جنرل ضیاع ال یک جہاد پر پختہ یقین رکھنے کی وجہ سے اتنے بڑے مرد اور مجاہد تھے کہ افغان جہاد میں مدارس کے لونڈے مروانے سے پہلے اپنے دونوں فرزندان جہاد کیلئے افغانستان روانہ کیے۔ افغانستان کے سفرِ ہلاکت پر روانہ کرنے سے پہلے اپنے دونوں پسران کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے امریکی درسگاہوں میں پڑھایا جہاں انہوں میں اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے کا فلسفہ فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد پاکستان واپسی پر جنرل ضیاع کے دونوں بیٹے اعجاز الحق اور انوار الحق میدان جہاد میں قندھار کے مقام پر دادِ شجاعت دیتے ہوئے روسی افواج کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے۔
یہ جو آپکو زندہ اعجاز الحق اور انوار الحق ادھر ادھر آوارہ پھرتے نظر آتے ہیں یہ چلتی پھردی لاشاں ہیں لاشاں، کیوں کہ شہید کبھی مرتا نہیں جہادِ افغانستان میں مرن والا تو بالکل ہی نہیں مردا بلکہ بدروح بن کر رُلتا ہی رہتا ہے۔ جنرل ضیاع ال یک خود بھی میدان میں ہلاک ہونے کو ترجیح دیتے تھے لیکن افسوس کہ مردانہ کمزوری کی وجہ سے یہ سعادت حاصل کرنے سے محروم رہے حتیکہ ملک الموت کو آپکو ساڑ کے شہید کرنا پڑا۔