جی ضیاء خود پھانسی چڑھانے نہیں گیا اسی عدلیہ نے پھانسی کا حکم دیا - چار تین کی اکثریت سے اور بھد میں ان ججوں نے ضیاء کے دباؤ کو تسلیم کیا - آپ پاکستان کی تاریخ پڑھ لیں براہے کرم
اور اور اگر نہیں پڑھنی تو مجھ سے ہی پوچھ کر سمجھ لیں آپ سے وعدہ ہے غلط بیانی نہیں کرونگا -
اس بات پر مکمل بات تو پھر کبھی کر لی جائے گی کسی مناسب تھریڈ میں، جو بھی معاملہ ہے اسکا ہر پہلو دیکھ لیا جائے جسٹس نسیم اور دوسر ے چند ججوں کے انٹرویو پر بھی غور کر لیں
مگر آپ کا یہ دعوا کہ غلط بیانی نہیں کروں گا تو کیا یہ تاثر دیتا ہے کہ آپ گواہ تھے اور موقع پر موجود تھے؟ اسلئے آپکا سچ جھوٹ ۔ علم و فہم ہی فیصلہ کر دے گا ۔
۔آپ ضرور نیک نیئت ہوں گے مگر کسی کو بھی آپ کی نیک نیئتی سے کچھ نہیں لینا دینا۔۔ آپ صرف اور صرف وہی بتا سکتے ہیں جو آپ کو بتایا گیئا ہے یا سمجھایا گیئا ہے ، آپ اپنی ذاتی رائے تو دے سکتے ہیں سچ جھوٹ نہیں بتا سکتے ۔۔ آپ تو اس بات کی بھی تشریح کر نہیں کر سکتے نہ ہی الفاظ
کے بعین مطلب بتا سکتے ہی کہ جسٹس نسیم کا چار لفظ کہنا کہ پریشر تھا کیا تھا۔۔ کس کا کس پر کب اور کیونکر پریشر تھا ۔ پھر پھر جو بھی مطلب تھا اسکا ثبوت کیا ہے۔ اسے قسم کی بات جسٹس صفدر (جنہوں نے بھٹو کی اپیل کو قبول کیا تھا) نے بھی انٹرویو میں کی تھی مگر انہوں نے وضاحت کر دی کہ کیا مسائل تھے اور کیا پریشر تھا ، اس پورے پیرا کو قوٹ کر دیا کریں ۔(نہ کہ ایک جج جو بعد میں سیاسی سا بن گیا۔ خاندانی مفاد بھی ملے۔اور انٹر ویوز کا شوقین بنا ، اس نے حکومت وقت کو خوش کرنے والی ایک بے معنی سا جملہ بول دیا ۰ اور آدھا جملہ اول و آکر ہو گیا کہ الہامی تھا) ۔ چلیں آپ کی بات مان بھی لیں تو ایک جج جو پریشر(؟؟ ؟) میں آ گیئا اس کی واقعے کے دس پندہ سال بعد بات کیسے معتبر ٹھر گئی ۔ ایسے انسان کی تو گواہی قبول نہ ہو گی کہ مقدمہ میں انوالو پندہ سولہ ججوں پر الزام دھر دیں۔
۔
اور پھر جن ٹیکنیکل مسلوں کا ذکر ہوتا ہے ۔ جس بنیاد پر دائر بھٹو کی سپریم کورٹ میں دائر اپیل تھی وہ سبھی سات ججوں نے مسترد کر دی تھی ۔۔ فیصلے میں قانونی سقم پر تو فیصلہ متفقہ، سات ججون کا تھا ۔
۔ کبھی نہ بھولیں فیصلہ لاہور ھائیکو رٹ نے متفقہ سنایا (کیا آپ نے فیصلہ اور گواہیاں پڑھی ہیں ؟)، ایک سو چالیس کے لگ بھگ گواہ تھے ۔۔ اگرفیصلے پر مخالفت ہے تو دکھایں کوئی ایک بھی گواہ جس نے بعد میں،کبھی بھی جھوٹ بولنے کا اعتراف کیا ہو ۔۔ حتکہ جب جسٹس افتخار کی کورٹ میں یہ مقدمہ آیا تو اسنے پوچھا کیا کوئی ایک گواہ مکر گیا ، یایہی بتا دیں کہ کسی گواہ نے کسی دوسرے( یعنی بیٹے بیوی، عزیز دوست وغیرہ) اور پھر اسنے کسی تیسرے کو کچھ بتایا ہو اور وہی تیسرا شخص آن اوتھ عدالت آ کر بتا دے ۔ یا کوئی ایک بھی گواہ کسی بھی دور نذدیک معاملے میںاپنی ذاتی معلومات پر ہی گواہی دے،، ہم جرح کروا کر مان لیں گے جسٹس افتخار نے اس مطالبے کے بعد مقدمہ بند کر دیا ، کہ ایسا کچھ بھی موجود نہیں ،
آپکے علم میں کوئی کسی قسم کا گواہ ہو تو آپ آگاہ کر دیں ، ورنہ قسمیں کھا کر ہر رنگ کا فسانہ سنانے والوں سے واقفیت ہے مگر وہ عدالت آئیں اور کسی بھی طور اپنے دعوے یا معاملے سے کسی بھی قسم کے تعلق موجود )ہونے کا بتا دیں، جرح کروا لیں ۔۔ لندن بیٹھ کر لندن کے پمفلٹوں مین زوزانہ نیا قصہ تو آپ اور میں بھی لکھ لکھ سکتے تھے ۔۔
بقیا تمامتر سیاست، بیانیہ اور لکھنے بولنے والے کا ذاتی مفاد یا عناد یا تعصب یا رحجان ہے ۔ تاریخ تراشی ہے ۔ آپ کا سچ جھوٹ، فہم و دانش اور سیاست اسبارے بے معنی ہے، (یہ تو واقعات، شہادت اور قانون کا معاملہ ہے) نہ صرف آپکا گواہ بن بیٹھنا بے سود اور فضول ہے، گمراہ کن بھی ہے اور اور یوں تیقّن، فخر، دعوا، اور سیاست بازی شاید جھوٹ کے زمرے میں آئے تو آئے وہ خود بخود سچ نہیں بن سکتا ۔