یہ حکومت تعلیم پر جو حملہ کرنے لگی ہے، ضیا بھی نہ کر سکا

knowledge88

Chief Minister (5k+ posts)
پرویز امیر علی ہود بھائی

پاکستان! خبردار! عمران خان کی حکومت پاکستان کے تعلیمی نظام پر ایسا مہلک وار کرنے جا رہی ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ سنگل نیشنل کریکلم (ایس این سی) یعنی یکساں نصابِ تعلیم کے نام پر جو تبدیلیاں متعارف کروانے کا منصوبہ ہے وہ تو ضیا الحق کی مذہبی جنونی آمریت نے بھی نہ سوچی تھیں۔ ان تبدیلیوں پر اگلے سال سے عمل درآمد شروع ہو گا۔

بظاہر تمام اسکولوں میں یکساں نصاب ِ تعلیم ایک قابل ستائش عمل ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یکساں نصاب کے نتیجے میں اس نفرت انگیز طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہو جائے گا جو روز اول سے تعلیمی نظام کے پاوں کی بیڑی بنا ہوا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایلیٹ پرائیویٹ اسکولوں کے طلبہ اورغیر معیاری سرکاری اسکولوں کے طلبہ کے مابین فرق بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

ایسے میں کیا یہ ایک اچھا اقدام نہیں کہ تمام بچے ایک جیسا نصاب پڑھیں اور ایک ہی پیمانے پر ان کی قابلیت کا امتحان لیا جائے؟

بظاہر اخلاقی لحاظ سے اس پر کشش سوچ کو ہائی جیک کر لیا گیا ہے، اس کی روح کو اس بری طرح سے کچل دیا گیا ہے کہ اصل مقصد ہی فوت ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کوتاہ نظر لوگ، جن کے ہاتھ میں پاکستان کے مستقبل کی باگ ڈور ہے، وہ اپنے باس (وزیر اعظم) کی طرح مدرسہ اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔

2016-17 میں وزیر اعظم عمران خان کو اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انہوں نے مولانا سمیع الحق کے مدرسے کے لئے کروڑوں روپے کی امداد دی۔ یاد رہے مولانا سمیع الحق، جو پراسرار حالات میں اپنے ہی ایک کارندے کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے تھے، طالبان کے خود ساختہ ابا جی تھے۔

ابھی تک پہلی سے پانچویں جماعت تک کے نصاب میں ایس این سی منصوبے کے تحت ہونے والی تبدیلیوں بارے تفصیلات دستیاب ہو سکی ہیں۔ نصاب میں جس قدر مذہب کو شامل کیا گیا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اگر پاکستان میں مدرسہ نظام تعلیم کے دو بڑے اداروں، تنظیم المدارس اور رابطہ المدارس، کے ساتھ مجوزہ تبدیلیوں کا موازنہ کیا جائے تو ایک بار آپ کو دھچکا ضرور لگے گا۔
آئندہ سے اسکولوں میں مدرسوں سے بھی زیادہ رٹا بازی پر زور دیا جائے گا۔ اسکول ٹیچرز چونکہ مذہبی تعلیم نہیں دے سکتے اس لئے قاری حضرات اور حافظ ِقرآن حضرات کی ایک فوج ظفر موج کو اسکولوں میں تنخواہ دار ملازم کے طور پر تعینات کیا جائے گا۔ اس کا عمومی ماحول پر کیا اثر پڑے گا یا بچوں کی حفاظت کیسے ممکن بنائی جائے گی، اس بارے ابھی کچھ کہنا ممکن نہیں۔

مشترکہ نصاب تعلیم تین مفروضات کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے مگر مندرجہ ذیل تین نکات ذہن نشین رہیں:

پہلی بات: یہ تصور بالکل غلط ہے کہ پاکستان میں اسکولوں کے مختلف نظاموں کی وجہ سے معیار تعلیم کا فرق پایا جاتا ہے۔ جغرافیہ، معاشرتی علوم یا سائنس جیسے سیکولر مضامین اور موضوعات سب ہی سکولوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ ترجیحات اور تفصیلات کا فرق ہو سکتا ہے مگر سب جگہ یہی پڑھایا جاتا ہے کہ دنیا میں سات بر اعظم ہیں اور ہائیڈروجن کے دو ایٹم آکسیجن کے ایک ایٹم کے ساتھ مل کر پانی بناتے ہیں۔

ان اسکولوں میں فرق اس بنیاد پر ہے کہ مختلف اسکولوں میں طریقہ تعلیم (ٹیچنگ میتھڈ)بھی مختلف ہیں اور طلبہ کی قابلیت جانچنے کا طریقہ بھی مختلف۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بچہ جب بورڈ کا امتحان دے گا تو اس سے ریاضی کے پرچے میں پوچھا جائے گا کہ فلاں کلیہ کس نے بنایا تھا۔ او لیول کے امتحان میں کہا جائے گا کہ فلاں کلیہ لگا کر سوال حل کرو۔ جدید دنیا میں طالب علم سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کلئے کی مدد سے حل ڈھونڈے گا، کلئے کو رٹا نہیں لگائے گا۔

دوسری بات : یہ تصور بھی سراسر غلط ہے کہ بچوں کو مذہبی بنا دینے سے ایچی سن کالج اور محلے کے سرکاری اسکول کے طالب علم ایک ہی سطح پر آ جائیں گے۔ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ضرور ہوتے تھے مگر نماز کے بعدوہ رہتے آقا و غلام ہی تھے۔ اسی طرح غریب اور امیر اسکولوں کا فرق اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک سب اسکولوں میں اچھا انفرا سٹرکچر، معیاری کتب، تربیت یافتہ اساتذہ اور انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہو گی۔ یہ وسائل کہاں سے پیدا ہوں گے، اس کا اندازہ آپ خود لگا لیجئے۔ پی ٹی آئی کی حکومت تو بہر حال دفاع کے علاوہ ہر شعبے کا بجٹ کم کر رہی ہے۔

تیسری بات: یہ تصور بھی انتہائی غلط ہے کہ جدید اسکول اور مدرسے کا فرق ختم کیا جا سکتا ہے۔ جدید تعلیم کی بنیاد ہی تنقیدی سوچ پر ہے۔ یہاں کامیابی یا ناکامی کا پیمانہ یہ ہے کہ طلبہ مسائل حل کر سکتے ہیں یا نہیں اور ان کے پاس دنیاوی علم ہے یا نہیں۔ مدرسے کا نصب العین اہم سہی مگر یہ اسکول سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ مدرسے میں طالب علم سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مذہب پر عمل پیرا ہو گا اور اپنی آخرت سنوارنے پر توجہ دے گا لہذاٰ تنقیدی سوچ کو اہم نہیں سمجھا جاتا۔
یہ بات درست ہے کہ اب کچھ مدارس میں انگریزی، سائنس اور کمپیوٹر سائنس جیسے سیکولر مضامین پڑھائے جا رہے ہیں۔ مدرسوں نے یہ سلسلہ کافی دباؤ کے بعد شروع کیا۔ گیارہ ستمبر کے بعد مدارس پر سب کی نظر تھی کیونکہ مدارس کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا تھا۔

مشرف حکومت جو امریکہ کی بات پر دھیان دینے پر مجبور تھی، نے حکم دیا تھا کہ مدرسوں میں یہ مضامین پڑھائے جائیں۔ کچھ مدارس نے تو سرے سے انکار کر دیا البتہٰ بعض نے یہ سلسلہ شروع کر دیا۔ مدرسوں میں البتہٰ سیکولر اور مذہبی مضامین ایک ہی انداز میں پڑھائے جاتے ہیں: منطق تقریباََ غائب نظر آتی ہے جبکہ آمرانہ طریقہ تعلیم غالب رہتا ہے۔

پہلی سے پانچویں جماعت بارے ایس این سی دستاویز میں سیکولر مضامین پر بات تو کی گئی ہے مگر زیادہ تر انگریزی، جنرل نالج، جنرل سائنس، ریاضی اور معاشرتی علوم بارے بے معنی بڑ بڑ کے سوا کوئی ٹھوس بات نہیں کی گئی۔ ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے علمی اور عملی وسائل درکار ہوں گے، وہ کیسے مہیا کئے جائیں گے۔ ۔ ۔ کوئی بات نہیں کی گئی۔

اسکول کے نصاب سے بھی بڑی تبدیلیاں ہونے جا رہی ہیں۔ حکومت ِپنجاب نے کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ناظرہ قرآن کو لازمی قرار دے دیا ہے۔ یہ امتحان پاس کئے بغیر کسی کو بی اے، بی ای، بی ایس سی، ایم اے، ایم ایس سی، ایم بی بی ایس، ایم فل یا پی ایچ کی ڈگری نہیں ملے گی۔

یہ شرط تو ضیا دور میں بھی نہیں لگائی گئی تھی۔ اَسی کی دہائی میں یونیورسٹی میں پروفیسر لگنے کے لئے امہات المومنین کے نام یا دعائے قنوت جیسی مشکل دعائیں یاد کرنا ہوتی تھیں مگر طلبہ یہ مراحل طے کئے بغیر ڈگری لے سکتے تھے۔ اب یہ اختیار بھی چلا گیا۔

ایران، بنگلہ دیش اور انڈیا کے طلبہ سے بھی کم صلاحیت رکھنے والے پاکستانی طلبہ سائنس اور ریاضی کے تمام عالمی مقابلوں میں بہت بری کارکردگی دکھاتے ہیں۔ جن کی کارکردگی اچھی ہوتی ہے، وہ اے لیول اور او لیول والے ہوتے ہیں۔ اس سے بھی پریشان کن بات یہ ہے کہ اپنا ما فی الضمیرنہ درست اردو میں بیان کر سکتے ہیں نہ انگریزی میں۔ کتابیں پڑھنا تو قصہئ پارینہ بن چکا۔

تحریک انصاف حکومت کی نئی پالیسی اس بارے مکمل طور پر خاموش ہے کہ طلبہ کی ہنر مندی میں کیسے اضافہ کیا جائے گا۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل کالجوں میں معیارِ تعلیم اس قدر پست ہے کہ نجی شعبہ جب کسی کو نوکری دیتا ہے تو نئے سرے سے ٹرینگ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نجی شعبے میں صنعتی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز کا بیڑا غرق ہو چکا ہے۔ اسی طرح پاکستان کا خلائی پروگرام ناکام ہو چکا ہے جبکہ ایران نے حال ہی میں اپنا ایک عسکری سیارہ مدار میں چھوڑا ہے اور انڈیا مریخ پر پہنچنے والا ہے۔

اٹھارہویں ترمیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبوں کو چاہئے کہ اس رجعتی منصوبے کو رد کر دیں جو اسلام آباد پر فی الوقت قابض رجعتی نظریہ دان لاگو کرنا چاہتے ہیں ورنہ پاکستان جنوبی ایشیا میں ایک مذاق بن کر رہ جائے گا اور عرب ملکوں سے بھی پیچھے رہ جائے گا۔

پاکستان کی بد ترین ناکامی یہ ہے کہ شہریوں کو وہ ہنر نہیں سکھائے گئے جو زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہیں حالانکہ سب سے زیادہ اسی کی ضرورت تھی۔ ترقی کے لئے ضروری ہے کہ تعلیم کو ترجیح دی جائے۔ سیاسی فائدے اصل کرنا ترجیح نہیں ہونا چاہئے۔




 
Last edited by a moderator:

Nice2MU

President (40k+ posts)
اس چول کو مسلہ اسلام سے ہے اور کچھ نہیں۔۔

اس چول سائنسدان کے سوائے ایسی بکواسات کے کوئی سائنسی خدمات نہیں۔۔۔

اس ملک کا کیا کرے کہ ایک وکیل وزیر تو سائنسی تخلیقات میں رول ادا کر رہا ہے اور ایک سائنسدان مولویوں سے بحث مباحثے کر رہا ہوتا ہے۔
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
یہ احسن اقدام ہے لیکن عجلت میں نہیں کرنا چاہیے
اور نا اہل بندوں کے ہاتھوں تو ہرگز نہیں کروانا چاہیے
 

vicahmed99

Chief Minister (5k+ posts)
اس چول کو مسلہ اسلام سے ہے اور کچھ نہیں۔۔
true


اس چول سائنسدان کے سوائے ایسی بکواسات کے کوئی سائنسی خدمات نہیں۔۔۔

اس ملک کا کیا کرے کہ ایک وکیل وزیر تو سائنسی تخلیقات میں رول ادا کر رہا ہے اور ایک سائنسدان مولویوں سے بحث مباحثے کر رہا ہوتا ہے۔
 

zaheer2003

Chief Minister (5k+ posts)
اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کوتاہ نظر لوگ، جن کے ہاتھ میں پاکستان کے مستقبل کی باگ ڈور ہے، وہ اپنے باس (وزیر اعظم) کی طرح مدرسہ اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔

The whole pain is here...........
 

Truthstands

Minister (2k+ posts)
لبرل اب اسلامی تعلیم کے کندھے کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔
سری زندگی یہ مذہب اور اسلامی تعلیم کا مذاق اڑاتا رہا ہے
 

NasNY

Chief Minister (5k+ posts)
Pervez Hoodbhoy is an atheist Maulvi,
it may be surprising for most that their are fundamentalist extremist atheist that hate all religions and will do anything for the progression of their agenda.
 

Munawarkhan

Chief Minister (5k+ posts)
the govt took more than a year, to bring everyone on board and make a new curriculum. Shafqat Mahmood used to get grilled on media that why is it taking you so long to bring reforms.

Na-ahl tu wo hain, jo pichlay 10 saal main ye kernay ka sooch bhi nahi sakay aur election bhi har gayee.


یہ احسن اقدام ہے لیکن عجلت میں نہیں کرنا چاہیے
اور نا اہل بندوں کے ہاتھوں تو ہرگز نہیں کروانا چاہیے
 

smartmax1

Senator (1k+ posts)
پرویز امیر علی ہود بھائی

پاکستان! خبردار! عمران خان کی حکومت پاکستان کے تعلیمی نظام پر ایسا مہلک وار کرنے جا رہی ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ سنگل نیشنل کریکلم (ایس این سی) یعنی یکساں نصابِ تعلیم کے نام پر جو تبدیلیاں متعارف کروانے کا منصوبہ ہے وہ تو ضیا الحق کی مذہبی جنونی آمریت نے بھی نہ سوچی تھیں۔ ان تبدیلیوں پر اگلے سال سے عمل درآمد شروع ہو گا۔

بظاہر تمام اسکولوں میں یکساں نصاب ِ تعلیم ایک قابل ستائش عمل ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یکساں نصاب کے نتیجے میں اس نفرت انگیز طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہو جائے گا جو روز اول سے تعلیمی نظام کے پاوں کی بیڑی بنا ہوا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایلیٹ پرائیویٹ اسکولوں کے طلبہ اورغیر معیاری سرکاری اسکولوں کے طلبہ کے مابین فرق بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

ایسے میں کیا یہ ایک اچھا اقدام نہیں کہ تمام بچے ایک جیسا نصاب پڑھیں اور ایک ہی پیمانے پر ان کی قابلیت کا امتحان لیا جائے؟

بظاہر اخلاقی لحاظ سے اس پر کشش سوچ کو ہائی جیک کر لیا گیا ہے، اس کی روح کو اس بری طرح سے کچل دیا گیا ہے کہ اصل مقصد ہی فوت ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کوتاہ نظر لوگ، جن کے ہاتھ میں پاکستان کے مستقبل کی باگ ڈور ہے، وہ اپنے باس (وزیر اعظم) کی طرح مدرسہ اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔

2016-17 میں وزیر اعظم عمران خان کو اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انہوں نے مولانا سمیع الحق کے مدرسے کے لئے کروڑوں روپے کی امداد دی۔ یاد رہے مولانا سمیع الحق، جو پراسرار حالات میں اپنے ہی ایک کارندے کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے تھے، طالبان کے خود ساختہ ابا جی تھے۔

ابھی تک پہلی سے پانچویں جماعت تک کے نصاب میں ایس این سی منصوبے کے تحت ہونے والی تبدیلیوں بارے تفصیلات دستیاب ہو سکی ہیں۔ نصاب میں جس قدر مذہب کو شامل کیا گیا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اگر پاکستان میں مدرسہ نظام تعلیم کے دو بڑے اداروں، تنظیم المدارس اور رابطہ المدارس، کے ساتھ مجوزہ تبدیلیوں کا موازنہ کیا جائے تو ایک بار آپ کو دھچکا ضرور لگے گا۔
آئندہ سے اسکولوں میں مدرسوں سے بھی زیادہ رٹا بازی پر زور دیا جائے گا۔ اسکول ٹیچرز چونکہ مذہبی تعلیم نہیں دے سکتے اس لئے قاری حضرات اور حافظ ِقرآن حضرات کی ایک فوج ظفر موج کو اسکولوں میں تنخواہ دار ملازم کے طور پر تعینات کیا جائے گا۔ اس کا عمومی ماحول پر کیا اثر پڑے گا یا بچوں کی حفاظت کیسے ممکن بنائی جائے گی، اس بارے ابھی کچھ کہنا ممکن نہیں۔

مشترکہ نصاب تعلیم تین مفروضات کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے مگر مندرجہ ذیل تین نکات ذہن نشین رہیں:

پہلی بات: یہ تصور بالکل غلط ہے کہ پاکستان میں اسکولوں کے مختلف نظاموں کی وجہ سے معیار تعلیم کا فرق پایا جاتا ہے۔ جغرافیہ، معاشرتی علوم یا سائنس جیسے سیکولر مضامین اور موضوعات سب ہی سکولوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ ترجیحات اور تفصیلات کا فرق ہو سکتا ہے مگر سب جگہ یہی پڑھایا جاتا ہے کہ دنیا میں سات بر اعظم ہیں اور ہائیڈروجن کے دو ایٹم آکسیجن کے ایک ایٹم کے ساتھ مل کر پانی بناتے ہیں۔

ان اسکولوں میں فرق اس بنیاد پر ہے کہ مختلف اسکولوں میں طریقہ تعلیم (ٹیچنگ میتھڈ)بھی مختلف ہیں اور طلبہ کی قابلیت جانچنے کا طریقہ بھی مختلف۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بچہ جب بورڈ کا امتحان دے گا تو اس سے ریاضی کے پرچے میں پوچھا جائے گا کہ فلاں کلیہ کس نے بنایا تھا۔ او لیول کے امتحان میں کہا جائے گا کہ فلاں کلیہ لگا کر سوال حل کرو۔ جدید دنیا میں طالب علم سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کلئے کی مدد سے حل ڈھونڈے گا، کلئے کو رٹا نہیں لگائے گا۔

دوسری بات : یہ تصور بھی سراسر غلط ہے کہ بچوں کو مذہبی بنا دینے سے ایچی سن کالج اور محلے کے سرکاری اسکول کے طالب علم ایک ہی سطح پر آ جائیں گے۔ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ضرور ہوتے تھے مگر نماز کے بعدوہ رہتے آقا و غلام ہی تھے۔ اسی طرح غریب اور امیر اسکولوں کا فرق اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک سب اسکولوں میں اچھا انفرا سٹرکچر، معیاری کتب، تربیت یافتہ اساتذہ اور انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہو گی۔ یہ وسائل کہاں سے پیدا ہوں گے، اس کا اندازہ آپ خود لگا لیجئے۔ پی ٹی آئی کی حکومت تو بہر حال دفاع کے علاوہ ہر شعبے کا بجٹ کم کر رہی ہے۔

تیسری بات: یہ تصور بھی انتہائی غلط ہے کہ جدید اسکول اور مدرسے کا فرق ختم کیا جا سکتا ہے۔ جدید تعلیم کی بنیاد ہی تنقیدی سوچ پر ہے۔ یہاں کامیابی یا ناکامی کا پیمانہ یہ ہے کہ طلبہ مسائل حل کر سکتے ہیں یا نہیں اور ان کے پاس دنیاوی علم ہے یا نہیں۔ مدرسے کا نصب العین اہم سہی مگر یہ اسکول سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ مدرسے میں طالب علم سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مذہب پر عمل پیرا ہو گا اور اپنی آخرت سنوارنے پر توجہ دے گا لہذاٰ تنقیدی سوچ کو اہم نہیں سمجھا جاتا۔
یہ بات درست ہے کہ اب کچھ مدارس میں انگریزی، سائنس اور کمپیوٹر سائنس جیسے سیکولر مضامین پڑھائے جا رہے ہیں۔ مدرسوں نے یہ سلسلہ کافی دباؤ کے بعد شروع کیا۔ گیارہ ستمبر کے بعد مدارس پر سب کی نظر تھی کیونکہ مدارس کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا تھا۔

مشرف حکومت جو امریکہ کی بات پر دھیان دینے پر مجبور تھی، نے حکم دیا تھا کہ مدرسوں میں یہ مضامین پڑھائے جائیں۔ کچھ مدارس نے تو سرے سے انکار کر دیا البتہٰ بعض نے یہ سلسلہ شروع کر دیا۔ مدرسوں میں البتہٰ سیکولر اور مذہبی مضامین ایک ہی انداز میں پڑھائے جاتے ہیں: منطق تقریباََ غائب نظر آتی ہے جبکہ آمرانہ طریقہ تعلیم غالب رہتا ہے۔

پہلی سے پانچویں جماعت بارے ایس این سی دستاویز میں سیکولر مضامین پر بات تو کی گئی ہے مگر زیادہ تر انگریزی، جنرل نالج، جنرل سائنس، ریاضی اور معاشرتی علوم بارے بے معنی بڑ بڑ کے سوا کوئی ٹھوس بات نہیں کی گئی۔ ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے علمی اور عملی وسائل درکار ہوں گے، وہ کیسے مہیا کئے جائیں گے۔ ۔ ۔ کوئی بات نہیں کی گئی۔

اسکول کے نصاب سے بھی بڑی تبدیلیاں ہونے جا رہی ہیں۔ حکومت ِپنجاب نے کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ناظرہ قرآن کو لازمی قرار دے دیا ہے۔ یہ امتحان پاس کئے بغیر کسی کو بی اے، بی ای، بی ایس سی، ایم اے، ایم ایس سی، ایم بی بی ایس، ایم فل یا پی ایچ کی ڈگری نہیں ملے گی۔

یہ شرط تو ضیا دور میں بھی نہیں لگائی گئی تھی۔ اَسی کی دہائی میں یونیورسٹی میں پروفیسر لگنے کے لئے امہات المومنین کے نام یا دعائے قنوت جیسی مشکل دعائیں یاد کرنا ہوتی تھیں مگر طلبہ یہ مراحل طے کئے بغیر ڈگری لے سکتے تھے۔ اب یہ اختیار بھی چلا گیا۔

ایران، بنگلہ دیش اور انڈیا کے طلبہ سے بھی کم صلاحیت رکھنے والے پاکستانی طلبہ سائنس اور ریاضی کے تمام عالمی مقابلوں میں بہت بری کارکردگی دکھاتے ہیں۔ جن کی کارکردگی اچھی ہوتی ہے، وہ اے لیول اور او لیول والے ہوتے ہیں۔ اس سے بھی پریشان کن بات یہ ہے کہ اپنا ما فی الضمیرنہ درست اردو میں بیان کر سکتے ہیں نہ انگریزی میں۔ کتابیں پڑھنا تو قصہئ پارینہ بن چکا۔

تحریک انصاف حکومت کی نئی پالیسی اس بارے مکمل طور پر خاموش ہے کہ طلبہ کی ہنر مندی میں کیسے اضافہ کیا جائے گا۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل کالجوں میں معیارِ تعلیم اس قدر پست ہے کہ نجی شعبہ جب کسی کو نوکری دیتا ہے تو نئے سرے سے ٹرینگ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نجی شعبے میں صنعتی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز کا بیڑا غرق ہو چکا ہے۔ اسی طرح پاکستان کا خلائی پروگرام ناکام ہو چکا ہے جبکہ ایران نے حال ہی میں اپنا ایک عسکری سیارہ مدار میں چھوڑا ہے اور انڈیا مریخ پر پہنچنے والا ہے۔

اٹھارہویں ترمیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبوں کو چاہئے کہ اس رجعتی منصوبے کو رد کر دیں جو اسلام آباد پر فی الوقت قابض رجعتی نظریہ دان لاگو کرنا چاہتے ہیں ورنہ پاکستان جنوبی ایشیا میں ایک مذاق بن کر رہ جائے گا اور عرب ملکوں سے بھی پیچھے رہ جائے گا۔

پاکستان کی بد ترین ناکامی یہ ہے کہ شہریوں کو وہ ہنر نہیں سکھائے گئے جو زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہیں حالانکہ سب سے زیادہ اسی کی ضرورت تھی۔ ترقی کے لئے ضروری ہے کہ تعلیم کو ترجیح دی جائے۔ سیاسی فائدے اصل کرنا ترجیح نہیں ہونا چاہئے۔




Quran ki taleem aam ho, aur specially translation ke sath, best way to hai, keh arabic language ko seekha jaye.
lekin afsoos kabhi maghrib ke piche chop ke aur kabhi 18th tarmeem ke piche ho ke tabah kiya hai, pakistan ke taleemi nizam ko. ghareeb ya middle class ke logon ke bachon ke liye achi taleem ek khawab hai. aur ameer air conditions ke rooms mein beth ke taleem hasil karta hai. jab nisaab ek ho ga. tu inshallah sab ek level pe ho ke intelligent students ubhrain gaye.
 

chandaa

Prime Minister (20k+ posts)
Yahood boy ko maslaa ISLAM aur uss ki iqdaar se hai. Inn la deen NGOs ke chamchoon ko har woh cheez buri lagti hai jiss mein Islam ya uss ki iqdaar shamal hou jaein.
 

Eyeaan

Chief Minister (5k+ posts)
A head-less, muddled up and haphazard criticism..
He should take courage and clearly state that he opposes quranic (and islamic) education in schools . That is the impetus and the crux of his criticism. He should make a clear case on what's hurting him the most and then suggest what kind of curriculum) for social/ethical pedagogy, if any, he prefers and why.

Otherwise curriculum committee had set goals to resolve other issues that he is pushing in this debate. We have heard enough of staple talk (or talking-points) about "ratta" ,, need for vocational education, dismal situation of science etc. for too long. If he has (or have expertise) for some positive criticism and suggestions, he should have participated than playing for a political wizard or a child development and pedagogy expert - he is none.
 

Hussain1967

Chief Minister (5k+ posts)
I partially agree with what Pervez Hoodbhoy wrote. For example, his reasoning about difference in the standards of elite private schools, Govt schools, and madrasahs is correct. The difference in standards has more to do with teaching methodology and the way exam-papers are set.

However, I don’t agree with his stance that students should not be taught Quraan in Colleges and Universities. In this regard, I demand that Quraan must be taught with Urdu translation or translation in regional languages.
 

Sonya Khan

Minister (2k+ posts)
Slowly they will all come out crawling against this equal education initiative giving one excuse or another .... Libtards wanna keep themselves relevant and superior from masses at the same time .....
 

Truthstands

Minister (2k+ posts)
He is atheist extremest terrorist.
They're national security threat planted by anti islam and Pakistan agents.