ہمارے عورت دشمن سماج کا مکروہ چہرہ

Baadshaah

MPA (400+ posts)
ہمارے معاشرے نے مذہبی چھتری تلے عورت کو پوری طرح مرد کا محتاج بنا کر رکھ دیا ہے اور معاشرے کی آدھی آبادی کو ناکارہ کرکے گھروں میں مردوں کے کھونٹوں سے باندھا ہوا ہے۔ آج کی جدید دنیا میں عورت پوری طرح مرد کے برابر ہے اور معاشرے کی ڈویلپمنٹ میں پورا کردار ادا کرسکتی ہے ، مگر آفرین ہے ہمارے معاشرے کی سڑی ہوئی فرسودہ سوچ پر کہ ہم نے عورت کو ابھی تک گھر کی چار دیواری میں قید کرکے رکھا ہوا ہے۔

یہ تین جوان بہنیں ہیں۔ یہ رو رو کر فریاد کررہی ہیں کہ کوئی مرد انہیں سہارا دے کیونکہ ان کا بھائی اور ان کا باپ ان کو چھوڑ کر چلا گیا ہے اور اس پدرشاہی سماج میں ان تین جوان لڑکیوں کی کسی مرد کے آسرے کے بغیر کوئی سمائی نہیں۔ فرض کریں ان تین لڑکیوں کی جگہ تین لڑکے ہوتے تو ہمارے سماج میں لڑکیوں کی نسبت انہیں کوئی پرابلم نہ ہوتی، وہ کوئی بھی کام کرسکتے تھے، کہیں مزدوری کرسکتے تھے، کسی دفتر میں چھوٹی موٹی جاب کرسکتے تھے، کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرسکتے تھے اور اپنا پیٹ پال سکتے تھے، ان کو کسی سے بھیک یا آسرا مانگنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مگر چونکہ یہ لڑکے نہیں لڑکیاں ہیں اس لئے ہمارے بیہودہ سماج میں ان کیلئے مرد کے کھونٹے سے بندھے بنا کوئی چارہ نہیں۔

ایک مہذب سماج میں مرد اور عورت کیلئے برابر موقع ہوتے ہیں اور عورت کو مرد سے کم تر درجے پر نہیں رکھا جاتا۔ یہ لڑکیاں یورپ یا امریکہ میں ہوتیں تو کیا اسی طرح رو رو کر مرد کے آسرے کی بھیک مانگ رہی ہوتیں؟ نہیں بالکل نہیں، یہ بلا خوف خطر وہاں بغیر کسی مرد کے آسرے کے اکیلی رہ سکتی تھیں، کوئی بھی جاب کرسکتی تھیں، اپنا ذریعہ روزگار خود کما سکتی تھیں۔ مگر یہ ہمارا فرسودہ مذہبی سماج ہے جس میں اگر عورت کسی دفتر میں جاب کررہی ہو تو ارد گرد کے سارے مرد اس کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں، اسکی پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں گندے تبصرے کرتے ہیں اور اس کو کریکٹر لیس عورت سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے مذہبی سماج نے مرد کے ذہن میں یہ گندگی بھر دی ہے کہ عورت وہی پاک دامن ہے جو پوری طرح برقعے میں لپٹی ہوئی گھر کی چار دیواری میں مقید کسی نہ کسی مرد کے کھونٹے سے بندھی ہو۔ وہ عورت جو اپنا روزگار خود کمانے نکل پڑے وہ تو بدکردار ہے۔ یہ ہمارے سماج کا مکروہ چہرہ ہے۔ یہ وہ ہے کلچر اور وہ بدبودار روایات جس سے چمٹے رہنے کا سبق ہمیں قدامت پرست لوگ ہمیشہ دیتے رہتے ہیں۔۔

ہمارے معاشرے کا مذہبی سوچ کا حامل مرد کبھی بھی عورت کو اپنے تسلط سے آزاد نہیں ہونے دے گا۔ عورت کو خود ہی جدوجہد کرنی ہوگی۔ برقعے اور پردے جیسی صدیوں پرانی جاہلانہ روایات سے باہر نکلنا ہوگا۔ ان پردوں اور برقعوں کو اتار کر گٹروں میں پھینک دو یا مردوں کے گلوں میں ڈال دو۔ عورت کو کسی برقعے یا پردے کی ضرورت نہیں۔ عورت کا لباس وہی ہے جو مرد کا ہے۔ عورت کا چہرہ کوئی چھپانے کی چیز نہیں ہے۔ عورت کو اپنے وجود پر شرم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ صدیوں پرانے بدبودار لوگوں کی سوچ تھی کہ انہوں نے عورت کے پورے وجود کو ہی شرمناک قرار دے کر کپڑے سے ڈھانپ دینے کی رِیت ڈالی۔ عورت کو اس جہالت بھری رِیت کو گٹر برد کرکے آزاد اور خودمختار ہونے کی ضرورت ہے۔ تب اسے یوں ان تین لڑکیوں کی طرح سرعام کسی مرد سے سہارے کی بھیک نہیں مانگنی پڑے گی، وہ عزت اور وقار سے سر اٹھا کر جی سکے گی۔۔۔

 

Tit4Tat

Minister (2k+ posts)
ہمارے معاشرے نے مذہبی چھتری تلے عورت کو پوری طرح مرد کا محتاج بنا کر رکھ دیا ہے اور معاشرے کی آدھی آبادی کو ناکارہ کرکے گھروں میں مردوں کے کھونٹوں سے باندھا ہوا ہے۔ آج کی جدید دنیا میں عورت پوری طرح مرد کے برابر ہے اور معاشرے کی ڈویلپمنٹ میں پورا کردار ادا کرسکتی ہے ، مگر آفرین ہے ہمارے معاشرے کی سڑی ہوئی فرسودہ سوچ پر کہ ہم نے عورت کو ابھی تک گھر کی چار دیواری میں قید کرکے رکھا ہوا ہے۔

یہ تین جوان بہنیں ہیں۔ یہ رو رو کر فریاد کررہی ہیں کہ کوئی مرد انہیں سہارا دے کیونکہ ان کا بھائی اور ان کا باپ ان کو چھوڑ کر چلا گیا ہے اور اس پدرشاہی سماج میں ان تین جوان لڑکیوں کی کسی مرد کے آسرے کے بغیر کوئی سمائی نہیں۔ فرض کریں ان تین لڑکیوں کی جگہ تین لڑکے ہوتے تو ہمارے سماج میں لڑکیوں کی نسبت انہیں کوئی پرابلم نہ ہوتی، وہ کوئی بھی کام کرسکتے تھے، کہیں مزدوری کرسکتے تھے، کسی دفتر میں چھوٹی موٹی جاب کرسکتے تھے، کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرسکتے تھے اور اپنا پیٹ پال سکتے تھے، ان کو کسی سے بھیک یا آسرا مانگنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مگر چونکہ یہ لڑکے نہیں لڑکیاں ہیں اس لئے ہمارے بیہودہ سماج میں ان کیلئے مرد کے کھونٹے سے بندھے بنا کوئی چارہ نہیں۔

ایک مہذب سماج میں مرد اور عورت کیلئے برابر موقع ہوتے ہیں اور عورت کو مرد سے کم تر درجے پر نہیں رکھا جاتا۔ یہ لڑکیاں یورپ یا امریکہ میں ہوتیں تو کیا اسی طرح رو رو کر مرد کے آسرے کی بھیک مانگ رہی ہوتیں؟ نہیں بالکل نہیں، یہ بلا خوف خطر وہاں بغیر کسی مرد کے آسرے کے اکیلی رہ سکتی تھیں، کوئی بھی جاب کرسکتی تھیں، اپنا ذریعہ روزگار خود کما سکتی تھیں۔ مگر یہ ہمارا فرسودہ مذہبی سماج ہے جس میں اگر عورت کسی دفتر میں جاب کررہی ہو تو ارد گرد کے سارے مرد اس کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں، اسکی پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں گندے تبصرے کرتے ہیں اور اس کو کریکٹر لیس عورت سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے مذہبی سماج نے مرد کے ذہن میں یہ گندگی بھر دی ہے کہ عورت وہی پاک دامن ہے جو پوری طرح برقعے میں لپٹی ہوئی گھر کی چار دیواری میں مقید کسی نہ کسی مرد کے کھونٹے سے بندھی ہو۔ وہ عورت جو اپنا روزگار خود کمانے نکل پڑے وہ تو بدکردار ہے۔ یہ ہمارے سماج کا مکروہ چہرہ ہے۔ یہ وہ ہے کلچر اور وہ بدبودار روایات جس سے چمٹے رہنے کا سبق ہمیں قدامت پرست لوگ ہمیشہ دیتے رہتے ہیں۔۔

ہمارے معاشرے کا مذہبی سوچ کا حامل مرد کبھی بھی عورت کو اپنے تسلط سے آزاد نہیں ہونے دے گا۔ عورت کو خود ہی جدوجہد کرنی ہوگی۔ برقعے اور پردے جیسی صدیوں پرانی جاہلانہ روایات سے باہر نکلنا ہوگا۔ ان پردوں اور برقعوں کو اتار کر گٹروں میں پھینک دو یا مردوں کے گلوں میں ڈال دو۔ عورت کو کسی برقعے یا پردے کی ضرورت نہیں۔ عورت کا لباس وہی ہے جو مرد کا ہے۔ عورت کا چہرہ کوئی چھپانے کی چیز نہیں ہے۔ عورت کو اپنے وجود پر شرم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ صدیوں پرانے بدبودار لوگوں کی سوچ تھی کہ انہوں نے عورت کے پورے وجود کو ہی شرمناک قرار دے کر کپڑے سے ڈھانپ دینے کی رِیت ڈالی۔ عورت کو اس جہالت بھری رِیت کو گٹر برد کرکے آزاد اور خودمختار ہونے کی ضرورت ہے۔ تب اسے یوں ان تین لڑکیوں کی طرح سرعام کسی مرد سے سہارے کی بھیک نہیں مانگنی پڑے گی، وہ عزت اور وقار سے سر اٹھا کر جی سکے گی۔۔۔


not only europe or west, even in south asia and central asian republics, women are working freely and securely. Nepal, vietnam, and many other countries' societies take it perfectly normal for women to go out and work in whatever jobs, without having to be looked at as sex objects.

My question to you is, how to do we progress on this? What should government do so our society starts the transformation process?
 

Baadshaah

MPA (400+ posts)
not only europe or west, even in south asia and central asian republics, women are working freely and securely. Nepal, vietnam, and many other countries' societies take it perfectly normal for women to go out and work in whatever jobs, without having to be looked at as sex objects.

My question to you is, how to do we progress on this? What should government do so our society starts the transformation process?

میری نظر میں ہمارے معاشرے میں عورت کیلئے نارمل فرد کی طرح رہنے اور کام کرنے کی جگہ تب ہی بن سکتی ہے اگر عورت اور مرد کی سیگریگیشن کو بتدریج ختم کیا جائے۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ لڑکوں، لڑکیوں اور مرد اور عورت کو ایک دوسرے سے اس قدر الگ الگ رہنے کا ماحول بنادیا گیا ہے کہ عورت اس مردانہ سماج میں انسان نہیں کوئی عجیب ہی مخلوق بنا کر رکھ دی گئی ہے۔ دو جوان لڑکے تو کہیں کھڑے ہوکر بات کرسکتے ہیں، مگر ایک لڑکا اور لڑکی پبلک میں بات کررہے ہوں تو اس کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ بچپن سے ہی لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ الگ رہنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ لڑکی تو جیسے تھوڑی بڑی ہوتی ہے اس کا لڑکوں سے میل جول بالکل ہی ختم کردیا جاتا ہے۔ اس نے بازار بھی جانا ہے تو پردہ اوڑھ کر اپنے کسی بھائی یا باپ کے ساتھ۔ لڑکی کو مرد کا محتاج بنانے کا عمل بہت پہلے شروع کردیا جاتا ہے۔ حکومت چاہے تو بہت کچھ کرسکتی ہے۔ شروعات میں کم از کم پرائمری سے مخلوط تعلیم کا آغاز کیا جائے، لڑکے اور لڑکیوں کے سکول الگ نہیں ہونے چائیں۔ اس معاشرے میں لڑکوں اور لڑکیوں کا میل جول نارمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہمارے سماج کا مرد لڑکیوں کے ساتھ نارمل انداز میں بڑا ہوگا تو اس کیلئے عورت کوئی عجیب مخلوق نہیں رہ جائے گی۔ پھر وہ عورت کو نارمل انداز میں ٹریٹ کرنا سیکھ جائے گا۔ مزید برآں حکومت کو چاہئے کہ تعلیمی نصاب کے ذریعے اور ملاؤں کو کنٹرول کرکے مذہب کا معاشرے پر سے اثر بتدریج کم کرے۔۔
 

Tit4Tat

Minister (2k+ posts)

میری نظر میں ہمارے معاشرے میں عورت کیلئے نارمل فرد کی طرح رہنے اور کام کرنے کی جگہ تب ہی بن سکتی ہے اگر عورت اور مرد کی سیگریگیشن کو بتدریج ختم کیا جائے۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ لڑکوں، لڑکیوں اور مرد اور عورت کو ایک دوسرے سے اس قدر الگ الگ رہنے کا ماحول بنادیا گیا ہے کہ عورت اس مردانہ سماج میں انسان نہیں کوئی عجیب ہی مخلوق بنا کر رکھ دی گئی ہے۔ دو جوان لڑکے تو کہیں کھڑے ہوکر بات کرسکتے ہیں، مگر ایک لڑکا اور لڑکی پبلک میں بات کررہے ہوں تو اس کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ بچپن سے ہی لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ الگ رہنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ لڑکی تو جیسے تھوڑی بڑی ہوتی ہے اس کا لڑکوں سے میل جول بالکل ہی ختم کردیا جاتا ہے۔ اس نے بازار بھی جانا ہے تو پردہ اوڑھ کر اپنے کسی بھائی یا باپ کے ساتھ۔ لڑکی کو مرد کا محتاج بنانے کا عمل بہت پہلے شروع کردیا جاتا ہے۔ حکومت چاہے تو بہت کچھ کرسکتی ہے۔ شروعات میں کم از کم پرائمری سے مخلوط تعلیم کا آغاز کیا جائے، لڑکے اور لڑکیوں کے سکول الگ نہیں ہونے چائیں۔ اس معاشرے میں لڑکوں اور لڑکیوں کا میل جول نارمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہمارے سماج کا مرد لڑکیوں کے ساتھ نارمل انداز میں بڑا ہوگا تو اس کیلئے عورت کوئی عجیب مخلوق نہیں رہ جائے گی۔ پھر وہ عورت کو نارمل انداز میں ٹریٹ کرنا سیکھ جائے گا۔ مزید برآں حکومت کو چاہئے کہ تعلیمی نصاب کے ذریعے اور ملاؤں کو کنٹرول کرکے مذہب کا معاشرے پر سے اثر بتدریج کم کرے۔۔

correct what you say about segregation, but remember that its embedded in our culture, our elders are part of this all across the nation. its not easy to change their mindset.
I think there could be two conditions where women getting out for work becomes normal: Economic needs and revised harassment laws with increased police protection and overall secure feeling for a woman on the road.

In all those societies where women go out to work are purely driven by financial needs, systems in those countries do not give this affordability to households where women can just sit home and not work.

And overall security of women on the road and at work places also contribute to their elders to allow them to go out for work.
 

Bubber Shair

Chief Minister (5k+ posts)
شادی والی آنٹیاں تو رشتہ بتانے کا ہی دو لاکھ لے جاتی ہیں۔ باقی ان کی تمام ضروریات کی ذمہ دار گورنمنٹ ہے سب سے پہلے گورنمنٹ ان کو خرچہ دے اور بعد میں یہ شادی کرلیں اگر کوی لڑکا پسند ورنہ گورنمنٹ ایسی تمام خواتین اور بزرگوں کو ماہانہ اخراجات اور سونے کیلئے چھت فراہم کرے
 

Lubnakhan

Minister (2k+ posts)
Girl education should be priority, I am sure that will fix many problems we are facing!!government should give stipends to girls who go to schools , funds allocation can also be coupled with girls’ literacy rate ! The plight of women in Pakistan is not because of religion ,muslim women in other countries are faring way better then Pakistani women! It’s this subcontinent culture that is making women like terrible!
 

چھومنتر

Minister (2k+ posts)
شادی والی آنٹیاں تو رشتہ بتانے کا ہی دو لاکھ لے جاتی ہیں۔ باقی ان کی تمام ضروریات کی ذمہ دار گورنمنٹ ہے سب سے پہلے گورنمنٹ ان کو خرچہ دے اور بعد میں یہ شادی کرلیں اگر کوی لڑکا پسند ورنہ گورنمنٹ ایسی تمام خواتین اور بزرگوں کو ماہانہ اخراجات اور سونے کیلئے چھت فراہم کرے
دو لاکھ
ریٹ زیادہ ہے
کچھ کم کر
تین بندے ہیں ایک رات کا چل چھ ہزار لے لے

?
 

Bubber Shair

Chief Minister (5k+ posts)
دو لاکھ
ریٹ زیادہ ہے
کچھ کم کر
تین بندے ہیں ایک رات کا چل چھ ہزار لے لے

?
میں تیرے ساتھ مکالمہ کرلیتا تھا کہ کافی دیر سے یہان آرہا ہے مگر تم تو بہت ہی فضول اور جاہل انسان ہو جسے یہ بھی نہیں پتا کہ کس موقع پر جگت کرنی ہے اور جگت بھی ایسی گھٹیا
کوی کام کی بات کیا کرو ورنہ آئیندہ جواب نہیںملے گا
 

چھومنتر

Minister (2k+ posts)
میں تیرے ساتھ مکالمہ کرلیتا تھا کہ کافی دیر سے یہان آرہا ہے مگر تم تو بہت ہی فضول اور جاہل انسان ہو جسے یہ بھی نہیں پتا کہ کس موقع پر جگت کرنی ہے اور جگت بھی ایسی گھٹیا
کوی کام کی بات کیا کرو ورنہ آئیندہ جواب نہیںملے گا
کہاں منہ کالا کر لیتا
?

نواز بھگوڑے اور نانی قطرن کو دن رات ڈیفنڈ کرتا پھرتا ہے اس سے زیادہ اور کیا منہ کالا کرنا تو نے
بھوسڑی کے
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
شادی والی آنٹیاں تو رشتہ بتانے کا ہی دو لاکھ لے جاتی ہیں۔ باقی ان کی تمام ضروریات کی ذمہ دار گورنمنٹ ہے سب سے پہلے گورنمنٹ ان کو خرچہ دے اور بعد میں یہ شادی کرلیں اگر کوی لڑکا پسند ورنہ گورنمنٹ ایسی تمام خواتین اور بزرگوں کو ماہانہ اخراجات اور سونے کیلئے چھت فراہم کرے
دارلامان بنے ہوئے ہیں۔ لیکن وہاں بھی کرپشن گھسی پڑی ہے۔ کسی سیٹھ، سرکاری افسر یا سیاستدان کے ہتھے چڑھیں گی۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
Girl education should be priority, I am sure that will fix many problems we are facing!!government should give stipends to girls who go to schools , funds allocation can also be coupled with girls’ literacy rate ! The plight of women in Pakistan is not because of religion ,muslim women in other countries are faring way better then Pakistani women! It’s this subcontinent culture that is making women like terrible!
آپ سمجھیں نہیں، تھریڈ اسٹارٹر کا کہنا ہے کہ عورتوں کو پردے سے نکالنا ہے۔ ورنہ رضیہ سلطانہ اور رابعہ بصری کی تاریخ اسے بھی معلوم ہوگی۔

اس کی باقی باتیں سنیں گی تو معلوم ہوگا کہ صاحب شادی کے رشتے کے بھی خلاف ہیں۔ ان کے خیال میں آزادی کا مطلب ہے کپڑے کم یا بلکل نہیں اور شادی وغیرہ تو فضول ہی ہیں، لہٰذا بات ہی نہ کریں۔ بلکہ یہ ہم جنس پرستی کے فروغ کے لیئے بھی کوشاں ہیں، کہ انھیں اپنی سانس اس معاشرے میں گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ شراب خانے اور جوئے کے اڈّے موجود ہونے چاہیئں تاکہ لوگوں کو معیاری تفریح ملے اور وہ جہاد وغیرہ کے نام پر دہشت گردی بند کریں۔

اگر یقین نہیں آتا تو حضرت سے خود ایک مرتبہ پوچھ لیجیئے، کہ کیا ان کی جنگ و جدّو جہد انھی باتوں کے لیئے ہے یا نہیں؟
 

Lubnakhan

Minister (2k+ posts)
آپ سمجھیں نہیں، تھریڈ اسٹارٹر کا کہنا ہے کہ عورتوں کو پردے سے نکالنا ہے۔ ورنہ رضیہ سلطانہ اور رابعہ بصری کی تاریخ اسے بھی معلوم ہوگی۔

اس کی باقی باتیں سنیں گی تو معلوم ہوگا کہ صاحب شادی کے رشتے کے بھی خلاف ہیں۔ ان کے خیال میں آزادی کا مطلب ہے کپڑے کم یا بلکل نہیں اور شادی وغیرہ تو فضول ہی ہیں، لہٰذا بات ہی نہ کریں۔ بلکہ یہ ہم جنس پرستی کے فروغ کے لیئے بھی کوشاں ہیں، کہ انھیں اپنی سانس اس معاشرے میں گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ شراب خانے اور جوئے کے اڈّے موجود ہونے چاہیئں تاکہ لوگوں کو معیاری تفریح ملے اور وہ جہاد وغیرہ کے نام پر دہشت گردی بند کریں۔

اگر یقین نہیں آتا تو حضرت سے خود ایک مرتبہ پوچھ لیجیئے، کہ کیا ان کی جنگ و جدّو جہد انھی باتوں کے لیئے ہے یا نہیں؟
I understand his point of view and goals!! I don’t know what made you think otherwise!!! But there is definitely an issue we are facing in Pakistan and we need to address this issue;not in his way though!
 

Baadshaah

MPA (400+ posts)
شادی والی آنٹیاں تو رشتہ بتانے کا ہی دو لاکھ لے جاتی ہیں۔ باقی ان کی تمام ضروریات کی ذمہ دار گورنمنٹ ہے سب سے پہلے گورنمنٹ ان کو خرچہ دے اور بعد میں یہ شادی کرلیں اگر کوی لڑکا پسند ورنہ گورنمنٹ ایسی تمام خواتین اور بزرگوں کو ماہانہ اخراجات اور سونے کیلئے چھت فراہم کرے

پاکستان جیسے ممالک میں حکومتوں کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہوتا کہ سب کو بٹھا کر مفت کھلا سکیں، نہ ہی حکومت کو ایسا کرنا چاہئے۔ جس کے دو ہاتھ اور دو پیر سلامت ہوں، اس کو ذریعہ روزگار مہیا کرنا ضرور حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومت کو یہی کرنا چاہئے۔ عورت کو بھی مرد کی طرح کمانے کے برابر کے مواقع اور ماحول مہیا کرنا چاہئے۔ عورت کو صرف اس لئے مرد کا محتاج بنادینا کہ اس کی صنف مختلف ہے نہایت ہی احمقانہ اور جاہلانہ بات ہے۔۔۔
 

Bubber Shair

Chief Minister (5k+ posts)
پاکستان جیسے ممالک میں حکومتوں کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہوتا کہ سب کو بٹھا کر مفت کھلا سکیں، نہ ہی حکومت کو ایسا کرنا چاہئے۔ جس کے دو ہاتھ اور دو پیر سلامت ہوں، اس کو ذریعہ روزگار مہیا کرنا ضرور حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومت کو یہی کرنا چاہئے۔ عورت کو بھی مرد کی طرح کمانے کے برابر کے مواقع اور ماحول مہیا کرنا چاہئے۔ عورت کو صرف اس لئے مرد کا محتاج بنادینا کہ اس کی صنف مختلف ہے نہایت ہی احمقانہ اور جاہلانہ بات ہے۔۔۔
صرف مہنگی گیس خرید کر ایک سو بائیس ارب کا ٹیکہ لگوایا،،،کیا پاکستان کی تمام بے سہارا خواتین کو پالنے کیلئے اتنی رقم کافی نہیں
 

Baadshaah

MPA (400+ posts)
صرف مہنگی گیس خرید کر ایک سو بائیس ارب کا ٹیکہ لگوایا،،،کیا پاکستان کی تمام بے سہارا خواتین کو پالنے کیلئے اتنی رقم کافی نہیں

جنابِ عالی۔ آپ کسی بھی ملک کو پروڈکٹیو نہیں بناسکتے اگر آپ اس کی آدھی آبادی کو صرف عورت ہونے کی وجہ سے بیکار کرکے بٹھانے کی پالیسی اپنائیں۔ عورت کو ملک کی ڈویلپمنٹ میں شامل کرنے کی ضرورت ہے، نکالنے کی نہیں۔ بے سہارا کا کیا مطلب ہے؟ عورت کو مرد کا محتاج بنا کر مرد کو اس کے سہارے کا نام دے دیا۔۔

ہمارے معاشرے میں اس بات پر بڑا فخر کیا جاتا ہے کہ جی عورت کو مرد کما کر دیتا ہے، اس کا خیال رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص ٹھیک ٹھاک تندرست عورت کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر چل رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ دیکھو جی میں عورت کا کتنا خیال رکھتا ہوں۔ ارے بھئی جب وہ اپنے دو پیروں پر چل سکتی ہے تو تم اسے اپنے کندھوں کا بوجھ کیوں بنا کر اپنی رفتار بھی کم کررہے ہو اور اس کی صلاحیتوں کو بھی بے کار کررہے ہو۔۔؟
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
مولوی صاحب۔۔۔ آپ کی شریعت میں تو عورت سیکس ٹول کے علاوہ کچھ نہیں۔ آپ کے روحانی پیشوا ٹھرکی مودودی صاحب تو فرماتے ہیں کہ وہ بچیاں جو ابھی بالغ نہیں ہوئی ہوں، ان کے ساتھ بھی نکاح اور ہم بستری جائز ہے اور کسی کو حق نہیں کہ اس کی مخالفت کرے۔۔ نہ جانے ایسے ٹھرکی ملاؤں کی گندی سوچ اور گندی نظر سے ان کی اپنی بیٹیاں کیسے محفوظ رہتی ہوں گی۔۔ ایسی بہت سی خبریں آتی رہتی ہیں جن میں باپ نے اپنی ہی بیٹی کا بلاتکار کردیا۔۔۔
مسٹر براؤن جی، آپ کے معاشرے نے عورت کی جو بھی حیثیت دی ہے وہ بذات خود ایک مسئلہ ہے. تبھی تو می ٹو منظر عام پر آیا

اپنے معاشرے کی خبروں پر دھیان دیا کرو
https://www.mpnrc.org/11-years-old-pregnant-girl-gives-birth-becomes-youngest-mother-in-uk/
 

Bubber Shair

Chief Minister (5k+ posts)
جنابِ عالی۔ آپ کسی بھی ملک کو پروڈکٹیو نہیں بناسکتے اگر آپ اس کی آدھی آبادی کو صرف عورت ہونے کی وجہ سے بیکار کرکے بٹھانے کی پالیسی اپنائیں۔ عورت کو ملک کی ڈویلپمنٹ میں شامل کرنے کی ضرورت ہے، نکالنے کی نہیں۔ بے سہارا کا کیا مطلب ہے؟ عورت کو مرد کا محتاج بنا کر مرد کو اس کے سہارے کا نام دے دیا۔۔

ہمارے معاشرے میں اس بات پر بڑا فخر کیا جاتا ہے کہ جی عورت کو مرد کما کر دیتا ہے، اس کا خیال رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص ٹھیک ٹھاک تندرست عورت کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر چل رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ دیکھو جی میں عورت کا کتنا خیال رکھتا ہوں۔ ارے بھئی جب وہ اپنے دو پیروں پر چل سکتی ہے تو تم اسے اپنے کندھوں کا بوجھ کیوں بنا کر اپنی رفتار بھی کم کررہے ہو اور اس کی صلاحیتوں کو بھی بے کار کررہے ہو۔۔؟
میں عورت کو جاب سے نہیں روک رہا میں تو صرف ان بے سہارا خواتین کی بات کررہا ہوں جن کے آگے پیچھے کوی نہیں اور ان کو جاب مل بھی جاے تو ان کا استحصال کیا جاتا ہے کیونکہ ان سے کوی زیادتی کرے تو اسے پوچھنے والا کوی نہیں
 

Tit4Tat

Minister (2k+ posts)
میں تیرے ساتھ مکالمہ کرلیتا تھا کہ کافی دیر سے یہان آرہا ہے مگر تم تو بہت ہی فضول اور جاہل انسان ہو جسے یہ بھی نہیں پتا کہ کس موقع پر جگت کرنی ہے اور جگت بھی ایسی گھٹیا
کوی کام کی بات کیا کرو ورنہ آئیندہ جواب نہیںملے گا
buhut he Ghaleeze admee hay yeh, insaan kehlanay kay bhee laiq nahen