جس طرح چند فرقہ ورانہ تقریروں نے پورے ملک میں بے چینی کی فضا پیدا کر دی ہے، اور سارے ملک میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، اس سے ملکی معاملات کی حساسیت اور سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح کوئی بھی دشمن اپنے چند آلہ کاروں کو استعمال کر کے ملک کو جہنم زار بنا سکتا ہے۔
صاف نظر آ رہا ہے کہ وہی ہاتھ جنہوں نے ایرانیوں سے گستاخانہ تقریریں کروائیں ہیں، وہی ہاتھ اس بات کو بھی یقینی بنا رہا ہے کہ ان بدبختوں تک قانون کا ہاتھ نہ پہنچ سکے۔ تا کہ بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس بڑھتا رہے۔ یہاں تک کہ لوگ خود ہی قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں۔ اصل مسئلہ چند کتوں کا بھونکنا نہیں، بلکہ اصل مسئلہ جو کہ معاملے کو خرابی کی طرف لے جا رہا ہے، وہ حکومت کا قانونی تقاضے پورے نہ کرنا ہے۔ جس طرح ملعون آصف علوی کو ملک سے فرار کروایا گیااور اسے لندن میں سیاسی پناہ دلوائی گئی، اس سے مفتی منیب الرحمن کی اس بات میں وزن ہے کہ حکومتی صفوں میں ایسی شر پسند کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ جن کو قانون کے شکنجے میں لانا بہت ضروری ہو چکا ہے۔
کبھی سننے میں آتا ہے کہ ایک شخص نے نمک ذیادہ ہونے پر بیوی یا بیٹی کی پٹائی کر دی یا جان سے ہی مار ڈالا۔ دراصل یہ غصہ صرف نمک کی ذیادتی کا نہیں ، بلکہ کسی اور جگہ کا ہوتا ہے۔ (باس کی جھڑکیں، ٹریفک کے مسائل،دوستوں کا باہمی جھگڑا ،معاشی مشکلیں)، لیکن نکلتا اس جگہ ہے، جہاں موقع ملے۔ ساری دنیا اور خصوصا پاکستان میں مسلمان پہلے ہی بھرے بیٹھےہیں۔ کہیں ان کی جان سے ذیادہ عزیز ہستی و پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نعوذ باللہ خاکے بنتے ہیں، کہیں ویڈیو بنائی جاتی ہیں، کہیں جھوٹے الزامات لگتے ہیں، لیکن مسلمان سوائے پیچ و تاب کھانے کے کچھ نہیں کرپارہے۔ اور ایک لاوا ہے جو اندر ہی اندر پک رہا ہے۔اور برداشت اور صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔اور اب اگر اہل تشیع باز نہ آئے، تو ممکن ہے کہ پچھلا جمع شدہ سارا غصہ ان پر ہی نکل جائے۔لہذا انہیں چاہئے کہ اپنی روش پر غور کریں، اور اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کو تلاش کریں۔اسی میں ان کا اور ملک و قوم کا بھلا ہے۔اسی طرح محب وطن حلقوں کو بھی ان عناصر پر ہاتھ ڈالنا ہو گا جو حکومت میں بیٹھ کر بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ورنہ اس ساری صورت حال کا فائدہ ملک دشمن عناصر ہی اٹھائیں گے، اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔
صاف نظر آ رہا ہے کہ وہی ہاتھ جنہوں نے ایرانیوں سے گستاخانہ تقریریں کروائیں ہیں، وہی ہاتھ اس بات کو بھی یقینی بنا رہا ہے کہ ان بدبختوں تک قانون کا ہاتھ نہ پہنچ سکے۔ تا کہ بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس بڑھتا رہے۔ یہاں تک کہ لوگ خود ہی قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں۔ اصل مسئلہ چند کتوں کا بھونکنا نہیں، بلکہ اصل مسئلہ جو کہ معاملے کو خرابی کی طرف لے جا رہا ہے، وہ حکومت کا قانونی تقاضے پورے نہ کرنا ہے۔ جس طرح ملعون آصف علوی کو ملک سے فرار کروایا گیااور اسے لندن میں سیاسی پناہ دلوائی گئی، اس سے مفتی منیب الرحمن کی اس بات میں وزن ہے کہ حکومتی صفوں میں ایسی شر پسند کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ جن کو قانون کے شکنجے میں لانا بہت ضروری ہو چکا ہے۔
کبھی سننے میں آتا ہے کہ ایک شخص نے نمک ذیادہ ہونے پر بیوی یا بیٹی کی پٹائی کر دی یا جان سے ہی مار ڈالا۔ دراصل یہ غصہ صرف نمک کی ذیادتی کا نہیں ، بلکہ کسی اور جگہ کا ہوتا ہے۔ (باس کی جھڑکیں، ٹریفک کے مسائل،دوستوں کا باہمی جھگڑا ،معاشی مشکلیں)، لیکن نکلتا اس جگہ ہے، جہاں موقع ملے۔ ساری دنیا اور خصوصا پاکستان میں مسلمان پہلے ہی بھرے بیٹھےہیں۔ کہیں ان کی جان سے ذیادہ عزیز ہستی و پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نعوذ باللہ خاکے بنتے ہیں، کہیں ویڈیو بنائی جاتی ہیں، کہیں جھوٹے الزامات لگتے ہیں، لیکن مسلمان سوائے پیچ و تاب کھانے کے کچھ نہیں کرپارہے۔ اور ایک لاوا ہے جو اندر ہی اندر پک رہا ہے۔اور برداشت اور صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔اور اب اگر اہل تشیع باز نہ آئے، تو ممکن ہے کہ پچھلا جمع شدہ سارا غصہ ان پر ہی نکل جائے۔لہذا انہیں چاہئے کہ اپنی روش پر غور کریں، اور اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کو تلاش کریں۔اسی میں ان کا اور ملک و قوم کا بھلا ہے۔اسی طرح محب وطن حلقوں کو بھی ان عناصر پر ہاتھ ڈالنا ہو گا جو حکومت میں بیٹھ کر بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ورنہ اس ساری صورت حال کا فائدہ ملک دشمن عناصر ہی اٹھائیں گے، اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔