جسے آپ غلط فہمی کہہ رہے ہیں وہ بلا شبہ لاعلمی پر مبنی ہے پر اگر تجزیہ کریں تو یہی غلط فہمی دراصل درست بھی ہے ۔ اگر جانداروں کے گروپس بنائے جائیں گے تو انسان بندر والے گروپ میں ہی شمار ہوگا۔ جیسے گھوڑا ، گدھا ، زیبرا ایک ہی گروپ کے ہیں ، جیسے بلی ، چیتا ، شیر ایک ہی گروپ کے ہیں۔
؟
ہاں، اگر آپ ادب کی زبان میں بات کریں تو میرے خیال میں یہ درست کہلائے گا۔۔۔
آپ قران کو شاعری کی کتاب سمجھیں اس میں لکھے کو مغلظات اور بکواس سمجھیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے پر جب آپ اس کا حوالہ دے رہے ہیں تو پھر کتاب کا ہی حوالہ دیں ، مولویوں کی بریکٹوں سے پرہیز کریں ویسے بھی آپ جیسے عالم فاضل کو مولوی کی بریکٹوں کی کیا ضرورت ہے؟ اگر لوگ اس دور میں بھی نبی کریم کو اڑنے والے گھوڑے پر بٹھا کر آسمانوں کی سیر کروا رہے ہیں تو اس میں لوگوں کی غلطی ہے۔ اگر آپ ایسی ہی خلاف عقل بات قران سے دکھا دیں تو میں بھی آنکھیں بند کر کے گدھا بننے سے پرہیز کرنے کی کوشش کروں۔ قران نہ تو کوئی سائنس کی کتاب ہے نہ ہی قانون کی اور نہ ہی ادب کی ، یہ تو بس ایک نصیحت ہے ایک یاد دہانی ہے۔ میں اس کو کبھی بھی اس بحث میں نہ لاتا پر آپ نے ہی قران کا حوالہ دے کر بیان دیا کہ مذہبی لوگ اپنی آسمانی کتابوں کی وجہ سے ارتقا کی تھیوری کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ تو میں نے وضاحت کی کہ قران سے ارتقا کی حمایت میں تو کچھ نکات لئے جا سکتے ہیں پر مخالفت مٰیں کچھ موجود نہیں ہے۔
میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ قرآن کوئی سائنس یا قانون کی کتاب نہیں، مگر مجھے یقین ہے آپ بھی اس بات کو تسلیم کریں گے کہ مسلمانوں کی اکثریت قرآن کو سائنس سمیت تمام علوم کا منبع و مخزن مانتی ہے اور سچ پوچھیں تو میرے قرآن کو مسترد کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ میں نے اس کو سائنسی علوم کے خلاف پایا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتاب نفرت کی تعلیم دیتی ہے۔ میں ایک اگناسٹک ہوں، میں نہیں جانتا خدا ہے یا نہیں ہے اس لئے میں خدا کا اقرار کرتا ہوں نہ انکار۔ مگر میرا شعور مجھے یہ ضرور باور کراتا ہے کہ اگر فرض کرلیں یہ مان لیا جائے کہ کائنات اور حیات کی تخلیق کے پیچھے کوئی ایک واحد ہستی ہے جس کو ہم خدا کا نام دے لیں تو وہ اتنی بڑی ہستی اتنی کم ظرف اور تنگ نظر نہیں ہوسکتی کہ اپنی ہی تخلیق کردہ مخلوق پر لعنتیں بھیجے (ذرا دیکھیں قرآن میں کتنی بار انسانوں پر لعنت بھیجی گئی ہے) اپنے ہی بنائے ہوئے انسانوں کو آپس میں نفرت اور تقسیم کی تعلیم دے، انہیں کہے کہ فلاں فلاں قومیں تو تمہاری دشمن ہیں ان سے دوستی مت کرو، ان کے ساتھ تعلق مت رکھو وغیرہ وغیرہ۔ ذرا تصور کیجئے اتنی عالیشان کائنات اور اتنی پیچیدہ حیات کا خالق بھلا ایسے رویے کا اظہار کرے گا؟
اگر آپ غور کریں تو اسلام سمیت تمام مذاہب کا خدا انسان کی شبیہہ پر تراشا گیا ہے، اور ہر مذہب کا خدا صرف اپنے ہی مذہب کے پیروکاروں کا خدا ہے، وہ تمام انسانوں کا خدا نہیں ہے۔ مثلا یہودیوں کا مذہب لے لیں، اس میں خدا کا جو تصور ہے، وہ صرف یہودیوں کو ہی اپنی واحد چنیدہ قوم کہتا ہے، عیسائیوں کے خدا نے جنت صرف عیسائیوں کے نام کررکھی ہے اور مسلمانوں کے خدا نے صرف مسلمانوں کو ہی بہترین امت (کنتم خیر امتۃ اخرجت للناس ۔آل عمران۔110) قرار دیا ہے جو ہدایت پر ہے۔ آپ کو کسی بھی مذہب میں تمام انسانوں کا خدا نہیں ملے گا، کیونکہ خدا کے نام پر گھڑے ہوئے یہ سارے پتلے انسانوں نے خود تراشے ہیں، اس لئے انسانوں کا عکس بھی ان خداؤں میں پوری طرح نظر آتا ہے، یہ انسان کی طرح معمولی معمولی باتوں پر غصہ ہوتے ہیں، انسان کی طرح اذیت پسند ہیں، انسان کی طرح ہی ذرا سی بات پر خوش بھی ہوجاتے ہیں، انسانوں کی طرح تقسیم اور تفریق پر یقین رکھتے ہیں، انسانوں کی طرح لڑنے مارنے پر بھی آمادہ رہتے ہیں، انسانوں کی طرح انہیں اپنی تعریف کی بھی بہت چاہ ہے وغیرہ وغیرہ۔
اگر غور کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذہب ماضی قدیم کے انسان کی ضرورت تھی، کیونکہ اس وقت انسان لاعلم تھا، تنہا تھا اور اس کے پاس کوئی مقصد نہیں تھا۔ مذہب نے ماضی قدیم کے انسان کی یہ تینوں ضروریات پوری کیں، اس نے انسان کو علم دیا (یہ الگ بات ہے کہ غلط علم دیا، مگر دیا ضرور) کہ انسان کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا۔ مذہب نے انسان کی تنہائی دور کی، اس کو سہارے کیلئے ایک خدا دیا۔ تیسرا اس کو مقصد دیا کہ تم خدا کو خوش کرو، مرنے کے بعد ابدی زندگی ملے گی۔۔ یوں انسان کی زندگی کا بہت بڑا خلا مذہب نے پرکیا۔۔ اس تمام کے باوجود یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ مذہب سچ تھا یا ہے۔ آج بھی مذہب پسماندہ اور بدحال قوموں کیلئے یہ تین ضروریات پوری کرنے کا کام دیتا ہے، مگر جو معاشرے علم اور دولت میں آگے ہیں، جو آسودہ حال ہیں، وہ مذہب کی ضرورت سے نجات پاگئے ہیں، وہ عقلی اعتبار سے بھی سمجھ گئے ہیں کہ مذہب انسان کے تاریک دور کی ضرورت تھی، آج وہ تاریک دور نہیں رہا تو مذہب کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ جہاں تک خدا کی بات ہے تو خدا کا معمہ آج بھی ویسے ہی حل طلب ہے، اور شاید مستقبل میں بھی ایسے ہی رہے گا، مذہب نے سب سے بڑا ستم یہ کیا کہ خدا کے موضوع کوہائی جیک کرلیا لہذا آج ہمارے جیسے معاشروں میں خدا پر بحث کو ہمیشہ مذہب پر بحث اور مذہب پر تنقید کو خدا پر تنقید سمجھا جاتا ہے، ہمارے لوگ ان دو معاملات کو الگ الگ دیکھنے سے قاصر ہیں۔
یہ درست ہے کہ آج کے دور میں انسان جنیاتی تبدیلی پر قدرت رکھتا ہے پر یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ یہ عمل لاکھوں سال میں فطری طور پر عمل پذیر بھی ہوا ہے۔ ویسے بھی میرا علم اس میں بہت محدود ہے اور میں اس تھیوری کے خلاف بھی نہیں ہوں، علم میں نے علم والوں سے ہی حاصل کرنا ہے۔ اگر آج کے سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سب ایسا ہی ہوا ہے تو پھر یقینا ایسا ہی ہوا ہوگا۔
میرے خیال میں کوئی بھی نظریہ / دعویٰ / تھیوری جس کو تجرباتی طور پر ثابت نہ کیا جاسکتا ہو، اس پر اشکالات رہتے ہیں اور سب کو حق ہے اس پر اعتراضات کا۔ ارتقا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے کیونکہ یہ بہت طویل عمل ہوتا ہے اس لئے اس کو تجرباتی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکتا، لہذا اعتراضات اور شبہات رہیں گے ، سو فیصد قانون کا درجہ شاید اس کو کبھی نہ ملے ۔۔
آپ کی اردو بہت ہی اچھی ہے۔ آپ کسی اخبار وغیرہ میں کالم کیوں نہیں لکھتے ؟
پسندیدگی کے اظہار کا شکریہ، مگر میں خود کو اس قابل نہیں پاتا، یہاں بھی میں محض تبادلہ خیالات کرنے آتا ہوں۔ ایک وقت تھا جب مجھے یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ میں کوئی باعلم شخص ہوں، مگر جب علمی میدان میں اترا تو پتا چلا کہ میں تو کچھ بھی نہیں جانتا۔ اب جب بھی کہیں سے کوئی قطرہ علم نصیب ہوتا ہے تو تشنگی مزید بڑھ جاتی ہے ساتھ یہ احساس بھی گہرا ہوجاتا ہے کہ میں کتنا کم جانتا ہوں۔ بہرحال مختلف الخیال لوگوں سے گفتگو سے ہی اپنے علم کی کجیوں کمیوں کو دور کیا جاسکتا ہے اور میں اسی نسخے پر عمل پیرا رہتا ہوں،۔