بے موسمی مینڈک جانے کن کونوں کھدروں سے نکل کر صدارتی نظام کی ٹر ٹر کیے جا رہے ہیں اور وہ بھی اسلامی پخ لگا کر۔ عمران خان آئے تو تھے غریبوں اور امیروں کے دو پاکستانوں کی خلیج مٹانے، لیکن آج کل وہ بھی فیلڈ مارشل ایوب خان کے ’’عشرہ ترقی‘‘ کے گُن گاتے نہیں تھکتے اور وہ بھی ریاستِ مدینہ کے اسلافی خوابوں کے ساتھ۔ ایسی فکری دوئی پہ کوئی سر پیٹے نہ تو کیا کرے۔ آخر فیلڈ مارشل کے آمرانہ اور انتہائی نابرابری کے دست نگر ’’معاشی ترقی‘‘ کے پٹے پٹائے ماڈل میں ایسا کیا تھا، جس کی صدارتی فیضیابیوں کے لیے اتنی تڑپ دکھائی جا رہی ہے۔
بے خبری اور ہٹ دھرمی پہ اصرار کرنے والوں کی تشفی کے لیے ہم اس ماڈل کے دونوں ستونوں یعنی صدارتی (بونا پارٹسٹ) اور ’’ترقی‘‘ (معکوس) کو الگ الگ کرکے ذرا دیکھ لیتے ہیں کہ بے چین گمراہی کو صبرِ جمیل ملے (جو مشکل ہے)۔ پہلے صدارتی نظام جو شروع میں گورنر جنرلز کی دہائی اور پھر مختلف وقفوں سے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز و صدور کی صورت میں تقریباً 45 برس چلا اور ہر بار ایک تباہی سے شروع ہو کر دوسری تباہی پہ ختم ہوا۔ خیر سے دو گورنر جنرلز کے ہاتھوں (غلام محمد اور اسکندر مرزا) چھ وزرائے اعظم گھر سدھارے۔ جب 1956 کا جمہوری و پارلیمانی آئین منظور ہو چکا اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے
عام انتخابات کو اس لیے ملتوی کر دیا گیا کہ خدشہ تھا کہ بنگالی جمہوریت پسند یا پھر وہ مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کے قوم پرستوں کے ساتھ مل کر ایک وسیع البنیاد حکومت تشکیل دے دیں گے۔ صدر اسکندر مرزا نے 1958 میں جنرل ایوب (جو محمد علی بوگرہ کی حکومت کے وقت سے وزیرِ دفاع چلے آ رہے تھے) کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ لیکن چند روز بعد ہی جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو چلتا کیا اور پہلی فوجی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ ایوب خان کے مارشل لا سے کنٹرولڈ ’’ڈیموکریسی‘‘ کے سفر نے وہ نسخہ فراہم کیا جو وقفے وقفے سے بعد میں آنے والے طالع آزمائوں کے کام آیا۔ ایوب خان ایک نہایت مرکزیت پسندانہ نظام کے داعی تھے،
جن میں صوبوں، شراکتی وفاق، براہِ راست انتخابات یا بالغ رائے دہی، آزاد میڈیا، خود مختار عدلیہ کی گنجائش نہیں تھی، وہ مغربی پاکستان میں ون یونٹ کے حامی اور مشرقی پاکستان کی اکثریت کے خلاف تھے
(Parity)
۔ ایوب خان نے بی ڈی سسٹم متعارف کرایا جس کے 80 ہزار اراکین پر مشتمل انتخابی کالج تھا جس نے مقامی حکومتوں، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور طاقت کے سرچشمے صدرِ پاکستان کا انتخاب کرنا تھا۔ دونوں بازوئوں میں جو چار چار ہزار مقامی نمائندے منتخب کیے گئے اُن میں آدھے نامزد کردہ تھے۔ ایک یکطرفہ ریفرنڈم میں ان 80 ہزار بی ڈی ممبروں نے واحد اُمیدوار ایوب خان کا انتخاب 15 فروری 1960 کو اندھیری اکثریت سے کر لیا۔ ایوب خان نے اپنے انتخاب کے دو سال بعد 1962 میں مارشل لا اُٹھایا۔ اس سب کے لیے بھی اُنہیں 750 سے زائد سیاستدانوں کو کرپشن کے الزام میں پھنسانا پڑا، چوٹی کے تمام سیاستدانوں کو ایبڈو (
EBDO)
کے تحت سیاست سے نااہل، 1662 افسروں کو فارغ، عدلیہ کو بے اختیار اور میڈیا کو پابند کرنا پڑا۔ پھر بھی اُنہیں اپنے پیشرو گورنر جنرل کی طرز پر بنائی ٹوڈیوں کی ریپبلکن پارٹی کی طرز پر کنونشن مسلم لیگ بنا کر ایک جعلی سیاسی جماعت کا ڈھونگ رچانا پڑا۔ یہی کام ان کے جانشینوں نے جونیجو لیگ اور قائداعظم لیگ بنا کر کیا۔
یہ صدارتی نظام انتہائی آمرانہ ہونے کے باوجود اتنا بوسیدہ تھا کہ جب محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کی آمریت کو 1964 کے بالواسطہ صدارتی انتخابات میں چیلنج کیا تو ملک کے دونوں حصوں میں مادرِ ملت کی فتح کے ڈنکے بج گئے، لیکن دھونس دھاندلی سے محترمہ کی فتح کو شکست میں بدل دیا گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایوب آمریت کا زوال شروع ہو گیا اور اُسے آپریشن جبرالٹر کے ذریعے کشمیر کو آزاد کرانے کے ملٹری ایڈونچر کا سہارا لینا پڑا جو 1965 کی جنگ کی صورت میں برآمد ہوا۔ اب آمریت اپنے آخری سانسوں پہ تھی کہ 1968 کے عظیم عوامی اُبھار کے سامنے نہ ٹھہر سکی۔ ایوب خان کو حقِ بالغ رائے دہی، پارلیمانی جمہوریت، شراکتی وفاق اور وَن یونٹ کے خاتمے کے عوامی مطالبات کو ماننا پڑا۔ لیکن ڈکٹیٹر نے جاتے جاتے اپنا ہی آئین توڑ دیا اور اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر کے خیر سے گھر سدھارا۔
اور پھر نتیجہ یحییٰ خان کے ہاتھوں پاکستان کے دو لخت ہونے پر برآمد ہوا جس کی سیاسی و معاشی بنیاد ایوب خان رکھ گیا تھا۔اب آتے ہیں ’’عشرہ ترقی‘‘ کے ایوبی ماڈل کی طرف۔ اِس کے مصنف مکتبِ ہارورڈ کے گستاف ایف پاپانیک تھے۔ اُن کا نظریہ ’’لالچ کے سماجی افادہ‘‘ پر مبنی تھا جس کی بنیاد ’’سماجی و عملی نابرابری‘‘ پہ رکھی گئی تھی۔ یعنی ہر طرح سے ’’اوپر سے‘‘ (ریاستی سرپرستی میں) اور ’’باہر سے‘‘ (بیرونی امداد/ قرضہ) سرمایہ چند ہاتھوں میں مرکوز کیا جائے۔ ایک گماشتہ اجارہ دار سرمایہ دار طبقہ پیدا کیا جائے جس کے طفیل چند قطرے
(Trickle Down Effect)
غریبوں کو بیگار کرنے کے لیے میسر ہوں۔ اس سماجی و طبقاتی تفریق کے ساتھ ساتھ تمام ذرائع اور ’’ترقی‘‘ کو مفصل (جس میں مشرقی پاکستان، بلوچستان، اندرونِ سندھ اور پختون خوا شامل تھے) کے اندرونی نوآبادیاتی استحصال کے ذریعے کراچی اور وسطی پنجاب کے دو مراکز کو بڑھاوا دیا جائے۔ نتیجتاً ایک انتہائی خوفناک طبقاتی و علاقائی نابرابری کی بنیاد پر اجارہ داریاں مسلط کی گئیں۔ سارا زور درآمدی متبادل صنعت پر تھا، نہ کہ مضبوط صنعتی بنیاد اور برآمدی صلاحیت پر۔ نتیجتاً 76 فیصد صنعت 43 گھرانوں، 91.6 فیصد بنک ڈیپازٹ سات خاندانوں، تمام مالیاتی ادارے 43 خاندانوں کے پاس چلے گئے جو پبلک سیکٹر کارپوریشنوں پہ بھی حاوی تھے جیسے
PICIC
۔ بونس وائوچر سکیم، پرمٹ راج اور دہری قدرِ تبادلہ (آدھی مشرقی پاکستان کے لیے) اس کے علاوہ تھے۔ اس کی بنیاد دست نگری اور قرض پہ رکھی گئی
جس کی ’’سہولت‘‘ امریکہ کا ’’اتحادیوں میں زیادہ جڑا ہوا اتحادی‘‘ بننے سے فراہم کی گئی اور پاکستان امریکہ کی لے پالک جدید نوآبادی بن گیا اور ہم قرض کے شکنجے اور مستقل خسارے کے گورکھ دھندے میں پھنس گئے اور آج تک نکلنے کو نہیں۔ پاکستان کا قرضہ 65-70 میں 2701 ارب ڈالرز، فوجی امداد 65-66 میں 1.5 ارب ڈالرز اور فوجی اخراجات جی ڈی پی کا 9.6 فیصد ہو گئے۔ اسی طرح زراعت میں سبز انقلاب کی جو حکمتِ عملی اختیار کی گئی اس کا استفادہ صرف بڑے زمینداروں اور سرمایہ دار بڑے کاشتکاروں کیلئے تھا۔ لہٰذا ایک فیصد سے بھی کم بڑے زمینداروں کا رقبہ کل کاشت رقبے کا 65 فیصد اور 80 فیصد مشینی کاشت 100 ایکڑ سے اوپر کے زمینداروں کے پاس اکٹھی ہو گئی، اور کروڑوں کسان و دیہاتی غریب بے یار و مددگار ہو گئے۔
تربیلہ اور منگلا ڈیم بنے بھی تو تین دریا بھارت کو بیچ کر۔ یہ درست ہے کہ دوسرے پنج سالہ منصوبے میں ’’ترقی‘‘ کا اُبال آیا، جو تیسرے پنج سالہ منصوبے 1965-70 میں جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اور جس پائیداری کا دعویٰ کیا گیا وہ 20 سالہ منصوبہ تو کجا آج تک حاصل نہ ہوئی۔ ’’100 روپے ہے من آٹا‘‘ پہ شور مچانے والے حبیب جالب آج کیا کہتے جب آٹے دال کا بھائو نئی بلندیوں کے ریکارڈ توڑ رہا ہے اور عمران خان ایوب کی ’’ترقی‘‘ کے گُن گا رہے ہیں اور اُن کے نوجوان صدارت صدارت کی ہاہاکار مچائے جاتے ہیں۔ اس المیے پہ ہم اُنہیں مبارکباد دینے سے رہے۔
بے خبری اور ہٹ دھرمی پہ اصرار کرنے والوں کی تشفی کے لیے ہم اس ماڈل کے دونوں ستونوں یعنی صدارتی (بونا پارٹسٹ) اور ’’ترقی‘‘ (معکوس) کو الگ الگ کرکے ذرا دیکھ لیتے ہیں کہ بے چین گمراہی کو صبرِ جمیل ملے (جو مشکل ہے)۔ پہلے صدارتی نظام جو شروع میں گورنر جنرلز کی دہائی اور پھر مختلف وقفوں سے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز و صدور کی صورت میں تقریباً 45 برس چلا اور ہر بار ایک تباہی سے شروع ہو کر دوسری تباہی پہ ختم ہوا۔ خیر سے دو گورنر جنرلز کے ہاتھوں (غلام محمد اور اسکندر مرزا) چھ وزرائے اعظم گھر سدھارے۔ جب 1956 کا جمہوری و پارلیمانی آئین منظور ہو چکا اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے
عام انتخابات کو اس لیے ملتوی کر دیا گیا کہ خدشہ تھا کہ بنگالی جمہوریت پسند یا پھر وہ مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کے قوم پرستوں کے ساتھ مل کر ایک وسیع البنیاد حکومت تشکیل دے دیں گے۔ صدر اسکندر مرزا نے 1958 میں جنرل ایوب (جو محمد علی بوگرہ کی حکومت کے وقت سے وزیرِ دفاع چلے آ رہے تھے) کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ لیکن چند روز بعد ہی جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو چلتا کیا اور پہلی فوجی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ ایوب خان کے مارشل لا سے کنٹرولڈ ’’ڈیموکریسی‘‘ کے سفر نے وہ نسخہ فراہم کیا جو وقفے وقفے سے بعد میں آنے والے طالع آزمائوں کے کام آیا۔ ایوب خان ایک نہایت مرکزیت پسندانہ نظام کے داعی تھے،
جن میں صوبوں، شراکتی وفاق، براہِ راست انتخابات یا بالغ رائے دہی، آزاد میڈیا، خود مختار عدلیہ کی گنجائش نہیں تھی، وہ مغربی پاکستان میں ون یونٹ کے حامی اور مشرقی پاکستان کی اکثریت کے خلاف تھے
(Parity)
۔ ایوب خان نے بی ڈی سسٹم متعارف کرایا جس کے 80 ہزار اراکین پر مشتمل انتخابی کالج تھا جس نے مقامی حکومتوں، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور طاقت کے سرچشمے صدرِ پاکستان کا انتخاب کرنا تھا۔ دونوں بازوئوں میں جو چار چار ہزار مقامی نمائندے منتخب کیے گئے اُن میں آدھے نامزد کردہ تھے۔ ایک یکطرفہ ریفرنڈم میں ان 80 ہزار بی ڈی ممبروں نے واحد اُمیدوار ایوب خان کا انتخاب 15 فروری 1960 کو اندھیری اکثریت سے کر لیا۔ ایوب خان نے اپنے انتخاب کے دو سال بعد 1962 میں مارشل لا اُٹھایا۔ اس سب کے لیے بھی اُنہیں 750 سے زائد سیاستدانوں کو کرپشن کے الزام میں پھنسانا پڑا، چوٹی کے تمام سیاستدانوں کو ایبڈو (
EBDO)
کے تحت سیاست سے نااہل، 1662 افسروں کو فارغ، عدلیہ کو بے اختیار اور میڈیا کو پابند کرنا پڑا۔ پھر بھی اُنہیں اپنے پیشرو گورنر جنرل کی طرز پر بنائی ٹوڈیوں کی ریپبلکن پارٹی کی طرز پر کنونشن مسلم لیگ بنا کر ایک جعلی سیاسی جماعت کا ڈھونگ رچانا پڑا۔ یہی کام ان کے جانشینوں نے جونیجو لیگ اور قائداعظم لیگ بنا کر کیا۔
یہ صدارتی نظام انتہائی آمرانہ ہونے کے باوجود اتنا بوسیدہ تھا کہ جب محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کی آمریت کو 1964 کے بالواسطہ صدارتی انتخابات میں چیلنج کیا تو ملک کے دونوں حصوں میں مادرِ ملت کی فتح کے ڈنکے بج گئے، لیکن دھونس دھاندلی سے محترمہ کی فتح کو شکست میں بدل دیا گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایوب آمریت کا زوال شروع ہو گیا اور اُسے آپریشن جبرالٹر کے ذریعے کشمیر کو آزاد کرانے کے ملٹری ایڈونچر کا سہارا لینا پڑا جو 1965 کی جنگ کی صورت میں برآمد ہوا۔ اب آمریت اپنے آخری سانسوں پہ تھی کہ 1968 کے عظیم عوامی اُبھار کے سامنے نہ ٹھہر سکی۔ ایوب خان کو حقِ بالغ رائے دہی، پارلیمانی جمہوریت، شراکتی وفاق اور وَن یونٹ کے خاتمے کے عوامی مطالبات کو ماننا پڑا۔ لیکن ڈکٹیٹر نے جاتے جاتے اپنا ہی آئین توڑ دیا اور اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر کے خیر سے گھر سدھارا۔
اور پھر نتیجہ یحییٰ خان کے ہاتھوں پاکستان کے دو لخت ہونے پر برآمد ہوا جس کی سیاسی و معاشی بنیاد ایوب خان رکھ گیا تھا۔اب آتے ہیں ’’عشرہ ترقی‘‘ کے ایوبی ماڈل کی طرف۔ اِس کے مصنف مکتبِ ہارورڈ کے گستاف ایف پاپانیک تھے۔ اُن کا نظریہ ’’لالچ کے سماجی افادہ‘‘ پر مبنی تھا جس کی بنیاد ’’سماجی و عملی نابرابری‘‘ پہ رکھی گئی تھی۔ یعنی ہر طرح سے ’’اوپر سے‘‘ (ریاستی سرپرستی میں) اور ’’باہر سے‘‘ (بیرونی امداد/ قرضہ) سرمایہ چند ہاتھوں میں مرکوز کیا جائے۔ ایک گماشتہ اجارہ دار سرمایہ دار طبقہ پیدا کیا جائے جس کے طفیل چند قطرے
(Trickle Down Effect)
غریبوں کو بیگار کرنے کے لیے میسر ہوں۔ اس سماجی و طبقاتی تفریق کے ساتھ ساتھ تمام ذرائع اور ’’ترقی‘‘ کو مفصل (جس میں مشرقی پاکستان، بلوچستان، اندرونِ سندھ اور پختون خوا شامل تھے) کے اندرونی نوآبادیاتی استحصال کے ذریعے کراچی اور وسطی پنجاب کے دو مراکز کو بڑھاوا دیا جائے۔ نتیجتاً ایک انتہائی خوفناک طبقاتی و علاقائی نابرابری کی بنیاد پر اجارہ داریاں مسلط کی گئیں۔ سارا زور درآمدی متبادل صنعت پر تھا، نہ کہ مضبوط صنعتی بنیاد اور برآمدی صلاحیت پر۔ نتیجتاً 76 فیصد صنعت 43 گھرانوں، 91.6 فیصد بنک ڈیپازٹ سات خاندانوں، تمام مالیاتی ادارے 43 خاندانوں کے پاس چلے گئے جو پبلک سیکٹر کارپوریشنوں پہ بھی حاوی تھے جیسے
PICIC
۔ بونس وائوچر سکیم، پرمٹ راج اور دہری قدرِ تبادلہ (آدھی مشرقی پاکستان کے لیے) اس کے علاوہ تھے۔ اس کی بنیاد دست نگری اور قرض پہ رکھی گئی
جس کی ’’سہولت‘‘ امریکہ کا ’’اتحادیوں میں زیادہ جڑا ہوا اتحادی‘‘ بننے سے فراہم کی گئی اور پاکستان امریکہ کی لے پالک جدید نوآبادی بن گیا اور ہم قرض کے شکنجے اور مستقل خسارے کے گورکھ دھندے میں پھنس گئے اور آج تک نکلنے کو نہیں۔ پاکستان کا قرضہ 65-70 میں 2701 ارب ڈالرز، فوجی امداد 65-66 میں 1.5 ارب ڈالرز اور فوجی اخراجات جی ڈی پی کا 9.6 فیصد ہو گئے۔ اسی طرح زراعت میں سبز انقلاب کی جو حکمتِ عملی اختیار کی گئی اس کا استفادہ صرف بڑے زمینداروں اور سرمایہ دار بڑے کاشتکاروں کیلئے تھا۔ لہٰذا ایک فیصد سے بھی کم بڑے زمینداروں کا رقبہ کل کاشت رقبے کا 65 فیصد اور 80 فیصد مشینی کاشت 100 ایکڑ سے اوپر کے زمینداروں کے پاس اکٹھی ہو گئی، اور کروڑوں کسان و دیہاتی غریب بے یار و مددگار ہو گئے۔
تربیلہ اور منگلا ڈیم بنے بھی تو تین دریا بھارت کو بیچ کر۔ یہ درست ہے کہ دوسرے پنج سالہ منصوبے میں ’’ترقی‘‘ کا اُبال آیا، جو تیسرے پنج سالہ منصوبے 1965-70 میں جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اور جس پائیداری کا دعویٰ کیا گیا وہ 20 سالہ منصوبہ تو کجا آج تک حاصل نہ ہوئی۔ ’’100 روپے ہے من آٹا‘‘ پہ شور مچانے والے حبیب جالب آج کیا کہتے جب آٹے دال کا بھائو نئی بلندیوں کے ریکارڈ توڑ رہا ہے اور عمران خان ایوب کی ’’ترقی‘‘ کے گُن گا رہے ہیں اور اُن کے نوجوان صدارت صدارت کی ہاہاکار مچائے جاتے ہیں۔ اس المیے پہ ہم اُنہیں مبارکباد دینے سے رہے۔