https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1100258691&Issue=NP_LHE&Date=20070909
سعودی عرب کے انٹیلیجنس کے سربراہ شہزادہ مُقرِن بن عبدالعزیز اور لبنان کے سابق وزیرِاعظم آنجہانی رفیق الحریری کے بیٹے سعد حریری نے ہفتہ کے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا کہ نواز شریف کو حکومتِ پاکستان سے کیے ہوئے معاہدے کے تحت دس سال تک پاکستان واپس نہیں آنا چاہیے۔
پریس کانفرنس سے پہلے شہزادہ مُقرِن اور سعد حریری نے صدر جنرل پرویز مشرف سے تین گھنٹے سے زیادہ طویل ملاقات کی۔
سعودی انٹیلیجنس کے سربراہ نے کہا کہ ملاقات کے دوران انہوں نے سعودی فرمانروا شاہ عبدللہ کا پیغام صدر جنرل پرویز مشرف کو پہنچایا جس میں انھوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ان کے لیے پاکستان کا استحکام اور حفاظت اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ سعودی عرب کی۔
شہزادہ مُقرِن نے صحافیوں کو بتایا کہ خادمِ حرمین شریفین نے شریف خاندان کو قید سے چُھٹکارا دلانے کے لیے اُن کے اور حکومتِ پاکستان کے مابین معاہدہ کرانے میں مدد کی تھی۔ جس کے تناظر میں خادمِ حرمین شریفین اُمید کرتے ہیں کہ فریقین معاہدے کی تمام شقوں کی پاسداری کریں گے۔
صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اپنی ملاقات کے حوالے سے اُنہوں نے کہا کہ وہ صدر سے پاکستان میں رُونما ہونے والے حالات پر تبادلہ خیال کرنے آئے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم دعا کرتے ہیں کہ متعلقہ لوگ قومی مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر فوقیت دیں گے اور پاکستان کو استحکام بخشنے کا باعث بنیں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں سعد حریری نے کہا کہ نواز شریف سے اس وقت ملک واپس نہ آنے کا اُن کا مطالبہ نہیں بلکہ، اُن کے مطابق، معاہدے کا تقاضہ ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ معاہدے پر عمل کرتے ہوئے نواز شریف کو ملک سے باہر دس سال تک رہنے کی مدت پوری کرنے سے پہلے واپس نہیں آنا چاہیے۔
جب مُقرِن بن عبدالعزیز سے ایک سوال میں سپریم کورٹ کے نواز شریف کے حق میں فیصلے کے بعد معاہدے کی اہمیت کے حوالے سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ دیکھنا یہ چاہیے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پہلے آیا تھا یا معاہدہ پہلے کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب تمام ممالک کی سپریم کورٹس کی عزت کرتا ہے لیکن نواز شریف کو معاہدے کی پاسداری کرنا چاہیے۔‘
اس موقع پر شہزادہ مُقرِن بن عبدالعزیز نے نواز شریف کے ملک سے باہر جانے کے لیے کیے گئے معاہدے کی کاپی لہرا کر دکھائی لیکن صحافیوں نے جب استفسار کیا کہ اُن کو اس کی نقول فراہم کی جائیں تو انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہ یہ حکومتوں کی دستاویز ہے۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا اُن کے ساتھ ملاقات میں صدر جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو پاکستان واپسی کی صورت میں دوبارہ سعودی عرب بھیجوانے کے حوالے سے کوئی بات کی تو انہوں نے نفی میں جواب دیا ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر نواز شریف معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک واپس آتے ہیں تو ایسے میں اُن کو سعودی عرب کی جانب سے کسی ردِعمل کا سامنا کرنے کا احتمال نہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/09/070908_nawaz_deal_as.shtml