفید ہو اور سائیڈوں سے کالی ، اسکو عالم نہی کہہ سکتے
یہ صرف بولنے والی مشینیں ہیں اپنے پیٹ کے لئے
اسی لئے انکی باتوں کا اثر نہی ہوتا قوم پر

یہ دو نمبر لوگ کیسے نظام مصطفی اپنے پر نافظ کر سکتے ہیں
جاہل قوم کو مزید بیوقوف بنایا ہوا ہے
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
جس بندے نے داڑھی اس طرح رنگی ہو کہ بیچ میں سفید ہو اور سائیڈوں سے کالی ، اسکو عالم نہی کہہ سکتے
یہ صرف بولنے والی مشینیں ہیں اپنے پیٹ کے لئے
اسی لئے انکی باتوں کا اثر نہی ہوتا قوم پر


یہ دو نمبر لوگ کیسے نظام مصطفی اپنے پر نافظ کر سکتے ہیں
جاہل قوم کو مزید بیوقوف بنایا ہوا ہے
عالم ہونے کے لیے یک رنگی داڑھی ہونی چاہے
ایک نمبر لوگ نظام مصطفی نافظ کرکے دیکھائیں تو بات بنے. باتیں بنانے سے کچھ نہیں ہوتا
عالم جی
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
عالم ہونے کے لیے یک رنگی داڑھی ہونی چاہے
ایک نمبر لوگ نظام مصطفی نافظ کرکے دیکھائیں تو بات بنے. باتیں بنانے سے کچھ نہیں ہوتا
عالم جی
دو نمبر عالم کے لئے دو رنگی ....خود سے رنگی ہوئی داڑھی کافی ہے

تمہارے جیسے جاہل ان لوگوں کی تقریریں سن کر ہی اسکو دین سمجھتے ہیں
نہ یہ با عمل نہ ان کے واہ واہ کرنے والے با عمل
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:اگر دنیا میں میرے لیے کوئی پر امن جگہ نہ بھی ہو پھر بھی یزید کی بیعت نہیں کرونگا،
‘‘
مِثلی لا يُبایعُ مثلَہ’’ یعنی مجھ جیسا شخص اُس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔
یعنی کبھی بھی حق،باطل کی بیعت نہیں کرسکتا۔


حق و باطل کے اوضاع کو سامنے رکھتے ہوئے اور اظہار فرمایا:
اَلا تَرَونَ الی الحق لا يُعمل بہ والی الباطل لا یتناھی عنہ
کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے روکا نہیں جارہا۔
(سیرہ ٔ امام حسین علیہ السلام ص۱۳۰)
یعنی حق کی مظلومیت و محرومیت دیکھنا حجت حق کے لیے قابل برداشت نہیں تھا۔
ایک مقام پر قیام کا ہدف اس انداز میں بیان فرمایا:
اے لوگو میں نے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے:
جو شخص بھی ظالم و ستمگر سلطان و حاکم کو دیکھے جو خداوند کے حرام قراردیے ہوئے کو حلال کررہا ہو(اور حلالِ خدا کو حرام کررہا ہو)،خدا کے وعدے کو توڑ رہا ہو،پیغمبرِ خدا کی سنت،سیرت اور قانون کی مخالفت کررہا ہو،خدا کے بندوں کے درمیان گناہ،معصیت اور دشمنی و عداوت کے راستے پر چل رہا ہو اور یہ سب کچھ دیکھنے والا شخص ایسے ستمگر سلطان و حاکم کے سامنے اپنے قول یا فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے اور خاموش رہے،خداوند پر لازم ہے کہ ایسے شخص کو آتش جہنم میں وہیں پر رکھے جہاں اُس ستمگر حاکم کو رکھے گا
(سیرۂ امام حسین علیہ السلام ص ۱۳۰، ۱۳۱)
حضرت امام حسین کی قربانی اصل میں قوم کا ٹسٹ تھا کہ جس قوم کو رسول نے بنایا تھا اور پھر اسکو الله نے دنیا میں کامیابی دی اس میں انسانیت کتنی تھی
اور اصل جانثار رسول کتنے تھے اور دو نمبر کتنے تھے
اچھے لوگ ہمیشہ کم ہی ہوتے ہیں ، دنیا کے یار تو بہت ہوتے ہیں
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
دو نمبر عالم کے لئے دو رنگی ....خود سے رنگی ہوئی داڑھی کافی ہے

تمہارے جیسے جاہل ان لوگوں کی تقریریں سن کر ہی اسکو دین سمجھتے ہیں
نہ یہ با عمل نہ ان کے واہ واہ کرنے والے با عمل
ایک نمبر دو نمبر کا اتنا آسان فارمولہ ہے کسی کو پتہ ہی نہیں تھا

جناب گھٹنوں کے آپریشن کا تھیسس ختم ہو جائے تو دین سمجھانے کے لیے تقاریر کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیں
باتیں بنانے پر ہی عمل کریں گے کبھی عمل کا مظاھرہ بھی ہو جائے
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
ایک نمبر دو نمبر کا اتنا آسان فارمولہ ہے کسی کو پتہ ہی نہیں تھا

جناب گھٹنوں کے آپریشن کا تھیسس ختم ہو جائے تو دین سمجھانے کے لیے تقاریر کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیں
باتیں بنانے پر ہی عمل کریں گے کبھی عمل کا مظاھرہ بھی ہو جائے

نظام مصطفی تو نافظ ہو جاۓ گا ، نظام اسراروی نافظ کوئی نافظ نہی کر سکتا
ہر سچائی اور انصاف اصل میں نظام مصطفی ہے ، لیکن فساد نظام اسراروی ہے
آج بھی یزید زندہ ہیں اپنے بیٹوں کی شادی میں فساد کرنے والے فرعون خود کو مسلمان کہتے تھے
 

Humi

Prime Minister (20k+ posts)
What is the point of remembering and mourning this for people who keep supporting corrupt and incompetent people or blindly support everything a politician does just because they support their party?
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
نظام مصطفی تو نافظ ہو جاۓ گا ، نظام اسراروی نافظ کوئی نافظ نہی کر سکتا
ہر سچائی اور انصاف اصل میں نظام مصطفی ہے ، لیکن فساد نظام اسراروی ہے
آج بھی یزید زندہ ہیں اپنے بیٹوں کی شادی میں فساد کرنے والے فرعون خود کو مسلمان کہتے تھے
تبدیلی آ گئی، جمہوریت چاہنے والے نظام مصطفی کی باتیں کرنے لگے
نظام مصطفی وہی ہے جو قرآن مجید درج اور سنت رسول صللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے
فساد کرنے والے خود کا عاشق کہتے تھے
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
What is the point of remembering and mourning this for people who keep supporting corrupt and incompetent people or blindly support everything a politician does just because they support their party?
جب کوئی ملک میں سکوں کی بات کرتا ہے تو ان جاہلوں کو سود یاد آ جاتا
ویسے نواز دور میں اس کتے کو سود نظر نہی آیا تھا
نہ اسکو ضیاء دور میں سود نظر آیا تھا
دین ملا فساد فی سبیل الله - قصہ مختصر
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
تبدیلی آ گئی، جمہوریت چاہنے والے نظام مصطفی کی باتیں کرنے لگے
نظام مصطفی وہی ہے جو قرآن مجید درج اور سنت رسول صللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے
فساد کرنے والے خود کا عاشق کہتے تھے
پھر تو اقبال نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ دین ملا فساد فی سبیل الله