یوم وفات حضرت عائشہ:-۔
۔ ۱۷رمضان کو حضرت عائشہ دنیا سے رخصت ہوئیں اسی مناسبت سے آج کے دن اہلسنت حضرات انکے بارے میں اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں جس کا انہیں پورا حق حاصل ہے۔ اہل تشیع افراد کی اکثریت اس موقع پہ خاموش رہتی ہے کیونکہ انکے ہاں اس بارے میں متضاد موقف پایا جاتا ہے۔ اس متضاد موقف کو سپاہ صحابہ ٹائپ تکفیری ، شیعوں کا ان سے بغض بنا کے پیش کرتے ہیں جو سو فیصد جھوٹ بلکہ بہتان ہے کیونکہ حضرت عائشہ سے شیعہ مکتبہ فکر سے وابستہ افراد کو کوئی ذاتی بغض نہیں ہے بلکہ خالصتاً تاریخی حقائق کی بنیاد پہ سنجیدہ اختلاف ہے کیونکہ اگر خواہ مخواہ ہی مخالفت کرنا ہوتی تو سب سے پہلے حضرت ام حبیبہ کی کرنی بنتی تھی جنکی سب سے زیادہ خطرناک رشتہ داری ہے۔ وہ معاویہ کی بہن ہیں یزید لعنتی کی سگی پھوپھی ہیں لیکن شیعوں کے ہاں انکے خلاف کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ میں نے آج تک کسی شیعہ عالم سے انکے بارے میں کوئی منفی بات نہیں سنی نا ہی کسی کتاب میں پڑھی حالانکہ انکے بھائی نے مولا علی ع سے جنگ کی اور بھتیجے نے نواسۂ رسول ص کو بھوکا پیاسا ذبح کروا دیا۔ اس لئے یہ واضح ہے کہ یہاں ذاتیات والا معاملہ نہیں ہے بلکہ علمی اختلاف ہے آنیوالی سطور میں اسی کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔
حضرت عائشہ کے حوالے سے بہت مختصراً بیان کیا جاۓ تو دو بڑے اختلاف ہیں
پہلا
۔ سب سے پہلا اور سخت اختلاف مولا علی ع سے جنگ جمل ہے جس میں وہ سرخ اونٹنی پہ بیٹھ کے گھر سے نکل کے میدان جنگ میں آ گئیں۔ یہاں پیغمبر اسلام ص کی یہ حدیث یاد رہے جو اہلسنت محدثین نے مسلسل نقل کی ہے کہ آپ ص نے فرمایا علی ع سے جنگ مجھ سے جنگ ہے۔ یہاں اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنگ جمل کو اس حدیث کی روشنی میں دیکھتے ہوئے رسول اللہ ص کے خلاف جنگ کیوں نہیں کہا جا سکتا؟؟
مزید گہرائی میں جائیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے تینوں خلفا کے زمانے میں آپ گھر میں سکون سے بیٹھی رہیں آخر ایسا کیا ہو گیا کہ جیسے ہی علی علیہ السلام نے خلافت سنبھالی آپ ان سے جنگ کرنے کے لئے نکل آئیں؟؟؟ اگر آپ یہ جواب دیں گے کہ آخر میں مولا علی ع نے انہیں انکے بھائی کے پہرے میں واپس مدینہ بھجوا دیا تھا اور یہ حسن سلوک بتا رہا ہے کہ معاملات سیٹل ہو گئے تھے تو میں کہوں گا اس سے زیادہ حسن سلوک مولا علی ع نے اپنے قاتل عبدالرحمن ابن ملجم مرادی سے کیا تھا اور اس وقت کیا جب اسکی لگائی ہوئی ضربت سے آپ کا سر شگافتہ ہو چکا تھا۔ ابن ملجم گھر میں آپ کے سامنے باندھ کے پیش کیا گیا تو آپ نے اپنا شربت اسے پلانے کا حکم دیا کیونکہ اسکے ہونٹ سخت خشک تھے اور وہ کلام کرنے سے ڈر رہا تھا۔
۔ سب سے پہلا اور سخت اختلاف مولا علی ع سے جنگ جمل ہے جس میں وہ سرخ اونٹنی پہ بیٹھ کے گھر سے نکل کے میدان جنگ میں آ گئیں۔ یہاں پیغمبر اسلام ص کی یہ حدیث یاد رہے جو اہلسنت محدثین نے مسلسل نقل کی ہے کہ آپ ص نے فرمایا علی ع سے جنگ مجھ سے جنگ ہے۔ یہاں اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنگ جمل کو اس حدیث کی روشنی میں دیکھتے ہوئے رسول اللہ ص کے خلاف جنگ کیوں نہیں کہا جا سکتا؟؟
مزید گہرائی میں جائیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے تینوں خلفا کے زمانے میں آپ گھر میں سکون سے بیٹھی رہیں آخر ایسا کیا ہو گیا کہ جیسے ہی علی علیہ السلام نے خلافت سنبھالی آپ ان سے جنگ کرنے کے لئے نکل آئیں؟؟؟ اگر آپ یہ جواب دیں گے کہ آخر میں مولا علی ع نے انہیں انکے بھائی کے پہرے میں واپس مدینہ بھجوا دیا تھا اور یہ حسن سلوک بتا رہا ہے کہ معاملات سیٹل ہو گئے تھے تو میں کہوں گا اس سے زیادہ حسن سلوک مولا علی ع نے اپنے قاتل عبدالرحمن ابن ملجم مرادی سے کیا تھا اور اس وقت کیا جب اسکی لگائی ہوئی ضربت سے آپ کا سر شگافتہ ہو چکا تھا۔ ابن ملجم گھر میں آپ کے سامنے باندھ کے پیش کیا گیا تو آپ نے اپنا شربت اسے پلانے کا حکم دیا کیونکہ اسکے ہونٹ سخت خشک تھے اور وہ کلام کرنے سے ڈر رہا تھا۔
چبھتا سوال ہے کہ کیا حسن سلوک کا مطلب معاف کر دینا ہوتا ہے؟ اگر ہاں تو قاتلِ علی علیہ السلام ابن ملجم پہ لعنت کرنے کا کیا جواز ہے ؟
دوسرا
دوسرا بڑا مسئلہ ہے امام حسن علیہ السلام کو حجرۂ نبوی میں دفن ہونے سے روکنا۔ خود خچر پہ سوار ہو کے سامنے آ جانے والی روایت پہ اعتراض کو ایک لحظے کے لئے بھلا دیا جاۓ اور بہت زیادہ احتیاط کرتے ہوئے کم سے کم تاریخی حقائق پہ بھی بات کی جائے تو انہوں نے اس معاملے میں خاموش یا غیر جانبدار رہ کے بھی بنو امیہ کے گورنر مدینہ مروان بن حکم کا ہی ساتھ دیا۔ نواسۂ رسول ص کے جنازے پہ تیر برسائے گئے اور جنازہ واپس گھر لانا پڑا۔ یہاں اہلبیت ع کے حق میں وہ یہ موقف بھی اختیار کر سکتی تھیں کہ پہلے بھی دو قبریں ہیں ایک اور بھی بن جائے تو کوئی مضائقہ نہیں جبکہ وہ اچھی طرح آگاہ بھی تھیں کہ رسول اللہ ص کو امام حسن ع سے کس درجہ محبت تھی۔ آخر ایسا کیوں ہوا کہ نبی ص کے لاڈلے نواسے کا جنازہ تیروں کی زد میں آ گیا اور جنت البقیع کی طرف موڑ دیا گیا۔
نہایت اہم سوال یہ بھی ہے کہ واقعہ کربلا سے تین سال قبل انکی وفات ہوئی تو نماز جنازہ حضرت ابو ہریرہ نے پڑھائی۔ امام حسین علیہ السلام اس وقت حیات تھے امام سجاد علیہ السلام اس وقت بیس سال کے کڑیل جوان تھے۔ امام حسن ع کے فرزند اور امام حسین ع کے داماد حسن مثنیٰ بھی اس وقت مدینہ میں ہی موجود تھے۔ اگر کسی کے پاس اس بات کا کوئی تاریخی ثبوت ہو تو میری ضرور رہنمائی کرے کہ امام حسین ع سمیت اہلبیت کے ان افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی تھی یا نہیں کی تھی اور اگر نہیں کی تھی تو کیا وجہ ہو سکتی ہے؟؟؟
نہایت اہم سوال یہ بھی ہے کہ واقعہ کربلا سے تین سال قبل انکی وفات ہوئی تو نماز جنازہ حضرت ابو ہریرہ نے پڑھائی۔ امام حسین علیہ السلام اس وقت حیات تھے امام سجاد علیہ السلام اس وقت بیس سال کے کڑیل جوان تھے۔ امام حسن ع کے فرزند اور امام حسین ع کے داماد حسن مثنیٰ بھی اس وقت مدینہ میں ہی موجود تھے۔ اگر کسی کے پاس اس بات کا کوئی تاریخی ثبوت ہو تو میری ضرور رہنمائی کرے کہ امام حسین ع سمیت اہلبیت کے ان افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی تھی یا نہیں کی تھی اور اگر نہیں کی تھی تو کیا وجہ ہو سکتی ہے؟؟؟