ہمارے پسندیدہ وزیر اعظم : سلیم صافی

naveed

Chief Minister (5k+ posts)
پاکستانی معیارات پر انیل مسرت سے زیادہ توجہ طلب آدمی کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔وہ برطانیہ کے پانچ سو امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی تصاویر پاکستانیوں کے ساتھ کم اور ہندوستانیوں کے ساتھ زیادہ ہیں اور نہ جانے کیوں جب بھی ان کی تصویر دیکھتا ہوں تو مجھے منصور اعجاز یادآجاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان پر جن لوگوں نے ماضی میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی ہے، ان میں یہ صاحب سرفہرست ہیں ۔ وہ برطانیہ میں گھر بنانے کا کاروبار کرتے ہیں

Saleem-Safi2-Columnist.png


اور بنیادی طور پر ہزاروں گھر بنانے کا منصوبہ ان کے مشورے پر ہی شروع کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نامزد ہونے کے بعد عمران خان صاحب کے ساتھ یہی انیل مسرت تھے جو سرکاری میٹنگوں تک میں بٹھائے گئے ۔سوچتا ہوں انیل مسرت جیسا شخص آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف کے چہیتے ہوتے اور وہ اس برطانوی شہری کو اسی طرح سرکاری میٹنگوں میں شریک کرواتے تو نہ جانے اب تک پاکستان میں کیا قیامت برپا ہوچکی ہوتی ۔اب تک غداری کے کتنے فتوے لگ چکے ہوتے اور فرمائشی ٹاک شوز میں محب وطن اینکرز اور تجزیہ نگار ان دونوں کو غدار ثابت کرنے کے لئے اب تک کیا کچھ کر چکے ہوتے لیکن عمران خان کے بارے میں ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے اور نہ ہوگا ۔ ظاہر ہے ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں ۔

زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ سے نکالنا تھا تو خود عمران خان، ایک ٹی وی ٹاک شو میں فرمانے لگے کہ وہ برطانیہ کے شہری ہیں اور وہیں کاروبار کرتے ہیں ، ان سے پاکستان کا یا پاکستان کے نیب کا کیا لینا دینا ۔لیکن پھرچشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ خاتون اول کو وزیراعظم کی حلف برداری میں بنی گالہ سے وزیراعظم ہائوس لانے کی ذمہ داری اس برطانوی شہری(بقول وزیراعظم) کو تفویض کی گئی ۔اور تو اور اب اس زلفی بخاری کو وزیرمملکت بنا دیا گیا اور بیرون ملک پاکستانیوں کے امور یہ برطانوی شہری نمٹائیں گے جنہیں برطانیہ میں عمران خان نیازی کی مہمان نوازی کے سوا نہ سیاست کا کوئی تجربہ ہے اورنہ سفارت کا ۔


حیران ہوں اس غلطی کا ارتکاب آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف کرچکے ہوتے اور نیب کو مطلوب اس برطانوی شہری کو وزیرمملکت بنانے کی غلطی ان سے سرزد ہوچکی ہوتی تو کب سے ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھ چکے ہوتے اور نہ جانے عدالتوں کو کتنے جواب دینے پڑتے لیکن عمران خان کی حب الوطنی پر کوئی حرف آیا ہے اور نہ آئے گا۔ ظاہر ہے ایسے ویسے نہیں بلکہ ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں ۔

چین کے ساتھ پاکستان کا تعلق صرف تزویراتی اور اقتصادی نہیں بلکہ قومی سلامتی کے محافظین نے اس کو ایک تقدس بھی عطا کردیا ہے ۔ پاکستان میں چین کے ساتھ تعلقات یا لین دین کا تنقیدی جائزہ بھی اس خوف سے نہیں لیاجاسکتا کہ کہیں حب الوطنی مشکوک نہ ہوجائے ۔ سی پیک کے بعد تو چین کے دشمن پاکستان کے بھی دشمن بن گئے ہیں ، اس لئے چین کے حوالے سے کسی بھی طرح کا تنازع کھڑا کرنا قومی مفاد کے خلاف سنگین قدم تصور کیا جاتا ہے ۔ سی پیک کے سودوں اور منصوبوں کے حوالے سے اے این پی اور بی این پی تو کیا پی پی پی کو بھی شدید تحفظات تھے لیکن ہر کوئی اس خوف سے ایک خاص حد سے آگے نہ جا سکا کہ کہیں ملکی مفاد کے منافی کام کرنے کا الزام نہ لگ جائے ۔ تاہم عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہی چینیوں کی درخواستوں کے باوجو د وفاقی کابینہ کی سطح پر سی پیک کے منصوبوں کو ری اوپن کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیا بلکہ اس فیصلے کی میڈیا میں بھی تشہیر کی گئی ۔


چینی وزیرخارجہ اس معاملے پر اپنی تشویش سے آگاہ کرنے کے لئے پاکستان آئے تو خلاف روایت ان کا استقبال ائیرپورٹ پر وزارت خارجہ کے پروٹوکول آفیسر سے کروایا گیا حالانکہ انہی دنوں میں جب سعودی وزیر اطلاعات پاکستان آرہے تھے تو وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کیا اور پھر وہیں سے ان کو رخصت کیا ۔ ابھی چینی وزیرخارجہ اپنے ملک واپس نہیں پہنچے تھے کہ عمران کابینہ کے ایک اہم رکن عبدالرزاق دائود نے مغربی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے سی پیک پر ایک سال تک کام رکوانے کا شوشہ چھوڑ دیا ۔ چنانچہ چینیوں کی تشویش اور بے چینی اس قدر بڑھ گئی کہ اس کو دور کرنے کے لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو خود چین کا دورہ کرنا پڑا جہاں ان کو چینی صدر نے بھی اپنا مہمان بنایا ۔حالانکہ عمران خان کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ہمارے سفارتخانے نے پوری کوشش کی تھی

کہ چینی صدر ان کو مبارکباد کا فون کرے لیکن ان کی بجائے صرف چینی وزیراعظم کے فون پر اکتفا کیا گیا۔ گویا اب چینیوں کا سارا تکیہ صرف اور صرف پاکستانی فوج پر ہے ۔چینی دوستوں اور سی پیک کے ساتھ یہ واردات اگر آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف کرچکے ہوتے تو نہ جانے کب سے امریکی ایجنٹ ڈکلیئر ہوچکے ہوتے اور شاید ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کا بھی آغاز ہوچکا ہوتا لیکن عمران خان پاک چین تعلقات اور سی پیک کے ساتھ اس سے بھی بڑا کھلواڑ کردیں، انہیں کوئی امریکی ایجنٹ نہیں کہے گا ۔ ظاہر ہے وہ ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں ۔

ان کی ٹیم کے ایک اہم رکن انتخابی مہم کے دوران امریکہ کے خفیہ دورے پر گئے اور امریکی حکام سے ملاقاتیں کرکے تسلیاں دیں کہ ان کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا لیکن اس کا برا منایا گیا اور نہ چین کے ساتھ حالیہ سلوک کو امریکہ کے ساتھ کسی خفیہ گٹھ جوڑ سے جوڑ ا جائے گا ۔ ظاہر ہے وہ آصف علی زرداری ہیں اور نہ میاں نوازشریف بلکہ وہ لاڈلے وزیراعظم ہیںاور پاکستان میں لاڈلوں کو بہت کچھ کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔

آصف علی زرداری پر بیرون ملک اثاثے رکھنے کا الزام ہے ۔ میاں نوازشریف کے صاحبزادے برطانیہ اور سعودی عرب میں کاروبار کررہے ہیں ۔ ان دونوں پر اس حوالے سے تنقید بالکل جائز تھی اور وہ اگر پاکستان میں سیاست کرتے ہیں تو دونوں سے یہ مطالبہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے سرمایے اور اولاد کو پاکستان منتقل کردیں ۔ اب ہمارے نئے وزیراعظم کی اولاد جناب گولڈ اسمتھ کے گھر میں مقیم ہے ۔ پہلے تو وہ چھوٹے تھے لیکن اب تو جوان ہوگئے ہیں اور ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کا مستقبل برطانیہ سے وابستہ ہے یا پھر پاکستان آکر اپنے والد کے سیاسی جانشین بنیں گے ۔


کل اگر کسی معاملے پر پاکستان اور برطانیہ کے مفادات باہم متصادم ہوں تو وہ وزیراعظم کیوں کر برطانیہ کے خلاف جاسکیں گے، جن کے بچے وہاں کے بااثر ترین خاندان کے افراد ہوں ۔ اس خاندان کے ساتھ یہ رشتہ کس قدر مضبوط ہے اس کا مظاہرہ ہم لندن کے مئیر کے انتخاب کے موقع پر دیکھ چکے ہیں جب ہمارے موجودہ وزیراعظم نے وہاں پاکستانی محمد صادق کے مقابلے میں زیک گولڈ اسمتھ کے لئے انتخابی مہم چلائی ۔

ذرا سوچئے اگر آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف ، پاکستانی نژاد محمد صادق کے مقابلے میں زیک گولڈ اسمتھ کے لئے انتخابی مہم چلاچکے ہوتے یا پھر اگر ان دونوں کی اولاد وہاں پر ایک عیسائی گھرمیں مقیم ہوتی تو کب کا ہم انہیں ایجنٹ قرار دے چکے ہوتے لیکن عمران خان پر اس حوالے سے کوئی تنقید نہیں ہو رہی۔ ظاہر ہے پہلے ہمارے پسندیدہ لیڈر تھے اور اب پسندیدہ وزیراعظم ہیں ۔

بے نظیر بھٹو کی ہندوستان میں دوستیاں تھیں اور نہ اس سے ان کو کوئی ہمدردی تھی ۔ وہ جو کچھ کررہی تھیں پاکستان کے مفاد میں کررہی تھیں لیکن ہم نے انہیں ہندوستانی ایجنٹ مشہور کروا دیا۔ سارک کانفرنس کے موقع پر صرف کشمیر ہائوس کے بورڈ کو ہٹائے جانے کا اتنا بڑا قضیہ بنادیا گیا کہ میاں نوازشریف بھی ان کو ہندوستانی ایجنٹ کے طعنے دینے لگے ۔ اسی طرح میاں نوازشریف کے لئے نواسی کی شادی میں نریندرا مودی کی آمد مصیبت بن گئی اور وہ مودی کے یار مشہور کردئیے گئے ۔


عمران خان نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں کسی دوسرے اسلامی یا دوست ملک سے کسی کو مدعو نہیں کیا سوائے انڈین دوستوں کے ۔ اب بغیر کوئی رعایت حاصل کئے مودی کو مذاکرات کی دعوت دے دی اور خود ہی یواین جنرل اسمبلی کے موقع پر ہندوستانی وزیرخارجہ اور پاکستانی وزیر خارجہ کی ملاقات کی تجویز دے دی ۔ لیکن وہ پھر بھی غازی ، بہادر اور ہندوستان مخالف سمجھے جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے وہ ایسے ویسے نہیں بلکہ ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں ۔

دیکھتے ہیں ہمارے پسندیدہ ، کب تک ہمارے پسندیدہ رہتے ہیں ۔ ظاہر ہے ان کو ممکنہ حد تک ڈھیل دی جائے گی کیونکہ ان کی ناکامی صرف ان کی نہیں بلکہ ان کو لانے والوں کی بھی ناکامی سمجھی جائے گی ۔ ہماری تو دعا ہے کہ وہ پانچ سال تک پسندیدہ ہی رہیں اور کبھی بے نظیر بھٹو یا میاں نوازشریف نہ بنیں ۔اناڑی اور نام کے سہی لیکن بہرحال وزیراعظم تو ہیں ۔

https://jang.com.pk/news/555184
 

Aliimran1

Chief Minister (5k+ posts)
Abhi kuch hi minutes pehlay dick shit whore Reham ki post par tabsira likh kar farigh hi hoa tha kah is Mfuker ka moronic colum samanay aa gaya --- Ab koi iss beyghairat bikao bharway Jis ki shakal pay hi likha hoa hai ----- Bhai thuknay ki jaga yahan hai ---- wahan koi Kya likhay?
Lihaza ---- I will pass on
 

nomy823

MPA (400+ posts)
۔ اس طرح کے لفافہ صحافیوں کے کالموں سے عمران خان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ معاملات پر پی ٹی آئی حکومت کی گرفت بہت کمزور نظر آرہی ہے۔
گھی اور چینی مہنگے ہو چکے ہیں۔ آٹا بھی مہنگا ہو گیا ہے۔ اب گیس اور بجلی بھی مہنگی ملے گی۔ حکومت کا قیمتوں پہ کوئی کنٹرول نظر نہیں آتا۔ غریب عوام کے لئے سستے مکانات کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن صورت حال یہ ہے کہ اینٹوں کی قیمت 1000 روپےفی ہزار اور سیمنٹ فی بوری 100 روپے تک مہنگی ہو چکی ہے۔ اس کا مطلب یے کہ تعمیراتی لاگت لاکھوں کے حساب سے بڑھ جائے گی۔ اینٹوں کے بھٹے دو ماہ کے کئے آلودگی کے نام پر بند کیے جا رہے ہیں اس سے تعمیراتی کام کتنے متاثر ہوں گے اس بارے میں کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ یہ وہ تبدیلی بالکل نہیں ہے جس کا ہم نے خواب دیکھا
 

nomy823

MPA (400+ posts)
گیس کی قیمتیں بظاہر صرف امیروں کے کئے بڑھائی گئی ہیں لیکن اس سے سب سے زیادہ مڈل کلاس متاثر ہو گی۔ سیمنٹ فیکٹریوں کو اگر مہنگی گیس ملے گی تو کیا سیمنٹ مہنگی نہیں ہو گی ؟ کھاد فیکٹریاں مہنگی گیس خرید کر کھاد مہنگی نہیں کریں گی۔ مہنگائی کی اس نئی لہر سے جو عوامی ردعمل آئے گا وہ پی ٹی آئی کی حکومت کو بہاکر نہ لے جائے۔
 

MainBaghiHon

Minister (2k+ posts)
پاکستانی معیارات پر انیل مسرت سے زیادہ توجہ طلب آدمی کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔وہ برطانیہ کے پانچ سو امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی تصاویر پاکستانیوں کے ساتھ کم اور ہندوستانیوں کے ساتھ زیادہ ہیں اور نہ جانے کیوں جب بھی ان کی تصویر دیکھتا ہوں تو مجھے منصور اعجاز یادآجاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان پر جن لوگوں نے ماضی میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی ہے، ان میں یہ صاحب سرفہرست ہیں ۔ وہ برطانیہ میں گھر بنانے کا کاروبار کرتے ہیں

Saleem-Safi2-Columnist.png


اور بنیادی طور پر ہزاروں گھر بنانے کا منصوبہ ان کے مشورے پر ہی شروع کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نامزد ہونے کے بعد عمران خان صاحب کے ساتھ یہی انیل مسرت تھے جو سرکاری میٹنگوں تک میں بٹھائے گئے ۔سوچتا ہوں انیل مسرت جیسا شخص آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف کے چہیتے ہوتے اور وہ اس برطانوی شہری کو اسی طرح سرکاری میٹنگوں میں شریک کرواتے تو نہ جانے اب تک پاکستان میں کیا قیامت برپا ہوچکی ہوتی ۔اب تک غداری کے کتنے فتوے لگ چکے ہوتے اور فرمائشی ٹاک شوز میں محب وطن اینکرز اور تجزیہ نگار ان دونوں کو غدار ثابت کرنے کے لئے اب تک کیا کچھ کر چکے ہوتے لیکن عمران خان کے بارے میں ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے اور نہ ہوگا ۔ ظاہر ہے ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں ۔

زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ سے نکالنا تھا تو خود عمران خان، ایک ٹی وی ٹاک شو میں فرمانے لگے کہ وہ برطانیہ کے شہری ہیں اور وہیں کاروبار کرتے ہیں ، ان سے پاکستان کا یا پاکستان کے نیب کا کیا لینا دینا ۔لیکن پھرچشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ خاتون اول کو وزیراعظم کی حلف برداری میں بنی گالہ سے وزیراعظم ہائوس لانے کی ذمہ داری اس برطانوی شہری(بقول وزیراعظم) کو تفویض کی گئی ۔اور تو اور اب اس زلفی بخاری کو وزیرمملکت بنا دیا گیا اور بیرون ملک پاکستانیوں کے امور یہ برطانوی شہری نمٹائیں گے جنہیں برطانیہ میں عمران خان نیازی کی مہمان نوازی کے سوا نہ سیاست کا کوئی تجربہ ہے اورنہ سفارت کا ۔

حیران ہوں اس غلطی کا ارتکاب آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف کرچکے ہوتے اور نیب کو مطلوب اس برطانوی شہری کو وزیرمملکت بنانے کی غلطی ان سے سرزد ہوچکی ہوتی تو کب سے ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھ چکے ہوتے اور نہ جانے عدالتوں کو کتنے جواب دینے پڑتے لیکن عمران خان کی حب الوطنی پر کوئی حرف آیا ہے اور نہ آئے گا۔ ظاہر ہے ایسے ویسے نہیں بلکہ ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں ۔

چین کے ساتھ پاکستان کا تعلق صرف تزویراتی اور اقتصادی نہیں بلکہ قومی سلامتی کے محافظین نے اس کو ایک تقدس بھی عطا کردیا ہے ۔ پاکستان میں چین کے ساتھ تعلقات یا لین دین کا تنقیدی جائزہ بھی اس خوف سے نہیں لیاجاسکتا کہ کہیں حب الوطنی مشکوک نہ ہوجائے ۔ سی پیک کے بعد تو چین کے دشمن پاکستان کے بھی دشمن بن گئے ہیں ، اس لئے چین کے حوالے سے کسی بھی طرح کا تنازع کھڑا کرنا قومی مفاد کے خلاف سنگین قدم تصور کیا جاتا ہے ۔ سی پیک کے سودوں اور منصوبوں کے حوالے سے اے این پی اور بی این پی تو کیا پی پی پی کو بھی شدید تحفظات تھے لیکن ہر کوئی اس خوف سے ایک خاص حد سے آگے نہ جا سکا کہ کہیں ملکی مفاد کے منافی کام کرنے کا الزام نہ لگ جائے ۔ تاہم عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہی چینیوں کی درخواستوں کے باوجو د وفاقی کابینہ کی سطح پر سی پیک کے منصوبوں کو ری اوپن کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیا بلکہ اس فیصلے کی میڈیا میں بھی تشہیر کی گئی ۔

چینی وزیرخارجہ اس معاملے پر اپنی تشویش سے آگاہ کرنے کے لئے پاکستان آئے تو خلاف روایت ان کا استقبال ائیرپورٹ پر وزارت خارجہ کے پروٹوکول آفیسر سے کروایا گیا حالانکہ انہی دنوں میں جب سعودی وزیر اطلاعات پاکستان آرہے تھے تو وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کیا اور پھر وہیں سے ان کو رخصت کیا ۔ ابھی چینی وزیرخارجہ اپنے ملک واپس نہیں پہنچے تھے کہ عمران کابینہ کے ایک اہم رکن عبدالرزاق دائود نے مغربی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے سی پیک پر ایک سال تک کام رکوانے کا شوشہ چھوڑ دیا ۔ چنانچہ چینیوں کی تشویش اور بے چینی اس قدر بڑھ گئی کہ اس کو دور کرنے کے لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو خود چین کا دورہ کرنا پڑا جہاں ان کو چینی صدر نے بھی اپنا مہمان بنایا ۔حالانکہ عمران خان کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ہمارے سفارتخانے نے پوری کوشش کی تھی

کہ چینی صدر ان کو مبارکباد کا فون کرے لیکن ان کی بجائے صرف چینی وزیراعظم کے فون پر اکتفا کیا گیا۔ گویا اب چینیوں کا سارا تکیہ صرف اور صرف پاکستانی فوج پر ہے ۔چینی دوستوں اور سی پیک کے ساتھ یہ واردات اگر آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف کرچکے ہوتے تو نہ جانے کب سے امریکی ایجنٹ ڈکلیئر ہوچکے ہوتے اور شاید ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کا بھی آغاز ہوچکا ہوتا لیکن عمران خان پاک چین تعلقات اور سی پیک کے ساتھ اس سے بھی بڑا کھلواڑ کردیں، انہیں کوئی امریکی ایجنٹ نہیں کہے گا ۔ ظاہر ہے وہ ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں ۔

ان کی ٹیم کے ایک اہم رکن انتخابی مہم کے دوران امریکہ کے خفیہ دورے پر گئے اور امریکی حکام سے ملاقاتیں کرکے تسلیاں دیں کہ ان کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا لیکن اس کا برا منایا گیا اور نہ چین کے ساتھ حالیہ سلوک کو امریکہ کے ساتھ کسی خفیہ گٹھ جوڑ سے جوڑ ا جائے گا ۔ ظاہر ہے وہ آصف علی زرداری ہیں اور نہ میاں نوازشریف بلکہ وہ لاڈلے وزیراعظم ہیںاور پاکستان میں لاڈلوں کو بہت کچھ کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔

آصف علی زرداری پر بیرون ملک اثاثے رکھنے کا الزام ہے ۔ میاں نوازشریف کے صاحبزادے برطانیہ اور سعودی عرب میں کاروبار کررہے ہیں ۔ ان دونوں پر اس حوالے سے تنقید بالکل جائز تھی اور وہ اگر پاکستان میں سیاست کرتے ہیں تو دونوں سے یہ مطالبہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے سرمایے اور اولاد کو پاکستان منتقل کردیں ۔ اب ہمارے نئے وزیراعظم کی اولاد جناب گولڈ اسمتھ کے گھر میں مقیم ہے ۔ پہلے تو وہ چھوٹے تھے لیکن اب تو جوان ہوگئے ہیں اور ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کا مستقبل برطانیہ سے وابستہ ہے یا پھر پاکستان آکر اپنے والد کے سیاسی جانشین بنیں گے ۔

کل اگر کسی معاملے پر پاکستان اور برطانیہ کے مفادات باہم متصادم ہوں تو وہ وزیراعظم کیوں کر برطانیہ کے خلاف جاسکیں گے، جن کے بچے وہاں کے بااثر ترین خاندان کے افراد ہوں ۔ اس خاندان کے ساتھ یہ رشتہ کس قدر مضبوط ہے اس کا مظاہرہ ہم لندن کے مئیر کے انتخاب کے موقع پر دیکھ چکے ہیں جب ہمارے موجودہ وزیراعظم نے وہاں پاکستانی محمد صادق کے مقابلے میں زیک گولڈ اسمتھ کے لئے انتخابی مہم چلائی ۔

ذرا سوچئے اگر آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف ، پاکستانی نژاد محمد صادق کے مقابلے میں زیک گولڈ اسمتھ کے لئے انتخابی مہم چلاچکے ہوتے یا پھر اگر ان دونوں کی اولاد وہاں پر ایک عیسائی گھرمیں مقیم ہوتی تو کب کا ہم انہیں ایجنٹ قرار دے چکے ہوتے لیکن عمران خان پر اس حوالے سے کوئی تنقید نہیں ہو رہی۔ ظاہر ہے پہلے ہمارے پسندیدہ لیڈر تھے اور اب پسندیدہ وزیراعظم ہیں ۔

بے نظیر بھٹو کی ہندوستان میں دوستیاں تھیں اور نہ اس سے ان کو کوئی ہمدردی تھی ۔ وہ جو کچھ کررہی تھیں پاکستان کے مفاد میں کررہی تھیں لیکن ہم نے انہیں ہندوستانی ایجنٹ مشہور کروا دیا۔ سارک کانفرنس کے موقع پر صرف کشمیر ہائوس کے بورڈ کو ہٹائے جانے کا اتنا بڑا قضیہ بنادیا گیا کہ میاں نوازشریف بھی ان کو ہندوستانی ایجنٹ کے طعنے دینے لگے ۔ اسی طرح میاں نوازشریف کے لئے نواسی کی شادی میں نریندرا مودی کی آمد مصیبت بن گئی اور وہ مودی کے یار مشہور کردئیے گئے ۔

عمران خان نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں کسی دوسرے اسلامی یا دوست ملک سے کسی کو مدعو نہیں کیا سوائے انڈین دوستوں کے ۔ اب بغیر کوئی رعایت حاصل کئے مودی کو مذاکرات کی دعوت دے دی اور خود ہی یواین جنرل اسمبلی کے موقع پر ہندوستانی وزیرخارجہ اور پاکستانی وزیر خارجہ کی ملاقات کی تجویز دے دی ۔ لیکن وہ پھر بھی غازی ، بہادر اور ہندوستان مخالف سمجھے جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے وہ ایسے ویسے نہیں بلکہ ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں ۔

دیکھتے ہیں ہمارے پسندیدہ ، کب تک ہمارے پسندیدہ رہتے ہیں ۔ ظاہر ہے ان کو ممکنہ حد تک ڈھیل دی جائے گی کیونکہ ان کی ناکامی صرف ان کی نہیں بلکہ ان کو لانے والوں کی بھی ناکامی سمجھی جائے گی ۔ ہماری تو دعا ہے کہ وہ پانچ سال تک پسندیدہ ہی رہیں اور کبھی بے نظیر بھٹو یا میاں نوازشریف نہ بنیں ۔اناڑی اور نام کے سہی لیکن بہرحال وزیراعظم تو ہیں ۔

https://jang.com.pk/news/555184
Thora Sa Perh Ker Andaza Hogaya, Yaha Yeh Baat Bawar Kerwa Don Keh Tamam Leaders Aur Imran Khan Kay Dermiyan Sirf Niyyat Ka Farq Hai Aap Kis Banday Ko Kis Maqsad Kayliyay Istamal Kertay Hain,
Aint (Brick) Chahay Toilet Main Lagay Ya Masjid Main Banti Wohi Mitti Aur Gaaray Say Hai.
 

ranaji

President (40k+ posts)
Afghanistan ke bazar hussn ki istmaal shudda ghaleez saafi twaif zada ...mi lafafi apni ...ke saath yahan burra bhalla kion krwaa raha hai yeh ...mi nasal kaa double gay apni ...ke burra bhalla wohin afghanistan ke shahi mai jaa krr kraiey jahan ki yeh najaiz paida waar hai iss ...mi nasal kaa feed Back RAW aur Afghanistan say hota hai aur isss ...mi ghaleez Twaifi ko paisa bhi wahain say milta hai aur yeh Ghaleez Pakistabn aur Army aur Adlia prr Bhonknay wala kabhi Afghanistan yaa India prr nahi bhonka kyonkeh iss ...mi ghaleez Lafafi ko paisa wahin say milta hai waisay Bhi yeh Karzai kaa londa aur LGBT kaa She male Member hai aur Fazloo ki trah double side bhi hai laaant iss khanzeer aur
 

shafali

Chief Minister (5k+ posts)
Safi's article is full of venom against Imran Khan and for what reason? Because he wants to justify his lifafa from Nawaz Sharif. Just when you think Safi can't go any lower, he manages to find a way of sinking deeper.
 

Anuuge67

Chief Minister (5k+ posts)
Excessive nuswaar usage by little envious homo man.. He is not ur PM.. LEFAFA MAGGOT.

Did Malik Riaz sodomized YOU lately?
 

Samlee

Senator (1k+ posts)
Is Ka Column Na Koi Partha Hai Na Is Ka Koi Show Dekhta Hai Pata Nahi Kya Samajhta Hai Apne Aap KO
 

shahidsattar

Politcal Worker (100+ posts)
لگتا ہے اس کے ساتھ بچپن میں کوئی غلط کاری ہوئی ہے اور اس کا الزام عمران نامی کسی شخص پر لگا تھا یہ اس کو عمران خان سمجھتا ہے۔اب بھی کبھی کبھی اس کو وہ تکلیف یاد آتی ہے تو یہ عمران خان کے خلاف بھونکنا شروع ھو جاتا ھے
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
چین سے متعلق جو کچھ بھی اس نے لکھا ہے وہ سو فیصد جھوٹ ہے۔ اور جلد ہی حقیقت سامنے آجائے گی۔

جب ملتان میٹرو کا سکینڈل سامنے آیا تو چین نے خود پاکستانی حکومت کو اس کے بارے میں ایکشن لینے کو کہا لیکن پاکستان نے یہ معاملہ دبا دیا تھا۔ اب اگر عمران ان معاملات کو کھولنا چاہتا ہے تو اس میں چین کی مکمل مرضی شامل ہوگی۔ ہاں چونکہ اس میں نواز برادرز کی کرپشن سامنے آئے گی اس لیے لفافی کو تکلیف ہے۔
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ میں لکھتے ہیں؛ ایوب خان کو بھی یہی غلط فہمی تھی کہ پاکستان کو جو کچھ مل رہا ہے وہ میری طلسماتی شخصیت کی وجہ سے ہے ‘‘۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ ممالک اپنے تعلقات ملک سے رکھتے ہیں حکومتوں سے نہیں۔ جب عمران خاں وزیر اعظم بنا تو اسے وزیر اعظم نے ہی فون کرنا تھا کیوں کہ پروٹوکول میں ہم منصب ہی مباارک باد دیتا ہے اور چین وہ ملک ہے جس نے عمران خان کے وزیر اعظم بنتے ہی اسے فون کیا۔ جھوٹا ہے یہ سلیم لفافی۔۔