US embassy spying in Norway, Oslo demands answers

digitalzygot

Senator (1k+ posts)
OSLO: Norway has demanded an explanation from the US embassy in Oslo after a television documentary said it had conducted illegal surveillance of hundreds of Norwegian residents for over the past decade.

According to the TV2 News channel, the embassy had employed between 15 and 20 people, including former high-ranking Norwegian police officers, to monitor Norwegians in a bid to ward off attacks on US interests in Norway.

The surveillance had been going on since 2000, said the report.

Embassy-hired employees had photographed people taking part in demonstrations and added their names and personal data to a special computer database, SIMAS (Security Incident Management Analysis System), TV2 reported.

If the report is correct, the embassy conduct would constitute a violation of Norwegian laws.

The Norwegian foreign ministry said it had held a meeting with the US embassy Wednesday to try to find out what had taken place.

The ministry had asked for information on whether Norway had ever been informed about the surveillance programme and what it involved, ministry spokeswoman Marte Lerberg Kopstad said in a statement.

"The meeting did not clarify these matters much. It is therefore important that we now get all the facts on the table," she added.

Speaking to reporters, Foreign Minister Jonas Gahr Stoere meanwhile refused to speculate on the accuracy of the TV2 report but said "if Norwegian laws were broken it is serious."

In Washington, State Department spokesman P.J. Crowley told TV2 Norwegian authorities had been informed in advance about the surveillance activities.

Officials in the Scandinavian country have meanwhile insisted they knew nothing about what was going on.

The head of the Norwegian Data Inspectorate, which is tasked with protecting personal data and ensuring against violations of the right to privacy, said he believed the embassy's reported actions were illegal.

"We see this as a violation of the Personal Data Act," Bjoern Erik Thon told TV2.

"There are rules regarding what kind of personal information you can collect in Norway and how it should be stored and how long it can be stored. And this set of rules has been completely disregarded in this case," he added.
 
Fawad Digital Outreach Team US State Department



بعض تجزيہ نگاروں کے ليے يہ بہت سہل ہے کہ وہ کسی بھی اخباری رپورٹ کا غيرجانبدارانہ اور تعميری تجزيہ کيے بغير اسے امريکہ پر تنقید کا ايک اور موقع سمجھنے لگتے ہيں۔


اس ميں کوئ شک نہيں کہ دنيا کے دیگر ممالک ميں موجود امريکی سفارت خانوں کی طرح سٹاک ہوم ميں بھی امريکی سفارت خانہ ايک ايسے پروگرام پر عمل پيرا ہے جس کا مقصد سفارت خانے میں کام کرنے والے ملازمين کی حفاظت کو يقينی بنانے کے لیے عمارت کے گردونواح ميں کسی بھی مشتبہ کاروائ پر نظر رکھنا ہے۔


يہ بات قابل افسوس ہے کہ ناروے ميں غلط رپورٹنگ کے سبب ايک ايسی خبر کو جلا ملی جس سے ہمارے دوستوں ميں تشويش کی لہر دوڑ گئ۔ سفارت خانے کے سرويلينس ڈی ٹيکشن يونٹ کا وہ کام ہے جو اس کے نام سے عياں ہے يعنی بيرونی ممالک ميں امريکی پوسٹس پر حفاظت کے پيش نظر کڑی نگاہ رکھنا۔ يہ کوئ خفيہ پروگرام نہيں ہے اور نہ ہی يہ کوئ اينٹيلی جينس سے متعلق کوئ منصوبہ ہے۔ اس پروگرام کی بنيادی ضرورت اور خيال اس وقت سامنا آيا تھا جب 1998 ميں نيروبی اور دارالاسلام ميں سفارت خانوں پر دہشت گردی کے تباہ کن نتائج سامنے آۓ تھے۔ ان واقعات ميں دہشت گردوں نے امريکی سفارت خانے پر حملے سے پہلے نگرانی کا عمل جاری رکھا ہوا تھا۔ بدقسمتی سے اس نگرانی کے حوالے سے کوئ معلومات حکام کے سامنے نہيں آئ۔ ان حملوں کے نتيجے ميں سينکڑوں بے گناہ شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بيٹھے۔ يورپ ميں پيش آنے والے بے شمار واقعات سے يہ واضح ہو گيا ہے کہ کوئ بھی ملک دہشت گردی کے واقعات اور خطرات سے محفوظ نہيں ہے۔ امريکی حکومت سويڈن کے قوانين کا مکمل احترام کرتی ہے اور جسٹس منسٹر کی جانب سے پريس کانفرنس کے ريمارکس کا خير مقدم کرتی ہے۔ امريکی حکومت سويڈن کی حکومت کی جانب سے اس پروگرام کے حوالے سے کسی بھی سوال کا جواب دينے کے ليے تيار ہے۔


يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ سفارت خانے میں عملے اور ديگر افراد کی سيکورٹی کو يقينی بنانے کا مطلب يہ ہے کہ امريکيوں سے زيادہ وہاں کے مقامی افراد کی حفاظت کا انتظام ہو جاتا ہے۔ کينيا ميں امريکی سفارت خانے پر حملے کے دوران جو سينکڑوں افراد ہلاک ہوۓ تھے ان ميں سے اکثر وہاں کے مقامی لوگ تھے جو بدقسمتی سے اس علاقے ميں موجود تھے جو کہ آبادی کے لحاظ سے خاصا گنجان علاقہ تھا۔


اسی طرح سال 2008 ميں اسلام آباد ميں جب ڈنمارک کے سفارت خانے پر حملہ کيا گيا تو اس واقعے ميں 22 افراد ہلاک ہوۓ تھے جو سب کے سب مقامی پاکستانی شہری تھے۔


ہم مقامی قوانين کا احترام کرتے ہيں اور اس ضمن ميں حکومتوں کو جو بھی خدشات ہيں ان کے جواب ہم حکومتی چينلز کے ذريعے ديں گے۔


فواد ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ




 

gazoomartian

Prime Minister (20k+ posts)
Fawad Digital Outreach Team US State Department



بعض تجزيہ نگاروں کے ليے يہ بہت سہل ہے کہ وہ کسی بھی اخباری رپورٹ کا غيرجانبدارانہ اور تعميری تجزيہ کيے بغير اسے امريکہ پر تنقید کا ايک اور موقع سمجھنے لگتے ہيں۔


اس ميں کوئ شک نہيں کہ دنيا کے دیگر ممالک ميں موجود امريکی سفارت خانوں کی طرح سٹاک ہوم ميں بھی امريکی سفارت خانہ ايک ايسے پروگرام پر عمل پيرا ہے جس کا مقصد سفارت خانے میں کام کرنے والے ملازمين کی حفاظت کو يقينی بنانے کے لیے عمارت کے گردونواح ميں کسی بھی مشتبہ کاروائ پر نظر رکھنا ہے۔


يہ بات قابل افسوس ہے کہ ناروے ميں غلط رپورٹنگ کے سبب ايک ايسی خبر کو جلا ملی جس سے ہمارے دوستوں ميں تشويش کی لہر دوڑ گئ۔ سفارت خانے کے سرويلينس ڈی ٹيکشن يونٹ کا وہ کام ہے جو اس کے نام سے عياں ہے يعنی بيرونی ممالک ميں امريکی پوسٹس پر حفاظت کے پيش نظر کڑی نگاہ رکھنا۔ يہ کوئ خفيہ پروگرام نہيں ہے اور نہ ہی يہ کوئ اينٹيلی جينس سے متعلق کوئ منصوبہ ہے۔ اس پروگرام کی بنيادی ضرورت اور خيال اس وقت سامنا آيا تھا جب 1998 ميں نيروبی اور دارالاسلام ميں سفارت خانوں پر دہشت گردی کے تباہ کن نتائج سامنے آۓ تھے۔ ان واقعات ميں دہشت گردوں نے امريکی سفارت خانے پر حملے سے پہلے نگرانی کا عمل جاری رکھا ہوا تھا۔ بدقسمتی سے اس نگرانی کے حوالے سے کوئ معلومات حکام کے سامنے نہيں آئ۔ ان حملوں کے نتيجے ميں سينکڑوں بے گناہ شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بيٹھے۔ يورپ ميں پيش آنے والے بے شمار واقعات سے يہ واضح ہو گيا ہے کہ کوئ بھی ملک دہشت گردی کے واقعات اور خطرات سے محفوظ نہيں ہے۔ امريکی حکومت سويڈن کے قوانين کا مکمل احترام کرتی ہے اور جسٹس منسٹر کی جانب سے پريس کانفرنس کے ريمارکس کا خير مقدم کرتی ہے۔ امريکی حکومت سويڈن کی حکومت کی جانب سے اس پروگرام کے حوالے سے کسی بھی سوال کا جواب دينے کے ليے تيار ہے۔


يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ سفارت خانے میں عملے اور ديگر افراد کی سيکورٹی کو يقينی بنانے کا مطلب يہ ہے کہ امريکيوں سے زيادہ وہاں کے مقامی افراد کی حفاظت کا انتظام ہو جاتا ہے۔ کينيا ميں امريکی سفارت خانے پر حملے کے دوران جو سينکڑوں افراد ہلاک ہوۓ تھے ان ميں سے اکثر وہاں کے مقامی لوگ تھے جو بدقسمتی سے اس علاقے ميں موجود تھے جو کہ آبادی کے لحاظ سے خاصا گنجان علاقہ تھا۔


اسی طرح سال 2008 ميں اسلام آباد ميں جب ڈنمارک کے سفارت خانے پر حملہ کيا گيا تو اس واقعے ميں 22 افراد ہلاک ہوۓ تھے جو سب کے سب مقامی پاکستانی شہری تھے۔


ہم مقامی قوانين کا احترام کرتے ہيں اور اس ضمن ميں حکومتوں کو جو بھی خدشات ہيں ان کے جواب ہم حکومتی چينلز کے ذريعے ديں گے۔


فواد ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ





Why do things that gives people reasons to hate you? Dump Israel. They are your enemy, and NOT friend

No kidding eh? We KNOW what you mean. :lol: