کیا نماز جنازہ کا بڑا ہونا کسی کے نیک ہونے کی دلیل ہے؟

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
khudaa ka banda to her insaan hai magar asal khudaa ka banda sirf aur sirf woh insaan hai jo ye maloom karne ki poori poori koshish kare keh khudaa ne us ko peda kyun kiya hai.

ye baat sirf aur sirf quraan hi bataa sakta hai kyunkeh aaj ki duniya main sirf aur sirf quraan hi woh kitaab hai jis ka dawaa hai keh woh khudaa ne bhaiji hai insaanu ke liye. is kitaab ka dawaa hai keh khudaa ne logoon ke liye deene islam bhaija hai. zahir hai deene islam logoon ko dene se khudaa ka koi na koi maqsad ho ga, issi liye ye sawaal peda hota hai woh maqsad kia hai ya kia ho sakta hai aur woh maqsad log poora kaise ker sakte hen?

kia aaj koi insaan woh maqsad jaanta hai? agar jaanta hai to bataaye? agar nahin jaanta to maloom kare.

yaad rakhen jis ko kisi baat ka maqsad hi maloom na ho woh us maqsad ko poora bhi nahin ker sakta lihaaza mullaan ki pooja chhoren aur khud ko is qaabil karen keh aap deene islam ko theek tarah se samajh saken us ka saheeh maqsad jaan ker. mullaan ne logoon ko hamesha gumrah hi kiya hai. For a detailed explanation of things about the quran, deen of islam and pakistan see HERE, HERE, HERE, HERE, HERE and HERE.
 

yankee babu

Senator (1k+ posts)
جنازے میں چالیس اَفراد کی شرکت کی برکت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ : اِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِم يَمُوتُ فَيَقُومُ عَلَى جَنَازَتِهِ اَرْبَعُوْنَ رَجُلًا لَا يُشْرِكُوْنَ بِاللهِ شَيْئًااِلَّا شَفَّعَهُمُ اللهُ فِيْهِ. ( [1] )
ترجمہ : حضرتِ سَیِّدُنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے حضورنبی رحمت ، شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس مسلمان کے جنازے میں ایسے چالیس40 آدمی شرکت کریں جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوں تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس میت کے حق میں اُن کی سفارش قبول فرماتا ہے ۔ ‘‘
فوت شدہ مسلمان پر فضل وکرم :
حدیثِ مذکور میں ہے کہ اگر کسی مسلمان کے جنازے میں چالیس ایسے مسلمان ہوں جو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ شرک نہ کرتے ہوں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس فوت شدہ مسلمان کی مغفرت فرمادیتا ہے یہ بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا اس فوت شدہ مسلمان پر بڑا فضل وکرم ہے ، اس کی رحمت بڑی وسیع ہے کہ صرف نمازِ جنازہ میں چالیس40 نیک مسلمانوں کے شرکت کرنے سے ان کی شفاعت کو بندے کے حق میں قبول فرمالیتا ہے اور اُسے بخش دیتا ہے ۔ عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافِعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’اللہتعالیٰ اُن چالیس مسلمانوں کی سفارش قبول فرماکر اُس میت کی مغفرت فرمادیتا ہے ۔ ‘‘ ( [2] )
مسلمانوں سے متقی مراد ہیں :
جن چالیس 40مسلمانوں کے نمازِ جنازہ پڑھنے سے اس فوت شدہ مسلمان کی بخشش ہوجائے گی ، ان سے مراد نیک پرہیزگار اور متقی مسلمان ہیں ۔ مُفَسِّر شہِیر ، مُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں : ’’جہاں چالیس مسلمان جمع ہوں ان میں کوئی ولی ضرور ہوتا ہے جس کی دعا قبول ہوتی ہے ، اس کی برکت سے دوسروں کی بھی ۔ خیال رہے کہ یہ ذکر ولی تشریعی کا ہے ، ولی تکوینی کی تعداد مقرر ہے کہ ہر زمانہ میں اتنے اَبدال اتنے غوث اور ایک قُطب عالم ہوں گے اورمسلمانوں سے مراد متقی مسلمان ہیں ، ورنہ سینماؤں اور تماشہ گاہوں میں سینکڑوں فُسَّاق ہوتے ہیں ۔ ‘‘ ( [3] )
ايك اِشكال اور اس كا جواب :
حدیث میں چالیس40 مسلمانوں کا ذکر ہے اگر کسی کے جنازے میں اُنتالیس ( 39 ) مسلمان ہوں تو کیا اس کی مغفرت نہ ہوگی؟ نیز کہیں چالیس ( 40 ) اَفراد کا ذکر ہے کہیں سو ( 100 ) اَفراد کا تو کہیں تین3 صفوں کا ذکر ہے ؟تو ان تمام صورتوں میں مطابقت کیسے ہوگی ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں جو تعداد ذکر کی گئی ہے یہ سوال کرنے والوں کے سوال کے مطابق ذکر کی گئی ہے نیز ایسا نہیں ہے کہ جتنے عدد حدیث میں ذکر کردئیے میت کی مغفرت اُتنے ہی افراد کی شرکت کے ساتھ مشروط ہے ، بلکہ اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ چاہے تو کم اَفراد ہونے کی صورت میں بھی مغفرت ہوجائے گی ۔ عَلَّامَہ نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’یہ احادیث سائلین کے سوال کے مطابق وجود میں آئیں کہ جب کسی نے سوال کیا تو آپ نے اس کے سوال کے مطابق جواب عطا فرمایا ۔ نیز اِس بات کا بھی احتمال ہے کہ پہلے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو سو ( 100 ) اَفراد کی شفاعت کی قبولیت کی بشارت سنائی گئی تو آپ نے اس کی خبر دی ، پھرآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو چالیس ( 40 ) اَفراد اور پھر تین 3صفوں کی شفاعت کی قبولیت کی بشارت سنائی گئی تو آپ نے اس کی خبر دی ، اگر اس سے کم عدد کی بشارت سنائی جاتی تو آپ اس کی بھی خبر دیتے ۔ لہٰذا سو ( 100 ) اَفراد والی حدیث سے یہ لازم نہیں آتا کہ سو ( 100 ) سے کم افراد ہوں تو شفاعت قبول نہ ہوگی اسی طرح چالیس ( 40 )​


[1] مسلم ، کتاب الجنائز ، باب من صلی علیہ اربعون شفعوا فیہ ، ص ۴۷۳ ، حدیث : ۹۴۸ ۔
[2] دلیل الفالحین ، باب فی الرجاء ، ۲ / ۳۳۳ ، تحت الحدیث : ۴۳۰
[3] مرآۃ المناجیح ، ۲ / ۴۷۳ ۔

ا تین صفوں سے کم اَفراد کی شفاعت قبول نہ ہوگی بلکہ ہر حدیث معمول بہا ہے اور کم سے کم عدد پر شفاعت حاصل ہوجائے گی ۔ ‘‘ ( [1] ) ( یعنی اگر تین 3صفوں میں چالیس ( 40 ) سے کم اَفراد ہیں تو بھی مغفرت ہوجائے گی اور اگر چالیس ( 40 ) اَفراد تو ہیں مگر صفیں تین سے کم ہیں تو بھی ربّ کے فضل سے شفاعت ہوجائے گی ۔ )

کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے :

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! مذکورہ حدیث پاک سے جہاں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت کا بہترین نظارہ دیکھنے کو ملا کہ فقط جنازے میں شرکت کرنے والے نیک لوگوں کے سبب میت کی مغفرت فرمادیتا ہے وہیں یہ بھی پتا چلا کہ کسی بھی شخص کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے ، ہوسکتاہے کہ وہاللہ عَزَّ وَجَلَّ کا کوئی نیک اور مغفرت یافتہ بندہ ہو اور اس کے صدقے ہماری مغفرت فرمادی جائے بلکہ بسا اوقات تو لوگوں کے کسی کو حقیر سمجھنے کے سبب بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی مغفرت فرمادیتا ہے ۔ چنانچہ حضرت سَیِّدُنَا عبد الوہاب بن عبد المجید ثقفی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : میں نے ایک جنازہ دیکھا جسے تین مرد اور ایک خاتون نے اٹھارکھا تھا ، خاتون کی جگہ میں نے اٹھالیا ، پھر ہم جنازے کو قبرستان لے گئے ، نماز جنازہ پڑھنے اور تدفین کے بعد میں نے اس خاتون سے معلوم کیا کہ میت سے آپ کا کیا رشتہ تھا؟ بولی : میرا بیٹا تھا ۔ میں نے پوچھا : پڑوسی وغیرہ جنازے میں کیوں نہیں آئے ؟ اس نے کہا : ’’انہوں نے اس کے معاملے کو حقیر سمجھ کر کوئی اہمیت نہیں دی ۔ ‘‘ میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا : ’’میرا فرزند ہیجڑا تھا ۔ ‘‘ حضرت سَیِّدُنَاعبد الوہاب بن عبد المجید ثقفی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : مجھے اس غمزدہ ماں پر بڑا رحم آیا ، میں اسے اپنے گھر لے آیا ، اسے رقم ، گیہوں اور کپڑے پیش کیے ۔ اسی رات سفید لباس میں ملبوس ایک آدمی چودھویں کے چاند کی طرح چہرہ چمکاتا ہوا میرے خواب میں آیا اور شکریہ ادا کرنے لگا ۔ میں نے پوچھا : آپ کون ہیں؟ بولا : ’’میں وہی مخنث ہوں جسے آج آپ لوگوں نے دفن کیا تھا ، لوگوں کے حقیر سمجھنے کی وجہ سے میرے ربّ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھ پر رحم فرمایا ۔ ‘‘ ( [2] )

[1] شرح مسلم للنووی ، کتاب الجنائز ، باب من صلی علیہ اربعون شفعوا فیہ ، ۴ / ۱۷ ، الجزء السابع ۔
[2] احیاء العلوم ، ۴ / ۴۴۹ ۔​
Ma ashallah bohot hi maalomati aur dichasp mazmoon hein kaafi chezai sabaq awaiz hein Allah hum sub ko amal karne ki taufiq ata farma Aammen.