یہ تینوں خبریں مسلم ممالک سے ہیں جو وہاں کے معروضی حالات، سیاسی حرکیات اور سماجی محرکیات کی عکاسی کر رہی ہیں
پہلی خبر حکومت کی جانب سے دارلحکومت اسلام آباد میں ریاستی مالی تعاون سے مندر کی تعمیر سے متعلق ہے- یہ فیصلہ جہاں اقلیتی ہندو برادری کی خواہش اور ضرورت کے تحت ہوا وہیں ریاست کے سوفٹ امیج اور پڑوسی ملک کی ہندو اکثریت کو
appease
کرنے کی ایک نمایاں کوشش بھی تھی- اگر سکھ برادری کے ایک عظیم گردوارے کی تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں اٹھا تو ایک مندر پر کیوں؟ خیر، اختلاف راۓ کیا جاسکتا ہے
دوسری خبر استنبول سے ہے جہاں ترک حکومت نے تاریخی عمارت آیا صوفیہ جو رومن دور میں گرجا رہی اور پھر کئی صدیوں تک بطور مسجد استعمال ہوئی، کو اٹھ عشروں بعد پھر سے مسجد میں بدل دیا- اگرچہ یہ اقدام بھی عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہوا مگر تجزیہ نگار اسے ایردوان حکومت کی سیاسی بازی قرار دیتے ہیں جو اپنے حامیوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے- اس فیصلے پر غیرمسلم ممالک کے تاثرات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جن کی اکثریت نے اس کی مخالفت کی- بہرحال اس صورتحال سے بہتر حکمت عملی سے نمٹا جاسکتا ہے
تیسری خبر افسوسناک بھی ہے اور قابل گرفت بھی- سعودی حکومت جو اصلاحات کے نام پر لبرل اور غیراسلامی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے اسی سلسلے کی ایک قبیح حرکت دو روز قبل صوبہ مدینہ کے علاقے ال-علا کے تاریخ علاقے میں نیم برہنہ ماڈلز کے فوٹو شوٹ سے ہوئی- اس نوعیت کے اقدامات جو اس سرزمین کی تاریخ، ثقافت، روایات، بودوباش، رہن سہن اور لوگوں کے مزاج سے مطابقت رکھیں اور نہ ہی مقامات مقدسہ کی حرمت اجازت دیں، ان کی ترویج سے حکومت کس قسم کی اصلاحات کا پیغام دینا چاہتی ہے؟ سرزمین حرمین شریفین کسی ایک خاندان یا حکومت کی اجارہ داری میں نہیں جہاں اسی قسم کی اوٹ پٹانگ حرکتوں کو فروغ دیا جاۓ- ایسی خبریں دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کاسبب بن رہی ہیں- ننگ دھڑنگ فوٹو شوٹ سے ابتداء ہے تو انتہائی اقدامات کیا ہوں گے؟
حکومت سعودیہ خدارا ہوش کے ناخن لے قبل اس کے مذہبی انتہاپسندی جنم لے اور عوام خود ان اقدامات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں
واضح رہے کہ تینوں اقدامات سیاسی ہیں اور مقصد اپنے اقتدار کو طول بخشنا ہے
پہلی خبر حکومت کی جانب سے دارلحکومت اسلام آباد میں ریاستی مالی تعاون سے مندر کی تعمیر سے متعلق ہے- یہ فیصلہ جہاں اقلیتی ہندو برادری کی خواہش اور ضرورت کے تحت ہوا وہیں ریاست کے سوفٹ امیج اور پڑوسی ملک کی ہندو اکثریت کو
appease
کرنے کی ایک نمایاں کوشش بھی تھی- اگر سکھ برادری کے ایک عظیم گردوارے کی تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں اٹھا تو ایک مندر پر کیوں؟ خیر، اختلاف راۓ کیا جاسکتا ہے
دوسری خبر استنبول سے ہے جہاں ترک حکومت نے تاریخی عمارت آیا صوفیہ جو رومن دور میں گرجا رہی اور پھر کئی صدیوں تک بطور مسجد استعمال ہوئی، کو اٹھ عشروں بعد پھر سے مسجد میں بدل دیا- اگرچہ یہ اقدام بھی عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہوا مگر تجزیہ نگار اسے ایردوان حکومت کی سیاسی بازی قرار دیتے ہیں جو اپنے حامیوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے- اس فیصلے پر غیرمسلم ممالک کے تاثرات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جن کی اکثریت نے اس کی مخالفت کی- بہرحال اس صورتحال سے بہتر حکمت عملی سے نمٹا جاسکتا ہے
تیسری خبر افسوسناک بھی ہے اور قابل گرفت بھی- سعودی حکومت جو اصلاحات کے نام پر لبرل اور غیراسلامی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے اسی سلسلے کی ایک قبیح حرکت دو روز قبل صوبہ مدینہ کے علاقے ال-علا کے تاریخ علاقے میں نیم برہنہ ماڈلز کے فوٹو شوٹ سے ہوئی- اس نوعیت کے اقدامات جو اس سرزمین کی تاریخ، ثقافت، روایات، بودوباش، رہن سہن اور لوگوں کے مزاج سے مطابقت رکھیں اور نہ ہی مقامات مقدسہ کی حرمت اجازت دیں، ان کی ترویج سے حکومت کس قسم کی اصلاحات کا پیغام دینا چاہتی ہے؟ سرزمین حرمین شریفین کسی ایک خاندان یا حکومت کی اجارہ داری میں نہیں جہاں اسی قسم کی اوٹ پٹانگ حرکتوں کو فروغ دیا جاۓ- ایسی خبریں دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کاسبب بن رہی ہیں- ننگ دھڑنگ فوٹو شوٹ سے ابتداء ہے تو انتہائی اقدامات کیا ہوں گے؟
حکومت سعودیہ خدارا ہوش کے ناخن لے قبل اس کے مذہبی انتہاپسندی جنم لے اور عوام خود ان اقدامات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں
واضح رہے کہ تینوں اقدامات سیاسی ہیں اور مقصد اپنے اقتدار کو طول بخشنا ہے