کیٹ واک اور قصیدہ بردہ شریف

Absent Mind

MPA (400+ posts)
دین کا علم ہونے اور فہم حاصل ہونے میں یقیناً اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا اس کائنات کے بسیط ہونے اور بیوقوف کی بیوقوفی میں.
سماج کی تنزلی کی بہت سی وجوہات میں سے ایک دین کی خود ساختہ تعبیر اور اسکے حق و باطل کو ایک دوسرے میں ایسے ضم کردینا بھی ہے کہ لوگوں کے ازہان شک و شبہ میں مبتلا کر دیے جائیں. افسوس تو اس بات کا ہے کہ اہلِ علم لوگ آگے تو آئے ہیں مگر ان کا فہم دین بعض مخصوص حالات میں ان کے اعمال سے کسی بھی طور پر میل کھاتا دکھائی نہیں دیتا. دنیاوی خواہشات کی پیروی میں مذہب کی چادر اوڑھنے کے باوجود ماضی کی روائت محض اس لیے زندہ نظر آتی ہے کہ انھوں نے دین کو اپنی خواہشات کے مطابق موم کر لیا. جدید طرز زندگی جو بظاہر اپنے اصل معنوں میں دین کے راستےمیں کبھی رکاوٹ نہیں رہی مگر کہ کچھ حدودوقیود کے ساتھ, اپنے بازو کھولے مذہب کی تعبیر اپنے مزاج کے مطابق ڈھالنےکو ہر لمحہ آگے بڑھ رہی ہے ایسے میں اسے راستہ ملنا اور بھی آسان ہوجاتا ہے جب کسی ایسے نکتہ پر دو الگ آراء مدِمقابل آجائیں کہ جہاں ایک کی بقا دوسری کی فنا ہو.تو ایسے ہی مراحل پر ایسی شخصیات پیدا ہوجائیں جو اس بارِگراں کو اپنے کندھوں پر لےلیں. جو مذہب اور اسکی حدود کو اپنی من چاہی تعبیر کے ظن میں پامال کرتی دکھائی دیں.جو
"جو تھا ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا" کے مصداق ایسا طرز عمل اختیار کریں کہ خیر اور شر کو الگ کرنا مشکل تر ہوجائے.
جنید جمشید ہمارے ایک ہردلعزیز گانے والوں میں شمار کیے جاتے رہے ہیں نوجوان نسل نے ان کو گانے کے شعبے میں سُنا تو پہلے نمبر سے کم درجے پر جگہ نہیں دی ایک عرصے تک ملی نغمے اور گانوں سے عوام کو لبھاتے رہے. مگر اب کئی سال پہلے سے باقاعدہ گانا چھوڑ کر مذہب کی طرف لگاو رکھتے ہیں. اس سے قبل محض گانا ہی ان کا اوڑنا بچھونا تھا اُسی سے آپکی روزی منسلک تھی. جس طرح ہمارے معاشرے نے دینی شخصیات کے نام پر ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جو نہ تو عالم تھا نہ محقق نہ مفکر نہ مدبّر یہ محض ایک مولوی تھا دین کے چند بنیادی معاملات کا مناسب سا جاننے والا, اسکے ہاتھ میں اور کوئی ہنر نہیں تھا. یہ جب سوسائٹی میں وارد ہوتا ہے تو سمجھتا ہے کہ اس کا مستقبل محفوظ ہے مگر انسان کے ساتھ لگا پیٹ یہ سب نہیں دیکھتا, یہی معاملہ اس طبقے کو درپیش آیا تو سوائے مذہب کو بیچنے کے, اسے اپنے پیٹ کی خاطر من چاہی تعبیر دینے کے اس طبقے کے پاس کوئی چارہ نہ رہا اور نتیجہ آپ سب کے سامنے ہے کہ مولوی طبقے نے اس مقام پر اپنے منصب کا جس طرح استعمال کیا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں. چشمِ تصور آگاہی دیتی ہے کہ یہی معاملہ یہاں بھی درپیش ہے. جنید جمشید گانا چھوڑ چکے اور اس سے منسلک انکی روزی اور رزق بھی جاتا رہا مگر پیٹ اپنی جگہ قائم ہے..... تبلیغی جماعت کے ایک انتہائی معتبر اور مشہور شخصیت کی معیت میں دین اسلام کے پرچار میں آپ سرگرم رہے لیکن جیسے کہ کسی بھی شعبے میں ماہر ہونے سے پہلے ایک تربیت درکار ہوتی ہے, ایک مشق اور عمیق مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے جو انسان کو ہر اس عمل سے روکتی ہے جو شش و پنج میں ڈالے جو معاشرے میں کسی یکسو پہلو میں متضاد اور تخریبی سوچ کا بیج بوئے, اس سے بہت حد تک نابلد دکھائی دیتے ہیں. اسی لیے کبھی علمی حوالے میں امہات المومنین کے متعلق ناقص معلومات بیان کرتے سنائی دیے جو کہ ایک انتہائی غیر زمہ دارانہ انداز تھا ایسے ہی کبھی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازدواجی زندگی پر کمزور اور بےبنیاد آراء دیتے ہوئے پائے گئے. اور چند دن قبل ایک وڈیو میں اپنے ایک فیشن شو کی ابتدا میں قصیدہ بردہ شریف کی تلاوت کرتے نظر آئے ہیں. غالباً یہ وڈیو پرانی ہو مگر میں نے ایک دو دن قبل دیکھی ہے اور تب سے دو متضاد چیزوں کو ایک دوسرے سے تطبیق کرنے کی اپنی سی کوشش میں مصروف ہوں مگر کامیابی اسکے سوا دکھائی نہیں دیتی کہ اس عمل کو محض انفرادی اور دنیاوی دولت و ثروت کے حصول سے منسلک کر سکوں. جو لوگ معاشرے کی دھار کو بدلنے کی طاقت رکھتے ہوں انکی ایک چھوٹی سی لغزش بہت بڑا خلا پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ خود اس کا ادراک نہ رکھتے ہوں. جنید جمشید کو بھی اس کا ادراک نہیں رہا ہے. آپ ایک ٹرینڈ سیٹر ہیں آج ان کا یہ عمل کیٹ واک اور ریمپ پر مذہب کو متعارف کروانے میں اور اسلام کا ایک نرم چہرہ سامنے لانے میں مدو و معاون ثابت ہوگا. شوبز حلقے کو اب ایک ریفارمر بالاخر میسر آچکا جو انکے مقدمے کو اعتراض کے درجے سے نکال کر عوام کی نگاہ میں قبولیت عام دلوانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے. ماضی قریب میں کراچی میں ایک فیشن شو ہوا جو کہ غالباً رمضان کی ابتدا میں منعقد کیاگیا جس پر محترم انصارعباسی نے مقدمہ اچھے انداز میں پیش کیا اور آپ محترم نے تب کی شوبز اور لکس کی کرتا دھرتا حوروں کے کافی لتّے لیے. ہم اس بات سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ کیٹ واکز اور ریمپز وغیرہ جدید طرزِزندگی کی ترویج میں اشرافیہ طبقے کی ایک خاص نہج ہے. اور جنید جمشید صاحب ایک عدد مشہور کپڑوں کا برانڈ بھی رکھتے ہیں تو مضائقہ نہیں کہ اس سارے ڈرامے اور مذہب و فیشن شوز کو ایک سٹیج پر لانے کے پیچھے کاروباری سوچ پروان چڑھ رہی ہو وہی سوچ جس سے مادی ومعاشی مفادات وابستہ ہیں .آخر کار مذہب بیچنے میں ہم سے بازی کوئی کیوں کر لےجائے. اور زاتی اغراض کے لیے دین کی مختلف تشریحات بھی ہمارا ورثہ ہیں یہ کام میرے جیسا کرے تو الگ بات ہے کہ بےحیثیت انسانوں پر عوام کا زور چل جاتا ہے کفر و شرک کا ماحول بنانا ہمارے سماج کے لیے قطعً مشکل نہیں رہتا ہماری معافی کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن جنید جیسی شخصیات اس سے مبّرا ہیں ایسے لوگوں کو استثائی مقام بھی ہمارے معاشرےکا دیا ہوا.شاید اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ عوام بھی وقت سے سیکھنے کی کوشش میں ہیں, اسے بھی ایسی برہنہ جگہوں پر اسلام نظرآئیگا تو خود کو اجنبی تصور نہیں کریں گے. اسی سٹیج پر آدھ کپڑوں میں دعوتِ "دِین" دیتی سوکھی ٹانگوں اور صفر "سائز" کی بجلیاں آگے پیچھے چکر لگائیں گی تو مولانا حضرات کے لیے مزید کی "گنجائش" نکالنی اور بھی آسان ہو جائےگی . یہ سچ ہے کہ جنید جمشید نے پہلا پتھر پھینک دیا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ارتعاش کاروبار بھی چمکائے گا, ہر کسی کے لیے مذہب کی من چاہی تعبیر پیدا کرنے میں آسانی بھی فراہم کرے گا کہ ہم سب کے اپنے اپنے مذہب ہیں اپنی اپنی سہولتیں ہیں جو ہم اسی وقت استعمال کرتے ہیں جہاں ہمیں معاشی فوائد ہوں اس سارے تناظر میں یہی اہم نکتہ ٹھہرتا ہے اور اس کو بیان کرنے کی بھی چنداں ضرورت نہیں اورنہ لکس جیسے بیوٹی شوز کو پریشان ہونے کی, کہ جنید صاحب کی شکل میں ریمپ اور کیٹ واک اب اسلامی دھارے میں آچکے اب کوئی مذہبی شور یا آواز وہ اہمیت نہ رکھے گی کہ روشن خیالی کا آغاز ایک کیٹ واک کی چکا چوند روشنی اور سنہرے ابدان کے لہلہاتے بہاو میں شامل ہو چکا.

محمد آصف

(روزنامہ دنیا پاکستان )
 
Last edited:

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
دین کا علم ہونے اور فہم حاصل ہونے میں یقیناً اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا اس کائنات کے بسیط ہونے اور بیوقوف کی بیوقوفی میں.
سماج کی تنزلی کی بہت سی وجوہات میں سے ایک دین کی خود ساختہ تعبیر اور اسکے حق و باطل کو ایک دوسرے میں ایسے ضم کردینا بھی ہے کہ لوگوں کے ازہان شک و شبہ میں مبتلا کر دیے جائیں. افسوس تو اس بات کا ہے کہ اہلِ علم لوگ آگے تو آئے ہیں مگر ان کا فہم دین بعض مخصوص حالات میں ان کے اعمال سے کسی بھی طور پر میل کھاتا دکھائی نہیں دیتا. دنیاوی خواہشات کی پیروی میں مذہب کی چادر اوڑھنے کے باوجود ماضی کی روائت محض اس لیے زندہ نظر آتی ہے کہ انھوں نے دین کو اپنی خواہشات کے مطابق موم کر لیا. جدید طرز زندگی جو بظاہر اپنے اصل معنوں میں دین کے راستےمیں کبھی رکاوٹ نہیں رہی مگر کہ کچھ حدودوقیود کے ساتھ, اپنے بازو کھولے مذہب کی تعبیر اپنے مزاج کے مطابق ڈھالنےکو ہر لمحہ آگے بڑھ رہی ہے ایسے میں اسے راستہ ملنا اور بھی آسان ہوجاتا ہے جب کسی ایسے نکتہ پر دو الگ آراء مدِمقابل آجائیں کہ جہاں ایک کی بقا دوسری کی فنا ہو.تو ایسے ہی مراحل پر ایسی شخصیات پیدا ہوجائیں جو اس بارِگراں کو اپنے کندھوں پر لےلیں. جو مذہب اور اسکی حدود کو اپنی من چاہی تعبیر کے ظن میں پامال کرتی دکھائی دیں.جو
"جو تھا ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا" کے مصداق ایسا طرز عمل اختیار کریں کہ خیر اور شر کو الگ کرنا مشکل تر ہوجائے.
جنید جمشید ہمارے ایک ہردلعزیز گانے والوں میں شمار کیے جاتے رہے ہیں نوجوان نسل نے ان کو گانے کے شعبے میں سُنا تو پہلے نمبر سے کم درجے پر جگہ نہیں دی ایک عرصے تک ملی نغمے اور گانوں سے عوام کو لبھاتے رہے. مگر اب کئی سال پہلے سے باقاعدہ گانا چھوڑ کر مذہب کی طرف لگاو رکھتے ہیں. اس سے قبل محض گانا ہی ان کا اوڑنا بچھونا تھا اُسی سے آپکی روزی منسلک تھی. جس طرح ہمارے معاشرے نے دینی شخصیات کے نام پر ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جو نہ تو عالم تھا نہ محقق نہ مفکر نہ مدبّر یہ محض ایک مولوی تھا دین کے چند بنیادی معاملات کا مناسب سا جاننے والا, اسکے ہاتھ میں اور کوئی ہنر نہیں تھا. یہ جب سوسائٹی میں وارد ہوتا ہے تو سمجھتا ہے کہ اس کا مستقبل محفوظ ہے مگر انسان کے ساتھ لگا پیٹ یہ سب نہیں دیکھتا, یہی معاملہ اس طبقے کو درپیش آیا تو سوائے مذہب کو بیچنے کے, اسے اپنے پیٹ کی خاطر من چاہی تعبیر دینے کے اس طبقے کے پاس کوئی چارہ نہ رہا اور نتیجہ آپ سب کے سامنے ہے کہ مولوی طبقے نے اس مقام پر اپنے منصب کا جس طرح استعمال کیا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں. چشمِ تصور آگاہی دیتی ہے کہ یہی معاملہ یہاں بھی درپیش ہے. جنید جمشید گانا چھوڑ چکے اور اس سے منسلک انکی روزی اور رزق بھی جاتا رہا مگر پیٹ اپنی جگہ قائم ہے..... تبلیغی جماعت کے ایک انتہائی معتبر اور مشہور شخصیت کی معیت میں دین اسلام کے پرچار میں آپ سرگرم رہے لیکن جیسے کہ کسی بھی شعبے میں ماہر ہونے سے پہلے ایک تربیت درکار ہوتی ہے, ایک مشق اور عمیق مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے جو انسان کو ہر اس عمل سے روکتی ہے جو شش و پنج میں ڈالے جو معاشرے میں کسی یکسو پہلو میں متضاد اور تخریبی سوچ کا بیج بوئے, اس سے بہت حد تک نابلد دکھائی دیتے ہیں. اسی لیے کبھی علمی حوالے میں امہات المومنین کے متعلق ناقص معلومات بیان کرتے سنائی دیے جو کہ ایک انتہائی غیر زمہ دارانہ انداز تھا ایسے ہی کبھی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازدواجی زندگی پر کمزور اور بےبنیاد آراء دیتے ہوئے پائے گئے. اور چند دن قبل ایک وڈیو میں اپنے ایک فیشن شو کی ابتدا میں قصیدہ بردہ شریف کی تلاوت کرتے نظر آئے ہیں. غالباً یہ وڈیو پرانی ہو مگر میں نے ایک دو دن قبل دیکھی ہے اور تب سے دو متضاد چیزوں کو ایک دوسرے سے تطبیق کرنے کی اپنی سی کوشش میں مصروف ہوں مگر کامیابی اسکے سوا دکھائی نہیں دیتی کہ اس عمل کو محض انفرادی اور دنیاوی دولت و ثروت کے حصول سے منسلک کر سکوں. جو لوگ معاشرے کی دھار کو بدلنے کی طاقت رکھتے ہوں انکی ایک چھوٹی سی لغزش بہت بڑا خلا پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ خود اس کا ادراک نہ رکھتے ہوں. جنید جمشید کو بھی اس کا ادراک نہیں رہا ہے. آپ ایک ٹرینڈ سیٹر ہیں آج ان کا یہ عمل کیٹ واک اور ریمپ پر مذہب کو متعارف کروانے میں اور اسلام کا ایک نرم چہرہ سامنے لانے میں مدو و معاون ثابت ہوگا. شوبز حلقے کو اب ایک ریفارمر بالاخر میسر آچکا جو انکے مقدمے کو اعتراض کے درجے سے نکال کر عوام کی نگاہ میں قبولیت عام دلوانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے. ماضی قریب میں کراچی میں ایک فیشن شو ہوا جو کہ غالباً رمضان کی ابتدا میں منعقد کیاگیا جس پر محترم انصارعباسی نے مقدمہ اچھے انداز میں پیش کیا اور آپ محترم نے تب کی شوبز اور لکس کی کرتا دھرتا حوروں کے کافی لتّے لیے. ہم اس بات سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ کیٹ واکز اور ریمپز وغیرہ جدید طرزِزندگی کی ترویج میں اشرافیہ طبقے کی ایک خاص نہج ہے. اور جنید جمشید صاحب ایک عدد مشہور کپڑوں کا برانڈ بھی رکھتے ہیں تو مضائقہ نہیں کہ اس سارے ڈرامے اور مذہب و فیشن شوز کو ایک سٹیج پر لانے کے پیچھے کاروباری سوچ پروان چڑھ رہی ہو وہی سوچ جس سے مادی ومعاشی مفادات وابستہ ہیں .آخر کار مذہب بیچنے میں ہم سے بازی کوئی کیوں کر لےجائے. اور زاتی اغراض کے لیے دین کی مختلف تشریحات بھی ہمارا ورثہ ہیں یہ کام میرے جیسا کرے تو الگ بات ہے کہ بےحیثیت انسانوں پر عوام کا زور چل جاتا ہے کفر و شرک کا ماحول بنانا ہمارے سماج کے لیے قطعً مشکل نہیں رہتا ہماری معافی کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن جنید جیسی شخصیات اس سے مبّرا ہیں ایسے لوگوں کو استثائی مقام بھی ہمارے معاشرےکا دیا ہوا.شاید اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ عوام بھی وقت سے سیکھنے کی کوشش میں ہیں, اسے بھی ایسی برہنہ جگہوں پر اسلام نظرآئیگا تو خود کو اجنبی تصور نہیں کریں گے. اسی سٹیج پر آدھ کپڑوں میں دعوتِ "دِین" دیتی سوکھی ٹانگوں اور صفر "سائز" کی بجلیاں آگے پیچھے چکر لگائیں گی تو مولانا حضرات کے لیے مزید کی "گنجائش" نکالنی اور بھی آسان ہو جائےگی . یہ سچ ہے کہ جنید جمشید نے پہلا پتھر پھینک دیا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ارتعاش کاروبار بھی چمکائے گا, ہر کسی کے لیے مذہب کی من چاہی تعبیر پیدا کرنے میں آسانی بھی فراہم کرے گا کہ ہم سب کے اپنے اپنے مذہب ہیں اپنی اپنی سہولتیں ہیں جو ہم اسی وقت استعمال کرتے ہیں جہاں ہمیں معاشی فوائد ہوں اس سارے تناظر میں یہی اہم نکتہ ٹھہرتا ہے اور اس کو بیان کرنے کی بھی چنداں ضرورت نہیں اورنہ لکس جیسے بیوٹی شوز کو پریشان ہونے کی, کہ جنید صاحب کی شکل میں ریمپ اور کیٹ واک اب اسلامی دھارے میں آچکے اب کوئی مذہبی شور یا آواز وہ اہمیت نہ رکھے گی کہ روشن خیالی کا آغاز ایک کیٹ واک کی چکا چوند روشنی اور سنہرے ابدان کے لہلہاتے بہاو میں شامل ہو چکا.

محمد آصف

(روزنامہ دنیا پاکستان )



عوام کی آسانی کے لئے ، بنا آپ کی اجازت کے