الله کی لعنت ہو تجھ پر اگر تجھ کو شیعہ کے معانی معلوم کرنے ہیں تو ڈکشنری کو استمعال کر لعنتی شلحص رسول خدا سب انبیاء کے سردار ہیں وہ شیعہ کیسے ہو سکتے ہیں چاہے وہ ابراہیم ہو آدم ہو یا نوح ہو سب کے سردار ہیں تیرا سوال ہی غلط ہے
کیا ابراہیم نے خود کو نوح کا شیعہ نہیں کہا ؟ شیعہ کے معانی ہیں گروہ پیروکار وہ غلط بھی ہو سکتے ہیں اور صحیح بھی
خس رسول خدا کے زمانہ میں شیعہ موجود تھے جو خود کو شعیان علی کہلواتے تھے اسی طرح معاویہ کے اور عثمان کے فالوے بھی خود کو ان کا شیعہ کہلواتے تھے پہلے ہوم ورک کر کے آؤ پھر گفتگو کرو اس کو پڑھو
لغت میں شیعہ کسے کہتے ہیں؟
حضرت ابراہیم کے بارے میں اعلان ہوتا ہے:{ وَإِنَّ مِنْ شِیعَتِہِ لَإِبْرَاهیمَ} ،نوح کے شیعوں میں سے ایک ابراہیم تھے۔(۱۰) مراد یہ ہے کہ توحید،عدل اور حق کی پیروی کے سلسلہ میں حضرت ابراہیم کی وہی راہ و روش تھی جو راہ و ہیروش حضرت نوح کی تھی ۔(۱۱)اس آیت سے یہ مراد نہیں ہے کہ ایک دوسرے کی پیروی کرتے تھے کہ ایک امام و رہبر اور دوسرا ماموم و پیرو ہو بلکہ یہاں پر مراد راہ و روش اور دین میں اتحاد و ہم آہنگی ہے ۔
لفظ«شیعہ»
عربی لغت میں کسی فرد یا افراد کی دوسرے فرد یا افراد کے اتباع اور پیروی کرنے، کسی کی نصرت و حمایت کرنے، نیزقول یا فعل میں موافقت و مطابقت کے معنی میں ہے ۔ ذیل میں چند معروف لغات کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔
۱۔القاموس:«شیعة الرجل اتباعه و انصارہ،الفرقة علی حدۃ و یقع علی الواحد و الاثنین و الجمع و المذکر و المونث»(۱)،کسی شخص کے شیعہ اس کے پیرو اور مددگار ہوتے ہیں،ایک فرقہ پر بھی شیعہ کا اطلاق ہوتا ہے یہ لفظ واحد،تثینہ،جمع،مذکر،مونث سب کے لئے ایک ہی صور ت میں استعمال ہوتا ہے۔
۲۔لسان العرب:«الشیعة:القوم الذین یجتمعون علی الامر و کل قوم اجتمعوا علی امر فھم شیعة،و کل قوم امرھم واحد یتبع بعضھم رأي بعض فھم شیعة»۔ (۲)
شیعہ وہ گروہ ہے جو کسی امر پر مجتمع ہو،جو گروہ کسی امر پر اجتماع کرے وہ شیعہ ہے،ہر وہ گروہ جو ایک امر پر متفق ہو اور ان میں سے بعض،بعض کی پیروی کرے وہ شیعہ ہے۔
۳۔معجم المقائیس:«الشین و الیاء و العین اصلان یدل احدھما علی المعاضدۃ و مساعفة و الی آخر علی بث و اشادۃ و الشیعة الانصار و الاعوان»(۳)،ش، ی، ع، اس لفظ کی لغت میں دو اصل بیان ہوئی ہیں، ایک اصل نصرت و امداد پر دلالت کرتی ہے اور دوسری نشر و پراکندہ ہونے پر،اور یہاں پر پہلی اصل مراد ہے،شیعہ یعنی مددگار ، اعوان و انصار۔
۴۔المصباح المنیر:«الشیعة:الاتباع و الانصار،و کل قوم اجتمعوا علی امر فھم شیعة» (۴)شیعہ پیرو اور انصار کو کہا جاتا ہے جو گروہ بھی کسی بات پر اتفاق کرے وہ شیعہ ہے۔
۵۔اقرب الموارد:«شیعة الرجل اتباعہ و انصارہ،شیع و اشیاع»(۵)،کسی شخص کے شیعہ اس کے پیرو اور مددگار ہیں،شیعہ کی جمع شِیَعْ اور اشیاع ہے۔(۶)
۶۔النہایة:«اصلھا من المشایعة و ھی المتابعة و المطاوعة»(۷)،شیعہ کی اصل مشایعت ہے یعنی دوسرے کی پیروی کرنا۔
مذکورہ عبارتوں میں غور کرنے سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ لغت کے اعتبار سے لفظ شیعہ کے تین معنی ہیں اور ان تین معانی میں سے کوئی ایک معنی ضرور مراد ہیں، ۱۔ اطاعت و پیروی، ۲۔ نصرت و مدد، ۳۔ اجتماع و موافقت۔
قرآن کریم میں لفظ شیعہ یا اس کے مشتقات (شیع ، اشیاع)اپنے لغوی معنی میں ہی استعمال ہوئے ہیں یعنی ایسا گروہ جو ایک بات پر متفق ہو،کسی خاص مذہب و مکتب کی پیروی کرنا، بعض کا بعض کی پیروی کرنا، جیسے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص کو جو قبطی سے جھگڑ اکررہا تھا قرآن نے اسے موسیٰ کا شیعہ کہا ہے:{فَوَجَدَ فِیھَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلاَنِ هَذَا مِنْ شِیعَتِه}،انھوں نے دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھا ایک ان کے شیعوں میں سے تھا اور ایک دشمنوں میں سے۔(۸)
مراد یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ایک بنی اسرائیل اور دوسرا قبطی تھا اس لئے کہ بنی اسرائیل خود کو ابراہیم، یعقوب اور اسحاق کا پیرو سمجھتے تھے اگرچہ ان انبیاء کرام(ع) کی شریعت میں تبدیلیاں آچکی تھیں لیکن ان انبیاء کا پیرو ہونے کی بنیاد پر بنی اسرائیل کے شخص کو موسیٰ کا شیعہ کہا گیا یعنی اس دین و شریعت کا پیرو جس دین پر حضرت موسیٰ تھے ۔(۹)
اسی طرح حضرت ابراہیم کے بارے میں اعلان ہوتا ہے:{ وَإِنَّ مِنْ شِیعَتِہِ لَإِبْرَاهیمَ} ،نوح کے شیعوں میں سے ایک ابراہیم تھے۔(۱۰)
مراد یہ ہے کہ توحید،عدل اور حق کی پیروی کے سلسلہ میں حضرت ابراہیم کی وہی راہ و روش تھی جو راہ و ہیروش حضرت نوح کی تھی ۔(۱۱)اس آیت سے یہ مراد نہیں ہے کہ ایک دوسرے کی پیروی کرتے تھے کہ ایک امام و رہبر اور دوسرا ماموم و پیرو ہو بلکہ یہاں پر مراد راہ و روش اور دین میں اتحاد و ہم آہنگی ہے اسی لئے اس میں زمانہ کے تقدم و تاخر کا کوئی دخل نہیں ہے ۔(۱۲)چنانچہ قرآن مجید کبھی سابقین کو متاخرین کا شیعہ کہتا ہے:{وَحِیلَ بَیْنَهمْ وَبَیْنَ مَا یَشْتَهونَ کَمَا فُعِلَ بِأَشْیَاعِهمْ مِنْ قَبْل}،اور ان کے اور ان چیزوں کے درمیان جن کی یہ خود خواہشیں رکھتے تھے پردے حائل کر دئے گئے ہیں جس طرح ان کے پہلے والوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔(۱۳) اس آیہ کریمہ میں گذشتہ امتوں کے کفار کو عہد رسالت کے کفار کا شیعہ کہا گیا ہے مقصود یہ ہے کہ دونوں کفر و الحاد میں متحد و متفق اور ایک دوسرے کے مانند ہیں۔
حوالہ جات:
(۱)القاموس المحیط ج۳، ص۴۷،کلمہ «شَاعَ»۔
(۲)لسان العرب ج۱، ص۵۵، کلمہ«شَیَعَ»۔
(۳) معجم المقائیس اللغۃ ص ۵۴۵، کلمہ«شَیَعَ»۔
(۴)المصباح المنیر ج۱، ص۳۹۸۔
(۵)اقرب الموارد ج، ۱، ص۶۲۶ ۔
(۶)المصباح المنیر میں فیومی کا قول ہے اشیاع،شیع کی جمع ہے اس طرح اشیاع جمع الجمع ہے۔
(۷)ابن الاثیر، النہایة، ج۲، ص۵۱۹۔
(۸) سورہ قصص:آیت ۱۵۔
(۹)المیزان،ج۱۷،ص۱۶۔
(۱۰)سورہ صافات:آیت ۸۳۔
(۱۱)«یعنی انہ علی منہاج و سنۃ فی التوحید و العدل و اتباع الحق»، مجمع البیان ج۴، ص۴۴۹۔
(۱۲)«کل من وافق غیرہ فی طریقتہ فھو من شیعتہ تقدم او تاخر»،المیزان ج۱۷، ص۱۴۷۔
(۱۳)سورہ سبا:آیت ۵۴۔
Ager shia sacha mazhab hey aur islam aur shiat mein koi farq nahe hey to hazoor muhammad ney apney aap ko shia q nahe kaha? Hazoor k zamaney mein koi shia nahe the again quran sey sabit kero.
Ager hazrat ali ra ney shia ko pasand kia to khud shia q nahe kehelaye apney aap ko? Aur ager kehelaye to quran sey sabit karo.
Aur shia k meaning quran mein groho k use hue hein itni bari copy paste ker k aap ney meri bato ko ho confirm ker dya quran mein shia un logo ko bhi kaha gya hey jo nabio jhutlatey the aap bhi wahe shia ho?