Justice Qazi Faez Isa Case || 4th Hearing || Details by Siddique Jaan

peaceandjustice

Chief Minister (5k+ posts)
Very unfortunate situation still people of Pakistan waiting for money trail from our Honorable judge saib , Hopefully supreme judicial Council will treat this case on merit bases and nation will get justice very soon in this regard.
 

Zaidi Qasim

Prime Minister (20k+ posts)

اس پوٹی ماسٹر کا آدھا سچ ، یہ بنچ کی جانب سے اےآریو کے بارے میں دیے ہوئے ریمارکس کو گول کرگیا اور ان ریمارکس کو بھی چھپا گیا جو بنچ نے ڈوگر بھانڈو کے بارے میں دیے تھے ، کاروائ کا وہ حصہ بھی غائب کرگیا جب ڈوگر خود روسٹرم پر آگیا اور منیر اے ملک نے اشارہ کرکے کہا کہ یہ ڈوگر ہے ۔ یہ سالا متعصب پوٹی ہے ،صف اپنے مطلب کی اور جو باتیں پوٹیوں کے حق میں ہوں وہی بتائے گا ۔ اگر سارا سچ پڑھنا ہو تو بی بی سی کی خبر پڑھو ۔

جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس: ’ایسٹ ریکوری یونٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے‘

شہزاد ملک بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

_108390202_7a80d8fa-29f8-4f5f-9b5e-4d0d6579c4df.jpg


سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا ہے کہ اثاثہ جات کی برآمدگی کا یونٹ یعنی ’ایسٹ ریکوری یونٹ‘ وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں کیوں قائم کیا گیا ہے۔

یہ سوال منگل کی دوپہر سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے بینچ نے اٹھایا۔

جسٹس فائز عیسیٰ اس وقت، بیرون ملک خاندانی اثاثے ظاہر نہ کرنے سے متعلق اپنے خلاف صدر عارف علوی کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کیے گئے ریفرنس میں، وکیل کے ذریعے اپنا موقف پیش کر رہے ہیں۔

منگل کو جب جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے ان درخواستوں کی سماعت کی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ صرف اس حد تک نہیں ہے کہ ’ایسٹ ریکوری یونٹ‘ وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں کیوں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ اس یونٹ میں کوئی بھی سرکاری ملازم تعینات نہیں ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ریفرنس کے شکایت کنندہ وحید ڈوگر نے ان کے موکل کی بیرون ممالک جائیداد کے بارے میں رابطہ اسی یونٹ سے کیا تھا اور اُنھیں اس ضمن میں 10 اپریل کو ایک خط بھی تحریر کیا تھا۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں وہ خط پڑھ کر بھی سنایا۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ شکایت کنندہ نے ان جائیدادوں کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی شواہد عدالت میں پیش کیے۔ اُنھوں نے کہا کہ خط میں نہ تو شکایت کنندہ کا کوئی ٹیلی فون نمبر اور نہ ہی کوئی ایڈریس درج تھا۔

بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ برطانیہ اور دیگر ممالک میں جائیداد کے بارے میں معلومات مل سکتی ہیں کہ اس کا مالک کون ہے جس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس جائیداد کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن اس کے مالک کے بارے میں معلومات نہیں مل سکتیں۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ نام پر ریکارڈ سرچ کیا جا سکتا ہے لیکن سوال یہی ہے کہ پھر کیسے اس پراپرٹی کے بارے معلومات ملیں جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل نے کہا کہ یہ سب معلومات ان کے موکل اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کا پیچھا کر کے حاصل کی گئیں ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل کا کہنا تھا کہ شکایت کنندہ وحید ڈوگر نے سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کی جائیداد سے متعلق بھی معلومات دیں اور اس کے علاوہ شکایت کنندہ نے ’ایسٹ ریکوری یونٹ‘ کو یہ بھی بتایا کہ جسٹس کے کے آغا کے پاس دوہری شہریت ہے لیکن اس بارے میں کوئی دستاویزی ثبوت نہیں دیے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس سال 10 مئی کو ایف آئی اے کے حکام نے ایسٹ ریکوری یونٹ کے ارکان سے ملاقات کی اور اسی دوران درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا نام اور ان کی سپین کی شہریت کے بارے میں معلومات سامنے آئیں اس پر بینچ کے سربراہ عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ درخواست گزار کی اہلیہ کی ویزا درخواست کی وجہ سے نام سامنے آیا ہوگا کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کو پانچ سال کا ویزہ دیا گیا۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے سوال کیا کہ ان کے موکل کی اہلیہ کا نام شکایت کنندہ کو کیسے معلوم ہوا۔ اُنھوں نے کہا کہ کیسے ایک جج کے خلاف محض ایک خط کی بنیاد پر تحقیقات کی جاسکتی ہیں جبکہ شکایت کنندہ کے بارے میں معلومات ہیں کہ اسے صرف استعمال کیا جارہا ہے جبکہ اس کے پیچھپے محرکات کچھ اور ہیں۔

_108388420_5b2e8276-412b-401c-a5df-a9ef6fa56916.jpg


اُنھوں نے کہا کہ ججوں کے خلاف تحقیقات سے متعلق قانون میں کچھ سیف گارڈز ہیں جس پر بینچ میں موجود جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ججوں کے معاملات کے حوالے سے دو فورم ہیں جو رائے دے سکتے ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کے خلاف شکایت وصول کرنا، ثبوت اکٹھے کرنا اور ریفرنس فائل کرنا مخلتف اوقات میں ایک سیریز کے ساتھ ہوئے ہیں۔

بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا وہ کہنا چاہتے ہیں کہ بغیر اجازت کے جج کے خلاف تحقیقات شروع کی گئیں اور آپ کے مطابق ان کے موکل کے خلاف تحقیقات ایسٹ ریکوری یونٹ کی وجہ سے شروع ہوئیں؟

منیر اے ملک نے جواب دیا کہ اگر عدالت تمام معاملات کو مرحلہ وار دیکھے تو تمام حقائق کھل کر سامنے آ جائیں گے۔

بینچ کے سربراہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل سے استفسار کیا کہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شکایت کنندہ وحید ڈوگر کو ایف آئی اے اور ایف بی آر نے ان کے موکل کے بارے میں تمام معلومات فراہم کیں جس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ وحید ڈوگر ایک جعلی شکایت کنندہ ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ شکایت کنندہ کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے یورپین نام کا کیسے علم ہوا؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہوسکتا کہ ڈوگر کے پاس مافوق الفطرت اختیارات ہوں۔ اس برجستہ جواب پر عدالت میں قہقہ بلند ہوا۔

بینچ کے سربراہ نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا اُن کے موکل نے اپنی اہلیہ کو کبھی کوئی رقم تحفے میں دی جس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں معلومات لے کر ہی عدالت کو بتا سکتے ہیں۔

سماعت کے دوران بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ڈوگر پراکسی ہے، اس کی منطق سمجھ نہیں آئی جس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ ڈوگر ایک بااعتماد آدمی نہیں ہے۔ اسی دوران عبدالوحید ڈوگر روسٹرم پر آئے اور جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل کو کہا کہ ’میں ڈوگر ہوں۔‘

بینچ کے سربراہ نے پوچھا کہ روسٹرم پر کون کھڑا ہے جس پر منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ یہ ڈوگر ہے۔

بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ اُنھیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ ڈوگر ہے جس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے خود مجھے کان میں بتایا ہے کہ وہ ڈوگر ہے۔ منیر اے ملک نے شکایت کنندہ کے بارے میں بتایا کہ وہ ماضی میں بھی جعلی خبریں شائع کرتے رہے اور بعد میں اپنے کیے پر معافی بھی مانگ لی۔

عدالت نے ان درخواستوں کی مزید سماعت 16 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
 

Okara

Prime Minister (20k+ posts)

اس پوٹی ماسٹر کا آدھا سچ ، یہ بنچ کی جانب سے اےآریو کے بارے میں دیے ہوئے ریمارکس کو گول کرگیا اور ان ریمارکس کو بھی چھپا گیا جو بنچ نے ڈوگر بھانڈو کے بارے میں دیے تھے ، کاروائ کا وہ حصہ بھی غائب کرگیا جب ڈوگر خود روسٹرم پر آگیا اور منیر اے ملک نے اشارہ کرکے کہا کہ یہ ڈوگر ہے ۔ یہ سالا متعصب پوٹی ہے ،صف اپنے مطلب کی اور جو باتیں پوٹیوں کے حق میں ہوں وہی بتائے گا ۔ اگر سارا سچ پڑھنا ہو تو بی بی سی کی خبر پڑھو ۔

جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس: ’ایسٹ ریکوری یونٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے‘

شہزاد ملک بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

_108390202_7a80d8fa-29f8-4f5f-9b5e-4d0d6579c4df.jpg


سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا ہے کہ اثاثہ جات کی برآمدگی کا یونٹ یعنی ’ایسٹ ریکوری یونٹ‘ وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں کیوں قائم کیا گیا ہے۔

یہ سوال منگل کی دوپہر سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے بینچ نے اٹھایا۔

جسٹس فائز عیسیٰ اس وقت، بیرون ملک خاندانی اثاثے ظاہر نہ کرنے سے متعلق اپنے خلاف صدر عارف علوی کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کیے گئے ریفرنس میں، وکیل کے ذریعے اپنا موقف پیش کر رہے ہیں۔

منگل کو جب جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے ان درخواستوں کی سماعت کی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ صرف اس حد تک نہیں ہے کہ ’ایسٹ ریکوری یونٹ‘ وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں کیوں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ اس یونٹ میں کوئی بھی سرکاری ملازم تعینات نہیں ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ریفرنس کے شکایت کنندہ وحید ڈوگر نے ان کے موکل کی بیرون ممالک جائیداد کے بارے میں رابطہ اسی یونٹ سے کیا تھا اور اُنھیں اس ضمن میں 10 اپریل کو ایک خط بھی تحریر کیا تھا۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں وہ خط پڑھ کر بھی سنایا۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ شکایت کنندہ نے ان جائیدادوں کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی شواہد عدالت میں پیش کیے۔ اُنھوں نے کہا کہ خط میں نہ تو شکایت کنندہ کا کوئی ٹیلی فون نمبر اور نہ ہی کوئی ایڈریس درج تھا۔

بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ برطانیہ اور دیگر ممالک میں جائیداد کے بارے میں معلومات مل سکتی ہیں کہ اس کا مالک کون ہے جس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس جائیداد کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن اس کے مالک کے بارے میں معلومات نہیں مل سکتیں۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ نام پر ریکارڈ سرچ کیا جا سکتا ہے لیکن سوال یہی ہے کہ پھر کیسے اس پراپرٹی کے بارے معلومات ملیں جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل نے کہا کہ یہ سب معلومات ان کے موکل اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کا پیچھا کر کے حاصل کی گئیں ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل کا کہنا تھا کہ شکایت کنندہ وحید ڈوگر نے سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کی جائیداد سے متعلق بھی معلومات دیں اور اس کے علاوہ شکایت کنندہ نے ’ایسٹ ریکوری یونٹ‘ کو یہ بھی بتایا کہ جسٹس کے کے آغا کے پاس دوہری شہریت ہے لیکن اس بارے میں کوئی دستاویزی ثبوت نہیں دیے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس سال 10 مئی کو ایف آئی اے کے حکام نے ایسٹ ریکوری یونٹ کے ارکان سے ملاقات کی اور اسی دوران درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا نام اور ان کی سپین کی شہریت کے بارے میں معلومات سامنے آئیں اس پر بینچ کے سربراہ عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ درخواست گزار کی اہلیہ کی ویزا درخواست کی وجہ سے نام سامنے آیا ہوگا کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کو پانچ سال کا ویزہ دیا گیا۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے سوال کیا کہ ان کے موکل کی اہلیہ کا نام شکایت کنندہ کو کیسے معلوم ہوا۔ اُنھوں نے کہا کہ کیسے ایک جج کے خلاف محض ایک خط کی بنیاد پر تحقیقات کی جاسکتی ہیں جبکہ شکایت کنندہ کے بارے میں معلومات ہیں کہ اسے صرف استعمال کیا جارہا ہے جبکہ اس کے پیچھپے محرکات کچھ اور ہیں۔

_108388420_5b2e8276-412b-401c-a5df-a9ef6fa56916.jpg


اُنھوں نے کہا کہ ججوں کے خلاف تحقیقات سے متعلق قانون میں کچھ سیف گارڈز ہیں جس پر بینچ میں موجود جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ججوں کے معاملات کے حوالے سے دو فورم ہیں جو رائے دے سکتے ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کے خلاف شکایت وصول کرنا، ثبوت اکٹھے کرنا اور ریفرنس فائل کرنا مخلتف اوقات میں ایک سیریز کے ساتھ ہوئے ہیں۔

بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا وہ کہنا چاہتے ہیں کہ بغیر اجازت کے جج کے خلاف تحقیقات شروع کی گئیں اور آپ کے مطابق ان کے موکل کے خلاف تحقیقات ایسٹ ریکوری یونٹ کی وجہ سے شروع ہوئیں؟

منیر اے ملک نے جواب دیا کہ اگر عدالت تمام معاملات کو مرحلہ وار دیکھے تو تمام حقائق کھل کر سامنے آ جائیں گے۔

بینچ کے سربراہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل سے استفسار کیا کہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شکایت کنندہ وحید ڈوگر کو ایف آئی اے اور ایف بی آر نے ان کے موکل کے بارے میں تمام معلومات فراہم کیں جس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ وحید ڈوگر ایک جعلی شکایت کنندہ ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ شکایت کنندہ کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے یورپین نام کا کیسے علم ہوا؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہوسکتا کہ ڈوگر کے پاس مافوق الفطرت اختیارات ہوں۔ اس برجستہ جواب پر عدالت میں قہقہ بلند ہوا۔

بینچ کے سربراہ نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا اُن کے موکل نے اپنی اہلیہ کو کبھی کوئی رقم تحفے میں دی جس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں معلومات لے کر ہی عدالت کو بتا سکتے ہیں۔

سماعت کے دوران بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ڈوگر پراکسی ہے، اس کی منطق سمجھ نہیں آئی جس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ ڈوگر ایک بااعتماد آدمی نہیں ہے۔ اسی دوران عبدالوحید ڈوگر روسٹرم پر آئے اور جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل کو کہا کہ ’میں ڈوگر ہوں۔‘

بینچ کے سربراہ نے پوچھا کہ روسٹرم پر کون کھڑا ہے جس پر منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ یہ ڈوگر ہے۔

بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ اُنھیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ ڈوگر ہے جس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے خود مجھے کان میں بتایا ہے کہ وہ ڈوگر ہے۔ منیر اے ملک نے شکایت کنندہ کے بارے میں بتایا کہ وہ ماضی میں بھی جعلی خبریں شائع کرتے رہے اور بعد میں اپنے کیے پر معافی بھی مانگ لی۔

عدالت نے ان درخواستوں کی مزید سماعت 16 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
What is the source of money?
 

peaceandjustice

Chief Minister (5k+ posts)
What is the source of money?
امید ھے معزز جج صاحب اب آئیں بائیں شائیں نہیں کریں گے اور سیدھی سی بات ھے منی ٹریل ھے یا نہیں ، کس سورس سے یہ جائدادیں خریدیں گئیں ہیں اب قوم اپنے ٹیکس پیسوں کا حساب ھر ایک سے لے گی اب کوئی کرپٹ انسان کیسی گورنمنٹ عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا جب تک کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت نہ کر دے۔
ماضی یا حال میں کیسی بھی ادارے میں جو بھی عہدے دار کرپٹ سیسیلین مافیاز کے سہولیات کار رہے ہیں ان تمام سرکاری افراد سے فوراً تمام مراعات واپس لیں جائیں اور ان سرکاری افراد کو عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی شخص کرپشن کرنے سے پہلے 10 مرتبہ سوچے۔
 

ranaji

President (40k+ posts)
اسکی بیوی جس بندے کے زیر کفالت ہے اسکی ساری حرام خوری چوری فراڈ کا اسی سے معلوم کرو جو اسکی بیوی کو کفالت کے بدلے جائیدادیں خرید کر دیتا ہے قاضی تو صرف کمیشن وصول کرتا ہے اس کفیل سے اسکی بیوی کی ضرورتیں پوری کرنے اور کفالت کرنے کی جیسے اس نے حدیبیہ میں وصول کی ویسے قاضی کی بیوی کی کفالت کرنے کا قاضی نے خود بتایا ہے کہ یہ بیچارہ اسکی کوئی ضرورت کوئی کفالت پوری نہیں کر سکتا اس واسطے وہ اسکی زیر کفالت نہیں کسی اور کی زیر کفالت ہے
 

peaceandjustice

Chief Minister (5k+ posts)
اسکی بیوی جس بندے کے زیر کفالت ہے اسکی ساری حرام خوری چوری فراڈ کا اسی سے معلوم کرو جو اسکی بیوی کو کفالت کے بدلے جائیدادیں خرید کر دیتا ہے قاضی تو صرف کمیشن وصول کرتا ہے اس کفیل سے اسکی بیوی کی ضرورتیں پوری کرنے اور کفالت کرنے کی جیسے اس نے حدیبیہ میں وصول کی ویسے قاضی کی بیوی کی کفالت کرنے کا قاضی نے خود بتایا ہے کہ یہ بیچارہ اسکی کوئی ضرورت کوئی کفالت پوری نہیں کر سکتا اس واسطے وہ اسکی زیر کفالت نہیں کسی اور کی زیر کفالت ہے
وہ جو بھی کفیل کفالت کرتا تھا اس کو سامنے لایا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی کیسی کی کفالت اس طرح سے خفیہ طور پر نہ کر پائے کیونکہ قوم اب مزید ایسے ججوں کی اور سیاست دانوں کی کفالت نہیں کر سکتی جو جج یا سیاستدان اپنے بچوں اور فیملی کی کفالت نہ کرسکتا ہو۔
 

ranaji

President (40k+ posts)
وہ جو بھی کفیل کفالت کرتا تھا اس کو سامنے لایا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی کیسی کی کفالت اس طرح سے خفیہ طور پر نہ کر پائے کیونکہ قوم اب مزید ایسے ججوں کی اور سیاست دانوں کی کفالت نہیں کر سکتی جو جج یا سیاستدان اپنے بچوں اور فیملی کی کفالت نہ کرسکتا ہو۔
? ? ? ? ? ? ? ? ? ? ? ? ? ? ? ?