‏بھٹّو اک بڑا آدمی تھا لیکن پھر اسے اک واقعی بڑا آدمی ٹکرا یا۔۔تاریخی واقعہ

jani1

Chief Minister (5k+ posts)

‏بھٹّو اک بڑا آدمی تھا
لیکن پھر اسے اک واقعی بڑا آدمی ٹکرا گیا


محفوظ مصطفیٰ بھٹو پرائم منسٹر ذوالفقار علی بھٹّو کی ہمشیرہ کا بیٹا تھا‘ جس کی تعلیمی قابلیت قطعی اس پوسٹ کے معیار کے مطابق نہ تھی، لیکن اسے پی آئی اے میں سیلز پروموشن آفیسر جیسی اہم پوسٹ پر تعینات کرا دیا گیا تھا، ‏جس کے لیے لوگ نہ جانے کتنی سفارشیں‘ رشوت اور دھکے کھاتے ہیں۔

محفوظ مصطفیٰ بھٹو کا دفتر اُس وقت کراچی جم خانہ کلب کے نزدیک تھا‘ انہیں پی آئی اے کی طرف سے ایک بہترین گاڑی اور خاطر تواضع کے لیے پر کشش بجٹ مہیا کیا جاتا تھا۔ اس کا نام محفوظ مصطفیٰ بھٹو تھا،
‏لیکن عرف عام میں وہ ٹِکو کے نام سے مشہور تھا اور اس کے اصل نام سے بہت کم لوگوں واقف تھے۔
ممتاز علی بھٹو اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے اس لئے محفوظ مصطفیٰ عرف ٹِکو کی تمام سر گرمیوں کا تعلق پی آئی اے سے نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس سے مختلف وزراء ‘ سیکرٹریٹ سمیت وفاق کے سرکاری ‏دفاتر میں گھومنے پھرنے اور مختلف فائلوں پر دستخط کرانے تک ہی محدود رہتا اور پی آئی اے کے معاملات سے اس کی لاپروائی اس قدر بڑھ گئی کہ اس کے سینئر افسران نے نوٹس لیتے ہوئے اسے وارننگ لیٹر جاری کر دئیے ‘ لیکن اس کے خلاف کوئی انضباطی کارروائی کرنے سے ڈر جاتے۔ ‏بات چلتے چلتے چیئر مین پی آئی اے ائیر مارشل ریٹائرڈ نور خان کی میز تک جا پہنچی ‘جس کا انہوں نے سخت نوٹس لیتے ہوئے محفوظ مصطفیٰ کی اچھی طرح کھچائی کرتے ہوئے اسے شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر پی آئی اے میں رہنا ہے تو آپ کو کام کرنا ہوگا، ‏اور آپ کے کام کی رپورٹ مانگی جائے گی۔ اگر آپ ایسا نہیں کر تے تو پھر آپ کو بغیر کسی نوٹس کے گھر بھیج دیا جائے گا‘ ذہن نشین کر لیجئے کہ اپنے فرائض میں دلچسپی کے سوا آپ کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ۔

محفوظ مصطفیٰ عرف ٹکوکو چیئر مین/ منیجنگ ڈائریکٹر پی آئی اے کی جانب سے ‏اور بریفنگ تیار کیں اور مقررہ دن کراچی سے لاڑکانہ پہنچ گئے جہاں المرتضیٰ ھاوُس میں وزیر اعظم بھٹو سے ان کی ملاقات ھونا تھی۔ اس میٹنگ میں ائیر مارشل نور خان نے پی آئی اے کے معاملات پر تفصیل سے بریفنگ دی جو ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ ‏میٹنگ کے بعد ائیر مارشل نور خان وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ہاتھ ملانے کے بعد جانے لگے تو پرائم منسٹر نے سپاٹ لہجے میں کہا: ائیر مارشل مت بھولئے گا کہ بھٹو جہاں بھی ہے وہ بھٹو ہوتا ہے۔ ان کے الفاظ تھے۔
Air Marshal, A Bhutto is a Bhutto where ever he is !

‏ائیر مارشل نور خان سمجھ گئے کہ انہیں محفوظ مصطفیٰ بھٹو عرف ٹیکو سیلز پرومومشن آفیسرز پی آئی اے کے حوالے سے متنبّہ کیا جا رہا ہے‘ جو والدہ کی طرف سے بھٹو ہے۔ نور خان نے اس بات پر کسی قسم کا رد عمل یا اس کا جواب نہیں دیا بلکہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے وزیراعظم کو خدا حافظ کہتے ‏ہوئے لاڑکانہ سے سیدھے کراچی اپنے دفتر پہنچے اور چند منٹوں بعد اپنا استعفیٰ وزیر اعظم ہاوُس فیکس کر دیا۔
محفوظ مصطفیٰ بھٹو وہ پہلی ٹیڑھی اینٹ تھی جو سابقہ وزیراعظم بھٹّو کے ھاتھوں پی آئی اے میں لگی اور اس کے بعد تو پوری عمارت ھی ٹیڑھی اینٹوں سے بھر دی گئی ‏وہ پی آئی اے جو ائرمارشل نورخان کے زمانے میں پاکستان کے وقار کی علامت تھی آج پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ھنسائی کی وجہ بن گئی ھے
میڈیا سمیت ہوائی سفر کے تمام محکموں اور برانچوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ ائیرمارشل نور خان کے بعد پی آئی اے آہستہ آہستہ نیچے کی جانب گرتی ‏چلی گئی اور پھر ایسی گری کہ کبھی سنبھالی ہی نہیں جا سکی۔ آج نہیں تو کل وقت بتائے گا کہ جو ائیر لائن کبھی دنیا بھر میں اپنا مقام رکھتی تھی‘ تباہی کی اِس حالت کو کیسے پہنچی؟

ائیر مارشل نور خان اس قوم کا وہ ستارہ تھا جو ائیر فورس‘ پی آئی اے‘ سکوائش‘ ہاکی اور کرکٹ کے ہر ‏عہدے پر جہاں جہاں بھی براجمان ہوا پاکستان کے نام اور مقام کو بلندیوں تک لے گیا ۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں کے سیاح اور ٹریولر اپنے اپنے ملکوں کی ائیر لائنز پر پی آئی اے کو ترجیح دیتے تھے۔ نور خان مرحوم کی وطن سے محبت اور مر مٹنے کا جذبہ اس ایک واقعہ سے ہی سمجھ لیں ‏کہ 20 جنوری1978ء کو پی آئی اے کا طیارہ کراچی میں ہائی جیک کر لیا گیا اور ہائی جیکر نے پائلٹ کو حکم دیا کہ جہاز کو بھارت لے جایا جائے ۔ائیر مارشل نورخان ہائی جیکر سے بات کرنے کیلئے جہاز کے اندر اکیلے ہی خالی ہاتھ جا پہنچے اور اسے باتوں میں مصروف رکھتے ہوئے اچانک ‏اس کے ہاتھ سے پستول چھیننے کیلئے اس پر جھپٹے‘اس دوران ہائی جیکر کی چلائی گئی گولی سے ان کی ٹانگ زخمی ہو گئی لیکن اس کے باوجود ہائی جیکر پر قابو پاتے ہوئے جہاز کے مسافروں کی زندگیاں محفوظ بنانے میں کامیاب رہے۔ ‏آج یہ حالت ہے کہ پی آئی اے پر پابندیاں لگ رہیں ہیں جبکہ وہ ائیر لائنز جنہیں پی آئی اے نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ہے آج وہ پی آئی اے کی جگہ اس ریجن کا بزنس سنبھال رہی ہیں۔ پی آئی اے کے ساتھ جو ہوا اس پر کاش کوئی ایسا کمیشن بنے ‏جو اوپن کورٹ میں ہر ذمہ دار کو قوم کے سامنے لاکر بتائے کہ پی آئی اے کو کس کس نے لوٹا اور بے دردی سے تباہ کیا ۔



https://www.facebook.com/photo.php?fbid=2702218356660025&set=a.1692895677592303&type=3&theater
 
Last edited:

First Strike

Chief Minister (5k+ posts)

بھٹو نے مُلک دولخت کیا

ملک کے ادارے تباہ کئے

معیشت کو برباد کیا

اور سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ اپنے پیچھے حرامی اولاد چھوڑ گیا جس نے اپنے خاوند سے ملکر کرپشن اور لوٹ مار کے ریکارڈ قائم کئے
 

Danish99

Senator (1k+ posts)
Bhutto was great ,he groomed great people and served in every government,many of them serving in PTI government.Imran himself said on many occasions Bhutto is a great leader.
 

Nice2MU

President (40k+ posts)
خاور گمن نے بھی کہا کہ بھٹو نے ہی اداروں میں بغیر ٹیسٹ یا کوالیفیکیشن کے بندے بھرتی کرنا شروع کیئے تھے۔۔

اور ساتھ میں جو پرائیویٹ ادارے اور فیکٹریاں اور کاروبار اچھی ترقی کیساتھ چل رہے تھے انہیں بھی قومیا دیے گئے اور سب بڑے کاروباری لوگ پاکستان سے بھاگ گئے۔۔

بھٹو صرف بانی بنگلہ دیش نہیں بلکہ باقی ماندہ ماندہ پاکستان کا بھی دشمن تھا۔
 

Atif-2017

MPA (400+ posts)
اور ساتھ میں جو پرائیویٹ ادارے اور فیکٹریاں اور کاروبار اچھی ترقی کیساتھ چل رہے تھے انہیں بھی قومیا دیے گئے اور سب بڑے کاروباری لوگ پاکستان سے بھاگ گئے۔۔

بھٹو صرف بانی بنگلہ دیش نہیں بلکہ باقی ماندہ ماندہ پاکستان کا بھی دشمن تھا۔


ایک،دو،تین نہیں بلکہ لگاتار بھابھی کی چینخوں سے گھبرا کر رکشے والا اپنا رکشہ چھوڑ کر بھاگ گیا
 

Nice2MU

President (40k+ posts)

ایک،دو،تین نہیں بلکہ لگاتار بھابھی کی چینخوں سے گھبرا کر رکشے والا اپنا رکشہ چھوڑ کر بھاگ گیا

رکشے کی پیداوار کرونا کیوجہ سے اپنی باجی کے لیے گاہگ ڈھونڈنے میں دشواری تو پیش نہیں آرہی ؟
 

Atif-2017

MPA (400+ posts)
رکشے کی پیداوار کرونا کیوجہ سے اپنی باجی کے لیے گاہگ ڈھونڈنے میں دشواری تو پیش نہیں آرہی ؟


خوچہ رکشہ والا بھابھی کے حلق سے برآمد ہونے والی بھیانک چینخیں سن کر بھاگ گیا اب جا اور جا کر رکشے کو دھکا لگا رکشہ میں تجھ سے دگنے وزن کی تیری بھابھی ہے ذرا زور لگا کے ہیا
 

Danish99

Senator (1k+ posts)
Bhutto kay baaqi sub jurm aik taraf...jo uss nay nationalise ker Pakistan kay economic structure ko irreparable damage kia tha woh maaf nahin kia ja sakta
Still economy grow at the rate of five digit,and now economy plumted to zero.The policey of nationlization proved great for the poor people of Pakistan,children started to get education in top schools with out any fees.
 

The Untouchable

MPA (400+ posts)

بھٹو نے مُلک دولخت کیا

ملک کے ادارے تباہ کئے

معیشت کو برباد کیا

اور سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ اپنے پیچھے حرامی اولاد چھوڑ گیا جس نے اپنے خاوند سے ملکر کرپشن اور لوٹ مار کے ریکارڈ قائم کئے
Soor khan is doing the same

ادارے تباہ

معیشت تباہ
مہنگائی عروج پر
کرپشن میں ملوث سب فرار
کلبوشن کو این آر او
ملک میں سندھی بلوچی پنجابیٹھان کی تفریق پیدا ہو چکی ہے

کپتان نے نشے میں ایک امریکن عیسائی عورت سے زنا کر کے لڑکی پیدا کرنے کا اعزاز حاصل کیا
یہودن میں سے دو لڑکے پیدا کیےاور وہ لڑکے لے کر فرار ہوگئی

لڑکے یہودی بنیں گے لڑکی عیسائی بن گئی اولاد نے زنا شروع کر دیا ایک لڑکا گے بن گیا

کپتان نے بڑا اعزاز 5 بچوں کی ماں کو طلاق دلوا کر عدت پوری کیے بغیر ہمبستری شروع کر دی
کپتان کا نام تاریخ میں بھٹو سے اوپر لیا جا ئے گا
کیونکہ بھٹو کو تو عدالت نے پھانسی دی تھی
خان خود پھانسی لے کر خود کشی کرے گا
یوتھیے دھاڑیں مار مار روئیں گے
پھر یوتھیوں کو یاد آئے گا
خان نے کہا تھا میں ان کو رولاؤں گا
دراصل وہ یوتھیوں کو روتا ہوا چھوڑ کر ٹھکائی کرنے والے فرشتوں کے ہتھے چڑھ جائے گا
یوتھیے تا مرگ نعرے لگائیں
زندہ ہے خان زندہ ہے
زندہ ہے خان زندہ ہے
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)

‏بھٹّو اک بڑا آدمی تھا
لیکن پھر اسے واقعی اک بڑا آدمی ٹکرا گی


محفوظ مصطفیٰ بھٹو پرائم منسٹر ذوالفقار علی بھٹّو کی ہمشیرہ کا بیٹا تھا‘ جس کی تعلیمی قابلیت قطعی اس پوسٹ کے معیار کے مطابق نہ تھی، لیکن اسے پی آئی اے میں سیلز پروموشن آفیسر جیسی اہم پوسٹ پر تعینات کرا دیا گیا تھا، ‏جس کے لیے لوگ نہ جانے کتنی سفارشیں‘ رشوت اور دھکے کھاتے ہیں۔

محفوظ مصطفیٰ بھٹو کا دفتر اُس وقت کراچی جم خانہ کلب کے نزدیک تھا‘ انہیں پی آئی اے کی طرف سے ایک بہترین گاڑی اور خاطر تواضع کے لیے پر کشش بجٹ مہیا کیا جاتا تھا۔ اس کا نام محفوظ مصطفیٰ بھٹو تھا،
‏لیکن عرف عام میں وہ ٹِکو کے نام سے مشہور تھا اور اس کے اصل نام سے بہت کم لوگوں واقف تھے۔
ممتاز علی بھٹو اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے اس لئے محفوظ مصطفیٰ عرف ٹِکو کی تمام سر گرمیوں کا تعلق پی آئی اے سے نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس سے مختلف وزراء ‘ سیکرٹریٹ سمیت وفاق کے سرکاری ‏دفاتر میں گھومنے پھرنے اور مختلف فائلوں پر دستخط کرانے تک ہی محدود رہتا اور پی آئی اے کے معاملات سے اس کی لاپروائی اس قدر بڑھ گئی کہ اس کے سینئر افسران نے نوٹس لیتے ہوئے اسے وارننگ لیٹر جاری کر دئیے ‘ لیکن اس کے خلاف کوئی انضباطی کارروائی کرنے سے ڈر جاتے۔ ‏بات چلتے چلتے چیئر مین پی آئی اے ائیر مارشل ریٹائرڈ نور خان کی میز تک جا پہنچی ‘جس کا انہوں نے سخت نوٹس لیتے ہوئے محفوظ مصطفیٰ کی اچھی طرح کھچائی کرتے ہوئے اسے شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر پی آئی اے میں رہنا ہے تو آپ کو کام کرنا ہوگا، ‏اور آپ کے کام کی رپورٹ مانگی جائے گی۔ اگر آپ ایسا نہیں کر تے تو پھر آپ کو بغیر کسی نوٹس کے گھر بھیج دیا جائے گا‘ ذہن نشین کر لیجئے کہ اپنے فرائض میں دلچسپی کے سوا آپ کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ۔

محفوظ مصطفیٰ عرف ٹکوکو چیئر مین/ منیجنگ ڈائریکٹر پی آئی اے کی جانب سے ‏اور بریفنگ تیار کیں اور مقررہ دن کراچی سے لاڑکانہ پہنچ گئے جہاں المرتضیٰ ھاوُس میں وزیر اعظم بھٹو سے ان کی ملاقات ھونا تھی۔ اس میٹنگ میں ائیر مارشل نور خان نے پی آئی اے کے معاملات پر تفصیل سے بریفنگ دی جو ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ ‏میٹنگ کے بعد ائیر مارشل نور خان وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ہاتھ ملانے کے بعد جانے لگے تو پرائم منسٹر نے سپاٹ لہجے میں کہا: ائیر مارشل مت بھولئے گا کہ بھٹو جہاں بھی ہے وہ بھٹو ہوتا ہے۔ ان کے الفاظ تھے۔
Air Marshal, A Bhutto is a Bhutto where ever he is !

‏ائیر مارشل نور خان سمجھ گئے کہ انہیں محفوظ مصطفیٰ بھٹو عرف ٹیکو سیلز پرومومشن آفیسرز پی آئی اے کے حوالے سے متنبّہ کیا جا رہا ہے‘ جو والدہ کی طرف سے بھٹو ہے۔ نور خان نے اس بات پر کسی قسم کا رد عمل یا اس کا جواب نہیں دیا بلکہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے وزیراعظم کو خدا حافظ کہتے ‏ہوئے لاڑکانہ سے سیدھے کراچی اپنے دفتر پہنچے اور چند منٹوں بعد اپنا استعفیٰ وزیر اعظم ہاوُس فیکس کر دیا۔
محفوظ مصطفیٰ بھٹو وہ پہلی ٹیڑھی اینٹ تھی جو سابقہ وزیراعظم بھٹّو کے ھاتھوں پی آئی اے میں لگی اور اس کے بعد تو پوری عمارت ھی ٹیڑھی اینٹوں سے بھر دی گئی ‏وہ پی آئی اے جو ائرمارشل نورخان کے زمانے میں پاکستان کے وقار کی علامت تھی آج پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ھنسائی کی وجہ بن گئی ھے
میڈیا سمیت ہوائی سفر کے تمام محکموں اور برانچوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ ائیرمارشل نور خان کے بعد پی آئی اے آہستہ آہستہ نیچے کی جانب گرتی ‏چلی گئی اور پھر ایسی گری کہ کبھی سنبھالی ہی نہیں جا سکی۔ آج نہیں تو کل وقت بتائے گا کہ جو ائیر لائن کبھی دنیا بھر میں اپنا مقام رکھتی تھی‘ تباہی کی اِس حالت کو کیسے پہنچی؟

ائیر مارشل نور خان اس قوم کا وہ ستارہ تھا جو ائیر فورس‘ پی آئی اے‘ سکوائش‘ ہاکی اور کرکٹ کے ہر ‏عہدے پر جہاں جہاں بھی براجمان ہوا پاکستان کے نام اور مقام کو بلندیوں تک لے گیا ۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں کے سیاح اور ٹریولر اپنے اپنے ملکوں کی ائیر لائنز پر پی آئی اے کو ترجیح دیتے تھے۔ نور خان مرحوم کی وطن سے محبت اور مر مٹنے کا جذبہ اس ایک واقعہ سے ہی سمجھ لیں ‏کہ 20 جنوری1978ء کو پی آئی اے کا طیارہ کراچی میں ہائی جیک کر لیا گیا اور ہائی جیکر نے پائلٹ کو حکم دیا کہ جہاز کو بھارت لے جایا جائے ۔ائیر مارشل نورخان ہائی جیکر سے بات کرنے کیلئے جہاز کے اندر اکیلے ہی خالی ہاتھ جا پہنچے اور اسے باتوں میں مصروف رکھتے ہوئے اچانک ‏اس کے ہاتھ سے پستول چھیننے کیلئے اس پر جھپٹے‘اس دوران ہائی جیکر کی چلائی گئی گولی سے ان کی ٹانگ زخمی ہو گئی لیکن اس کے باوجود ہائی جیکر پر قابو پاتے ہوئے جہاز کے مسافروں کی زندگیاں محفوظ بنانے میں کامیاب رہے۔ ‏آج یہ حالت ہے کہ پی آئی اے پر پابندیاں لگ رہیں ہیں جبکہ وہ ائیر لائنز جنہیں پی آئی اے نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ہے آج وہ پی آئی اے کی جگہ اس ریجن کا بزنس سنبھال رہی ہیں۔ پی آئی اے کے ساتھ جو ہوا اس پر کاش کوئی ایسا کمیشن بنے ‏جو اوپن کورٹ میں ہر ذمہ دار کو قوم کے سامنے لاکر بتائے کہ پی آئی اے کو کس کس نے لوٹا اور بے دردی سے تباہ کیا ۔



https://www.facebook.com/photo.php?fbid=2702218356660025&set=a.1692895677592303&type=3&theater
بھٹو خاندان پاکستان کے لئے منحوس، لعنتی، اور ناسور ثابت ہوا - اس خاندان کے ایک ایک فرد نے پاکستان کی جڑیں کھوکلی کی ہیں - اللہ تعالیٰ اس خاندان کو نیست و نابود کرے - آمین
نیچے ڈان اخبار میں شائع ایک آرٹیکل پیش کیا جا رہا ہے جس میں جے اے رحیم صاحب جو کہ پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں شامل تھے، ایک تصویر جو کہ پیپلز پارٹی کے حکومت میں آنے سے پہلے کی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بھٹو نے جے اے رحیم صاحب کو اپنی گود میں بیٹھایا ہوا ہے، حکومت میں آنے کے بعد صرف اس بات پر کہ انہوں نے بھٹو کا انتظار نہ کیا اور گھر چلے گئے، بھٹو نے انہیں ایف اس ایف کے غنڈوں کے ذریعہ تشدد کروایا ' جے اے رحیم صاحب اس واقعہ سے اتنے بدل ھوے کہ ملک چھوڑ کر چلے گئے اور وہیں دو سال کے اندر ان کا انتقال ہو گیا​


Photo: J A Rahim sitting on the lap of Bhutto

Above photo shows Bhutto seated among the men who would turn the PPP into a fervent progressive platform that not only accommodated committed Marxists, Maoists, Islamic Socialists and liberals alike, but would also go on to sweep the 1970 general election (in former West Pakistan). The most endearing characteristic of the image is the way J. A. Rahim (an otherwise serious and sombre Marxist thinker and PPP's leading ideologue) is actually sitting on Bhutto's lap!

In mid-1974 the People’s Party government led by Z.A. Bhutto faced a barrage of criticism from the opposition, mostly the rightist parties which did not want hard-core secular people and committed workers at the centre of the party. This cast shadows on the party’s infrastructure. The most regrettable event was the departure of Mr J.A. Rahim, in a very disgraceful manner.

Jalaluddin Abdur Rahim was a Bengali socialist, thinker and one of the founding fathers of Pakistan People’s Party. Educated in political science and philosophy, he began his career as foreign secretary in Mohammed Ali Bogra’s government. He became a member of the Communist Party but joined Bhutto in 1965. When Bhutto convened a convention for forming a political party on November 30, 1967, J.A. Rahim authored the PPP’s constitution and was appointed the party’s first secretary general. After the formation of the PPP government in 1972, Rahim was appointed minister for defence production — a position he retained till his ouster in 1974.

On July 2, 1974, Bhutto had arranged a dinner for the cabinet ministers and close aides. Though the invitation card asked the guests to be there by 8pm, Bhutto did not appear till 11pm. As the clock struck midnight Rahim felt tired and humiliated. Considerably annoyed, J. A. Rahim rose and looking at the waiting ‘courtiers’ said that they could wait for the ‘Larkana Maharaja’ but he was leaving.

While he was asleep at home, at around 1.0am, the FSF men led by the chief of the prime minister’s security officers banged at his gate. They beat him mercilessly and took the bleeding minister to the police station in a jeep. His release was later secured by Rafi Raza, Bhutto’s special assistant. He was flown to Karachi from where he flew to Europe.


Besides his altercations with party leaders over holding independent views, Bhutto also dragged the party into confrontation with the press. Besides hundreds of examples of press gagging, three examples best illustrate Bhutto’s animosity towards the independence of the press. First, the arrest of Altaf Gohar, editor of Dawn; second, the arrest of the editor of the Jamaat-i-Islami mouthpiece, Jasarat; third, the arrest of Syed Sardar Ali Shah, editor of Pir Pagara’s Sindhi newspaper Mehran and closure of the newspaper for six months.

The arrest of the Jasarat editor was due to its criticism over the political objectives of the People’s Party and Bhutto’s policy vis-a-vis the opposition. The action against Altaf Gohar of Dawn had a background of personal bitterness. Altaf Gohar was a bureaucrat and known for his honesty and hard work, besides being a gifted writer. He became so close to the military dictator, Ayub Khan, that he outlined the government’s policies. Bhutto also remembered the incident when he had to appear before Altaf who was then the deputy commissioner of Karachi. A heated debate ensued between the two. The bitterness also had a background of the Tashkent summit when Bhutto was the foreign minister. When Altaf retired in 1969, he took up journalism and was chosen by the Haroons as editor of Dawn. One day Dawn carried an editorial titled ‘Mountains don’t cry’, which was indirectly a reference to Bhutto’s flawed policies.

One night in 1972, a contingent of police broke into Altaf’s home, entered his bedroom, dragged him out and put him in jail for reasons not known to him. In spite of these excessive measures, he continued writing according to his conscience and upheld the people’s right to freedom of expression.
The ordeals of Syed Sardar Ali Shah of daily Mehran and other journalists were not too different. This placed a pall of gloom over the community that kept the society abreast of developments and raised a voice for their rights. This created a wedge between the people and the government. Since the government’s mouthpiece papers could not give a true picture, people began relying on foreign broadcasts, a trend that had taken firm root during the East Pakistan debacle.

The London reporter of Dawn, Nasim Ahmed, who had developed an acquaintance with Bhutto during the former’s stay in the United Kingdom, had been appointed the federal government’s information secretary and used his powers in alienating the media from the people.


His handful of cronies followed the track route Nasim Ahmad laid down. This made the whole political situation murky and confusing, strengthening opposition’s fears of foul play.
Published in Dawn Feb 02, 2013 09:04 pm
 

Nice2MU

President (40k+ posts)
لگتا ہے دلالی کا کاروبار پھر سے چل پڑا ہے اسلیے فورم پہ بھی گاہگ ڈھونڈنے آگئے؟


خوچہ رکشہ والا بھابھی کے حلق سے برآمد ہونے والی بھیانک چینخیں سن کر بھاگ گیا اب جا اور جا کر رکشے کو دھکا لگا رکشہ میں تجھ سے دگنے وزن کی تیری بھابھی ہے ذرا زور لگا کے ہیا
 

Shareef

Minister (2k+ posts)
ZA Bhutto had ordered to promote students without examination. Such na ehl students who had not seen merit later on rose to important positions and destroyed Pakistan. Bhutto was the primary culprit in this regard, beside so many other regards.
 

jakfh

Senator (1k+ posts)

‏بھٹّو اک بڑا آدمی تھا
لیکن پھر اسے واقعی اک بڑا آدمی ٹکرا گی


محفوظ مصطفیٰ بھٹو پرائم منسٹر ذوالفقار علی بھٹّو کی ہمشیرہ کا بیٹا تھا‘ جس کی تعلیمی قابلیت قطعی اس پوسٹ کے معیار کے مطابق نہ تھی، لیکن اسے پی آئی اے میں سیلز پروموشن آفیسر جیسی اہم پوسٹ پر تعینات کرا دیا گیا تھا، ‏جس کے لیے لوگ نہ جانے کتنی سفارشیں‘ رشوت اور دھکے کھاتے ہیں۔

محفوظ مصطفیٰ بھٹو کا دفتر اُس وقت کراچی جم خانہ کلب کے نزدیک تھا‘ انہیں پی آئی اے کی طرف سے ایک بہترین گاڑی اور خاطر تواضع کے لیے پر کشش بجٹ مہیا کیا جاتا تھا۔ اس کا نام محفوظ مصطفیٰ بھٹو تھا،
‏لیکن عرف عام میں وہ ٹِکو کے نام سے مشہور تھا اور اس کے اصل نام سے بہت کم لوگوں واقف تھے۔
ممتاز علی بھٹو اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے اس لئے محفوظ مصطفیٰ عرف ٹِکو کی تمام سر گرمیوں کا تعلق پی آئی اے سے نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس سے مختلف وزراء ‘ سیکرٹریٹ سمیت وفاق کے سرکاری ‏دفاتر میں گھومنے پھرنے اور مختلف فائلوں پر دستخط کرانے تک ہی محدود رہتا اور پی آئی اے کے معاملات سے اس کی لاپروائی اس قدر بڑھ گئی کہ اس کے سینئر افسران نے نوٹس لیتے ہوئے اسے وارننگ لیٹر جاری کر دئیے ‘ لیکن اس کے خلاف کوئی انضباطی کارروائی کرنے سے ڈر جاتے۔ ‏بات چلتے چلتے چیئر مین پی آئی اے ائیر مارشل ریٹائرڈ نور خان کی میز تک جا پہنچی ‘جس کا انہوں نے سخت نوٹس لیتے ہوئے محفوظ مصطفیٰ کی اچھی طرح کھچائی کرتے ہوئے اسے شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر پی آئی اے میں رہنا ہے تو آپ کو کام کرنا ہوگا، ‏اور آپ کے کام کی رپورٹ مانگی جائے گی۔ اگر آپ ایسا نہیں کر تے تو پھر آپ کو بغیر کسی نوٹس کے گھر بھیج دیا جائے گا‘ ذہن نشین کر لیجئے کہ اپنے فرائض میں دلچسپی کے سوا آپ کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ۔

محفوظ مصطفیٰ عرف ٹکوکو چیئر مین/ منیجنگ ڈائریکٹر پی آئی اے کی جانب سے ‏اور بریفنگ تیار کیں اور مقررہ دن کراچی سے لاڑکانہ پہنچ گئے جہاں المرتضیٰ ھاوُس میں وزیر اعظم بھٹو سے ان کی ملاقات ھونا تھی۔ اس میٹنگ میں ائیر مارشل نور خان نے پی آئی اے کے معاملات پر تفصیل سے بریفنگ دی جو ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ ‏میٹنگ کے بعد ائیر مارشل نور خان وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ہاتھ ملانے کے بعد جانے لگے تو پرائم منسٹر نے سپاٹ لہجے میں کہا: ائیر مارشل مت بھولئے گا کہ بھٹو جہاں بھی ہے وہ بھٹو ہوتا ہے۔ ان کے الفاظ تھے۔
Air Marshal, A Bhutto is a Bhutto where ever he is !

‏ائیر مارشل نور خان سمجھ گئے کہ انہیں محفوظ مصطفیٰ بھٹو عرف ٹیکو سیلز پرومومشن آفیسرز پی آئی اے کے حوالے سے متنبّہ کیا جا رہا ہے‘ جو والدہ کی طرف سے بھٹو ہے۔ نور خان نے اس بات پر کسی قسم کا رد عمل یا اس کا جواب نہیں دیا بلکہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے وزیراعظم کو خدا حافظ کہتے ‏ہوئے لاڑکانہ سے سیدھے کراچی اپنے دفتر پہنچے اور چند منٹوں بعد اپنا استعفیٰ وزیر اعظم ہاوُس فیکس کر دیا۔
محفوظ مصطفیٰ بھٹو وہ پہلی ٹیڑھی اینٹ تھی جو سابقہ وزیراعظم بھٹّو کے ھاتھوں پی آئی اے میں لگی اور اس کے بعد تو پوری عمارت ھی ٹیڑھی اینٹوں سے بھر دی گئی ‏وہ پی آئی اے جو ائرمارشل نورخان کے زمانے میں پاکستان کے وقار کی علامت تھی آج پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ھنسائی کی وجہ بن گئی ھے
میڈیا سمیت ہوائی سفر کے تمام محکموں اور برانچوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ ائیرمارشل نور خان کے بعد پی آئی اے آہستہ آہستہ نیچے کی جانب گرتی ‏چلی گئی اور پھر ایسی گری کہ کبھی سنبھالی ہی نہیں جا سکی۔ آج نہیں تو کل وقت بتائے گا کہ جو ائیر لائن کبھی دنیا بھر میں اپنا مقام رکھتی تھی‘ تباہی کی اِس حالت کو کیسے پہنچی؟

ائیر مارشل نور خان اس قوم کا وہ ستارہ تھا جو ائیر فورس‘ پی آئی اے‘ سکوائش‘ ہاکی اور کرکٹ کے ہر ‏عہدے پر جہاں جہاں بھی براجمان ہوا پاکستان کے نام اور مقام کو بلندیوں تک لے گیا ۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں کے سیاح اور ٹریولر اپنے اپنے ملکوں کی ائیر لائنز پر پی آئی اے کو ترجیح دیتے تھے۔ نور خان مرحوم کی وطن سے محبت اور مر مٹنے کا جذبہ اس ایک واقعہ سے ہی سمجھ لیں ‏کہ 20 جنوری1978ء کو پی آئی اے کا طیارہ کراچی میں ہائی جیک کر لیا گیا اور ہائی جیکر نے پائلٹ کو حکم دیا کہ جہاز کو بھارت لے جایا جائے ۔ائیر مارشل نورخان ہائی جیکر سے بات کرنے کیلئے جہاز کے اندر اکیلے ہی خالی ہاتھ جا پہنچے اور اسے باتوں میں مصروف رکھتے ہوئے اچانک ‏اس کے ہاتھ سے پستول چھیننے کیلئے اس پر جھپٹے‘اس دوران ہائی جیکر کی چلائی گئی گولی سے ان کی ٹانگ زخمی ہو گئی لیکن اس کے باوجود ہائی جیکر پر قابو پاتے ہوئے جہاز کے مسافروں کی زندگیاں محفوظ بنانے میں کامیاب رہے۔ ‏آج یہ حالت ہے کہ پی آئی اے پر پابندیاں لگ رہیں ہیں جبکہ وہ ائیر لائنز جنہیں پی آئی اے نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ہے آج وہ پی آئی اے کی جگہ اس ریجن کا بزنس سنبھال رہی ہیں۔ پی آئی اے کے ساتھ جو ہوا اس پر کاش کوئی ایسا کمیشن بنے ‏جو اوپن کورٹ میں ہر ذمہ دار کو قوم کے سامنے لاکر بتائے کہ پی آئی اے کو کس کس نے لوٹا اور بے دردی سے تباہ کیا ۔



https://www.facebook.com/photo.php?fbid=2702218356660025&set=a.1692895677592303&type=3&theater
Bhutto gaandu nai her jaga apni bund paish ki hai BC