اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سیالکوٹ میں 2 بھائیوں کے قتل میں ملوث 7 ملزمان کی سزائے موت 10سال قید میں تبدیل کر دی، چیف جسٹس نے دوران سماعت ازخودنوٹس کے نقصان گنوائے اور کہا ملزمان کو چھوردیں گے تو لوگوں کو تشدد کا لائسنس مل جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سیالکوٹ میں 2 بھائیوں کے قتل میں ملوث ملزمان کی سزا پراپیل پر سماعت کی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سماعت کے دوران ازخود نوٹس پر اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کیس میں 2 کہانیاں بنائی گئی ہیں، ایک ایف آئی آرموقع پر درج کی گئی جس کے مطابق 4 افراد زخمی ہوئے، 4 افراد میں سے بلال اور ذیشان کی موت ہو گئی،سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا، دوسری ایف آئی آر سپریم کورٹ ازخود نوٹس کے پانچ دن بعد درج ہوئی، دوسری ایف آئی آرمیں دو قتل ہونے والے اور زخمیوں کے نام ہی نہیں، یہ نقصانات ہوتے ہیں جب از خود نوٹس لیا جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھاجب سو موٹو لیا گیا پھردوسری ایف آئی آر دج ہوئی، پھرسب کہتے ہیں سپریم کورٹ نوٹس لے نوٹس لے، جب سپریم کورٹ نوٹس لے تویہ نتیجہ نکلتا ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے خودنوٹس لیا تھا یا آپ نے درخواست دی تھی؟ وکیل نے جواب دیا جی بالکل ! سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیا تھا۔
جس پر چیف جسٹس پاکستان بولے پھر مدعی کون ہوا ؟آپ یا سپریم کورٹ؟ سپریم کورٹ وہاں موجود ہی نہیں تھی، پھر اسے کیسے پتہ ہوسکتا ہے کہ کیا ہوا؟وکیل نے بتایا واقع سے 2 پستول اور 10گولیاں بھی برآمد ہوئیں، 2 افراد کو ڈاکو ڈاکو کہہ کر ان پر لوگوں نے حملہ کیا اورمار دیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بچپن میں ہم محاوره سنتے تھے وہ اب جا کر سمجھ آ رہا ہے ، جس کا کام اسی کو ساجھےاورکرے تو ڈهنکا باجے، وکیل ملزمان کا کہنا تھا کہ پوسٹ ماٹم میں بھی نا معلوم افراد لکھا گیا ہے، میڈیکل رپورٹ میں بھی زخمیوں کا نام نہیں لکھا گیا، اس کیس میں وجہ عناد بھی ثابت نہیں ہوئی۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا صرف یہ کہا گیا کچھ عرصہ پہلے کرکٹ گراؤنڈ میں جھگڑا ہوا تھا، یہ پہلا واقع دیکھا رہا ہوں جہاں بغیر کسی وجہ لوگ پہلے سے مظاہرہ کر رہے تھے، لوگ کہتے ہیں یہ ڈاکو ہیں اور بس انهیں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا یہ کیسی کہانی بنائی گئی ہے، یہ کہانی بنا کر آپ 7بندوں کو پهانسی چڑھا رہے ہیں، سزا دینے کا اختیار صرف اسٹیٹ کے پاس ہے، لوگوں نے ڈاکوں کو پکڑ بھی لیا تھا پھربھی سزا کا اختیار نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاشرے کو تشدد کی اجازت بالکل نہیں دی جا سکتی، ملزمان کو چھوردیں گے تو لوگوں کو تشدد کالائسنس مل جائے گا، جس پر
وکیل ملزمان نے کہا اگر ملزمان پر جرم ثابت ہو تو پھر سزا بنتی ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا ٹرائل کورٹ نے واقعے کی ویڈیو دیکھ کر فیصلہ کیا ہے، وہ ویڈیو مسخ کی گئی تھی اس کا فرانزک بھی نہیں کیا گیا تھا۔
عدالت نے 7 ملزمان کی سزائے موت 10سال قید میں تبدیل کر دی جبکہ عمر قید کی سزا پانے والے 5 ملزمان کی سزا بھی 10 سال قید میں تبدیل کی۔
یاد رہے 2010 میں سیالکوٹ میں 2بھائیوں کو قتل کیا گیا تھا ، دونوں کو مشتعل افراد نے بازار میں تشدد کرکے قتل کیا ، جس پر سپریم کورٹ نے دونوں بھائیوں کے قتل پراز خود نوٹس لیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 7 ملزمان کو سزائے موت اور 6 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ، جس کے بعد 13میں سے 12 ملزمان نے سزا کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سیالکوٹ میں 2 بھائیوں کے قتل میں ملوث ملزمان کی سزا پراپیل پر سماعت کی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سماعت کے دوران ازخود نوٹس پر اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کیس میں 2 کہانیاں بنائی گئی ہیں، ایک ایف آئی آرموقع پر درج کی گئی جس کے مطابق 4 افراد زخمی ہوئے، 4 افراد میں سے بلال اور ذیشان کی موت ہو گئی،سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا، دوسری ایف آئی آر سپریم کورٹ ازخود نوٹس کے پانچ دن بعد درج ہوئی، دوسری ایف آئی آرمیں دو قتل ہونے والے اور زخمیوں کے نام ہی نہیں، یہ نقصانات ہوتے ہیں جب از خود نوٹس لیا جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھاجب سو موٹو لیا گیا پھردوسری ایف آئی آر دج ہوئی، پھرسب کہتے ہیں سپریم کورٹ نوٹس لے نوٹس لے، جب سپریم کورٹ نوٹس لے تویہ نتیجہ نکلتا ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے خودنوٹس لیا تھا یا آپ نے درخواست دی تھی؟ وکیل نے جواب دیا جی بالکل ! سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیا تھا۔
جس پر چیف جسٹس پاکستان بولے پھر مدعی کون ہوا ؟آپ یا سپریم کورٹ؟ سپریم کورٹ وہاں موجود ہی نہیں تھی، پھر اسے کیسے پتہ ہوسکتا ہے کہ کیا ہوا؟وکیل نے بتایا واقع سے 2 پستول اور 10گولیاں بھی برآمد ہوئیں، 2 افراد کو ڈاکو ڈاکو کہہ کر ان پر لوگوں نے حملہ کیا اورمار دیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بچپن میں ہم محاوره سنتے تھے وہ اب جا کر سمجھ آ رہا ہے ، جس کا کام اسی کو ساجھےاورکرے تو ڈهنکا باجے، وکیل ملزمان کا کہنا تھا کہ پوسٹ ماٹم میں بھی نا معلوم افراد لکھا گیا ہے، میڈیکل رپورٹ میں بھی زخمیوں کا نام نہیں لکھا گیا، اس کیس میں وجہ عناد بھی ثابت نہیں ہوئی۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا صرف یہ کہا گیا کچھ عرصہ پہلے کرکٹ گراؤنڈ میں جھگڑا ہوا تھا، یہ پہلا واقع دیکھا رہا ہوں جہاں بغیر کسی وجہ لوگ پہلے سے مظاہرہ کر رہے تھے، لوگ کہتے ہیں یہ ڈاکو ہیں اور بس انهیں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا یہ کیسی کہانی بنائی گئی ہے، یہ کہانی بنا کر آپ 7بندوں کو پهانسی چڑھا رہے ہیں، سزا دینے کا اختیار صرف اسٹیٹ کے پاس ہے، لوگوں نے ڈاکوں کو پکڑ بھی لیا تھا پھربھی سزا کا اختیار نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاشرے کو تشدد کی اجازت بالکل نہیں دی جا سکتی، ملزمان کو چھوردیں گے تو لوگوں کو تشدد کالائسنس مل جائے گا، جس پر
وکیل ملزمان نے کہا اگر ملزمان پر جرم ثابت ہو تو پھر سزا بنتی ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا ٹرائل کورٹ نے واقعے کی ویڈیو دیکھ کر فیصلہ کیا ہے، وہ ویڈیو مسخ کی گئی تھی اس کا فرانزک بھی نہیں کیا گیا تھا۔
عدالت نے 7 ملزمان کی سزائے موت 10سال قید میں تبدیل کر دی جبکہ عمر قید کی سزا پانے والے 5 ملزمان کی سزا بھی 10 سال قید میں تبدیل کی۔
یاد رہے 2010 میں سیالکوٹ میں 2بھائیوں کو قتل کیا گیا تھا ، دونوں کو مشتعل افراد نے بازار میں تشدد کرکے قتل کیا ، جس پر سپریم کورٹ نے دونوں بھائیوں کے قتل پراز خود نوٹس لیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 7 ملزمان کو سزائے موت اور 6 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ، جس کے بعد 13میں سے 12 ملزمان نے سزا کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
سیالکوٹ میں 2 بھائیوں کے قتل میں ملوث 7 ملزمان کی سزائے موت 10سال قید میں تبدیل
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے سیالکوٹ میں 2 بھائیوں کےقتل میں ملوث 7 ملزمان کی سزائےموت 10سال قیدمیں تبدیل کردی،چیف جسٹس نے دوران سماعت ازخودنوٹس کے نقصان گنوائے
urdu.arynews.tv