*قوم لوط کا نیا جنم
قومِ لوط حضرت لوط کے پیروکاروں کی قوم تھی۔ یہ قوم نہایت بے حِس، مغرور، حاسد، نافرمان اور بد تہذیب تھی۔ یہ جس علاقہ میں مقیم تھی وہ جگہ انتہائی دلکش، خوبصورت اور سرسبز و شاداب منظر پیش کرتی تھی۔ اس علاقے کی خوبصورتی کے پیش نظر دیگر اقوام نے یہاں آکر بسنا شروع کر دیا۔ یہ اقوام، قومِ لوط سے روایات، اقدار اور نظریات میں مختلف تھیں جو انہیں ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں۔ اسے ان سے ہمیشہ اختلاف رہتا مگر اسکی اختلافِ رائے برداشت کرنے کی سکت صفر تھی ۔
اسی قوم میں ابلیس لعین ایک ( HANDSOME ) بوڑھے کی صورت نمودار ہوا اور اس قوم کو دیگر اقوام کے لوگوں سے نجات دہی کیلئے انہیں ان لوگوں سے (جو ہجرت کر کے قومِ لوط کے علاقہ میں آئے تھے) بد فعلی کرنے کی ترغیب دی تاکہ وہ یہ علاقہ چھوڑ جائیں اور صرف قوم لوط کے افراد یہاں رہ سکیں۔ اس رویے کے پیشِ نظر دیکھتے ہی دیکھتے اس سرسبز و شاداب اور خوبصورت جگہ پر پتھروں کا مینہ برسا اور یہ قوم سمندروں کی گہرائی میں جا گری اور غرق ہوگئی۔ قومِ لوط سمندر کی اسی تہہ میں دفن ہےجسے آج ہم بحرِ میت یا بحیرۂ مردار کہتے ہیں۔
اس قوم کے غرق ہونے کے اور بھی محرکات ہو سکتے ہیں مگر کہا جاتا ہے کہ انکا مجموعی سماجی رویہ اس کے زوال کا باعث بنا۔ اس قوم کے افراد خود کو عقلِ کل، صاحبِ علم و دانش اور سچائی کا پیکر خیال کرتے تھے۔ دوسروں سے حسد کرتے، نفرت، نافرمانی، بےحیائی، بدفعلی اور بدتہذیبی کو فروغ دیتے۔ غرضیکہ انسان دشمن تمام برائیاں ان کے اندر بدرجہ اتم موجود تھیں۔
اس کے بعد آنے والی اقوام نے ان سے سبق سیکھا۔ انہوں نے امن، بھائی چارے، اخلاقیات، تہذیب، اور انسان دوست ایجنڈے کو آہستہ آہستہ اپنے اندر شامل کیا۔ اختلاف رائے کو قبول کیا جانے لگا۔ اور اسی اختلاف کی بدولت نئی قومیں تعمیر ہویئں۔ اختلافِ رائے کو قبولنے کے ارتقائی عمل سے معاشرے میں نئے نظریات نے جنم لیا اور اسی وجہ سے نئے مذاہب کا جنم ہوا جو اپنے اندر بہتر معاشرتی اصلاحات لئے انسان دوستی کو فروغ دیتے رہے۔
مگر جارج ایلیٹ نے درست کہا تھا کہ تاریخ خود کو ضرور دہراتی ہے اور کارل مارکس کے بقول تاریخ کے دہرانے کا یہ عمل زیادہ تیز اور توانا ہوتا ہے۔ اور شاید تاریخ نے ایسا ہی کیا۔ صدیوں گزر جانے کے بعد ایک ایسی قوم نمودار ہوئی جس کے اندر حصہ بقدرے جثہ وہ بیشتر خصوصیات پائی جاتی ہیں جو قومِ لوط میں پائی جاتی تھیں۔مگراس قوم نے اپنےسماجی رویے میں ان کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔
اس قوم کے افراد ویسے ہی مغرور، بدتہذیب، بدزبان، بد اخلاق، نفرت کا پرچار کرنے والے، اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے والے، نافرمانی اور غلاظت زدہ زبان کو فروغ دینے والے، دلیل کی بجائے تذلیل پر یقین رکھنے والے اور نظریات کی بجائے ذاتیات پر تنقید کرنے والے ان تمام اقدار کو دہرا رہے ہیں جو صرف قومِ لوط کا خاصہ تھے۔
یہ قوم نظریات کی بجائے شخصیات پر یقین رکھتی ہے۔ اس قوم کا بھی یہی خیال ہے کہ جو ان کی رائے سے اتفاق رکھتے ہیں صرف انہیں جینے کا حق ہے۔ اور ہر وہ شخص جو ان سے اختلاف رکھتا ہے انہیں اس جگہ رہنے کا کوئی استحقاق نہیں، ان کے نزدیک وہ غدار ہیں ۔
یہ قوم اپنے رہنماء کے ہر اس قول و فعل کا دفاع کرتی ہی جنکاخود انکے رہنماء دفاع کرنے میں دقت یا شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ یعنی یہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت ہوئے ہیں۔ سب کو چور چور کہہ کر اپنی عقلی اور دماغی چوری چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اختلاف رائے رکھنے والوں کو کوسنا، گالیاں دینا، ذاتیات پر اتر آنا اور انہیں ناقص العقل کہنا اس قوم کا وطیرہ ہے۔
یہ قوم تبدیلی کی دعویدار ہے مگر خود میں تبدیلی لانے کو تیار نہیں۔ ترقی پسند ہونے کا ڈھونگ رچاتی ہے مگر ترقی پسند نظریات کو فروغ دینے میں خود سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اپنی متضاد سوچ پر تسلی بخش جواب دینے کی بجائے دوسروں کے چھوٹے چھوٹے تضادات کی نشاندہی کر کے ڈھٹائی سے اپنا جواز پیش کرتی ہے۔
اس قوم کے افراد تعلیم، تاریخ، سیاست، کتاب اور نظریات سے کوسوں دور ہیں مگر خود کو علم و دانش کا منبع بنا کر پیش کرتے ہیں۔ دوسروں کو غلام کہتے ہیں مگر خود شخصیت پرستی کی غلامی کی زنجیروں میں مضبوطی سے جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ قوم ہر تباہی کا ذمہ دار دس سال قبل حکمرانوں کو گردانتی ہے اس سے قبل کیا ہوا اس کے بارے نا سوال کرتی اور نا علم رکھنا چاہتی ہے۔ یہ قوم سیاست میں مذہبی مداخلت کی مخالفت کی علمبردار ہے مگر ہمیشہ مذہب کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتی ہے۔
یہ قوم جمہوریت میں بھی فاشزم جیسے ہتھکنڈوں کے حق میں دلیلیں پیش کرتی ہے۔ یہ قوم دوسروں کو بریانی کی پلیٹ پر فروخت کرنے کا طعنہ دیتی ہے اور مذموم مقاصد کیلئے کروڑوں روپے میں عوامی نمائندوں کو خریدنے پر شادیانے بچاتی ہے۔ اپنے مخالفین پر فقرے کسنا، انہیں درست ناموں کی بجائے الٹے ناموں سے مخاطب کرنا، انہیں جاہل قرار دینا اور انکے لئے طرح طرح کی بھونڈی اصطلاحات استعمال کرنا اس قوم کی سیاسی تربیت کا ایک بنیادی جز ہے۔
یہ دنیا کی واحد قوم ہے جو مہنگائی اور بیروزگاری کے فضائل بیان کرتی ہے۔ اور تو اور کوئی بھی فرد جو ان کے نزدیک چور اور ڈٓاکو تھا اگر ان کے ساتھ شامل ہوجائے تو اسے صادق و امین تصور کرلیتی ہے۔ اس قوم کے نزدیک آزادی رائے صرف وہ ہے جب تک کہ انکی رائے سے اتفاق کیا جائے ، اگر کبھی غلطی سے ان سے اختلاف کر لیا جائے تو یہ کوئی ایسا موقع نہیں چھوڑتی جہاں اس شخص کی تضحیک نہ کی جائے جو اس سے الجھ بیٹھے۔
جو صحافی اس قومِ لوطِ ثانی سے اتفاق کرے اسے سر پر بٹھا لیتی ہے اور اگر کسی مسئلے پر اختلاف کرلے تو اٹھا کر نیچے مارتی ہے اور اسے لفافہ صحافت نامی تھپڑ اور غدار نامی مکے رسید کرتی ہے۔ حاصل بحث یہ کہ، قومِ لوط کی طرح اس قوم کا کوا بھی ہمیشہ سفید رہا ہے جس کی یہ سمت معاشرتی بگاڑ پیدا کر رہی ہے جسکی بنیاد خود کو دانشوراور راسخ العقل سمجھنا اور دوسروں کو ہیچ اور ان پڑھ گرداننا ہے۔
یہ قوم کونسی ہے اس کا جواب میں اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں۔ اہلِ علم تو سمجھ جائیں گے اور جو نہیں سمجھے وہ یہ سمجھیں گے کہ انہیں مخاطب کیا گیا ہے۔
قومِ لوط حضرت لوط کے پیروکاروں کی قوم تھی۔ یہ قوم نہایت بے حِس، مغرور، حاسد، نافرمان اور بد تہذیب تھی۔ یہ جس علاقہ میں مقیم تھی وہ جگہ انتہائی دلکش، خوبصورت اور سرسبز و شاداب منظر پیش کرتی تھی۔ اس علاقے کی خوبصورتی کے پیش نظر دیگر اقوام نے یہاں آکر بسنا شروع کر دیا۔ یہ اقوام، قومِ لوط سے روایات، اقدار اور نظریات میں مختلف تھیں جو انہیں ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں۔ اسے ان سے ہمیشہ اختلاف رہتا مگر اسکی اختلافِ رائے برداشت کرنے کی سکت صفر تھی ۔
اسی قوم میں ابلیس لعین ایک ( HANDSOME ) بوڑھے کی صورت نمودار ہوا اور اس قوم کو دیگر اقوام کے لوگوں سے نجات دہی کیلئے انہیں ان لوگوں سے (جو ہجرت کر کے قومِ لوط کے علاقہ میں آئے تھے) بد فعلی کرنے کی ترغیب دی تاکہ وہ یہ علاقہ چھوڑ جائیں اور صرف قوم لوط کے افراد یہاں رہ سکیں۔ اس رویے کے پیشِ نظر دیکھتے ہی دیکھتے اس سرسبز و شاداب اور خوبصورت جگہ پر پتھروں کا مینہ برسا اور یہ قوم سمندروں کی گہرائی میں جا گری اور غرق ہوگئی۔ قومِ لوط سمندر کی اسی تہہ میں دفن ہےجسے آج ہم بحرِ میت یا بحیرۂ مردار کہتے ہیں۔
اس قوم کے غرق ہونے کے اور بھی محرکات ہو سکتے ہیں مگر کہا جاتا ہے کہ انکا مجموعی سماجی رویہ اس کے زوال کا باعث بنا۔ اس قوم کے افراد خود کو عقلِ کل، صاحبِ علم و دانش اور سچائی کا پیکر خیال کرتے تھے۔ دوسروں سے حسد کرتے، نفرت، نافرمانی، بےحیائی، بدفعلی اور بدتہذیبی کو فروغ دیتے۔ غرضیکہ انسان دشمن تمام برائیاں ان کے اندر بدرجہ اتم موجود تھیں۔
اس کے بعد آنے والی اقوام نے ان سے سبق سیکھا۔ انہوں نے امن، بھائی چارے، اخلاقیات، تہذیب، اور انسان دوست ایجنڈے کو آہستہ آہستہ اپنے اندر شامل کیا۔ اختلاف رائے کو قبول کیا جانے لگا۔ اور اسی اختلاف کی بدولت نئی قومیں تعمیر ہویئں۔ اختلافِ رائے کو قبولنے کے ارتقائی عمل سے معاشرے میں نئے نظریات نے جنم لیا اور اسی وجہ سے نئے مذاہب کا جنم ہوا جو اپنے اندر بہتر معاشرتی اصلاحات لئے انسان دوستی کو فروغ دیتے رہے۔
مگر جارج ایلیٹ نے درست کہا تھا کہ تاریخ خود کو ضرور دہراتی ہے اور کارل مارکس کے بقول تاریخ کے دہرانے کا یہ عمل زیادہ تیز اور توانا ہوتا ہے۔ اور شاید تاریخ نے ایسا ہی کیا۔ صدیوں گزر جانے کے بعد ایک ایسی قوم نمودار ہوئی جس کے اندر حصہ بقدرے جثہ وہ بیشتر خصوصیات پائی جاتی ہیں جو قومِ لوط میں پائی جاتی تھیں۔مگراس قوم نے اپنےسماجی رویے میں ان کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔
اس قوم کے افراد ویسے ہی مغرور، بدتہذیب، بدزبان، بد اخلاق، نفرت کا پرچار کرنے والے، اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے والے، نافرمانی اور غلاظت زدہ زبان کو فروغ دینے والے، دلیل کی بجائے تذلیل پر یقین رکھنے والے اور نظریات کی بجائے ذاتیات پر تنقید کرنے والے ان تمام اقدار کو دہرا رہے ہیں جو صرف قومِ لوط کا خاصہ تھے۔
یہ قوم نظریات کی بجائے شخصیات پر یقین رکھتی ہے۔ اس قوم کا بھی یہی خیال ہے کہ جو ان کی رائے سے اتفاق رکھتے ہیں صرف انہیں جینے کا حق ہے۔ اور ہر وہ شخص جو ان سے اختلاف رکھتا ہے انہیں اس جگہ رہنے کا کوئی استحقاق نہیں، ان کے نزدیک وہ غدار ہیں ۔
یہ قوم اپنے رہنماء کے ہر اس قول و فعل کا دفاع کرتی ہی جنکاخود انکے رہنماء دفاع کرنے میں دقت یا شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ یعنی یہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت ہوئے ہیں۔ سب کو چور چور کہہ کر اپنی عقلی اور دماغی چوری چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اختلاف رائے رکھنے والوں کو کوسنا، گالیاں دینا، ذاتیات پر اتر آنا اور انہیں ناقص العقل کہنا اس قوم کا وطیرہ ہے۔
یہ قوم تبدیلی کی دعویدار ہے مگر خود میں تبدیلی لانے کو تیار نہیں۔ ترقی پسند ہونے کا ڈھونگ رچاتی ہے مگر ترقی پسند نظریات کو فروغ دینے میں خود سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اپنی متضاد سوچ پر تسلی بخش جواب دینے کی بجائے دوسروں کے چھوٹے چھوٹے تضادات کی نشاندہی کر کے ڈھٹائی سے اپنا جواز پیش کرتی ہے۔
اس قوم کے افراد تعلیم، تاریخ، سیاست، کتاب اور نظریات سے کوسوں دور ہیں مگر خود کو علم و دانش کا منبع بنا کر پیش کرتے ہیں۔ دوسروں کو غلام کہتے ہیں مگر خود شخصیت پرستی کی غلامی کی زنجیروں میں مضبوطی سے جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ قوم ہر تباہی کا ذمہ دار دس سال قبل حکمرانوں کو گردانتی ہے اس سے قبل کیا ہوا اس کے بارے نا سوال کرتی اور نا علم رکھنا چاہتی ہے۔ یہ قوم سیاست میں مذہبی مداخلت کی مخالفت کی علمبردار ہے مگر ہمیشہ مذہب کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتی ہے۔
یہ قوم جمہوریت میں بھی فاشزم جیسے ہتھکنڈوں کے حق میں دلیلیں پیش کرتی ہے۔ یہ قوم دوسروں کو بریانی کی پلیٹ پر فروخت کرنے کا طعنہ دیتی ہے اور مذموم مقاصد کیلئے کروڑوں روپے میں عوامی نمائندوں کو خریدنے پر شادیانے بچاتی ہے۔ اپنے مخالفین پر فقرے کسنا، انہیں درست ناموں کی بجائے الٹے ناموں سے مخاطب کرنا، انہیں جاہل قرار دینا اور انکے لئے طرح طرح کی بھونڈی اصطلاحات استعمال کرنا اس قوم کی سیاسی تربیت کا ایک بنیادی جز ہے۔
یہ دنیا کی واحد قوم ہے جو مہنگائی اور بیروزگاری کے فضائل بیان کرتی ہے۔ اور تو اور کوئی بھی فرد جو ان کے نزدیک چور اور ڈٓاکو تھا اگر ان کے ساتھ شامل ہوجائے تو اسے صادق و امین تصور کرلیتی ہے۔ اس قوم کے نزدیک آزادی رائے صرف وہ ہے جب تک کہ انکی رائے سے اتفاق کیا جائے ، اگر کبھی غلطی سے ان سے اختلاف کر لیا جائے تو یہ کوئی ایسا موقع نہیں چھوڑتی جہاں اس شخص کی تضحیک نہ کی جائے جو اس سے الجھ بیٹھے۔
جو صحافی اس قومِ لوطِ ثانی سے اتفاق کرے اسے سر پر بٹھا لیتی ہے اور اگر کسی مسئلے پر اختلاف کرلے تو اٹھا کر نیچے مارتی ہے اور اسے لفافہ صحافت نامی تھپڑ اور غدار نامی مکے رسید کرتی ہے۔ حاصل بحث یہ کہ، قومِ لوط کی طرح اس قوم کا کوا بھی ہمیشہ سفید رہا ہے جس کی یہ سمت معاشرتی بگاڑ پیدا کر رہی ہے جسکی بنیاد خود کو دانشوراور راسخ العقل سمجھنا اور دوسروں کو ہیچ اور ان پڑھ گرداننا ہے۔
یہ قوم کونسی ہے اس کا جواب میں اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں۔ اہلِ علم تو سمجھ جائیں گے اور جو نہیں سمجھے وہ یہ سمجھیں گے کہ انہیں مخاطب کیا گیا ہے۔