Humans are not from earth. Scientist Ellis Silver research.

Irfan_balouch

Senator (1k+ posts)
جب آپ یہ کہتے ہیں کہ انسان بندر کی ترقی یافتہ شکل ہے یا انسان بندر کی اولاد ہے تو آپ اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ آپ ارتقا کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

جہاں تک قرآن کی بات ہے تو معاف کیجئے گا قرآن میں کوئی علمی بات نہیں، قرآن میں جب تک مولوی اپنی بریکٹیں نہ ڈالے کوئی بات قابل فہم ہی نہیں ہوتی۔۔ اور ہر مولوی کی اپنی اپنی بریکٹیں ہوتی ہیں۔۔

ہاں یہ تھیوری موجود ہے کہ ہوسکتا ہے یہ دنیا، ہم سب ایک خواب میں جی رہے ہوں، مگر اس کے رد میں یہ ٹھوس دلیل موجود ہے کہ اگر فرض کریں یہ ایک خواب ہے تو پھر بھی ایک حقیقی دنیا کا وجود لازم ہے جس کا عکس ہمیں خواب میں نظر آرہا ہے، کیونکہ خواب میں وہی چیزیں نظر آتی ہیں جو حقیقی دنیا میں موجود ہوں۔
محترم اتنا تو نہیں جانتا جتنا آپ جانتے ہو پر میں نے عام فہم زبان میں ایک جملہ بولا جو سب کو سمجھ آتا ہے اب اس ارتقائی عمل کو ایک خلیے کی تخلیق جو ہوا پانی اور مٹی کے ملاپ سے ممکن ہوئی شروع کروں؟ تب صیح ہوگا ؟

قران کی اپنی ایک زبان ہے مولوی کی بریکٹوں کو سائڈ پر رکھیں اور قرآن میں کوئی غیر علمی یا خلاف عقل کسی بات کی نشاندہی کریں تو اس پر تنقید جائز بھی ہوگی۔ میں نے تو ایک اشارہ کیا ہے کہ ارتقائی عمل کی تائید قران میں موجود ہے جیسے کے خدا نے بتایا ہے کہ اس کائنات کو اس نے مرحلوں میں تخلیق کیا ہے اور انسان کے بنانے سے لیکر وہ اس میں روح پھونکنے کا زکر کرتا ہے۔

خواب والی تھیوری پر جیسے تنقید آپ نے کی ہی ویسی ہی تنقید ارتقائی عمل والی تھیوری پر بھی کی جاتی ہے۔ آپ کا مسئلہ یہ تھا کہ آپ اس تھیوری کو ایسے پیش کر رہے تھے جیسے یہ کوئی مسلمہ حقیقت ہے جسے لوگ ماننے سے انکاری ہیں۔

ارتقا کی تھیوری بھی ایسی ہے کہ سائنسندانوں کو خود پچھلے ۲ ہزار سال یا ۵ ہزار سالوں میں کسی بھی جاندار میں کوئی ارتقا نظر نہیں آتا وہ اس کو لاکھوں سالوں پر محیط کہتے ہیں۔ انسان جیسا ۲ ہزار سال پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے۔ دوسرے جاندا بھی معلوم تاریخ میں جیسے تھے ویسے ہی ہیں۔ میں رد نہیں کر رہا پر تھیوری کو تھیوری ہی رہنے دیں حقیقت نہ بنائیں۔
 

Majid Sheikh

MPA (400+ posts)
محترم اتنا تو نہیں جانتا جتنا آپ جانتے ہو پر میں نے عام فہم زبان میں ایک جملہ بولا جو سب کو سمجھ آتا ہے اب اس ارتقائی عمل کو ایک خلیے کی تخلیق جو ہوا پانی اور مٹی کے ملاپ سے ممکن ہوئی شروع کروں؟ تب صیح ہوگا ؟

قران کی اپنی ایک زبان ہے مولوی کی بریکٹوں کو سائڈ پر رکھیں اور قرآن میں کوئی غیر علمی یا خلاف عقل کسی بات کی نشاندہی کریں تو اس پر تنقید جائز بھی ہوگی۔ میں نے تو ایک اشارہ کیا ہے کہ ارتقائی عمل کی تائید قران میں موجود ہے جیسے کے خدا نے بتایا ہے کہ اس کائنات کو اس نے مرحلوں میں تخلیق کیا ہے اور انسان کے بنانے سے لیکر وہ اس میں روح پھونکنے کا زکر کرتا ہے۔

خواب والی تھیوری پر جیسے تنقید آپ نے کی ہی ویسی ہی تنقید ارتقائی عمل والی تھیوری پر بھی کی جاتی ہے۔ آپ کا مسئلہ یہ تھا کہ آپ اس تھیوری کو ایسے پیش کر رہے تھے جیسے یہ کوئی مسلمہ حقیقت ہے جسے لوگ ماننے سے انکاری ہیں۔


ارتقا کی تھیوری بھی ایسی ہے کہ سائنسندانوں کو خود پچھلے ۲ ہزار سال یا ۵ ہزار سالوں میں کسی بھی جاندار میں کوئی ارتقا نظر نہیں آتا وہ اس کو لاکھوں سالوں پر محیط کہتے ہیں۔ انسان جیسا ۲ ہزار سال پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے۔ دوسرے جاندا بھی معلوم تاریخ میں جیسے تھے ویسے ہی ہیں۔ میں رد نہیں کر رہا پر تھیوری کو تھیوری ہی رہنے دیں حقیقت نہ بنائیں۔

آپ نے جو جملہ بولا وہ عام فہم اظہاریہ نہیں بلکہ اس غلط فہمی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ارتقا کے حوالے سے عام پائی جاتی ہے کہ بندر ارتقا پذیر ہوکر انسان بن گئے۔۔اسی لئے میں نے اعتراض کیا۔۔

قرآن شاعری کی طرح کی قصے کہانیوں کی کتاب ہے، جس طرح کسی بھی شعر کی سینکڑوں ہزاروں تشریحات کی جاسکتی ہیں، اسی طرح قرآنی آیات کو بھی مختلف لوگ، مختلف معاملات میں اپنے اپنے حساب سے فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کسی بھی شاعری یا قصے کہانیوں کی کتاب کو کسی علمی بحث میں قوٹ نہیں کیا جاسکتا، ویسے بھی مذہب اور عقیدے کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی، اس پر محض آنکھ بند کرکے یقین رکھنا ہوتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی عقل سے بالاتر کیوں نہ ہو۔۔ آپ مثال کیلئے واقعہ معراج کو لے سکتے ہیں، آج بھی ٹھیک ٹھاک پڑھے لکھے بظاہر عقل و شعور رکھنے والے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک آدمی گھوڑے پر بیٹھ کر خلاؤں کی سیر کرآیا۔ یہ عقیدہ اور مذہب ہی ہے جو انسانوں کو ایسی ماورائے عقل باتوں پر یقین رکھنے پر مائل کرسکتا ہے۔۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ کسی مذہب یا مذہبی کتاب کو علمی بحث میں نہیں لانا چاہیے۔۔

ارتقا کے بارے میں سب سے بڑھی الجھن یہ تھی کہ جاندار بھلا ایک سپیشی (نوع) سے دوسری سپیشی(نوع) میں کیسے تبدیل ہوسکتے ہیں، یعنی میکرو ایوولیشن کیسے ممکن ہے ۔ اگرچہ ایوولیوشن کو پہلی بار سائنسی انداز میں ڈارون نے پیش کیا، مگر یہ بات ڈارون کو بھی معلوم نہیں تھی کہ وہ کونسا عنصر ہے جو تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے اور انواع تبدیل ہوجاتی ہیں کیونکہ اس وقت تک انسان ڈی این اے اور جینز کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ آج کا انسان ڈی این اے اور جینز کے بارے میں جان چکا ہے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ جب بھی ری پروڈکشن ہوتی ہے تو نئی نسل میں جینیٹک میوٹیشن کی بدولت بہت سی تبدیلیاں ہوتی ہیں، ایک ہی ماں باپ کے بچے آپس میں نہیں ملتے، ایک علاقے کی بلیاں دوسرے علاقے کی بلیوں سے کتنی مختلف ہوتی ہیں، ایک ہی جانور کی بے شمار قسمیں پائی جاتی ہیں، یہ سب جینز میں تبدیلیوں کے کرشمے ہیں۔جینیٹک انجینئرنگ کے ذریعے ایک جاندار کے جینز کو دوسرے میں منتقل کرنے سے یہ الجھن بھی دور ہوگئی کہ جانداروں میں تبدیلیاں نہیں کی جاسکتیں، لہذا آج کے دور میں ایوولیوشن کو جاننے والا اس طرح کی تھیوری بالکل نہیں کہتا جیسے آپ کہہ رہے ہیں اور میکرو لیول کی ایوولیوشن کے لئے ہزاروں نہیں لاکھوں سال درکار ہوتے ہیں تو آپ یہ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ پچھلے تین یا چھ ہزار سال میں کوئی قابل مشاہدہ میکرو ایوولیوشن آپ کو نظر آجائے؟،
 

Irfan_balouch

Senator (1k+ posts)
آپ نے جو جملہ بولا وہ عام فہم اظہاریہ نہیں بلکہ اس غلط فہمی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ارتقا کے حوالے سے عام پائی جاتی ہے کہ بندر ارتقا پذیر ہوکر انسان بن گئے۔۔اسی لئے میں نے اعتراض کیا۔۔

قرآن شاعری کی طرح کی قصے کہانیوں کی کتاب ہے، جس طرح کسی بھی شعر کی سینکڑوں ہزاروں تشریحات کی جاسکتی ہیں، اسی طرح قرآنی آیات کو بھی مختلف لوگ، مختلف معاملات میں اپنے اپنے حساب سے فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کسی بھی شاعری یا قصے کہانیوں کی کتاب کو کسی علمی بحث میں قوٹ نہیں کیا جاسکتا، ویسے بھی مذہب اور عقیدے کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی، اس پر محض آنکھ بند کرکے یقین رکھنا ہوتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی عقل سے بالاتر کیوں نہ ہو۔۔ آپ مثال کیلئے واقعہ معراج کو لے سکتے ہیں، آج بھی ٹھیک ٹھاک پڑھے لکھے بظاہر عقل و شعور رکھنے والے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک آدمی گھوڑے پر بیٹھ کر خلاؤں کی سیر کرآیا۔ یہ عقیدہ اور مذہب ہی ہے جو انسانوں کو ایسی ماورائے عقل باتوں پر یقین رکھنے پر مائل کرسکتا ہے۔۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ کسی مذہب یا مذہبی کتاب کو علمی بحث میں نہیں لانا چاہیے۔۔

ارتقا کے بارے میں سب سے بڑھی الجھن یہ تھی کہ جاندار بھلا ایک سپیشی (نوع) سے دوسری سپیشی(نوع) میں کیسے تبدیل ہوسکتے ہیں، یعنی میکرو ایوولیشن کیسے ممکن ہے ۔ اگرچہ ایوولیوشن کو پہلی بار سائنسی انداز میں ڈارون نے پیش کیا، مگر یہ بات ڈارون کو بھی معلوم نہیں تھی کہ وہ کونسا عنصر ہے جو تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے اور انواع تبدیل ہوجاتی ہیں کیونکہ اس وقت تک انسان ڈی این اے اور جینز کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ آج کا انسان ڈی این اے اور جینز کے بارے میں جان چکا ہے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ جب بھی ری پروڈکشن ہوتی ہے تو نئی نسل میں جینیٹک میوٹیشن کی بدولت بہت سی تبدیلیاں ہوتی ہیں، ایک ہی ماں باپ کے بچے آپس میں نہیں ملتے، ایک علاقے کی بلیاں دوسرے علاقے کی بلیوں سے کتنی مختلف ہوتی ہیں، ایک ہی جانور کی بے شمار قسمیں پائی جاتی ہیں، یہ سب جینز میں تبدیلیوں کے کرشمے ہیں۔جینیٹک انجینئرنگ کے ذریعے ایک جاندار کے جینز کو دوسرے میں منتقل کرنے سے یہ الجھن بھی دور ہوگئی کہ جانداروں میں تبدیلیاں نہیں کی جاسکتیں، لہذا آج کے دور میں ایوولیوشن کو جاننے والا اس طرح کی تھیوری بالکل نہیں کہتا جیسے آپ کہہ رہے ہیں اور میکرو لیول کی ایوولیوشن کے لئے ہزاروں نہیں لاکھوں سال درکار ہوتے ہیں تو آپ یہ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ پچھلے تین یا چھ ہزار سال میں کوئی قابل مشاہدہ میکرو ایوولیوشن آپ کو نظر آجائے؟،
جسے آپ غلط فہمی کہہ رہے ہیں وہ بلا شبہ لاعلمی پر مبنی ہے پر اگر تجزیہ کریں تو یہی غلط فہمی دراصل درست بھی ہے ۔ اگر جانداروں کے گروپس بنائے جائیں گے تو انسان بندر والے گروپ میں ہی شمار ہوگا۔ جیسے گھوڑا ، گدھا ، زیبرا ایک ہی گروپ کے ہیں ، جیسے بلی ، چیتا ، شیر ایک ہی گروپ کے ہیں۔

آپ قران کو شاعری کی کتاب سمجھیں اس میں لکھے کو مغلظات اور بکواس سمجھیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے پر جب آپ اس کا حوالہ دے رہے ہیں تو پھر کتاب کا ہی حوالہ دیں ، مولویوں کی بریکٹوں سے پرہیز کریں ویسے بھی آپ جیسے عالم فاضل کو مولوی کی بریکٹوں کی کیا ضرورت ہے؟ اگر لوگ اس دور میں بھی نبی کریم کو اڑنے والے گھوڑے پر بٹھا کر آسمانوں کی سیر کروا رہے ہیں تو اس میں لوگوں کی غلطی ہے۔ اگر آپ ایسی ہی خلاف عقل بات قران سے دکھا دیں تو میں بھی آنکھیں بند کر کے گدھا بننے سے پرہیز کرنے کی کوشش کروں۔ قران نہ تو کوئی سائنس کی کتاب ہے نہ ہی قانون کی اور نہ ہی ادب کی ، یہ تو بس ایک نصیحت ہے ایک یاد دہانی ہے۔ میں اس کو کبھی بھی اس بحث میں نہ لاتا پر آپ نے ہی قران کا حوالہ دے کر بیان دیا کہ مذہبی لوگ اپنی آسمانی کتابوں کی وجہ سے ارتقا کی تھیوری کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ تو میں نے وضاحت کی کہ قران سے ارتقا کی حمایت میں تو کچھ نکات لئے جا سکتے ہیں پر مخالفت مٰیں کچھ موجود نہیں ہے۔

یہ درست ہے کہ آج کے دور میں انسان جنیاتی تبدیلی پر قدرت رکھتا ہے پر یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ یہ عمل لاکھوں سال میں فطری طور پر عمل پذیر بھی ہوا ہے۔ ویسے بھی میرا علم اس میں بہت محدود ہے اور میں اس تھیوری کے خلاف بھی نہیں ہوں، علم میں نے علم والوں سے ہی حاصل کرنا ہے۔ اگر آج کے سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سب ایسا ہی ہوا ہے تو پھر یقینا ایسا ہی ہوا ہوگا۔

آپ کی اردو بہت ہی اچھی ہے۔ آپ کسی اخبار وغیرہ میں کالم کیوں نہیں لکھتے ؟
 

Majid Sheikh

MPA (400+ posts)
جسے آپ غلط فہمی کہہ رہے ہیں وہ بلا شبہ لاعلمی پر مبنی ہے پر اگر تجزیہ کریں تو یہی غلط فہمی دراصل درست بھی ہے ۔ اگر جانداروں کے گروپس بنائے جائیں گے تو انسان بندر والے گروپ میں ہی شمار ہوگا۔ جیسے گھوڑا ، گدھا ، زیبرا ایک ہی گروپ کے ہیں ، جیسے بلی ، چیتا ، شیر ایک ہی گروپ کے ہیں۔
؟

ہاں، اگر آپ ادب کی زبان میں بات کریں تو میرے خیال میں یہ درست کہلائے گا۔۔۔


آپ قران کو شاعری کی کتاب سمجھیں اس میں لکھے کو مغلظات اور بکواس سمجھیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے پر جب آپ اس کا حوالہ دے رہے ہیں تو پھر کتاب کا ہی حوالہ دیں ، مولویوں کی بریکٹوں سے پرہیز کریں ویسے بھی آپ جیسے عالم فاضل کو مولوی کی بریکٹوں کی کیا ضرورت ہے؟ اگر لوگ اس دور میں بھی نبی کریم کو اڑنے والے گھوڑے پر بٹھا کر آسمانوں کی سیر کروا رہے ہیں تو اس میں لوگوں کی غلطی ہے۔ اگر آپ ایسی ہی خلاف عقل بات قران سے دکھا دیں تو میں بھی آنکھیں بند کر کے گدھا بننے سے پرہیز کرنے کی کوشش کروں۔ قران نہ تو کوئی سائنس کی کتاب ہے نہ ہی قانون کی اور نہ ہی ادب کی ، یہ تو بس ایک نصیحت ہے ایک یاد دہانی ہے۔ میں اس کو کبھی بھی اس بحث میں نہ لاتا پر آپ نے ہی قران کا حوالہ دے کر بیان دیا کہ مذہبی لوگ اپنی آسمانی کتابوں کی وجہ سے ارتقا کی تھیوری کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ تو میں نے وضاحت کی کہ قران سے ارتقا کی حمایت میں تو کچھ نکات لئے جا سکتے ہیں پر مخالفت مٰیں کچھ موجود نہیں ہے۔

میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ قرآن کوئی سائنس یا قانون کی کتاب نہیں، مگر مجھے یقین ہے آپ بھی اس بات کو تسلیم کریں گے کہ مسلمانوں کی اکثریت قرآن کو سائنس سمیت تمام علوم کا منبع و مخزن مانتی ہے اور سچ پوچھیں تو میرے قرآن کو مسترد کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ میں نے اس کو سائنسی علوم کے خلاف پایا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتاب نفرت کی تعلیم دیتی ہے۔ میں ایک اگناسٹک ہوں، میں نہیں جانتا خدا ہے یا نہیں ہے اس لئے میں خدا کا اقرار کرتا ہوں نہ انکار۔ مگر میرا شعور مجھے یہ ضرور باور کراتا ہے کہ اگر فرض کرلیں یہ مان لیا جائے کہ کائنات اور حیات کی تخلیق کے پیچھے کوئی ایک واحد ہستی ہے جس کو ہم خدا کا نام دے لیں تو وہ اتنی بڑی ہستی اتنی کم ظرف اور تنگ نظر نہیں ہوسکتی کہ اپنی ہی تخلیق کردہ مخلوق پر لعنتیں بھیجے (ذرا دیکھیں قرآن میں کتنی بار انسانوں پر لعنت بھیجی گئی ہے) اپنے ہی بنائے ہوئے انسانوں کو آپس میں نفرت اور تقسیم کی تعلیم دے، انہیں کہے کہ فلاں فلاں قومیں تو تمہاری دشمن ہیں ان سے دوستی مت کرو، ان کے ساتھ تعلق مت رکھو وغیرہ وغیرہ۔ ذرا تصور کیجئے اتنی عالیشان کائنات اور اتنی پیچیدہ حیات کا خالق بھلا ایسے رویے کا اظہار کرے گا؟

اگر آپ غور کریں تو اسلام سمیت تمام مذاہب کا خدا انسان کی شبیہہ پر تراشا گیا ہے، اور ہر مذہب کا خدا صرف اپنے ہی مذہب کے پیروکاروں کا خدا ہے، وہ تمام انسانوں کا خدا نہیں ہے۔ مثلا یہودیوں کا مذہب لے لیں، اس میں خدا کا جو تصور ہے، وہ صرف یہودیوں کو ہی اپنی واحد چنیدہ قوم کہتا ہے، عیسائیوں کے خدا نے جنت صرف عیسائیوں کے نام کررکھی ہے اور مسلمانوں کے خدا نے صرف مسلمانوں کو ہی بہترین امت (کنتم خیر امتۃ اخرجت للناس ۔آل عمران۔110) قرار دیا ہے جو ہدایت پر ہے۔ آپ کو کسی بھی مذہب میں تمام انسانوں کا خدا نہیں ملے گا، کیونکہ خدا کے نام پر گھڑے ہوئے یہ سارے پتلے انسانوں نے خود تراشے ہیں، اس لئے انسانوں کا عکس بھی ان خداؤں میں پوری طرح نظر آتا ہے، یہ انسان کی طرح معمولی معمولی باتوں پر غصہ ہوتے ہیں، انسان کی طرح اذیت پسند ہیں، انسان کی طرح ہی ذرا سی بات پر خوش بھی ہوجاتے ہیں، انسانوں کی طرح تقسیم اور تفریق پر یقین رکھتے ہیں، انسانوں کی طرح لڑنے مارنے پر بھی آمادہ رہتے ہیں، انسانوں کی طرح انہیں اپنی تعریف کی بھی بہت چاہ ہے وغیرہ وغیرہ۔

اگر غور کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذہب ماضی قدیم کے انسان کی ضرورت تھی، کیونکہ اس وقت انسان لاعلم تھا، تنہا تھا اور اس کے پاس کوئی مقصد نہیں تھا۔ مذہب نے ماضی قدیم کے انسان کی یہ تینوں ضروریات پوری کیں، اس نے انسان کو علم دیا (یہ الگ بات ہے کہ غلط علم دیا، مگر دیا ضرور) کہ انسان کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا۔ مذہب نے انسان کی تنہائی دور کی، اس کو سہارے کیلئے ایک خدا دیا۔ تیسرا اس کو مقصد دیا کہ تم خدا کو خوش کرو، مرنے کے بعد ابدی زندگی ملے گی۔۔ یوں انسان کی زندگی کا بہت بڑا خلا مذہب نے پرکیا۔۔ اس تمام کے باوجود یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ مذہب سچ تھا یا ہے۔ آج بھی مذہب پسماندہ اور بدحال قوموں کیلئے یہ تین ضروریات پوری کرنے کا کام دیتا ہے، مگر جو معاشرے علم اور دولت میں آگے ہیں، جو آسودہ حال ہیں، وہ مذہب کی ضرورت سے نجات پاگئے ہیں، وہ عقلی اعتبار سے بھی سمجھ گئے ہیں کہ مذہب انسان کے تاریک دور کی ضرورت تھی، آج وہ تاریک دور نہیں رہا تو مذہب کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ جہاں تک خدا کی بات ہے تو خدا کا معمہ آج بھی ویسے ہی حل طلب ہے، اور شاید مستقبل میں بھی ایسے ہی رہے گا، مذہب نے سب سے بڑا ستم یہ کیا کہ خدا کے موضوع کوہائی جیک کرلیا لہذا آج ہمارے جیسے معاشروں میں خدا پر بحث کو ہمیشہ مذہب پر بحث اور مذہب پر تنقید کو خدا پر تنقید سمجھا جاتا ہے، ہمارے لوگ ان دو معاملات کو الگ الگ دیکھنے سے قاصر ہیں۔
یہ درست ہے کہ آج کے دور میں انسان جنیاتی تبدیلی پر قدرت رکھتا ہے پر یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ یہ عمل لاکھوں سال میں فطری طور پر عمل پذیر بھی ہوا ہے۔ ویسے بھی میرا علم اس میں بہت محدود ہے اور میں اس تھیوری کے خلاف بھی نہیں ہوں، علم میں نے علم والوں سے ہی حاصل کرنا ہے۔ اگر آج کے سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سب ایسا ہی ہوا ہے تو پھر یقینا ایسا ہی ہوا ہوگا۔

میرے خیال میں کوئی بھی نظریہ / دعویٰ / تھیوری جس کو تجرباتی طور پر ثابت نہ کیا جاسکتا ہو، اس پر اشکالات رہتے ہیں اور سب کو حق ہے اس پر اعتراضات کا۔ ارتقا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے کیونکہ یہ بہت طویل عمل ہوتا ہے اس لئے اس کو تجرباتی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکتا، لہذا اعتراضات اور شبہات رہیں گے ، سو فیصد قانون کا درجہ شاید اس کو کبھی نہ ملے ۔۔
آپ کی اردو بہت ہی اچھی ہے۔ آپ کسی اخبار وغیرہ میں کالم کیوں نہیں لکھتے ؟

پسندیدگی کے اظہار کا شکریہ، مگر میں خود کو اس قابل نہیں پاتا، یہاں بھی میں محض تبادلہ خیالات کرنے آتا ہوں۔ ایک وقت تھا جب مجھے یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ میں کوئی باعلم شخص ہوں، مگر جب علمی میدان میں اترا تو پتا چلا کہ میں تو کچھ بھی نہیں جانتا۔ اب جب بھی کہیں سے کوئی قطرہ علم نصیب ہوتا ہے تو تشنگی مزید بڑھ جاتی ہے ساتھ یہ احساس بھی گہرا ہوجاتا ہے کہ میں کتنا کم جانتا ہوں۔ بہرحال مختلف الخیال لوگوں سے گفتگو سے ہی اپنے علم کی کجیوں کمیوں کو دور کیا جاسکتا ہے اور میں اسی نسخے پر عمل پیرا رہتا ہوں،۔
 
Last edited: