ہمارے معاشرے نے مذہبی چھتری تلے عورت کو پوری طرح مرد کا محتاج بنا کر رکھ دیا ہے اور معاشرے کی آدھی آبادی کو ناکارہ کرکے گھروں میں مردوں کے کھونٹوں سے باندھا ہوا ہے۔ آج کی جدید دنیا میں عورت پوری طرح مرد کے برابر ہے اور معاشرے کی ڈویلپمنٹ میں پورا کردار ادا کرسکتی ہے ، مگر آفرین ہے ہمارے معاشرے کی سڑی ہوئی فرسودہ سوچ پر کہ ہم نے عورت کو ابھی تک گھر کی چار دیواری میں قید کرکے رکھا ہوا ہے۔
یہ تین جوان بہنیں ہیں۔ یہ رو رو کر فریاد کررہی ہیں کہ کوئی مرد انہیں سہارا دے کیونکہ ان کا بھائی اور ان کا باپ ان کو چھوڑ کر چلا گیا ہے اور اس پدرشاہی سماج میں ان تین جوان لڑکیوں کی کسی مرد کے آسرے کے بغیر کوئی سمائی نہیں۔ فرض کریں ان تین لڑکیوں کی جگہ تین لڑکے ہوتے تو ہمارے سماج میں لڑکیوں کی نسبت انہیں کوئی پرابلم نہ ہوتی، وہ کوئی بھی کام کرسکتے تھے، کہیں مزدوری کرسکتے تھے، کسی دفتر میں چھوٹی موٹی جاب کرسکتے تھے، کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرسکتے تھے اور اپنا پیٹ پال سکتے تھے، ان کو کسی سے بھیک یا آسرا مانگنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مگر چونکہ یہ لڑکے نہیں لڑکیاں ہیں اس لئے ہمارے بیہودہ سماج میں ان کیلئے مرد کے کھونٹے سے بندھے بنا کوئی چارہ نہیں۔
ایک مہذب سماج میں مرد اور عورت کیلئے برابر موقع ہوتے ہیں اور عورت کو مرد سے کم تر درجے پر نہیں رکھا جاتا۔ یہ لڑکیاں یورپ یا امریکہ میں ہوتیں تو کیا اسی طرح رو رو کر مرد کے آسرے کی بھیک مانگ رہی ہوتیں؟ نہیں بالکل نہیں، یہ بلا خوف خطر وہاں بغیر کسی مرد کے آسرے کے اکیلی رہ سکتی تھیں، کوئی بھی جاب کرسکتی تھیں، اپنا ذریعہ روزگار خود کما سکتی تھیں۔ مگر یہ ہمارا فرسودہ مذہبی سماج ہے جس میں اگر عورت کسی دفتر میں جاب کررہی ہو تو ارد گرد کے سارے مرد اس کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں، اسکی پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں گندے تبصرے کرتے ہیں اور اس کو کریکٹر لیس عورت سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے مذہبی سماج نے مرد کے ذہن میں یہ گندگی بھر دی ہے کہ عورت وہی پاک دامن ہے جو پوری طرح برقعے میں لپٹی ہوئی گھر کی چار دیواری میں مقید کسی نہ کسی مرد کے کھونٹے سے بندھی ہو۔ وہ عورت جو اپنا روزگار خود کمانے نکل پڑے وہ تو بدکردار ہے۔ یہ ہمارے سماج کا مکروہ چہرہ ہے۔ یہ وہ ہے کلچر اور وہ بدبودار روایات جس سے چمٹے رہنے کا سبق ہمیں قدامت پرست لوگ ہمیشہ دیتے رہتے ہیں۔۔
ہمارے معاشرے کا مذہبی سوچ کا حامل مرد کبھی بھی عورت کو اپنے تسلط سے آزاد نہیں ہونے دے گا۔ عورت کو خود ہی جدوجہد کرنی ہوگی۔ برقعے اور پردے جیسی صدیوں پرانی جاہلانہ روایات سے باہر نکلنا ہوگا۔ ان پردوں اور برقعوں کو اتار کر گٹروں میں پھینک دو یا مردوں کے گلوں میں ڈال دو۔ عورت کو کسی برقعے یا پردے کی ضرورت نہیں۔ عورت کا لباس وہی ہے جو مرد کا ہے۔ عورت کا چہرہ کوئی چھپانے کی چیز نہیں ہے۔ عورت کو اپنے وجود پر شرم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ صدیوں پرانے بدبودار لوگوں کی سوچ تھی کہ انہوں نے عورت کے پورے وجود کو ہی شرمناک قرار دے کر کپڑے سے ڈھانپ دینے کی رِیت ڈالی۔ عورت کو اس جہالت بھری رِیت کو گٹر برد کرکے آزاد اور خودمختار ہونے کی ضرورت ہے۔ تب اسے یوں ان تین لڑکیوں کی طرح سرعام کسی مرد سے سہارے کی بھیک نہیں مانگنی پڑے گی، وہ عزت اور وقار سے سر اٹھا کر جی سکے گی۔۔۔
یہ تین جوان بہنیں ہیں۔ یہ رو رو کر فریاد کررہی ہیں کہ کوئی مرد انہیں سہارا دے کیونکہ ان کا بھائی اور ان کا باپ ان کو چھوڑ کر چلا گیا ہے اور اس پدرشاہی سماج میں ان تین جوان لڑکیوں کی کسی مرد کے آسرے کے بغیر کوئی سمائی نہیں۔ فرض کریں ان تین لڑکیوں کی جگہ تین لڑکے ہوتے تو ہمارے سماج میں لڑکیوں کی نسبت انہیں کوئی پرابلم نہ ہوتی، وہ کوئی بھی کام کرسکتے تھے، کہیں مزدوری کرسکتے تھے، کسی دفتر میں چھوٹی موٹی جاب کرسکتے تھے، کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرسکتے تھے اور اپنا پیٹ پال سکتے تھے، ان کو کسی سے بھیک یا آسرا مانگنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مگر چونکہ یہ لڑکے نہیں لڑکیاں ہیں اس لئے ہمارے بیہودہ سماج میں ان کیلئے مرد کے کھونٹے سے بندھے بنا کوئی چارہ نہیں۔
ایک مہذب سماج میں مرد اور عورت کیلئے برابر موقع ہوتے ہیں اور عورت کو مرد سے کم تر درجے پر نہیں رکھا جاتا۔ یہ لڑکیاں یورپ یا امریکہ میں ہوتیں تو کیا اسی طرح رو رو کر مرد کے آسرے کی بھیک مانگ رہی ہوتیں؟ نہیں بالکل نہیں، یہ بلا خوف خطر وہاں بغیر کسی مرد کے آسرے کے اکیلی رہ سکتی تھیں، کوئی بھی جاب کرسکتی تھیں، اپنا ذریعہ روزگار خود کما سکتی تھیں۔ مگر یہ ہمارا فرسودہ مذہبی سماج ہے جس میں اگر عورت کسی دفتر میں جاب کررہی ہو تو ارد گرد کے سارے مرد اس کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں، اسکی پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں گندے تبصرے کرتے ہیں اور اس کو کریکٹر لیس عورت سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے مذہبی سماج نے مرد کے ذہن میں یہ گندگی بھر دی ہے کہ عورت وہی پاک دامن ہے جو پوری طرح برقعے میں لپٹی ہوئی گھر کی چار دیواری میں مقید کسی نہ کسی مرد کے کھونٹے سے بندھی ہو۔ وہ عورت جو اپنا روزگار خود کمانے نکل پڑے وہ تو بدکردار ہے۔ یہ ہمارے سماج کا مکروہ چہرہ ہے۔ یہ وہ ہے کلچر اور وہ بدبودار روایات جس سے چمٹے رہنے کا سبق ہمیں قدامت پرست لوگ ہمیشہ دیتے رہتے ہیں۔۔
ہمارے معاشرے کا مذہبی سوچ کا حامل مرد کبھی بھی عورت کو اپنے تسلط سے آزاد نہیں ہونے دے گا۔ عورت کو خود ہی جدوجہد کرنی ہوگی۔ برقعے اور پردے جیسی صدیوں پرانی جاہلانہ روایات سے باہر نکلنا ہوگا۔ ان پردوں اور برقعوں کو اتار کر گٹروں میں پھینک دو یا مردوں کے گلوں میں ڈال دو۔ عورت کو کسی برقعے یا پردے کی ضرورت نہیں۔ عورت کا لباس وہی ہے جو مرد کا ہے۔ عورت کا چہرہ کوئی چھپانے کی چیز نہیں ہے۔ عورت کو اپنے وجود پر شرم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ صدیوں پرانے بدبودار لوگوں کی سوچ تھی کہ انہوں نے عورت کے پورے وجود کو ہی شرمناک قرار دے کر کپڑے سے ڈھانپ دینے کی رِیت ڈالی۔ عورت کو اس جہالت بھری رِیت کو گٹر برد کرکے آزاد اور خودمختار ہونے کی ضرورت ہے۔ تب اسے یوں ان تین لڑکیوں کی طرح سرعام کسی مرد سے سہارے کی بھیک نہیں مانگنی پڑے گی، وہ عزت اور وقار سے سر اٹھا کر جی سکے گی۔۔۔