ہماری ایک دور کی عزیزہ ہیں، انہیں وہم ہوگیا کہ ان کے گھرانے پر کسی نے جادو کردیا ہے، بس پھر کیا تھا، پیروں فقیروں اور تعویز گنڈوں کا دھندہ کرنے والوں کے ہاں چکر لگانے شروع کردیئے اور شوہر کی کمائی کا ایک حصہ جادو ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کی جیب میں جانے لگا۔ میں نے کئی بار ان کا یہ وہم دور کرنے کی کوشش کی، مگر وہ نہیں مانیں، ایک بار میں نے کہا کہ یہ جادو وغیرہ کچھ نہیں ہوتا، نہ ہی ایسا کوئی علم وجود رکھتا ہے، اس پر وہ خفا ہوکر کہنے لگیں، جادو تو برحق ہے، کیا ہمارے نبی پر جادو نہیں ہوا تھا، تم جادو سے انکار کیسے کرسکتے ہو؟ اب جب بات مذہب پر آکر رک جائے تو کون سر پھوڑے۔۔ اسی طرح ہمارے پڑوس میں ایک گھر میں نوجوان لڑکا تھا، اس کو اچانک دورے پڑنے لگے، گھر والوں نے کہا اس کو جن چمٹ گئے ہیں، لہذا پیروں فقیروں اور جن نکالنے والوں کی خدمات لی جانے لگیں، وہ پیر مختلف طریقوں سے اس کا جن نکالنے کی کوشش کرتے۔ میں نے کئی بار دھیمے انداز میں ان کا دھیان نفسیاتی پہلو کی طرف دلانے کی کوشش کی کہ بھیا کسی ماہرِ نفسیات کی خدمات لو، اس کو نفسیاتی مسئلہ لگتا ہے، باتوں باتوں میں جب میں نے کہا کہ یہ جنوں بھوتوں وغیرہ کی سب کہانیاں ہوتی ہیں ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا تو آگے سے جواب ملا کہ یہ کیا بات کردی، جن تو واقعی ہوتے ہیں، قرآن میں کتنی بار جنات کا ذکر آیا ہے۔۔ اب کیا کہا جائے جب توہم پرستی کے سوتے مذہب سے پھوٹ رہے ہوں تو کس کو دوش دیا جاسکتا ہے۔۔
جیمز رینڈی، امریکہ کے ایک معروف سٹیج پرفارمر (جادوگر) اور عقلیت پسند تھے جو پچھلے سال وفات پاگئے۔ وہ سٹیج پر جادو کے کرشمے دکھایا کرتا تھا۔ اس کے بقول جادو وغیرہ محض ہاتھ کی صفائی کا کھیل ہوتا ہے اور جادو کے بارے میں عامتہ الناس میں جو تصور پایا جاتا ہے ایسا کوئی علم وجود نہیں رکھتا۔ جیمز رینڈی نے ون ملین ڈالر پیرانارمل چیلنج کے نام سے ایک انعامی چیلنج کا اعلان کیا کہ جو شخص بھی قابلِ مشاہدہ ماحول میں اسے کوئی ایسا کرتب یا عمل دکھائے جس کی کوئی عقلی توجیہہ نہ کی جاسکے تو اس کو وہ ایک ملین ڈالر کا انعام دے گا۔ یہ انعامی چیلنج پچاس سال تک برقرار رہا، جیمز رینڈی کے پاس ہزاروں لوگ جادوگری کے دعوے لے کر پہنچے، مگر کوئی بھی چیلنج پورا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ جیمز رینڈی نے تمام لوگوں کے دعوؤں کو باطل ثابت کیا اور یہ ثابت کیا کہ جادووغیرہ محض آنکھوں کو فریب دینے کا عمل ہے اور کچھ نہیں۔ جیمز رینڈی کی بے شمار ویڈیوز آپ یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔۔
ہم اکیسویں صدی میں رہتے ہیں، انسانوں کی طویل اجتماعی کاوش سے ہم آج علم کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہم جانتے ہیں کہ یہ کائنات کچھ لگے بندھے اصولوں کے تحت کام کرتی ہے اوروہ چیزیں جن کو ہم کچھ صدیوں پہلے تک پراسرار اور جادوئی سمجھتے تھے، وہ بھی اب پراسرار نہیں رہیں۔ مثلاً بارش انسان کیلئے اچنبھے کا باعث تھی کہ کیسے اچانک آسمان پر بادل امڈ آتے ہیں اور پانی برسنے لگتا ہے، چاند گرہن اور سورج گرہن ہمارے لئے حیرت کا باعث تھے، زلزلوں کا سبب ہم نہیں جانتے تھے، آسمان پر ٹمٹماتے ہوئے ستاروں کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے تھے، آج یہ سب کچھ ہمارے لئے حیرت کا باعث نہیں ہے، کیونکہ ہم نے ان کی عقلی توجیہات معلوم کرلی ہیں۔
وہ امراض جن کے بارے میں ماضی کا انسان کچھ نہیں جانتا تھا اور اس کا الزام نامعلوم قوتوں پر ڈال دیتا تھا، نفسیات کے علم نے ان امراض کے بارے میں قابلِ ذکر ترقی کی ہے، ایسے ایسے نفسیاتی امراض ہیں کہ مریض کو کوئی ایسا شخص بھی نظر آنے لگ سکتا ہے جس کا حقیقت میں وجود ہی نہ ہو، مریض اس سے باتیں کرتا ہے، اس کےساتھ وقت گزارتا ہے، مگر اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ سکزوفریننیا / شزوفرینیا کے ایسے کئے مریض سامنے آئے ہیں اور بہت سوں کا علاج کرکے وہ تندرست بھی ہوگئے۔۔ ہسٹیریا کا ایک مرض ہوتا ہے جس میں دورے پڑتے ہیں اور پاکستان جیسے معاشروں میں لوگ اس کو جنات کی کارستانی سمجھ لیتے ہیں۔ ایک اور مسئلہ ہے سلیپ پیرالسس ، جس کو شاید زندگی میں بہت سے لوگوں نے ایکسپیرئنس کیا ہو، آپ رات کو سورہے ہوں، اچانک آپ کی آنکھ کھل جائے مگر آپ اپنا وجود ہلانے سے قاصر ہوں، ایسا لگتا ہے جیسے کوئی آپ کے سینے پر چڑھ کر آپ کو دبوچے بیٹھا ہے، بعض اوقات عجیب وغریب ڈراؤنے سین بھی نظر آتے ہیں، اس کو بہت سے لوگ "دباؤ پڑنا" بھی کہتے ہیں۔ مگر یہ ایک مسئلہ ہوتا ہے جس میں دماغ پہلے ایکٹیو ہوجاتا ہے اور اس کا باڈی کے ساتھ کنیکشن کچھ دیر بعد استوار ہوتا ہے۔۔ گوگل یا یوٹیوب پر اس بارے میں کافی مواد دستیاب ہے۔۔
بات کرنے کا مقصد یہ کہ انسانی علم میں بتدریج اضافے کی بدولت بہت سے اسرار اب اسرار نہیں رہے، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ مذہب کی بدولت آج بھی ہمارے معاشرے میں جنوں بھوتوں جیسے واہموں پر یقین کیا جاتا ہے اور ہمارے معاشرے کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ جادو واقعی ہوتا ہے اور جنوں جیسی مخلوق واقعی وجود رکھتی ہے۔ یہ کس قدر احمقانہ بات ہے۔ اگر بات صرف عقیدے تک محدود ہو تو چلو درگزر کیا جاسکتا ہے، مگر ہمارے معاشرے میں تو جنوں کو لے کر ایک پورا دھندا وجود رکھتا ہے، بے شمار جعلی عامل، فریب کار پیر لوگوں کو بیوقوف بنائے ہوئے ہیں اور لوگ صرف اس لئے ان کے فریب میں آئے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے مذہب میں لکھا ہے کہ جن ہوتے ہیں اور جادو برحق ہے۔ جب توہم پرستی کی بنیاد مذہب میں گڑی ہو تو یہ ان تمام نوسرباز عاملوں اور تعویذ گنڈے کرنے والوں کے لئے سونے پر سہاگے کے مترادف ہے جن کا کاروبار لوگوں کو بیوقوف بناکر چمکا ہوا ہے۔۔
جب تک ہمارےمعاشرے میں اعتقاد کو چھوڑ کر عقل کا استعمال شروع نہیں ہوتا تب تک جھوٹ کا یہ کاروبار چلتا رہے گا۔جب انسان کے پاس علم نہیں تھا، تب انسان کی مجبوری تھی وہ مختلف واہموں میں گھرا ہوا تھا، اس کے پاس ان واہموں کی عقلی توجیہہ نہیں تھی، مگر اب ہم واہموں کے دور سے نکل کر علم کے دور میں داخل ہوچکے ہیں، کسی مفکر نے کیا خوب کہا
جیمز رینڈی، امریکہ کے ایک معروف سٹیج پرفارمر (جادوگر) اور عقلیت پسند تھے جو پچھلے سال وفات پاگئے۔ وہ سٹیج پر جادو کے کرشمے دکھایا کرتا تھا۔ اس کے بقول جادو وغیرہ محض ہاتھ کی صفائی کا کھیل ہوتا ہے اور جادو کے بارے میں عامتہ الناس میں جو تصور پایا جاتا ہے ایسا کوئی علم وجود نہیں رکھتا۔ جیمز رینڈی نے ون ملین ڈالر پیرانارمل چیلنج کے نام سے ایک انعامی چیلنج کا اعلان کیا کہ جو شخص بھی قابلِ مشاہدہ ماحول میں اسے کوئی ایسا کرتب یا عمل دکھائے جس کی کوئی عقلی توجیہہ نہ کی جاسکے تو اس کو وہ ایک ملین ڈالر کا انعام دے گا۔ یہ انعامی چیلنج پچاس سال تک برقرار رہا، جیمز رینڈی کے پاس ہزاروں لوگ جادوگری کے دعوے لے کر پہنچے، مگر کوئی بھی چیلنج پورا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ جیمز رینڈی نے تمام لوگوں کے دعوؤں کو باطل ثابت کیا اور یہ ثابت کیا کہ جادووغیرہ محض آنکھوں کو فریب دینے کا عمل ہے اور کچھ نہیں۔ جیمز رینڈی کی بے شمار ویڈیوز آپ یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔۔
ہم اکیسویں صدی میں رہتے ہیں، انسانوں کی طویل اجتماعی کاوش سے ہم آج علم کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہم جانتے ہیں کہ یہ کائنات کچھ لگے بندھے اصولوں کے تحت کام کرتی ہے اوروہ چیزیں جن کو ہم کچھ صدیوں پہلے تک پراسرار اور جادوئی سمجھتے تھے، وہ بھی اب پراسرار نہیں رہیں۔ مثلاً بارش انسان کیلئے اچنبھے کا باعث تھی کہ کیسے اچانک آسمان پر بادل امڈ آتے ہیں اور پانی برسنے لگتا ہے، چاند گرہن اور سورج گرہن ہمارے لئے حیرت کا باعث تھے، زلزلوں کا سبب ہم نہیں جانتے تھے، آسمان پر ٹمٹماتے ہوئے ستاروں کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے تھے، آج یہ سب کچھ ہمارے لئے حیرت کا باعث نہیں ہے، کیونکہ ہم نے ان کی عقلی توجیہات معلوم کرلی ہیں۔
وہ امراض جن کے بارے میں ماضی کا انسان کچھ نہیں جانتا تھا اور اس کا الزام نامعلوم قوتوں پر ڈال دیتا تھا، نفسیات کے علم نے ان امراض کے بارے میں قابلِ ذکر ترقی کی ہے، ایسے ایسے نفسیاتی امراض ہیں کہ مریض کو کوئی ایسا شخص بھی نظر آنے لگ سکتا ہے جس کا حقیقت میں وجود ہی نہ ہو، مریض اس سے باتیں کرتا ہے، اس کےساتھ وقت گزارتا ہے، مگر اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ سکزوفریننیا / شزوفرینیا کے ایسے کئے مریض سامنے آئے ہیں اور بہت سوں کا علاج کرکے وہ تندرست بھی ہوگئے۔۔ ہسٹیریا کا ایک مرض ہوتا ہے جس میں دورے پڑتے ہیں اور پاکستان جیسے معاشروں میں لوگ اس کو جنات کی کارستانی سمجھ لیتے ہیں۔ ایک اور مسئلہ ہے سلیپ پیرالسس ، جس کو شاید زندگی میں بہت سے لوگوں نے ایکسپیرئنس کیا ہو، آپ رات کو سورہے ہوں، اچانک آپ کی آنکھ کھل جائے مگر آپ اپنا وجود ہلانے سے قاصر ہوں، ایسا لگتا ہے جیسے کوئی آپ کے سینے پر چڑھ کر آپ کو دبوچے بیٹھا ہے، بعض اوقات عجیب وغریب ڈراؤنے سین بھی نظر آتے ہیں، اس کو بہت سے لوگ "دباؤ پڑنا" بھی کہتے ہیں۔ مگر یہ ایک مسئلہ ہوتا ہے جس میں دماغ پہلے ایکٹیو ہوجاتا ہے اور اس کا باڈی کے ساتھ کنیکشن کچھ دیر بعد استوار ہوتا ہے۔۔ گوگل یا یوٹیوب پر اس بارے میں کافی مواد دستیاب ہے۔۔
بات کرنے کا مقصد یہ کہ انسانی علم میں بتدریج اضافے کی بدولت بہت سے اسرار اب اسرار نہیں رہے، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ مذہب کی بدولت آج بھی ہمارے معاشرے میں جنوں بھوتوں جیسے واہموں پر یقین کیا جاتا ہے اور ہمارے معاشرے کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ جادو واقعی ہوتا ہے اور جنوں جیسی مخلوق واقعی وجود رکھتی ہے۔ یہ کس قدر احمقانہ بات ہے۔ اگر بات صرف عقیدے تک محدود ہو تو چلو درگزر کیا جاسکتا ہے، مگر ہمارے معاشرے میں تو جنوں کو لے کر ایک پورا دھندا وجود رکھتا ہے، بے شمار جعلی عامل، فریب کار پیر لوگوں کو بیوقوف بنائے ہوئے ہیں اور لوگ صرف اس لئے ان کے فریب میں آئے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے مذہب میں لکھا ہے کہ جن ہوتے ہیں اور جادو برحق ہے۔ جب توہم پرستی کی بنیاد مذہب میں گڑی ہو تو یہ ان تمام نوسرباز عاملوں اور تعویذ گنڈے کرنے والوں کے لئے سونے پر سہاگے کے مترادف ہے جن کا کاروبار لوگوں کو بیوقوف بناکر چمکا ہوا ہے۔۔
جب تک ہمارےمعاشرے میں اعتقاد کو چھوڑ کر عقل کا استعمال شروع نہیں ہوتا تب تک جھوٹ کا یہ کاروبار چلتا رہے گا۔جب انسان کے پاس علم نہیں تھا، تب انسان کی مجبوری تھی وہ مختلف واہموں میں گھرا ہوا تھا، اس کے پاس ان واہموں کی عقلی توجیہہ نہیں تھی، مگر اب ہم واہموں کے دور سے نکل کر علم کے دور میں داخل ہوچکے ہیں، کسی مفکر نے کیا خوب کہا
The age of believing is over. We're in the age of knowing ۔۔۔۔۔
جنوں کے بارے میں ہماری قوم کس قدر سنجیدہ ہے، اس کا اندازہ اس ایک ویڈیو سے لگایا جاسکتا ہے جس میں ٹی وی پر بیٹھ کر ایک شخص بتلا رہا ہے کہ جنوں کے پولیس سٹیشن بھی ہوتے ہیں اور جنوں کے ہاں حکومتیں ہوتی ہیں اور ان کی آپس میں تجارت ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ اور اینکر صاحب کس قدر سنجیدگی سے اس کے ساتھ بحث مباحثے میں مصروف ہیں، اگر پاکستان میں سروے کروایا جائے کہ کتنے لوگ ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ جن نامی کوئی مخلوق واقعی ہوتی ہے، مجھے یقین ہے مسلمانوں میں سے تو شاید نوے فیصد سے زائد ہاں میں جواب دیں گے۔۔