ستتر سال ۔۔۔ پاکستان ۔۔۔ ایک خواب ۔۔۔ ایک لگن ۔۔۔ غلامی کی زنجیریں توڑ کر ہمیشہ کیلیے آزاد ہو جانے کی لگن ۔۔۔ دنیا کے نقشے کو تبدیل کرنے کی آرزو ۔۔۔ اور پھر قربانیوں کا ایک طویل سلسلہ ۔۔ قربانیاں ۔۔ ماوں ، بہنوں ، بیٹیوں کی ،،، قربانیاں سہاگ کی ،، قربانیاں عزتوں کی ،، قربانیاں مال و دولت کی ۔۔۔ پھر کہیں جا کہ وجود میں آئی یہ ریاست ۔۔۔ "ریاست پاکستان"۔۔۔ ستتر سال پہلے کاغذات میں موجود "پاکستان" آج ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے ۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے کسی ایک طبقہ فکر نے بھی آزادی کے حقیقی مطلب کو صحیح معنوں میں کبھی سمجھا ہے ؟ کسی نے کبھی کوشش کی کہ خود کو ، اپنے اندر کو ،، اپنی ذات میں قید پرندے کو ،،اپنی سوچ کو اپنے افکار کو آزاد کرے ؟؟اور دنیا کو ثابت کرے کہ ہم نے آزاد ہونے کا حق ادا کیا ہے ۔۔ ہم نے ان لاکھوں قربانیوں کا قرض اتارا ہے جو اس سرزمین کیلیے دی گیئں۔۔۔اور بغیر کسی جھجھک اور مغالطے کے اس سوال کا جواب کم از کم میرے نزدیک ہے "ہر گز نہیں"۔۔۔۔
آزادی ہوتی کیا ہے ؟؟ آزادی وہ ہوتی ہے جو سانحہ نیوزی لینڈ کے بعد ہمیں دیکھنے کو ملی ۔۔۔۔ سر پر حجاب اوڑھنے سے پارلیمنٹ میں تلاوت قرآن پاک تک اور ٹیلی ویزن سے براہ راست آذان نشر کرنے سے وزیراعظم جسینڈا کے مسلم کمیونٹی سے آج نماز جمعہ پر اظہار یکجحتی تک قدم قدم پر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ آزاد قومیں ،، خدشات سے آزاد ، خوف سے آزاد کیسی ہوتی ہیں ۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جنکے افکار آزاد ہیں جنکے پیروں میں طرح طرح کے خدشات کی بیڑیاں نہیں ہیں ۔۔۔ اقلیتیوں کا تحفظ اور انکی پہچان تسلیم کرنے سے جنکا مذہب خطرے میں نہیں پڑ جاتا ،، جنکو اس بات کا تعصب جانور نہیں بنا ڈالتا کہ وہی اللہ کی محبوب قوم ہیں اور انکے سوا کسی اور کو دنیا میں عزت سے رہنے کا حق نہیں۔۔۔
اور اب ذرا چودہ سو سال پیچھے جائیے اور سوچیے جس ریاست مدینہ کا علم اٹھائے پاکستان وجود میں آیا تھا وہ ریاست کیسی تھی ؟۔۔۔۔۔ عمر فاروق رض کو گرجے میں نماز پڑھنے کی دعوت دی جاتی ہے وہ منع کرتے ہیں ،، عیسائی سمجھتے ہیں کہ وہ انکی عبادت گاہ کو ناپاک سمجھ رہے ہیں ،،عمر فاروق رض تصحیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں انکو خدشہ ہے کہ اگر انھوں نے یہاں نماز ادا کی تو کل کو مسلمان اس عبادت گاہ کو عقیدت میں مسجد میں تبدیل نہ کر دیں ۔۔۔یہ ایک واقعہ نہیں صرف تاریخ کے اوراق پلٹیں آپکو ایسے بیسیوں واقعات مل جائیں گے جہاں ریاست مدینہ میں اقلیتیوں کی برابر تکریم اور انکے احساسات اور جذبات کی قدر نظر آئے گی ۔۔
اور اس ملک پاکستان کے بنانے کے پیچھے بھی یہی نظریہ سرگرم تھا کہ "ہم آزاد ہوں گے " ، سب کو آزادی ہو گی ،،،قائد اعظم محمد علی جناح نے جا بجا اپنے خطابات میں اس موضوع پر گفتگو فرمائی کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب اور لسانیات کے افراد اب صرف اور صرف پاکستانی ہیں ۔۔۔کیونکہ یہ وہ قوم تھی جو تیسرے درجے کے شہری ہونے کا درد جانتی تھی تو کسی اور کو اس تکلیف میں مبتلا کیسے دیکھ سکتی تھی ۔۔۔
مگر ستتر سال سے صورتحال بلکل مختلف ہے ۔۔۔ہم تو غلام ہیں ۔۔۔خدشات کےغلام ،، وسوسوں کے غلام ،، خوف کے غلام ،،، منٹ منٹ پر ہمارے ایمان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ،، کوئی اقلیتی فرد کسی اہم پوزیشن پر لگ جائے تو ہم کفر کے فتوے لگا کہ اسکو نظام سے باہر پھینک دیتے ہیں ، کسی اقلیت پر کوئی بھی مسلمان جھوٹا الزام لگا دے ہم ملعون اور گستاخ کہہ کہ اسکی جان کہ درپے ہو جاتے ہیں ۔۔۔اور تو اور آج تک ہم نے اپنے ملک کی سب سے نمایاں اقلیت کیلیے باقاعدہ "چوڑا" لفظ مختص کیا ہے ۔۔ہم آزاد نہیں ہیں اور نہ ہی آزاد کہلانے کے کسی طور لائق ہیں ۔۔ہم آزاد اس روز ہوں گے جس روز "ریاست مدینہ" اور بانی پاکستان کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے اس ملک کے ہر شہری کو وہی تحفظ وہی تکریم اور وہی مواقع دیں گے جو "نیوزی لینڈ" میں مسلمانوں کو حاصل ہیں تب تک کیلیے ہر سال ہمیں تئیس مارچ کو اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں آزادی کی نعمت عطا کرے ۔۔۔
آزادی ہوتی کیا ہے ؟؟ آزادی وہ ہوتی ہے جو سانحہ نیوزی لینڈ کے بعد ہمیں دیکھنے کو ملی ۔۔۔۔ سر پر حجاب اوڑھنے سے پارلیمنٹ میں تلاوت قرآن پاک تک اور ٹیلی ویزن سے براہ راست آذان نشر کرنے سے وزیراعظم جسینڈا کے مسلم کمیونٹی سے آج نماز جمعہ پر اظہار یکجحتی تک قدم قدم پر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ آزاد قومیں ،، خدشات سے آزاد ، خوف سے آزاد کیسی ہوتی ہیں ۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جنکے افکار آزاد ہیں جنکے پیروں میں طرح طرح کے خدشات کی بیڑیاں نہیں ہیں ۔۔۔ اقلیتیوں کا تحفظ اور انکی پہچان تسلیم کرنے سے جنکا مذہب خطرے میں نہیں پڑ جاتا ،، جنکو اس بات کا تعصب جانور نہیں بنا ڈالتا کہ وہی اللہ کی محبوب قوم ہیں اور انکے سوا کسی اور کو دنیا میں عزت سے رہنے کا حق نہیں۔۔۔
اور اب ذرا چودہ سو سال پیچھے جائیے اور سوچیے جس ریاست مدینہ کا علم اٹھائے پاکستان وجود میں آیا تھا وہ ریاست کیسی تھی ؟۔۔۔۔۔ عمر فاروق رض کو گرجے میں نماز پڑھنے کی دعوت دی جاتی ہے وہ منع کرتے ہیں ،، عیسائی سمجھتے ہیں کہ وہ انکی عبادت گاہ کو ناپاک سمجھ رہے ہیں ،،عمر فاروق رض تصحیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں انکو خدشہ ہے کہ اگر انھوں نے یہاں نماز ادا کی تو کل کو مسلمان اس عبادت گاہ کو عقیدت میں مسجد میں تبدیل نہ کر دیں ۔۔۔یہ ایک واقعہ نہیں صرف تاریخ کے اوراق پلٹیں آپکو ایسے بیسیوں واقعات مل جائیں گے جہاں ریاست مدینہ میں اقلیتیوں کی برابر تکریم اور انکے احساسات اور جذبات کی قدر نظر آئے گی ۔۔
اور اس ملک پاکستان کے بنانے کے پیچھے بھی یہی نظریہ سرگرم تھا کہ "ہم آزاد ہوں گے " ، سب کو آزادی ہو گی ،،،قائد اعظم محمد علی جناح نے جا بجا اپنے خطابات میں اس موضوع پر گفتگو فرمائی کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب اور لسانیات کے افراد اب صرف اور صرف پاکستانی ہیں ۔۔۔کیونکہ یہ وہ قوم تھی جو تیسرے درجے کے شہری ہونے کا درد جانتی تھی تو کسی اور کو اس تکلیف میں مبتلا کیسے دیکھ سکتی تھی ۔۔۔
مگر ستتر سال سے صورتحال بلکل مختلف ہے ۔۔۔ہم تو غلام ہیں ۔۔۔خدشات کےغلام ،، وسوسوں کے غلام ،، خوف کے غلام ،،، منٹ منٹ پر ہمارے ایمان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ،، کوئی اقلیتی فرد کسی اہم پوزیشن پر لگ جائے تو ہم کفر کے فتوے لگا کہ اسکو نظام سے باہر پھینک دیتے ہیں ، کسی اقلیت پر کوئی بھی مسلمان جھوٹا الزام لگا دے ہم ملعون اور گستاخ کہہ کہ اسکی جان کہ درپے ہو جاتے ہیں ۔۔۔اور تو اور آج تک ہم نے اپنے ملک کی سب سے نمایاں اقلیت کیلیے باقاعدہ "چوڑا" لفظ مختص کیا ہے ۔۔ہم آزاد نہیں ہیں اور نہ ہی آزاد کہلانے کے کسی طور لائق ہیں ۔۔ہم آزاد اس روز ہوں گے جس روز "ریاست مدینہ" اور بانی پاکستان کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے اس ملک کے ہر شہری کو وہی تحفظ وہی تکریم اور وہی مواقع دیں گے جو "نیوزی لینڈ" میں مسلمانوں کو حاصل ہیں تب تک کیلیے ہر سال ہمیں تئیس مارچ کو اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں آزادی کی نعمت عطا کرے ۔۔۔