ﺑِﺴــــــﻢِ ﺍﻟﻠﻪِ ﺍﻟَـــﺮَّﺣْـﻤَـــﻦِ ﺍﻟــﺮَّﺣِﻴــــﻢ
جب تک دل میں شک کا کانٹا چبھتا رہتا ہے انسان کو کسی پہلو قرار نہیں آتا اور جب یقین کا اجالا ہوتا ہے تو سارے اضطراب ختم اور ساری بےچینیاں دور ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ذکر الٰہی سے ہی دل میں اطمینان اور سکون پیدا ہوتا ہے۔ یہی وہ نور ہے جس سے شبہات کے اندھیرے بھاگ جاتے ہیں۔ یہی وہ غذا ہے جس سے روح کو تقویت ملتی ہے اور انسان میں نیکی کی مضمر صلاحیتیں نشوونما پاتی ہیں۔ اور جوان ہوتی ہیں۔ اسی سے انسان میں وہ جلال اور وہ قوت نمودار ہویے ہے جس سے شیطان پر لرزہ طاری ہوتا ہے اور اس کے منصوبے خاک میں مل جاتے ہیں۔ دنیا کی ساری نعمتوں میں سے اطمینان قلب سب سے عظیم نعمت ہے دولت، عزت، صحت اور کثرت اولاد کے باوجود بھی روح کو سکون اور دل کو چین نصیب نہیں ہوتا۔ صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی وہ آبحیات ہے کہ جس سے سیر کام ہونے والا پھر کبھی تشنگی، کوئی خلجان اور کوئی گھبراہٹ محسوس نہیں کرتا وہ تختہ دار پر بھی، وہ آتش کدہ نمرود میں بھی مسکراتا ہے
ﷲتعالیٰ قرآن مجید میں سورۃ الرعد آیت نمبر 28 میں ارشاد فرماتے ہیں:
أَلاَ بِذِکْرِ اللّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب
’’ جان لو اﷲ کی یاد کے ساتھ ہی دلوں کا اطمینان وابستہ ہے ۔‘‘
جو انسان ذکر کرتا ہے اس کے دل کو سکون ملتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی یاد و ذکر دلوں کو اطمینان بخشتی ہیں، دلوں کی بے چینی ختم کرتی ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ذکر سے غافل ہیں ان کو نہ دن کو سکوں میسر ہے اور نہ رات کو۔ وہ نیند کی گولیاں کھا کر سونے کی کوشش کرتے ہے لیکن نیند پھر بھی نہیں آتی اور جو لوگ اللہ کی یاد میں مشغول ہے ہیں وہ چاہیے کتنی ہی مشکلات میں ہوں لیکن زندگی سکون سے گزرتی ہے۔
ایک دوسری آیت میں ا للہ نے ارشاد فرمایا:
فَاذْکُرُونِیْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُواْ لِیْ وَلاَ تَکْفُرُون
پس تم میرا ذکر کرو، میں تمھیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرتے رہو اور نا شکری نہ کرو ۔
سورہٴ بقرہ 152
ﷲ تعالیٰ کی ذکر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان اﷲتعالیٰ کی حفاظت میں آجاتا ہے ، یہ حفاظت ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی ہے ۔
قرآن مجید کی سورۃ الاعراف آیت نمبر 201 میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں
’’جب شیطان کی ایک جماعت ان پر حملہ آور ہوتی ہے تو وہ اﷲ کا ذکر کرتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ ان کو محفوظ کر لیتے ہیں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تذکرہ کیا ہے، دو حضرات، حضرت موسیٰ و حضرت ہارون علیہم السلام، کو نبوت سے سرفراز کیا اور ان کو اپنے کام کے لیے بھیجا تو ان کو بھیجتے وقت ہدایات اور نصیحتیں کیں اور نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :
"جائیے آپ اور آپ کا بھائی میری نشانیوں کو لے کر معجزات کو لے کر مگر میری یاد سے غافل نہ ہونا" (سورہ طٰہٰ آیت نمبر 42 )
اللہ کا ذکر قران مجید کے بعد آحادیث رسول ﷺ سے بھی ثابت ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ
اے میرے اللہ! تو مجھے اپنا کثرت سے شکر گزار، ذکر کرنے والا، بہت ڈرنے والا، نہایت فرماں بردار، بہت عاجزی کرنے والا، بہت گریہ و زاری کرنے والا اور تیری ہی جانب رجوع کرنے والا بنا دے (ترمذی شریف)۔
صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جسے قلب شاکر اور لسانِ ذاکر کی دولت مل گئی اسے دارین کی بھلائی مل گئی ۔ مشکوٰة ص:282
اللہ تعالیٰ کے ذکر میں نماز، تلاوت ِ قرآن مجید، دُعا کلمہ طیبہ کا ورد اور استغفار سب شامل ہیں۔
حافظ ابن القیم ؒ فرماتے ہے کہ ذکر اللہ کی بڑی عظمت، اہمیت اور برکات ہیں۔ ذکر سے اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے اور انسان کی روحانی ترقی ہوتی ہے۔ ذکر سے قلوب منور ہو جاتے ہیں۔ ذکر ہی وہ راستہ اور دروازہ ہے جس کے ذریعے انسان بارگاہ الٰہی تک پہنچ سکتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جب بھی اور جہاں بھی کچھ بندگانِ خدا اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو فرشتے ہر طرف سے ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور ان کو گھیر لیتے ہیں اور رحمتِ الٰہی ان پر چھا جاتی ہے اور ان کو اپنے سائے میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینت کی کیفیت نازل ہوتی ہے اور اللہ اپنے مقربین فرشتوں میں ان کا ذکر کرتے ہیں
صحیح مسلم
اﷲ تعالیٰ کی ذکر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان اﷲتعالیٰ کی حفاظت میں آجاتا ہے ، یہ حفاظت ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی ہے ۔
قرآن مجید کی سورۃ الاعراف آیت نمبر 201 میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں
’’جب شیطان کی ایک جماعت ان پر حملہ آور ہوتی ہے تو وہ ﷲ کا ذکر کرتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ ان کو محفوظ کر لیتے ہیں ۔‘‘
اللہ کی یاد کے ساتھ ہی دلوں کا اطمینان وابستہ ہے۔ تھوڑی دیرکے لیے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور یاد انسان کو شیاطین کے شر سے محفوظ کرتی ہے تمام معاملات دنیا میں بھی آسانی پیدا کر دیتی ہیں۔ اس لیے ہم تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ ہر دم، ہر وقت، ہر جگہ، ہر گھڑی اللہ رب العزت کے ذکر سے اپنے دل کو آباد رکھیں اسی سے ہماری دنیا بھی منور ہوگی اور آخرت میں بھی کامیابیاں ملے گی۔