’ٹرمپ دنیا کو دوبارہ جنگل کے قانون کی جانب لے جا رہے ہیں‘

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
’ٹرمپ دنیا کو دوبارہ جنگل کے قانون کی جانب لے جا رہے ہیں‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک مرتبہ پھر مروجہ سفارتی اقدار توڑتے ہوئے گولان کے مقبوضہ پہاڑی علاقوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کا اقدام ان کے دور صدارت کا ایک اور متنازعہ قدم ہے۔

صدر ٹرمپ کے اس اقدام کو ماہرین تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے دیگر ممالک کو بھی کم زور ممالک کی جغرافیائی حدود توڑنے اور توسیع پسندانہ سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا پیغام ملے گا۔

اسرائیل نے سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں شام کے علاقے گولان پر قبضہ کر لیا تھا اور سن 1981 میں اسے اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا تھا، تاہم بین الاقوامی برادری اس اسرائیلی اقدام کو تسلیم نہیں کرتی ہے۔ جمعرات کے روز امریکی صدر نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ وہ 52 برس بعد گولان کے مقبوضہ علاقے پر مکمل اسرائیلی حق تسلیم کرنے جا رہے ہیں۔

ٹرمپ کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب صدر ٹرمپ کے اتحادی اسرائیلی وزیراعظم بیجمن نیتن یاہو انتخابات کا سامنا کر رہے ہیں اور انہیں اپوزیشن کی جانب سے مشکلات درپیش ہیں۔ دوسری جانب امریکی اتحادی ممالک فرانس اور برطانیہ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ گولان کے علاقے کو اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کریں گے اور اسے مقبوضہ علاقہ ہی سمجھا جائے گا۔

امریکی کونسل برائے خارجہ تعلقات کے صدر رچرڈ ہاس نے خبردار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 242 جو اس چھ روزہ جنگ کے بعد منظور کی گئی تھی،کو موثر رہنا چاہیے اور اگر امریکا اس قرارداد سے نکلتا ہے، تو اس کے خوف ناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ ہاس نے کہا کہ یہ قرارداد جنگ کے دوران اس علاقے سے متعلق واضح موقف اختیار کرتی ہے۔

انہوں نے سن 1991 کی عراق جنگ اور یوکرائنی علاقے کریمیا کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا، ’’بین الاقوامی امن کی بنیاد اور صدام حسین حکومت کے کویت اور پوٹن کے کریمیا پر قبضے کے خلاف امریکا کا بنیادی اعتراض یہی تھا کہ توسیع پسندی قابل قبول نہیں ہو گی۔‘‘

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے بین الاقوامی معاہدوں اور ضوابط کو مسترد کیا ہے، اس سے قبل انہوں نے سن 2017 میں یروشلم کو باضابطہ طور پر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کر دیا تھا۔

سویڈن کے وزیرخارجہ کارل بلڈٹ نے صدر ٹرمپ کے بیان کے جواب میں کہا، ’’ٹرمپ دنیا کو دوبارہ جنگل کے قانون کی جانب لے جا رہے ہیں۔‘‘

اپنے ایک ٹوئٹ میں بلڈٹ کا کہنا تھا، ’’بنیادی بین الاقوامی قانون سے اخراج ایک تباہ کن عمل ہے۔ ماسکو حکومت اس پر خوش ہو گی اور کریمیا پر اسی قانون کا نفاذ کرے گی۔ بیجنگ حکومت اس پر خوش ہو گی اور وہ جنوبی بحیرہ چین پر اس کا نفاذ کرے گی۔‘‘

فرانسیسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بھی ٹرمپ کے اس اعلان کی مخالف کرتے ہوئے اس بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ فرانسیسی بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لاقانونیت کو قبول نہ کریں۔

Source
 
Last edited by a moderator:

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
سیکولر لبرل ریاست کے نسل پرست سربراہ کی ایک نسلی مذہبی ریاست پر بھر پور عنایتیں. لیکن اس سے نا سیکولرازم کو کوئی فرق پڑتا ہے نا سیکولر روایات کا مذاق بنتا ہے
 

marshmellow

New Member
بھائیو، پہلے ہی دنیا میں جنگل کا قانون چل رہا ہے۔ کمزور کی کوئی نہیں سنتا۔ مسلمان کمزور ہیں اور یہ ان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ ٹرمپ وہ کر رہا ہے جو ان کے لیے ٹھیک ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ دنیا کی 79 فیصد ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ امریکہ،پورپ، اسرائیل، جاپان، چین، روس اور دیگر کفار کے ممالک کر رہے ہیں۔ اور باقی 3 فیصد مسلمان ملک اور اس میں سے بھی 2 اعشاریہ 9 فیصد ملائیشیا۔ بس یہ وجہ ہے ہماری ذلت کی۔