ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں اور ہمارے سماج میں پدرسری جبر کا یہ عالم ہے کہ ہم نے آج بھی اپنی عورتوں کو منہ چھپانے پر مجبور کیا ہوا ہے، کوئی صاحبِ دانش میرے علم میں اضافہ کرے کہ آخر عورت کا منہ چھپانا کیوں ضروری ہے، جہاں تک میرا مشاہدہ ہے عورت کے چہرے پر ایسی کوئی اضافی چیز نہیں ہوتی جو مرد کے چہرے پر نہ ہو، عورت کا بھی ایک ناک ہوتا ہے، مرد کا بھی ایک ناک ہوتا ہے، عورت کی بھی دو آنکھیں ہوتی ہیں، ایک منہ ہوتا ہے، مرد کی بھی دو آنکھیں اور ایک منہ ہوتا ہے، جب دونوں کا چہرہ ایک ہی جیسا ہوتا ہے تو پھر کیا وجہ ہےکہ عورتوں کیلئے نقاب اور پردے کے ذریعے منہ چھپانے کی ترغیب جبکہ مرد کو کھلے منہ گھومنے کی آزادی۔
ہم نے عورت پر صدیوں کے جبر کے ذریعے منہ چھپانے کی روایت کو اس قدر راسخ کردیا ہے کہ عورت بھی اس کو اپنی زندگی کا لازمی جزو سمجھنے لگی ہے، اس کے ذہن میں یہ سوال ہی نہیں اٹھتا کہ آخر اس نے کونسا ایسا جرم یا گناہ کردیا ہے جو اس کو منہ چھپا کر رہنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ منہ تو وہ چھپاتا ہے جس نے کوئی جرم کیا ہو، کوئی گناہ کیا ہو، جس کو کوئی شرمندگی ہو، جو دنیا کا سامنا کرنے سے کتراتا ہو، وہ منہ چھپاتا ہے، عورت نے ایسا کیا گناہ کیا ہے کہ اس پر منہ چھپانے کی روایت مسلط کی جاتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس معاشرے کے مردوں کے نزدیک عورت کا وجود ہی گناہ ہے ، جرم ہے، اسی لئے عورت کو کالے کپڑوں سے ڈھانپ کر اس "جرم" پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔۔
اگر دیکھا جائے تو ڈیپ ڈاؤن یہی سبب ہے، کسی زمانے میں گھروں میں لڑکی پیدا ہوتی تھی تو گھر پر اداسی چھا جاتی تھی اور لڑکے کے پیدا ہونے پر خوشیاں منائی جاتی تھیں، عورت کے منہ کو چھپانے کی مردانہ روایت کے پیچھے یہی ذہنیت کارفرما ہے۔ دراصل ہمارے سماج کے مرد کی فرسودہ ذہنیت عورت کے ساتھ اپنا تعلق اپنی شناخت جوڑتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتی ہے، ہمارے مردوں کو شرم آتی ہے دوسروں کے سامنے یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ ان کے گھر میں کوئی بہن ہے یا بیٹی ہے، یہ پدرشاہی ذہنیت رکھنے والا سماج عورت کے وجود سے تعلق کی بنا پر ایک دوسرے سے ہی شرمندہ ہوتے پھررہے ہیں ، وگرنہ جس باپ کو اپنی بیٹی کے وجود سے شرمندگی نہ ہو، وہ کیوں اسے کہے گا کہ تم نے باہر جانا ہے تو منہ چھپا کر جانا ہے، جس بھائی کو اپنی بہن کے وجود سے شرمندگی نہ ہو، وہ کیوں اسے کہے گا کہ تم نے خود کو کالے کپڑے میں لپیٹ کر رکھنا ہے۔ اپنے گھر کی عورتوں کو ، اپنی بہن کو، اپنی بیٹی کو منہ چھپانے کی یا برقعہ اوڑھنے کی تلقین تو وہی مرد کرے گا نا جس کو ان عورتوں کے ساتھ اپنا تعلق ظاہر کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہو۔ ایک بھائی جس کیلئے اپنی بہن کا وجود باعثِ شرمندگی ہو، وہی اپنی بہن کو یہ تلقین کرتا ہے کہ تم نے باہر نکلنا ہے تو منہ چھپا کر نکلنا ہے، برقعہ اوڑھ کر نکلنا ہے، کسی کو پتا نہیں چلنا چاہئے کہ تم کون ہو، کسی کو یہ علم نہیں ہونا چاہئے کہ تمہارا مجھ سے کوئی تعلق ہے، اسی طرح جس باپ کو اپنی بیٹی کا وجود شرمندگی کا سبب لگتا ہے، وہی اپنی بیٹی کو کہتا ہے کہ تم نے باہر نکلنا ہے تو خود کو کالے کپڑوں میں لپیٹ کر ایک بے شناخت وجود کے طور پر باہر نکلنا ہے، باہر کسی کو یہ جاننے کا یہ کہنے کا موقع نہیں ملنا چاہئے کہ یہ فلاں کی بیٹی ہے، تمہارا وجود میرے لئے کلنک ہے، شرمندگی ہے۔۔
آپ لوگوں کو شاید عجیب لگے، مگر ذرا اپنا سائیکو انالسس کریں تو اندرخانے یہی ذہنیت ہے جو ہمارے سماج کے ذہنوں میں اس قدر راسخ ہوچکی ہے کہ خود ان کو احساس نہیں ہے۔ ہمارا مردانہ سماج عورت کے وجود سے شرمندہ ہے۔ وگرنہ اور کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ عورت کو چہرہ چھپا کر رکھنے پر مجبور کیا جائے۔ کیا عورت کا چہرہ بھی فحاشی کے زمرے میں آتا ہے؟ اگر کسی کو عورت کے چہرے میں فحاشی نظر آتی ہے تو ایسا شخص بیمار ذہنیت کا مالک ہے، ایسے بیمار ذہن شخص سے سب سے زیادہ خطرہ اس کے اپنے گھر کی عورتوں کو ہے، ایسے شخص کو پہلی فرصت میں نفسیاتی امراض کے ہسپتال میں داخل کروا دینا چاہئے۔ نارمل ذہن کے انسان کو نہ عورت کے چہرے میں فحاشی نظر آنی چاہئے اور نہ ہی عورت کے وجود سے شرمندہ ہونا چاہئے۔۔