مگر شورش کاشمیری کی پیشینگوئیاں غیرحقیقی ہیں۔
کاشمیری صاحب فرماتے ہیں۔
"عالمی طاقتیں سکھوں کو بھڑکا کر مطالبہ کرادیں گیں کہ مغربی پنجاب انکے گورووں کا مولد، مسکن اور مرگھٹ ہے۔ لہذا ان کا اس علاقہ پر وہی حق ہے جو یہودیوں کا فلسطین( اسرائیل )پرتھا۔ اور انہیں وطن مل گیا۔ عالمی طاقتوں کے اشارے پر سکھ حملہ آور ہونگے۔ اس کا نام شاید پولیس ایکشن ہو۔ جانبین میں لڑائی ہو گی۔ مگر عالمی طاقتیں پلان کے مطابق مداخلت کرکے اس طرح لڑائی بند کرادیں گیں کہ پاکستانی پنجاب بھارتی پنجاب سے پیوست ہو کر سکھ احمدی ریاست بن جائے گا۔ جس کا نقشہ اس طرح ہوگا کہ صوبے کا صدر سکھ تووزیراعظم احمدی ہوگا"
یہ کہانی انتہائی بے سودہ ہے۔ کیونکہ پاکستانی قوم عالمی طاقتوں کی طرف سے اس طرح کی بندر بانٹ کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گی۔ اور پاکستانی فوج بھی بیان دے چکی ہے کہ آخری گولی اور آخری انسان کی آخری سانس تک لڑیں گے۔ اور جب لڑائی اس حد تک چلی جاتی ہے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ جبکہ کاشمیری صاحب نے اپنی اس بناوٹی کہانی میں بہت آسانی کے ساتھ صدر اور وزیراعظم کا انتخاب بھی فرما دیا۔
کاشمیری صاحب کا مفروضہ یہ ہے کہ حالات انتہائی تباہ کن حالت (ایٹمی جنگ) تک نہیں جائیں گے اور پاکستانی قوم عالمی طاقتوں کی بندر بانٹ کے فیصلے کو قبول کر لے گی۔ اس مفروضے کا اظہار انہوں نے اس صفحہ کے بالکل شروع میں کیا جس کے ذریعے وہ اپنے دور کے قارئین کو دلیل کے ساتھ قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
فرماتے ہیں۔
"پاکستان میں ایٹمی توانائی کے سربراہ عبدالسلام بھی قادیانی ہیں۔
ظفراللہ خان، ایم۔ایم۔ احمد اور عبدالسلام تینوں ہی پاکستان سے باہر لندن کی جلوہ گاہ میں رہتے اور واشنگٹن کے اشارہ ابرو پر رقص کرتے ہیں۔"
کاشمیری صاحب کے ہاتھوں قائل ہونے والے افراد اپنے یقین کو جوں کا توں لیے بیٹھے ہیں۔ اور اپنے یقین کواپنے ملک کی بھلائی کی نیت سے آگے بھی پھیلا رہیں ہیں۔ مگر وہ بھول گئے ہیں کہ حالات اب بدل چکے ہیں۔ وہ تمام اشخاص جن کا ذکر کاشمیری صاحب نے صفحہ کے بالکل شروع میں کیا ہے وہ اس وقت ایٹمی توانائی میں موجود نہیں ہیں۔ اور شاید سب کے سب وفات پا چکے ہیں۔
اور کاشمیری صاحب کی پیشین گوئی کے مطابق اگر موجود دور میں بھی پاکستان کا ایٹمی پروگرام غداروں کے ہاتھوں میں ہے تو کاشمیری صاحب کا پیغام پھیلانے والوں کو سکھوں اور قادیانیوں کی طرف سے پریشان ہونے کی بجائے اپنے ایٹمی پروگرام کے لئے فکر کرنی چاہیے۔ اور ان غداروں پر حملہ کرکے ان سے اپنے ایٹمی پروگرام کو آزاد کروانا چاہئے۔
ایک لمحے کے لیے کاشمیری صاحب کی تمام تواہمات کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس حکومت نے ان تمام سازشوں کو اس خوبصورتی سے ناکام کیا ہے کہ نہ تو سکھوں کو حملہ کرنا پڑا، نہ ہی قادیانیوں کا وزیراعظم بنا، نہ ہی عالمی طاقتوں کو بیچ میں آنا پڑا، نہ ہی پاکستان کے صوبے علیحدہ علیحدہ ریاست بنے، نہ ہی مغربی پنجاب پاکستان سے علیحدہ ہوا اور ساتھ کے ساتھ سکھوں کو پاکستان پر حملہ کرنے کا جواز بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا کیونکہ اب وہ اپنے آپ کو پاکستان کا مقروض سمجھ رہے ہیں۔ وہ جب چاہیں پنجاب آکر اپنی ہر طرح کی مذہبی رسومات ادا کر سکتے ہیں۔ اس طرح وہ تمام مقامات پاکستان کے قبضے میں بھی ہیں اور اسں پر پاکستان کو زرمبادلہ بھی مل رہا ہے۔ عالمی سطح پر ہمارے سابقہ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے اسلام اور پاکستان کا جو تشخص مجروح ہوا تھا وہ بھی بحال ہورہا ہے۔
کاشمیری صاحب فرماتے ہیں۔
"عالمی طاقتیں سکھوں کو بھڑکا کر مطالبہ کرادیں گیں کہ مغربی پنجاب انکے گورووں کا مولد، مسکن اور مرگھٹ ہے۔ لہذا ان کا اس علاقہ پر وہی حق ہے جو یہودیوں کا فلسطین( اسرائیل )پرتھا۔ اور انہیں وطن مل گیا۔ عالمی طاقتوں کے اشارے پر سکھ حملہ آور ہونگے۔ اس کا نام شاید پولیس ایکشن ہو۔ جانبین میں لڑائی ہو گی۔ مگر عالمی طاقتیں پلان کے مطابق مداخلت کرکے اس طرح لڑائی بند کرادیں گیں کہ پاکستانی پنجاب بھارتی پنجاب سے پیوست ہو کر سکھ احمدی ریاست بن جائے گا۔ جس کا نقشہ اس طرح ہوگا کہ صوبے کا صدر سکھ تووزیراعظم احمدی ہوگا"
یہ کہانی انتہائی بے سودہ ہے۔ کیونکہ پاکستانی قوم عالمی طاقتوں کی طرف سے اس طرح کی بندر بانٹ کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گی۔ اور پاکستانی فوج بھی بیان دے چکی ہے کہ آخری گولی اور آخری انسان کی آخری سانس تک لڑیں گے۔ اور جب لڑائی اس حد تک چلی جاتی ہے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ جبکہ کاشمیری صاحب نے اپنی اس بناوٹی کہانی میں بہت آسانی کے ساتھ صدر اور وزیراعظم کا انتخاب بھی فرما دیا۔
کاشمیری صاحب کا مفروضہ یہ ہے کہ حالات انتہائی تباہ کن حالت (ایٹمی جنگ) تک نہیں جائیں گے اور پاکستانی قوم عالمی طاقتوں کی بندر بانٹ کے فیصلے کو قبول کر لے گی۔ اس مفروضے کا اظہار انہوں نے اس صفحہ کے بالکل شروع میں کیا جس کے ذریعے وہ اپنے دور کے قارئین کو دلیل کے ساتھ قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
فرماتے ہیں۔
"پاکستان میں ایٹمی توانائی کے سربراہ عبدالسلام بھی قادیانی ہیں۔
ظفراللہ خان، ایم۔ایم۔ احمد اور عبدالسلام تینوں ہی پاکستان سے باہر لندن کی جلوہ گاہ میں رہتے اور واشنگٹن کے اشارہ ابرو پر رقص کرتے ہیں۔"
کاشمیری صاحب کے ہاتھوں قائل ہونے والے افراد اپنے یقین کو جوں کا توں لیے بیٹھے ہیں۔ اور اپنے یقین کواپنے ملک کی بھلائی کی نیت سے آگے بھی پھیلا رہیں ہیں۔ مگر وہ بھول گئے ہیں کہ حالات اب بدل چکے ہیں۔ وہ تمام اشخاص جن کا ذکر کاشمیری صاحب نے صفحہ کے بالکل شروع میں کیا ہے وہ اس وقت ایٹمی توانائی میں موجود نہیں ہیں۔ اور شاید سب کے سب وفات پا چکے ہیں۔
اور کاشمیری صاحب کی پیشین گوئی کے مطابق اگر موجود دور میں بھی پاکستان کا ایٹمی پروگرام غداروں کے ہاتھوں میں ہے تو کاشمیری صاحب کا پیغام پھیلانے والوں کو سکھوں اور قادیانیوں کی طرف سے پریشان ہونے کی بجائے اپنے ایٹمی پروگرام کے لئے فکر کرنی چاہیے۔ اور ان غداروں پر حملہ کرکے ان سے اپنے ایٹمی پروگرام کو آزاد کروانا چاہئے۔
ایک لمحے کے لیے کاشمیری صاحب کی تمام تواہمات کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس حکومت نے ان تمام سازشوں کو اس خوبصورتی سے ناکام کیا ہے کہ نہ تو سکھوں کو حملہ کرنا پڑا، نہ ہی قادیانیوں کا وزیراعظم بنا، نہ ہی عالمی طاقتوں کو بیچ میں آنا پڑا، نہ ہی پاکستان کے صوبے علیحدہ علیحدہ ریاست بنے، نہ ہی مغربی پنجاب پاکستان سے علیحدہ ہوا اور ساتھ کے ساتھ سکھوں کو پاکستان پر حملہ کرنے کا جواز بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا کیونکہ اب وہ اپنے آپ کو پاکستان کا مقروض سمجھ رہے ہیں۔ وہ جب چاہیں پنجاب آکر اپنی ہر طرح کی مذہبی رسومات ادا کر سکتے ہیں۔ اس طرح وہ تمام مقامات پاکستان کے قبضے میں بھی ہیں اور اسں پر پاکستان کو زرمبادلہ بھی مل رہا ہے۔ عالمی سطح پر ہمارے سابقہ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے اسلام اور پاکستان کا جو تشخص مجروح ہوا تھا وہ بھی بحال ہورہا ہے۔
Screenshot-20191114-104541-Whats-App
Image Screenshot-20191114-104541-Whats-App hosted in imgbb.com
ibb.co