Monal conquered what next ?

Khilai Makhlooq

Senator (1k+ posts)
EN33QjzVUAAwE2b


https://twitter.com/x/status/1215399353512316929

ارگلہ ہلز نیشنل پارک ایریا میں پاک فوج کی جانب سے زمین کی ملکیت کے دعوے پر وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی) کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کیے جانے کے بعد مجبورا، مارگلہ کی پہاڑیوں پر قائم مونال ریسٹورنٹ کی انتظامیہ نے پاک فوج کے ذیلی ادارے Remount Veterinary & Farms ڈائریکٹوریٹ جی ایچ کیو راولپنڈی کو ماہانہ کرائے کی ادائیگی شروع کردی ہے۔

مونال ریسٹورنٹ کی انتظامیہ نے ستمبر 2019 کے کرایہ کے بقایا جات کی مد میں 4684008 روپے بذریعہ بینک ڈرافٹ نمبر 06366856، نومبر 2019 کے کرایہ کے طور پر 1300000 روپے بذریعہ بینک ڈرافٹ نمبر 06366858 اور دسمبر کے کرایہ کی مد میں 910000 روپے بذریعہ بینک ڈرافٹ نمبر 06366902 ڈی جی آر وی اینڈ ایف جی ایچ کیو کوجمع کروائے ہیں۔ یہ تمام ڈرافٹ بینک الحبیب جی 9 برانچ اسلام آباد سے جاری کیے گئے ہیں۔

ارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع عمارت جس میں مونال ریسٹورنٹ چل رہا ہے کو سی ڈی اے نے قومی خزانے سے ایک خطیر رقم خرچ کر کے تعمیر کیا تھا اور اسے 2006 میں لقمان علی افضل نامی ایک شخص کو لیز پر دیا گیا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہر اقتدار کا سب سے اہم سیاحتی مقام تصور کیا جانے لگا۔

تاہم شہر اقتدار کے رکھوالوں یعنی اس وقت کے سرکاری افسران نے سرکاری خزانے سے بھاری رقم خرچ کرکے اس ہوٹل کو تعمیر کرتے ہوئے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مذکورہ زمین سی ڈی اے کی نہیں ہے کیونکہ 1961 سے اس کی مالکیت سی ڈی اے کے پاس تصور کی جاتی تھی جبکہ اس کے جملہ امور بھی وفاقی ترقیاتی ادارہ ہی دیکھ رہا تھا۔

تاہم 2016 میں اچانک حالات نے اس وقت کروٹ بدلی جب

پاک فوج اس دعوے کے ساتھ سامنے آئی کہ مذکورہ زمین ایک سو سال سے بھی پہلے 1910 میں فوج کے جانوروں کے لئے گھاس کوپیدا کرنے کے لیے ان کے زیر انتطام ادارے ملٹری فارمز راولپنڈی کو اس وقت کی حکومت پنجاب نے الاٹ کردی تھی

بعدازاں مارگلہ پہاڑیوں میں 8603 ایکڑ فوجی اراضی کی ملکیت کے ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد جانے والے دعویٰ کو حل کرنے کے لئے 8 نومبر 2016 کو اس وقت کے وزیر دفاع کے زیر صدارت ایک اجلاس منعقد ہوا۔جی ایچ کیو کے اپنے خطوط کے مطابق اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیاتھا کہ وزارت دفاع اور سی ڈی اے کے مشترکہ سروے کے بعد اس زمین کو ملٹری فارمز کو واپس کردیا جائے گا۔

بعدازاں، سروے آف پاکستان کی جانب سے RV&F ڈائریکٹوریٹ کی درخواست پر مارگلہ پہاڑیوں پر فوجی جانوروں کے لیے گھاس اگانے کی اراضی کی حد بندی کرنے کی درخواست پر ایک سروے کیا گیا۔ اس حد بندی کا آغاز فروری 2017 میں کیا گیا اور یہ مئی 2017 میں مکمل ہوئی جس میں مجموعی طور پر 8655.62 ایکڑ اراضی کی نشان دہی کی گئی۔ واضح رہے کہ یہ حد بندی یکطرفہ تھی اور اس کو کرنے کی درخواست بھی ایک فریق نے دی تھی۔

مذکورہ حد بندی کی روشنی میں، آر وی اینڈ ایف ڈائریکٹوریٹ نے مونال ریسٹورنٹ کی انتظامیہ کو آگاہ کیا کہ ان کی عمارت ملٹری فرامز کی 8655.62 ایکڑ اراضی کے اندر واقع ہے اور مونال انتظامیہ نہ صرف ان کو سی ڈی اے کے ساتھ لیز کا معاہدہ پیش کرے بلکہ آج کے بعد ماہانہ کرایہ اور دیگر واجبات بھی فوج کے ذیلی اداے کے پاس جمع کروائے۔

مذکورہ ہوٹل کی انتظامیہ نے چیئرمین سی ڈی اے اور اسلام آباد کے میئر کو کئی خطوط ارسال کیے جن میں آگاہ کیا گیا کہ ان سے ماہانہ کرایہ اور بقایاجات جمع کروانے کے لیے جی ایچ کیو براہ راست رابطہ کر رہا ہے۔ ہوٹل انتظامیہ نے 8 جولائی 2019 اور 31 جولائی 2019 کو چیئرمین سی ڈی اے اور میئر اسلام آباد کو جی ایچ کیو کے دعو یٰ پر رہنمائی حاصل کرنے کے لئے خط لکھے لیکن چیئرمین سی ڈی اے کے دفتر یا اسلام آباد کے میئر نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا اور مکمل خاموشی کو ہی بہتر جانا۔

جب ہوٹل انتظامیہ کو یقین ہوگیا کہ دونوں شہری ادارے اس مسئلے میں اپنا کردار ادا کرنی سے گریز کررہے ہیں توریسٹورنٹ نے ماہانہ کرایہ کی رقم فوج کے ذیلی ادارے کے پاس جمع کروانا شروع کردی۔ جبکہ مونال انتظامیہ نے اس بابت چیئرمین سی ڈی اے اور میئر اسلام آباد کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔
سی ڈی اے کے ترجمان سید صفدر شاہ نے اس معاملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرایہ کی وصولی کا تعلق ڈائریکٹوریٹ آف میونسپل ایڈمنسٹریشن، ایم سی آئی سے ہے۔ تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ سی ڈی اے فوجی جانورں کے لیے گھاس اگانے کی اراضی کے دعوے سے متعلق معاملہ قواعد و ضوابط کے مطابق حل کرے گا۔

دوسری طرف، جب ڈائریکٹر ڈی ایم اے ظفر اقبال سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے مونال انتظامیہ کو واضع انداز میں بتا دیا ہے کہ وہ ماہانہ کرایہ بدستور ہمیں جمع کروائیں گے کیوں کہ اس اراضی کی ملکیت تبدیل کرنے کا حتمی فیصلہ کسی بھی متعلقہ فورم سے نہیں موصول ہوا۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ ایم سی آئی کی جانب سے سخت دباؤ پر مونال انتظامیہ جو کہ ماہانہ کروڑوں روپے کا کاروبار کر رہی ہے نے کچھ رقم کرائے کی مد میں اب ایم سی آئی کو بھی کچھ شرائط کے ساتھ جمع کروا دی ہے۔ ڈائریکٹر ظفر اقبال نے بھی کرایہ کے موصول ہونے کی تصدیق کی ہے مگر جب ان سے شرائط کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے بتانے سے معذرت کر لی۔



https://www.pakistan24.tv/2020/01/09/28531?fbclid=IwAR0gnvuVjFRkhk7pC9NWCX5mEJhF7sZt6AesD7cHY7G2Zxh44z8rQNdLHXE
 
Last edited by a moderator:

EngrHaseebShahid

Minister (2k+ posts)
EN33QjzVUAAwE2b


https://twitter.com/x/status/1215399353512316929

ارگلہ ہلز نیشنل پارک ایریا میں پاک فوج کی جانب سے زمین کی ملکیت کے دعوے پر وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی) کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کیے جانے کے بعد مجبورا، مارگلہ کی پہاڑیوں پر قائم مونال ریسٹورنٹ کی انتظامیہ نے پاک فوج کے ذیلی ادارے Remount Veterinary & Farms ڈائریکٹوریٹ جی ایچ کیو راولپنڈی کو ماہانہ کرائے کی ادائیگی شروع کردی ہے۔

مونال ریسٹورنٹ کی انتظامیہ نے ستمبر 2019 کے کرایہ کے بقایا جات کی مد میں 4684008 روپے بذریعہ بینک ڈرافٹ نمبر 06366856، نومبر 2019 کے کرایہ کے طور پر 1300000 روپے بذریعہ بینک ڈرافٹ نمبر 06366858 اور دسمبر کے کرایہ کی مد میں 910000 روپے بذریعہ بینک ڈرافٹ نمبر 06366902 ڈی جی آر وی اینڈ ایف جی ایچ کیو کوجمع کروائے ہیں۔ یہ تمام ڈرافٹ بینک الحبیب جی 9 برانچ اسلام آباد سے جاری کیے گئے ہیں۔

ارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع عمارت جس میں مونال ریسٹورنٹ چل رہا ہے کو سی ڈی اے نے قومی خزانے سے ایک خطیر رقم خرچ کر کے تعمیر کیا تھا اور اسے 2006 میں لقمان علی افضل نامی ایک شخص کو لیز پر دیا گیا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہر اقتدار کا سب سے اہم سیاحتی مقام تصور کیا جانے لگا۔

تاہم شہر اقتدار کے رکھوالوں یعنی اس وقت کے سرکاری افسران نے سرکاری خزانے سے بھاری رقم خرچ کرکے اس ہوٹل کو تعمیر کرتے ہوئے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مذکورہ زمین سی ڈی اے کی نہیں ہے کیونکہ 1961 سے اس کی مالکیت سی ڈی اے کے پاس تصور کی جاتی تھی جبکہ اس کے جملہ امور بھی وفاقی ترقیاتی ادارہ ہی دیکھ رہا تھا۔

تاہم 2016 میں اچانک حالات نے اس وقت کروٹ بدلی جب

پاک فوج اس دعوے کے ساتھ سامنے آئی کہ مذکورہ زمین ایک سو سال سے بھی پہلے 1910 میں فوج کے ? جانوروں کے لئے گھاس کوپیدا کرنے کے لیے ان کے زیر انتطام ادارے ملٹری فارمز راولپنڈی کو اس وقت کی حکومت پنجاب نے الاٹ کردی تھی?

بعدازاں مارگلہ پہاڑیوں میں 8603 ایکڑ فوجی اراضی کی ملکیت کے ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد جانے والے دعویٰ کو حل کرنے کے لئے 8 نومبر 2016 کو اس وقت کے وزیر دفاع کے زیر صدارت ایک اجلاس منعقد ہوا۔جی ایچ کیو کے اپنے خطوط کے مطابق اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیاتھا کہ وزارت دفاع اور سی ڈی اے کے مشترکہ سروے کے بعد اس زمین کو ملٹری فارمز کو واپس کردیا جائے گا۔

بعدازاں، سروے آف پاکستان کی جانب سے RV&F ڈائریکٹوریٹ کی درخواست پر مارگلہ پہاڑیوں پر فوجی جانوروں کے لیے گھاس اگانے کی اراضی کی حد بندی کرنے کی درخواست پر ایک سروے کیا گیا۔ اس حد بندی کا آغاز فروری 2017 میں کیا گیا اور یہ مئی 2017 میں مکمل ہوئی جس میں مجموعی طور پر 8655.62 ایکڑ اراضی کی نشان دہی کی گئی۔ واضح رہے کہ یہ حد بندی یکطرفہ تھی اور اس کو کرنے کی درخواست بھی ایک فریق نے دی تھی۔

مذکورہ حد بندی کی روشنی میں، آر وی اینڈ ایف ڈائریکٹوریٹ نے مونال ریسٹورنٹ کی انتظامیہ کو آگاہ کیا کہ ان کی عمارت ملٹری فرامز کی 8655.62 ایکڑ اراضی کے اندر واقع ہے اور مونال انتظامیہ نہ صرف ان کو سی ڈی اے کے ساتھ لیز کا معاہدہ پیش کرے بلکہ آج کے بعد ماہانہ کرایہ اور دیگر واجبات بھی فوج کے ذیلی اداے کے پاس جمع کروائے۔

مذکورہ ہوٹل کی انتظامیہ نے چیئرمین سی ڈی اے اور اسلام آباد کے میئر کو کئی خطوط ارسال کیے جن میں آگاہ کیا گیا کہ ان سے ماہانہ کرایہ اور بقایاجات جمع کروانے کے لیے جی ایچ کیو براہ راست رابطہ کر رہا ہے۔ ہوٹل انتظامیہ نے 8 جولائی 2019 اور 31 جولائی 2019 کو چیئرمین سی ڈی اے اور میئر اسلام آباد کو جی ایچ کیو کے دعو یٰ پر رہنمائی حاصل کرنے کے لئے خط لکھے لیکن چیئرمین سی ڈی اے کے دفتر یا اسلام آباد کے میئر نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا اور مکمل خاموشی کو ہی بہتر جانا۔

جب ہوٹل انتظامیہ کو یقین ہوگیا کہ دونوں شہری ادارے اس مسئلے میں اپنا کردار ادا کرنی سے گریز کررہے ہیں توریسٹورنٹ نے ماہانہ کرایہ کی رقم فوج کے ذیلی ادارے کے پاس جمع کروانا شروع کردی۔ جبکہ مونال انتظامیہ نے اس بابت چیئرمین سی ڈی اے اور میئر اسلام آباد کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔
سی ڈی اے کے ترجمان سید صفدر شاہ نے اس معاملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرایہ کی وصولی کا تعلق ڈائریکٹوریٹ آف میونسپل ایڈمنسٹریشن، ایم سی آئی سے ہے۔ تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ سی ڈی اے فوجی جانورں کے لیے گھاس اگانے کی اراضی کے دعوے سے متعلق معاملہ قواعد و ضوابط کے مطابق حل کرے گا۔

دوسری طرف، جب ڈائریکٹر ڈی ایم اے ظفر اقبال سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے مونال انتظامیہ کو واضع انداز میں بتا دیا ہے کہ وہ ماہانہ کرایہ بدستور ہمیں جمع کروائیں گے کیوں کہ اس اراضی کی ملکیت تبدیل کرنے کا حتمی فیصلہ کسی بھی متعلقہ فورم سے نہیں موصول ہوا۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ ایم سی آئی کی جانب سے سخت دباؤ پر مونال انتظامیہ جو کہ ماہانہ کروڑوں روپے کا کاروبار کر رہی ہے نے کچھ رقم کرائے کی مد میں اب ایم سی آئی کو بھی کچھ شرائط کے ساتھ جمع کروا دی ہے۔ ڈائریکٹر ظفر اقبال نے بھی کرایہ کے موصول ہونے کی تصدیق کی ہے مگر جب ان سے شرائط کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے بتانے سے معذرت کر لی۔



https://www.pakistan24.tv/2020/01/09/28531?fbclid=IwAR0gnvuVjFRkhk7pC9NWCX5mEJhF7sZt6AesD7cHY7G2Zxh44z8rQNdLHXE
Next ye k tum jesy raw agents aur ganddi naali k keero ko jahanam waasil krna hai IA IA
 

GreenMaple

Prime Minister (20k+ posts)
Aisa to hota hey aisay kamon mein.
The rightful owner took possession from illegal land grabbers.

BTW, uss waqt ka wazir dafaa was Khawaja Asif, so go and bark at him.
 

bandookhan

MPA (400+ posts)
EN33QjzVUAAwE2b


https://twitter.com/x/status/1215399353512316929

ارگلہ ہلز نیشنل پارک ایریا میں پاک فوج کی جانب سے زمین کی ملکیت کے دعوے پر وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی) کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کیے جانے کے بعد مجبورا، مارگلہ کی پہاڑیوں پر قائم مونال ریسٹورنٹ کی انتظامیہ نے پاک فوج کے ذیلی ادارے Remount Veterinary & Farms ڈائریکٹوریٹ جی ایچ کیو راولپنڈی کو ماہانہ کرائے کی ادائیگی شروع کردی ہے۔

مونال ریسٹورنٹ کی انتظامیہ نے ستمبر 2019 کے کرایہ کے بقایا جات کی مد میں 4684008 روپے بذریعہ بینک ڈرافٹ نمبر 06366856، نومبر 2019 کے کرایہ کے طور پر 1300000 روپے بذریعہ بینک ڈرافٹ نمبر 06366858 اور دسمبر کے کرایہ کی مد میں 910000 روپے بذریعہ بینک ڈرافٹ نمبر 06366902 ڈی جی آر وی اینڈ ایف جی ایچ کیو کوجمع کروائے ہیں۔ یہ تمام ڈرافٹ بینک الحبیب جی 9 برانچ اسلام آباد سے جاری کیے گئے ہیں۔

ارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع عمارت جس میں مونال ریسٹورنٹ چل رہا ہے کو سی ڈی اے نے قومی خزانے سے ایک خطیر رقم خرچ کر کے تعمیر کیا تھا اور اسے 2006 میں لقمان علی افضل نامی ایک شخص کو لیز پر دیا گیا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہر اقتدار کا سب سے اہم سیاحتی مقام تصور کیا جانے لگا۔

تاہم شہر اقتدار کے رکھوالوں یعنی اس وقت کے سرکاری افسران نے سرکاری خزانے سے بھاری رقم خرچ کرکے اس ہوٹل کو تعمیر کرتے ہوئے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مذکورہ زمین سی ڈی اے کی نہیں ہے کیونکہ 1961 سے اس کی مالکیت سی ڈی اے کے پاس تصور کی جاتی تھی جبکہ اس کے جملہ امور بھی وفاقی ترقیاتی ادارہ ہی دیکھ رہا تھا۔

تاہم 2016 میں اچانک حالات نے اس وقت کروٹ بدلی جب

پاک فوج اس دعوے کے ساتھ سامنے آئی کہ مذکورہ زمین ایک سو سال سے بھی پہلے 1910 میں فوج کے جانوروں کے لئے گھاس کوپیدا کرنے کے لیے ان کے زیر انتطام ادارے ملٹری فارمز راولپنڈی کو اس وقت کی حکومت پنجاب نے الاٹ کردی تھی

بعدازاں مارگلہ پہاڑیوں میں 8603 ایکڑ فوجی اراضی کی ملکیت کے ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد جانے والے دعویٰ کو حل کرنے کے لئے 8 نومبر 2016 کو اس وقت کے وزیر دفاع کے زیر صدارت ایک اجلاس منعقد ہوا۔جی ایچ کیو کے اپنے خطوط کے مطابق اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیاتھا کہ وزارت دفاع اور سی ڈی اے کے مشترکہ سروے کے بعد اس زمین کو ملٹری فارمز کو واپس کردیا جائے گا۔

بعدازاں، سروے آف پاکستان کی جانب سے RV&F ڈائریکٹوریٹ کی درخواست پر مارگلہ پہاڑیوں پر فوجی جانوروں کے لیے گھاس اگانے کی اراضی کی حد بندی کرنے کی درخواست پر ایک سروے کیا گیا۔ اس حد بندی کا آغاز فروری 2017 میں کیا گیا اور یہ مئی 2017 میں مکمل ہوئی جس میں مجموعی طور پر 8655.62 ایکڑ اراضی کی نشان دہی کی گئی۔ واضح رہے کہ یہ حد بندی یکطرفہ تھی اور اس کو کرنے کی درخواست بھی ایک فریق نے دی تھی۔

مذکورہ حد بندی کی روشنی میں، آر وی اینڈ ایف ڈائریکٹوریٹ نے مونال ریسٹورنٹ کی انتظامیہ کو آگاہ کیا کہ ان کی عمارت ملٹری فرامز کی 8655.62 ایکڑ اراضی کے اندر واقع ہے اور مونال انتظامیہ نہ صرف ان کو سی ڈی اے کے ساتھ لیز کا معاہدہ پیش کرے بلکہ آج کے بعد ماہانہ کرایہ اور دیگر واجبات بھی فوج کے ذیلی اداے کے پاس جمع کروائے۔

مذکورہ ہوٹل کی انتظامیہ نے چیئرمین سی ڈی اے اور اسلام آباد کے میئر کو کئی خطوط ارسال کیے جن میں آگاہ کیا گیا کہ ان سے ماہانہ کرایہ اور بقایاجات جمع کروانے کے لیے جی ایچ کیو براہ راست رابطہ کر رہا ہے۔ ہوٹل انتظامیہ نے 8 جولائی 2019 اور 31 جولائی 2019 کو چیئرمین سی ڈی اے اور میئر اسلام آباد کو جی ایچ کیو کے دعو یٰ پر رہنمائی حاصل کرنے کے لئے خط لکھے لیکن چیئرمین سی ڈی اے کے دفتر یا اسلام آباد کے میئر نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا اور مکمل خاموشی کو ہی بہتر جانا۔

جب ہوٹل انتظامیہ کو یقین ہوگیا کہ دونوں شہری ادارے اس مسئلے میں اپنا کردار ادا کرنی سے گریز کررہے ہیں توریسٹورنٹ نے ماہانہ کرایہ کی رقم فوج کے ذیلی ادارے کے پاس جمع کروانا شروع کردی۔ جبکہ مونال انتظامیہ نے اس بابت چیئرمین سی ڈی اے اور میئر اسلام آباد کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔
سی ڈی اے کے ترجمان سید صفدر شاہ نے اس معاملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرایہ کی وصولی کا تعلق ڈائریکٹوریٹ آف میونسپل ایڈمنسٹریشن، ایم سی آئی سے ہے۔ تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ سی ڈی اے فوجی جانورں کے لیے گھاس اگانے کی اراضی کے دعوے سے متعلق معاملہ قواعد و ضوابط کے مطابق حل کرے گا۔

دوسری طرف، جب ڈائریکٹر ڈی ایم اے ظفر اقبال سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے مونال انتظامیہ کو واضع انداز میں بتا دیا ہے کہ وہ ماہانہ کرایہ بدستور ہمیں جمع کروائیں گے کیوں کہ اس اراضی کی ملکیت تبدیل کرنے کا حتمی فیصلہ کسی بھی متعلقہ فورم سے نہیں موصول ہوا۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ ایم سی آئی کی جانب سے سخت دباؤ پر مونال انتظامیہ جو کہ ماہانہ کروڑوں روپے کا کاروبار کر رہی ہے نے کچھ رقم کرائے کی مد میں اب ایم سی آئی کو بھی کچھ شرائط کے ساتھ جمع کروا دی ہے۔ ڈائریکٹر ظفر اقبال نے بھی کرایہ کے موصول ہونے کی تصدیق کی ہے مگر جب ان سے شرائط کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے بتانے سے معذرت کر لی۔



https://www.pakistan24.tv/2020/01/09/28531?fbclid=IwAR0gnvuVjFRkhk7pC9NWCX5mEJhF7sZt6AesD7cHY7G2Zxh44z8rQNdLHXE
whats next?? ur mother next.
 

Dawood Magsi

Minister (2k+ posts)
Khhoti k bacho Land army ki thi to wapas dey di gayi , tumhari kyun jall rahi hai ?
Jab Railway nain apni land khhali karwayi aor lakhon logon ko berozgaar kia tab tumhari ghairatt bundd marwaney gayi hoyi thi ?
 

araein

Chief Minister (5k+ posts)
Technically, PML-N govt. surrendered in 2016 on this issue... That time, PML-N was silent on this issue.
 

GreenMaple

Prime Minister (20k+ posts)
GreenMaple




who is the Patwari who came up with this land record of 1910 ?
When there is no land record, then that land is considered as government property (used to be called crown property during the Raj). In this case the land ownership was transferred from one government institution to another.

Good thing you are not living in India where you had to produce domicile of your elders from year 1300 to acquire citizenship.