Bollywood could've used cinema to promote mutual understanding instead of vilifying us - Mehwish Hayat

bigfoot

Minister (2k+ posts)
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ’370 کے خاتمے کے حق میں مسلمانوں کے جلوس‘ کی وائرل ویڈیو کی حقیقت
فیکٹ چیک ٹیمبی بی سی نیوز
  • 3 گھنٹے پہلے
تصویر کے کاپی رائٹSM VIRAL POST
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کو اس دعوے کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے کہ حال ہی میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی ملک کے آئین میں خصوصی حیثیت تبدیل کیے جانے کے اعلان کے بعد ’جب کشمیر میں ایک گھنٹے کے لیے کرفیو میں نرمی کی گئی تو بعض لوگوں نے سڑکوں پر آ کر آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے حق میں جلوس نکالا۔‘
تقریباً ایک منٹ کی اس وڈیو میں سفید کپڑے پہنے ہوئے کچھ لوگ دکھائی دیتے ہیں جو ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔
اس ویڈیو میں بھیڑ میں سب سے آگے چلنے والے دو نوجوانوں نے ہاتھ میں انڈیا کا پرچم اٹھا رکھا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اس ویڈیو کو کچھ فیس بک گروپ اور غیر تصدیق شدہ ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پوسٹ کیا گیا ہے۔ ان سبھی پوسٹ میں یہ بتایا گیا کہ یہ ویڈیو کشمیر کی ہے۔
مزید پڑھیے
سپریم کورٹ: ’کشمیر پر کوئی فوری فیصلہ نہیں دیا جا سکتا‘
کیا کشمیر واقعی ’خوبصورت قید خانہ‘ ہے؟
کشمیر: سخت پابندیوں میں عید پر حالات پرامن
’عید گزرنے دو، کشمیر میں طوفان آئے گا‘
تصویر کے کاپی رائٹSM VIRAL POST
اتوار کو انڈیا کی سرکاری نیوز ایجنسیوں سے جموں اور کشمیر سے آنے والی خبروں میں دعویٰ کیا گیا کہ جموں اور کشمیر میں عید سے پہلے کرفیو میں نرمی کی گئی تاکہ لوگ عید کی تیاری کر سکیں۔ پیر کی صبح وزارت داخلہ کے ترجمان نے بھی سرینگر میں عید کی نماز پڑھتے ہوئے کچھ تصاویر جاری کیں۔
ہم نے اپنی تحقیق سے معلوم کیا کہ سوشل میڈیا پر جس ویڈیو کو کشمیر کا بتا کر شیئر کیا جا رہا ہے وہ وادی کشمیر کی نہیں بلکہ ریاست کرناٹک کے شہر بنگلورو کی ہے اور اس کا کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ویڈیو کی سچائی
یہ وائرل وڈیو فروری 2019 کی ہے اور ویڈیو میں جو لوگ ہیں ان کا تعلق بوہرہ فرقے سے ہے۔ ریورس ایمج سرچ کی مدد سے دیکھا گیا کہ یہ ویڈیو سب سے پہلے کیسے شیئر ہوئی تھی تو معلوم ہوا کہ لنڈا نیومائی نام کی ایک ٹوئٹر صارف نے اسے 19 فروری 2019 کو ٹویٹ کیا تھا۔ لنڈا کی ٹوئٹر پروفائل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی کارکن ہیں۔
انھوں نے #indianarmyourpride اور #standwithforces کے ساتھ اس ویڈیو کو ٹویٹ کیا تھا اور لکھا تھا کہ ’سی آر پی ایف کے شہید جوانوں کی یاد میں بوہرہ مسلمانوں نے بنگلورو میں ایک جلوس نکالا۔‘
17 فروری 2019 کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں شدت پسندوں نے سی آر پی ایف کے قافلے پر حملہ کیا تھا جس میں 40 سے زیادہ جوان ہلاک ہو گئے تھے۔
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق پلوامہ حملے کے بعد ہلاک ہونے والے فوجیوں کی یاد میں بنگلور کی طرح ممبئی میں بھی مسلمانوں نے جلوس نکالے تھے۔
تصویر کے کاپی رائٹAAKANKSHA 'MEGHA'اس جلوس میں شرکت کرنے والے مسلمان کون ہیں؟
انڈیا کی مغربی ریاستوں خاص طور پر گجرات اور مہاراشٹر میں رہنے والے داؤدی بوہرہ مسلمانوں کو کاروباری طور پر کامیاب طبقہ سمجھا جاتا ہے۔
گزشتہ برس وزیراعظم نریندر مودی اس طبقے کے پیشوا سیدنا مفضل سیف الدین سے ملنے اندور گئے تھے۔
ہم نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کے بارے میں بوہرہ جماعت کے ممبئی میں دفتر سے رابطہ کیا اور انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ ویڈیو بنگلورو میں سی آر پی ایف کے جوانوں کے لیے نکالے گئے جلوس کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بوہرہ جماعت نے پلوامہ کے حملے کے خلاف اور شہیدوں کے خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بنگلورو، ممبئی اور اندور سمیت کئی شہروں میں اس طرح کے جلوس نکالے تھے۔‘
 

bigfoot

Minister (2k+ posts)
کشمیر: انڈین حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ صورہ میں احتجاجی مظاہرہ ہوا تھا

بی بی سی اردو نے صورہ میں پیش آنے والے واقعے کو رپورٹ کیا تھا
انڈین حکومت نے پہلی بار تسلیم کیا ہے کہ نو اگست کو سرینگر کے علاقے صورہ میں احتجاجی مظاہرہ ہوا تھا۔
واضح رہے کہ بی بی سی اردو نے رپورٹ کیا تھا کہ نو اگست کو جمعے کی نماز کے بعد سخت ترین کرفیو کے باوجود صورہ کے علاقے میں احتجاجی مارچ ہوا تھا اور مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ سے متعدد افراد زخمی ہوئے لیکن حکام نے ایسے کسی واقعے سے انکار کر دیا تھا۔
انڈین حکومت کی وزارت داخلہ کے ترجمان کی جانب سے ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ 'میڈیا نے نو اگست کو صورہ میں ہونے والے واقعات پر خبر نشر کی تھی۔ اس دن چند لوگ نماز کے بعد واپس آ رہے تھے مگر چند شر پسند عناصر ان کے ساتھ موجود تھے۔
’حالات میں بگاڑ پیدا کرنے کی غرض سے ان لوگوں نے سکیورٹی حکام پر بغیر کسی وجہ پتھراؤ کیا لیکن سکیورٹی حکام نے تحمل سے کام لیتے ہوئے امن و امان برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ ہم یہ بات دوبارہ دہرانا چاہتے ہیں کہ آرٹیکل 370 ختم ہونے کے بعد سے جموں و کشمیر میں اب تک ایک گولی بھی نہیں چلی ہے۔'
یہ بھی پڑھیے
کیا مسلمانوں نے 370 کے خاتمے کے حق میں جلوس نکالا تھا؟
کشمیر: سخت کرفیو میں انڈیا مخالف مظاہرے جاری
’میں اپنے بیٹے کو بھی بندوق اٹھانے کے لیے تیار کروں گا`
آرٹیکل 37 کے خاتمے اور اس کے بعد کشمیر کے معاملے پر بی بی سی اردو کا خصوصی ضمیمہ
@PIBHomeAffairs کی ٹوئٹر پر پوسٹ کا خاتمہ
Spokesperson, Ministry of Home Affairs

@PIBHomeAffairs

https://twitter.com/PIBHomeAffairs/status/1161224285240922112
Replying to @PIBHomeAffairs

Law enforcement authorities showed restraint and tried to maintain law & order situation. It is reiterated that no bullets have been fired in #JammuAndKashmir since the development related to #Article370@diprjk @JmuKmrPolice

337

1:33 PM - 13 اگست، 2019
Twitter Ads info and privacy

165 people are talking about this



@PIBHomeAffairs کی ٹوئٹر پر پوسٹ سے آگے جائیں
بی بی سی اردو کی ویڈیو رپورٹ


کشمیرمیں انڈیا مخالف مظاہرے
یاد رہے کہ بی بی سی اردو نے جمعے کو صورہ کے علاقے میں ہونے والے مظاہرے کی ویڈیو جاری کی تھی اور رپورٹ کیا تھا کہ حکام نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی غرض سے چھرے اور اشک آور گیس کا استعمال کیا ہے۔
ویڈیو نشر ہونے کے بعد انڈین حکومت نے کہا تھا کہ اس نوعیت کا کوئی بڑا مظاہرہ نہیں ہوا جبکہ بی بی سی کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر جمع تھے اور فائرنگ کی آوازیں بھی سنی جا سکتی ہیں جس سے بچنے کے لیے لوگ بھاگ رہے ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق کشمیر پولیس کے انسپکٹر جنرل نے دعوٰی کیا ہے کہ گزشتہ نو روز کے دوران تشدد کا کوئی واقعہ بھی پیش نہیں آیا۔
جبکہ سری نگر کے دو بڑے ہسپتالوں کے ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ بیس سے زیادہ ایسے نوجوانوں کا علاج ہو رہا ہے جن کے چہرے اور جسم پر آہنی چھرے لگے ہیں۔
کشمیر محصور، نو روزہ کرفیو سے زندگی مفلوج
تصویر کے کاپی رائٹTAUSEEF MUSTAFAImage captionپیر کی اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص فوجی اہلکاروں کو اپنا شناختی کارڈ دکھا رہا ہے
انڈیا کا زیرانتظام کشمیر عید الاضحٰی کے موقع پر مجموعی طور پر امن رہا، لیکن مختلف بندشوں کی وجہ سے معمولات زندگی بہت زیادہ حد تک متاثر ہیں۔
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں گزشتہ نو روز سے عام زندگی مفلوج ہے۔ سخت ترین ناکہ بندی اور مواصلات کے سب ہی ذرائع منقطع ہونے کی وجہ سے وادی کے کسی بھی حصے سے کوئی خبر موصول نہیں ہو رہی۔ تاہم پیر کو عیدالاضحٰی کے موقع پر صورتحال مجموعی طور پر پرسکون رہی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ جامع مسجد، درگاہ حضرت بل، سید یعقوب صاحب درگاہ، عیدگاہ اور دوسرے اہم مقامات کے سوا ہر جگہ لوگوں نے مقامی مساجد میں نمازِ عید ادا کی۔
بھارتی حکومت نے پانچ اگست کو انڈیا کے زیر انتظام جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی۔
اس موقع پر کشمیری راہنماؤں فاروق عبداللہ، عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت ہند نواز جماعتوں کے درجنوں لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا۔
سرکاری ذرائع سے کے مطابق ان راہنماؤں میں سے بعض کو دلی اور آگرہ منتقل کیا گیا ہے۔
جبکہ وزرا سمیت کئی راہنماؤں کو سری نگر میں جھیل ڈل کے کنارے واقع شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں رکھا گیا ہے، جسے وقتی طور پر سب جیل قرار دیدیا گیا ہے۔
علیحدگی پسند راہنماؤں میر واعظ عمر فاروق اور سید علی گیلانی کو ان گھروں میں نظر بند کرکے رکھا گیا۔ گیلانی کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ نہایت علیل ہیں۔
متعدد بار وزیر رہنے والے نیشنل کانفرنس کے لیڈر علی محمد ساگر کے نواسے یاور نے بتایا کہ وہ اپنے نانا اور ماموں سے ملنے کے لیے کئی روز سے کوشش کر رہے ہیں مگر انھیں ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
سابق وزیر نعیم اختر کی بیٹی کا کہنا ہے کہ کئی روز کی منت سماجت کے بعد انہیں اپنے والد کو دوایاں پہنچانے کی اجازت دی گئی۔
سابق رکن اسمبلی انجنیئر رشید کو نیشل انویسٹی گیشن ایجنسی نے دہشت گردی کی فنڈنگ کے شبہ میں دلی سے گرفتار کر لیا ہے۔
بندشوں میں نرمی کے دوران اچانک سختی کر دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے باہر گئے ہوئے شہریوں کو گھر واپسی میں دشواری ہوتی ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹPRAKASH SINGHImage captionکشمیر میں اپنے گھر والوں سے دور کشمیری گذشتہ 9 دنوں سے اپنے گھر والوں سے رابطہ نہیں کر پایے ہیں
پندرہ اگست کو انڈیا کے یوم آزادی کے موقع پر ضلعی سطح پر تقریبات کے لیے سیکورٹی کے انتظامات کیے جارہے ہیں۔ اور منگل کے روز سرینگر کے بخشی سٹیڈیم میں اس سلسلے میں باقاعدہ مشق کا اہتمام کیا گیا۔
ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے راہول گاندھی کے کئی بیانات کے ردعمل میں انہیں چلینج کیا تھا کہ وہ خود آکر دیکھیں کہ یہاں حالات کس قدر پرسکون ہیں۔
راہول نے بعد میں ٹویٹ کے ذریعہ اعلان کیا کہ اگر حکومت کانگریس کے وفد کی نقل و حرکت کو یقینی بنائے تو وہ کشمیر جائیں گے۔
چند روز قبل کانگریس کے راہنما اور سابق مرکزی وزیر غلام نبی آزاد کشمیر کے دورے پر پہنچے تو انہیں سرینگر کے ہوائی اڈے سے دلی واپس بھیج دیا گیا تھا۔
متعلقہ عنوانات
 

Respect

Chief Minister (5k+ posts)
They cant do much deshbaksts would eat them up alive. In there position unless the whole industry came out i wud have kept my mouth shut as well.