I apologize if anyone has been hurt by my speech, Doctor PIC

Oldwish

Senator (1k+ posts)
What the lawyers did was absolutely wrong. But the way this doctor was dancing was also wrong. Now he is trying to down play his role by saying he knew two days before. If you had foreknowledge then why the heck you did not do anything to prevent it?
Smart a@@
 

Oldwish

Senator (1k+ posts)
What the lawyers did was absolutely wrong. But the way this doctor was dancing was also wrong. Now he is trying to down play his role by saying he knew two days before. If you had foreknowledge then why the heck you did not do anything to prevent it?
Smart a@@
 

Dilvaly

Politcal Worker (100+ posts)
*تصویر کا دوسرا رخ* *حقائق کچھ یوں ہیں۔*
11 دسمبر 2019 کو کارڈیالوجی ہسپتال میں کیا ہوا ۔۔۔کیوں ہوا۔۔۔؟ اور اس کی وجہ کیا تھی ؟۔۔۔۔ ڈاکٹروں نے کیسے مریضوں کو قتل کیا۔ ۔۔؟ جو مریض آکسیجن کی کمی سے ہلاک ہوئے ان کی آکسیجن کس نے اتاری ۔۔۔۔؟اس میں اسپتال کا عملہ کس طرح ملوث ہے۔۔۔۔ اور ڈاکٹر مافیا کس طرح قتل عام کرگیا ۔۔۔۔۔۔؟ *تاکہ وہ وکلاء کوبدنام کر سکے اور اپنے اس گروہ اور مافیا کو بے نقاب نہ ہونے دے ان مضمرات پر غور کریں گے*.

تاہم سب سے پہلے کارڈیالوجی کے معاملات کو دیکھتے ہیں یہ دل کا پنجاب میں سب سے بڑا ہسپتال ہے جہاں پر روزانہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مریض آتے ہیں اس ہسپتال کو وائی ڈی اے یعنی ینگ ڈاکٹرز کا ہیڈکوارٹر بھی کہا جاتا ہے دوائیں بنانے والی کمپنیاں ان ینگ ڈاکٹرز کی پشت پناہ ہیں اور ان کے ذریعے بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی جو ادویات بناتی ہیں انہوں نے ہسپتال کی سپلائی لائن پر قبضہ کیا ہوا ہے اسی کمپنی کی دوائی پاس ہوتی ہے یا وہاں پر اس پہ مریضوں کو فراہم کیا جاتا ہے جو ان ڈاکٹرز کو کمیشن کے طور پر پیسے دیتی ہے یا ان کو مختلف آسائشیں فراہم کرتی ہے اور یہ اسے تسلی دیتے ہیں کہ صرف اسی کمپنی کی دوائیاں پک میں خریدی جائے گی اور اگر کسی اور کمپنی کی دوائی ہو تو یہ ایم ایس کو بھی ٹھوکنے سے باز نہیں آتے یہ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کی بات ہے اور ان ینگ ڈاکٹرز کے اکاؤنٹس اتنی تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ شاید عام ڈاکٹر اس کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے
شہباز شریف کے دور میں ایک ایسی کمپنی جس کی جعلی ادویات کی وجہ سے درجنوں اموات ہوئیں لیکن معاملہ دبا دیا گیا اور اس کمپنی کی ادویات بھی صرف ینگ ڈاکٹرز کے پریشر پر استعمال کی جا رہی تھیں، کوئی اور پہچان نہ تھی اسی طرح ایک کمپنی جس کے سٹینٹ کی قیمت چند ہزار روپے ہے وہ لاکھوں میں یہاں پر لگایا جارہا تھا اور اس میں بھی ینگ ڈاکٹرز اس کمپنی کے مفادات کی نگہبانی کیا کرتے تھے.

*اب آتے ہیں موجودہ واقعے کی طرف*...... پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہر روز مریضوں کو مفت ادویات دی جاتی ہیں۔ ان میں بہت سارے مریضوں کو ادویات کم فراہم کرکے انٹری لاگ میں زیادہ ادویات درج کرکے خرد برد کرلی جاتی ہیں اور یہ چوری شدہ ادویات جیل روڈ پر واقع مختلف میڈیکل سٹوروں پر بیچ دی جاتی ہیں یہ بھی کروڑوں کا دھندہ ہے جس میں ینگ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کا عملہ ملوث ہوتا ہے مریضوں کو انتہائی بدتمیزی اور سختی سے ٹریٹ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو فری ادویات میں جتنا حصہ مل جائے اتنا ہی غنیمت سمجھتے ہیں اور باقی بازار سے خرید لیتے ہیں*
اس سب میں ڈاکٹروں کے فرنٹ مین کے طور پر پیرا میڈیکل اسٹاف کام کرتا ہے اور یہ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹر عرصہ دراز سے ایک گینگ کی صورت میں اسپتال کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں، جو ذرا ذرا سی بات پر بھی ہڑتال کرتے ہیں اپنی پسند کی جگہ پر پوسٹنگ کرواتے ہیں اور اپنی پسند کی ڈیوٹی کرتے ہیں جبکہ ان ینگ ڈاکٹرز کے جنرل سیکرٹری گردہ فروشی میں ابھی بھی جیل میں ہے*
چند روز قبل دو وکلاء جو کہ یہ فری ادویات اپنے قریبی عزیزوں کے لیے لینے گئے تو کم ادویات دے کر جب اس سے زیادہ لاگ انٹر کیا گیا تو وکلاء نے باز پرس کی تو اس سے پیرا میڈیکل اسٹاف نے ڈاکٹروں کو آگاہ کیا اور وہاں پر موجود اس گینگ کے گروہ اور اس کمپنی کے لوگوں نے وکلاء پر شدید تشدد کرنا شروع کردیا
جس کی ویڈیو وائرل ہوئی اس کے بعد وکلاء شدید زخمی حالت میں جب ہسپتال میں پہنچے تو ڈاکٹروں نے اپنے بھائی ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو بچانے کے لئے وکلاء کا میڈیکل کرنے سے انکار کر دیا یہ امر واضح ہے کہ میڈیکل کے بغیر کوئی بھی ایف آئی آر بےمعنی ہوجاتی ہے ڈاکٹروں نے اپنی تمام تر پیشہ وارانہ فرائض سے غفلت اور کوتاہی برتتے ہوئے اور مجرمانہ غفلت کرتے ہوئے اپنے بھائی ڈاکٹروں کو بچانے کے لئے میڈیکل نہ کیا.

وکلاء نے جب ایف آئی آر درج کروائی تو میڈیکل نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایف آئی آر کافی کمزور تھی وکلاء نے پوری کوشش کی کہ انہیں میڈیکل مل جائے لیکن متعلقہ ڈاکٹر نے اپنے بھائیوں کو بچانے کے لئے MLC نہ کیا *اس حد تک کہ مجسٹریٹ کے حکم پر بھی میڈیکل بورڈ کی تشکیل نہ ہوسکی جس سے اس امر کا اندازہ لگائیں کہ یہ کتنا بڑا مافیا اور کتنے منظم گروہ کی صورت میں ڈاکٹرز کام کر رہے تھے*
اب وکلاء کے پاس اگلی قانونی چارہ جوئی ان ملزمان کو گرفتار کروانا تھا۔ تاہم تمام ممکنہ کوشش کرنے کے بعد آئی جی پولیس پنجاب کے دفتر کا گھیراؤ کرنے کے بعد اور چیف سیکریٹری کے دفتر کا محاصرہ کرنے کے بعد وکلاء کی بے بسی عیاں تھی کہ تمام لوگ اس مافیا کے سامنے بے اثر تھے اور ملزمان کو گرفتار نہ کیا جا سکا۔
جس کے بعد وکلاء نمائندوں نے سمجھ بوجھ سے کام لیا، جو مافیا ہسپتالوں میں کم قیمت پر ناقص ادویات فراہم کرتا ہے انہوں نے بھی وکلاء رہنماؤں کو اپنے انداز میں اپروچ کیا اور معاملہ ختم کروانے کے لیے دباؤ بڑھایا۔ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو بچانے کے لئے اور معاملہ دبانے کے لئے اس مافیا نے بھرپور انداز میں پیسہ خرچ کیا جس سے وکلاء رہنماؤں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور بھرپور پیسے لینے کے بعد معاملے کو دبانے پر آمادہ ہوگئے
اس سارے معاملے میں نوجوان وکلاء اور پروفیشنل وکلاء بہت زیادہ حساسیت کا شکار تھے تاہم اپنی عزت اور بھرم کو بچانے کے لئے انہوں نے اپنی قیادت کی ہاں میں ہاں ملائی اور ایک مناسب انداز میں صلح جوئی پر بات ختم ہوئی جس میں ڈاکٹرز نے برائے نام سی معافی کی ایک ویڈیو جاری کر دی اور وکلاء بھی مطمئن ہوگئے کہ چلو ان کا بھرم رہ گیا،
تاہم گزشتہ رات ایک ڈاکٹر کی وائرل ہونے والی ویڈیو نے تمام معاملات کا بھانڈا پھوڑ دیا جس سے وکلاء کو پتہ چلا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے اور قانون کے رکھوالے ہی قانون کو خریدنے والوں کے سامنے بے بس ہیں اور یہ ڈاکٹر حضرات مکمل طور پر مافیا کی صورت میں بدمعاشی اور ان کی تذلیل پر اترا آئے ہیں اس صورت حال کے تناظر میں بار روم لاہور میں ایک اجلاس ہوا۔ غم غصہ اتنا زیادہ تھاکہ قانون کا محافظ وکیل بھی بے بس ہوگیا اور عام وکیل کی غیرت حمیت نے جوش مارا اور وکلاء نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جانے کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ اس وقت تک وہاں سے نہیں ہٹا جائے گا جب تک ان ملزمان کو گرفتار نہ کیا جائے وکلاء پہلے گورنر ہائوس گئے لیکن شنوائی نہ ہوئی پھر شادمان چوک اور پھر جیل روڈ پر پہنچے تو ایک ٹولی میں موجود ینگ ڈاکٹرز جو اس وقت ہسپتال سے باہر نکل رہے تھے نے دشنام درازی شروع کردی جب وکلاء نے ان کا پیچھا کیا تو وہ چونکہ راستوں سے واقف تھے وہ فوری طور پر بھاگ کر ڈاکٹرز ہوسٹل میں چلے گئے۔ اسی دوران وکلاء بڑی تعداد میں ان کو ڈھونڈتے ہوئے ہسپتال کے اندر چلے گئے مافیا کے کارندوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے جب یہ حالت دیکھی تو انہوں نے فوری طور پر مریضوں کے آکسیجن ماسک اتارنے شروع کر دیئے جس سے مریضوں کی ڈیتھ ہوئی اور وکلاء ان ڈاکٹروں کو ڈھونڈتے ہوئے ان کے پیچھے مختلف وارڈوں میں چلے گئے ہسپتال انتظامیہ نے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہسپتال کے اندر کی تمام ویڈیوز تو ڈیلیٹ کردی ہے یا چھپا لی ہے جس سے یہ واضح طور پر نظر آ سکتا تھا کہ یہ آکسیجن ماسک اتارنے والے کون تھے؟ کیونکہ وکلاء کو میڈیکل آلات اور آکسیجن کے معاملات میں اتنی مہارت نہیں ہے جبکہ پیرامیڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹر ایک لمحے میں تمام آپریشن کو خراب یا ختم یا ماسک کو اتار سکتے ہیں حیران کن بات یہ ہے کہ کچھ آکسیجن سلنڈر والو بند کیا گیا تھا وکلاء اگر ہنگامہ آرائی کرتے تو اتنی باریکی سے وہ آکسیجن سلنڈر ۔ کیسے بند کر سکتے تھے جو کہ انتہائی قابل غور بات ہے.

اب بات کرتے ہیں میڈیا کی۔ تو مافیا اس جعلی ادویات والی کمپنیوں کا ہم نے ذکر کیا ہے جو ان ڈاکٹروں کے پشت پناہ اور پنجاب کے واحد کاڈیالوجی ہاسپٹل سے دونوں ہاتھوں سے دولت بنا رہے انہوں نے بھرپور انداز میں میڈیا پر انویسٹمنٹ کی لوکل چینل کے رپورٹر کو تو باقاعدہ گاڑیوں کی صورت میں نوازا گیا ۔اورمیڈیا مسلسل تصویر کا ایک رخ دکھانا شروع ہو گیا حیران کن طور پر وکلاء پر جو تشدد ہوا اس کی تمام فوٹیج میڈیا نے نہ صرف دکھائی نہیں بلکہ بہت ساری فوٹیج ضائع کردی اور واضح طور پر معاملے میں وکلاء کو مورد الزام ٹھہرایا اس معاملے میں مجیب الرحمٰن شامی اجمل جامی جیو نیوز کے مختلف اینکر احمدفراز اور دیگر درجنوں صحافی جن کو ان ادویات بنانے والی کمپنی جو اپنی دس روپے کی گولی گیارہ سو روپے میں فروخت کر رہے ہیں نے دونوں ہاتھوں سے نوازا جس کا انہوں نے بھرپور حق نمک ادا کیا
اب وکلاء کو کیا کرنا چاہیے وکلاء کو بڑے سیدھے سادھے انداز میں جن لوگوں نے وکیلوں پر تشدد کیا ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرنا چاہیے
وکیل پنجاب بار کی وکیلوں پر مشتمل ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی بنانی چاہیے جو پی آئی سی میں ہونے والی اموات پر انکوائری کرے کہ کس طرح آکسیجن سلنڈر بند کیے گئے اور کیوں مریضوں کے ماسک اتارے گئے اور ذمہ داروں کے خلاف قتل کی FIR درج کروائے
اور یہ بھی دیکھے کہ ہسپتال سے فوٹیج کیوں ضائع کی گئی اور ہسپتال کے اندر توڑ پھوڑ کرنے والے وکلاء کی یونیفارم میں تو نہیں تھے یہ سویلین کون تھے اور اس کے بعد ہائی کورٹ میں پٹیشن کے ذریعہ ینگ ڈاکٹرز جو دواؤں کی کمپنیوں کے آلہ کار اور کمیشن ایجنٹ بنے ہوئے اس ایسوسی ایشن پر فوری پابندی لگانی چاہیے کیونکہ سرکاری ہسپتالوں میں اس طرح کی ایسوسی ایشن یا اس طرح کی دھڑے بندی غیر قانونی اور آئینی طور پر غلط ہے
لاہور کا ہر ۔ فوجداری وکیل ماڈل ٹاؤن کینٹ اور ضلع کچہری میں ان ملزم ڈاکٹروں کے خلاف استغاثہ جات دائر کرے
سول پریکٹس والے وکلاء لیگل نوٹس اور ہتک عزت کےریکوری دعوی جات دائر کریں
قاتل ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کواگر گرفتار نہ کیاگیا تو یہ ڈاکٹر مافیا ہر چوتھے روز اپنے مذموم عزائم کے لئیے دو چار مریضوں کو قتل کردیں گے یہ وقت ہے پاکستان کی عوام کو ان قاتلوں اور مافیا کے کارندوں سے بچانے کا.
 

Tyrion Lannister

Chief Minister (5k+ posts)
*تصویر کا دوسرا رخ* *حقائق کچھ یوں ہیں۔*
11 دسمبر 2019 کو کارڈیالوجی ہسپتال میں کیا ہوا ۔۔۔کیوں ہوا۔۔۔؟ اور اس کی وجہ کیا تھی ؟۔۔۔۔ ڈاکٹروں نے کیسے مریضوں کو قتل کیا۔ ۔۔؟ جو مریض آکسیجن کی کمی سے ہلاک ہوئے ان کی آکسیجن کس نے اتاری ۔۔۔۔؟اس میں اسپتال کا عملہ کس طرح ملوث ہے۔۔۔۔ اور ڈاکٹر مافیا کس طرح قتل عام کرگیا ۔۔۔۔۔۔؟ *تاکہ وہ وکلاء کوبدنام کر سکے اور اپنے اس گروہ اور مافیا کو بے نقاب نہ ہونے دے ان مضمرات پر غور کریں گے*.

تاہم سب سے پہلے کارڈیالوجی کے معاملات کو دیکھتے ہیں یہ دل کا پنجاب میں سب سے بڑا ہسپتال ہے جہاں پر روزانہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مریض آتے ہیں اس ہسپتال کو وائی ڈی اے یعنی ینگ ڈاکٹرز کا ہیڈکوارٹر بھی کہا جاتا ہے دوائیں بنانے والی کمپنیاں ان ینگ ڈاکٹرز کی پشت پناہ ہیں اور ان کے ذریعے بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی جو ادویات بناتی ہیں انہوں نے ہسپتال کی سپلائی لائن پر قبضہ کیا ہوا ہے اسی کمپنی کی دوائی پاس ہوتی ہے یا وہاں پر اس پہ مریضوں کو فراہم کیا جاتا ہے جو ان ڈاکٹرز کو کمیشن کے طور پر پیسے دیتی ہے یا ان کو مختلف آسائشیں فراہم کرتی ہے اور یہ اسے تسلی دیتے ہیں کہ صرف اسی کمپنی کی دوائیاں پک میں خریدی جائے گی اور اگر کسی اور کمپنی کی دوائی ہو تو یہ ایم ایس کو بھی ٹھوکنے سے باز نہیں آتے یہ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کی بات ہے اور ان ینگ ڈاکٹرز کے اکاؤنٹس اتنی تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ شاید عام ڈاکٹر اس کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے
شہباز شریف کے دور میں ایک ایسی کمپنی جس کی جعلی ادویات کی وجہ سے درجنوں اموات ہوئیں لیکن معاملہ دبا دیا گیا اور اس کمپنی کی ادویات بھی صرف ینگ ڈاکٹرز کے پریشر پر استعمال کی جا رہی تھیں، کوئی اور پہچان نہ تھی اسی طرح ایک کمپنی جس کے سٹینٹ کی قیمت چند ہزار روپے ہے وہ لاکھوں میں یہاں پر لگایا جارہا تھا اور اس میں بھی ینگ ڈاکٹرز اس کمپنی کے مفادات کی نگہبانی کیا کرتے تھے.

*اب آتے ہیں موجودہ واقعے کی طرف*...... پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہر روز مریضوں کو مفت ادویات دی جاتی ہیں۔ ان میں بہت سارے مریضوں کو ادویات کم فراہم کرکے انٹری لاگ میں زیادہ ادویات درج کرکے خرد برد کرلی جاتی ہیں اور یہ چوری شدہ ادویات جیل روڈ پر واقع مختلف میڈیکل سٹوروں پر بیچ دی جاتی ہیں یہ بھی کروڑوں کا دھندہ ہے جس میں ینگ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کا عملہ ملوث ہوتا ہے مریضوں کو انتہائی بدتمیزی اور سختی سے ٹریٹ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو فری ادویات میں جتنا حصہ مل جائے اتنا ہی غنیمت سمجھتے ہیں اور باقی بازار سے خرید لیتے ہیں*
اس سب میں ڈاکٹروں کے فرنٹ مین کے طور پر پیرا میڈیکل اسٹاف کام کرتا ہے اور یہ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹر عرصہ دراز سے ایک گینگ کی صورت میں اسپتال کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں، جو ذرا ذرا سی بات پر بھی ہڑتال کرتے ہیں اپنی پسند کی جگہ پر پوسٹنگ کرواتے ہیں اور اپنی پسند کی ڈیوٹی کرتے ہیں جبکہ ان ینگ ڈاکٹرز کے جنرل سیکرٹری گردہ فروشی میں ابھی بھی جیل میں ہے*
چند روز قبل دو وکلاء جو کہ یہ فری ادویات اپنے قریبی عزیزوں کے لیے لینے گئے تو کم ادویات دے کر جب اس سے زیادہ لاگ انٹر کیا گیا تو وکلاء نے باز پرس کی تو اس سے پیرا میڈیکل اسٹاف نے ڈاکٹروں کو آگاہ کیا اور وہاں پر موجود اس گینگ کے گروہ اور اس کمپنی کے لوگوں نے وکلاء پر شدید تشدد کرنا شروع کردیا
جس کی ویڈیو وائرل ہوئی اس کے بعد وکلاء شدید زخمی حالت میں جب ہسپتال میں پہنچے تو ڈاکٹروں نے اپنے بھائی ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو بچانے کے لئے وکلاء کا میڈیکل کرنے سے انکار کر دیا یہ امر واضح ہے کہ میڈیکل کے بغیر کوئی بھی ایف آئی آر بےمعنی ہوجاتی ہے ڈاکٹروں نے اپنی تمام تر پیشہ وارانہ فرائض سے غفلت اور کوتاہی برتتے ہوئے اور مجرمانہ غفلت کرتے ہوئے اپنے بھائی ڈاکٹروں کو بچانے کے لئے میڈیکل نہ کیا.

وکلاء نے جب ایف آئی آر درج کروائی تو میڈیکل نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایف آئی آر کافی کمزور تھی وکلاء نے پوری کوشش کی کہ انہیں میڈیکل مل جائے لیکن متعلقہ ڈاکٹر نے اپنے بھائیوں کو بچانے کے لئے MLC نہ کیا *اس حد تک کہ مجسٹریٹ کے حکم پر بھی میڈیکل بورڈ کی تشکیل نہ ہوسکی جس سے اس امر کا اندازہ لگائیں کہ یہ کتنا بڑا مافیا اور کتنے منظم گروہ کی صورت میں ڈاکٹرز کام کر رہے تھے*
اب وکلاء کے پاس اگلی قانونی چارہ جوئی ان ملزمان کو گرفتار کروانا تھا۔ تاہم تمام ممکنہ کوشش کرنے کے بعد آئی جی پولیس پنجاب کے دفتر کا گھیراؤ کرنے کے بعد اور چیف سیکریٹری کے دفتر کا محاصرہ کرنے کے بعد وکلاء کی بے بسی عیاں تھی کہ تمام لوگ اس مافیا کے سامنے بے اثر تھے اور ملزمان کو گرفتار نہ کیا جا سکا۔
جس کے بعد وکلاء نمائندوں نے سمجھ بوجھ سے کام لیا، جو مافیا ہسپتالوں میں کم قیمت پر ناقص ادویات فراہم کرتا ہے انہوں نے بھی وکلاء رہنماؤں کو اپنے انداز میں اپروچ کیا اور معاملہ ختم کروانے کے لیے دباؤ بڑھایا۔ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو بچانے کے لئے اور معاملہ دبانے کے لئے اس مافیا نے بھرپور انداز میں پیسہ خرچ کیا جس سے وکلاء رہنماؤں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور بھرپور پیسے لینے کے بعد معاملے کو دبانے پر آمادہ ہوگئے
اس سارے معاملے میں نوجوان وکلاء اور پروفیشنل وکلاء بہت زیادہ حساسیت کا شکار تھے تاہم اپنی عزت اور بھرم کو بچانے کے لئے انہوں نے اپنی قیادت کی ہاں میں ہاں ملائی اور ایک مناسب انداز میں صلح جوئی پر بات ختم ہوئی جس میں ڈاکٹرز نے برائے نام سی معافی کی ایک ویڈیو جاری کر دی اور وکلاء بھی مطمئن ہوگئے کہ چلو ان کا بھرم رہ گیا،
تاہم گزشتہ رات ایک ڈاکٹر کی وائرل ہونے والی ویڈیو نے تمام معاملات کا بھانڈا پھوڑ دیا جس سے وکلاء کو پتہ چلا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے اور قانون کے رکھوالے ہی قانون کو خریدنے والوں کے سامنے بے بس ہیں اور یہ ڈاکٹر حضرات مکمل طور پر مافیا کی صورت میں بدمعاشی اور ان کی تذلیل پر اترا آئے ہیں اس صورت حال کے تناظر میں بار روم لاہور میں ایک اجلاس ہوا۔ غم غصہ اتنا زیادہ تھاکہ قانون کا محافظ وکیل بھی بے بس ہوگیا اور عام وکیل کی غیرت حمیت نے جوش مارا اور وکلاء نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جانے کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ اس وقت تک وہاں سے نہیں ہٹا جائے گا جب تک ان ملزمان کو گرفتار نہ کیا جائے وکلاء پہلے گورنر ہائوس گئے لیکن شنوائی نہ ہوئی پھر شادمان چوک اور پھر جیل روڈ پر پہنچے تو ایک ٹولی میں موجود ینگ ڈاکٹرز جو اس وقت ہسپتال سے باہر نکل رہے تھے نے دشنام درازی شروع کردی جب وکلاء نے ان کا پیچھا کیا تو وہ چونکہ راستوں سے واقف تھے وہ فوری طور پر بھاگ کر ڈاکٹرز ہوسٹل میں چلے گئے۔ اسی دوران وکلاء بڑی تعداد میں ان کو ڈھونڈتے ہوئے ہسپتال کے اندر چلے گئے مافیا کے کارندوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے جب یہ حالت دیکھی تو انہوں نے فوری طور پر مریضوں کے آکسیجن ماسک اتارنے شروع کر دیئے جس سے مریضوں کی ڈیتھ ہوئی اور وکلاء ان ڈاکٹروں کو ڈھونڈتے ہوئے ان کے پیچھے مختلف وارڈوں میں چلے گئے ہسپتال انتظامیہ نے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہسپتال کے اندر کی تمام ویڈیوز تو ڈیلیٹ کردی ہے یا چھپا لی ہے جس سے یہ واضح طور پر نظر آ سکتا تھا کہ یہ آکسیجن ماسک اتارنے والے کون تھے؟ کیونکہ وکلاء کو میڈیکل آلات اور آکسیجن کے معاملات میں اتنی مہارت نہیں ہے جبکہ پیرامیڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹر ایک لمحے میں تمام آپریشن کو خراب یا ختم یا ماسک کو اتار سکتے ہیں حیران کن بات یہ ہے کہ کچھ آکسیجن سلنڈر والو بند کیا گیا تھا وکلاء اگر ہنگامہ آرائی کرتے تو اتنی باریکی سے وہ آکسیجن سلنڈر ۔ کیسے بند کر سکتے تھے جو کہ انتہائی قابل غور بات ہے.

اب بات کرتے ہیں میڈیا کی۔ تو مافیا اس جعلی ادویات والی کمپنیوں کا ہم نے ذکر کیا ہے جو ان ڈاکٹروں کے پشت پناہ اور پنجاب کے واحد کاڈیالوجی ہاسپٹل سے دونوں ہاتھوں سے دولت بنا رہے انہوں نے بھرپور انداز میں میڈیا پر انویسٹمنٹ کی لوکل چینل کے رپورٹر کو تو باقاعدہ گاڑیوں کی صورت میں نوازا گیا ۔اورمیڈیا مسلسل تصویر کا ایک رخ دکھانا شروع ہو گیا حیران کن طور پر وکلاء پر جو تشدد ہوا اس کی تمام فوٹیج میڈیا نے نہ صرف دکھائی نہیں بلکہ بہت ساری فوٹیج ضائع کردی اور واضح طور پر معاملے میں وکلاء کو مورد الزام ٹھہرایا اس معاملے میں مجیب الرحمٰن شامی اجمل جامی جیو نیوز کے مختلف اینکر احمدفراز اور دیگر درجنوں صحافی جن کو ان ادویات بنانے والی کمپنی جو اپنی دس روپے کی گولی گیارہ سو روپے میں فروخت کر رہے ہیں نے دونوں ہاتھوں سے نوازا جس کا انہوں نے بھرپور حق نمک ادا کیا
اب وکلاء کو کیا کرنا چاہیے وکلاء کو بڑے سیدھے سادھے انداز میں جن لوگوں نے وکیلوں پر تشدد کیا ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرنا چاہیے
وکیل پنجاب بار کی وکیلوں پر مشتمل ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی بنانی چاہیے جو پی آئی سی میں ہونے والی اموات پر انکوائری کرے کہ کس طرح آکسیجن سلنڈر بند کیے گئے اور کیوں مریضوں کے ماسک اتارے گئے اور ذمہ داروں کے خلاف قتل کی FIR درج کروائے
اور یہ بھی دیکھے کہ ہسپتال سے فوٹیج کیوں ضائع کی گئی اور ہسپتال کے اندر توڑ پھوڑ کرنے والے وکلاء کی یونیفارم میں تو نہیں تھے یہ سویلین کون تھے اور اس کے بعد ہائی کورٹ میں پٹیشن کے ذریعہ ینگ ڈاکٹرز جو دواؤں کی کمپنیوں کے آلہ کار اور کمیشن ایجنٹ بنے ہوئے اس ایسوسی ایشن پر فوری پابندی لگانی چاہیے کیونکہ سرکاری ہسپتالوں میں اس طرح کی ایسوسی ایشن یا اس طرح کی دھڑے بندی غیر قانونی اور آئینی طور پر غلط ہے
لاہور کا ہر ۔ فوجداری وکیل ماڈل ٹاؤن کینٹ اور ضلع کچہری میں ان ملزم ڈاکٹروں کے خلاف استغاثہ جات دائر کرے
سول پریکٹس والے وکلاء لیگل نوٹس اور ہتک عزت کےریکوری دعوی جات دائر کریں
قاتل ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کواگر گرفتار نہ کیاگیا تو یہ ڈاکٹر مافیا ہر چوتھے روز اپنے مذموم عزائم کے لئیے دو چار مریضوں کو قتل کردیں گے یہ وقت ہے پاکستان کی عوام کو ان قاتلوں اور مافیا کے کارندوں سے بچانے کا.
What a bullshit