کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں
آپ نے یہ منقولہ تو بچپن سے سنا ہوگا مگر کے پیچھے کی داستان کا نہیں پتا ہوگا ۔
کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے، پٹیالہ کے سب سے بااثر بڑے جاگیردار اور گاؤں کے پنچایتی سرپنچ بھی تھے،
ایک دن معملات سے تنگ آکر بھانجے کے پاس پہنچے اور کہا کہ شہر کے سیشن جج کی کرسی خالی ہے مجھے جج لگوا دے،
(ان دنوں کسی بھی سیشن جج کے آڈر انگریز وائسراۓ کرتے تھے)
بھانجے سے چھٹی لکھوا کر کھڑک سنگھ وائسرائے کے پاس جاپہنچے، وائسرائے نے خط پڑھا
وائسرائے۔ نام؟
کھڑک سنگھ'
وائسرائے۔ تعلیم؟
کھڑک سنگھ۔ "تسی مینو جج لانا ہے یا سکول ماسٹر؟"
وائسرائے ہنستے ہوئے 'سردار جی میرا مطلب قانون کی کوئی تعلیم بھی حاصل کی ہے یا نہیں اچھے برے کی پہچان کیسے کرو گے'؟
کھڑک سنگھ نے موچھوں کو تاؤ دیا اور بولے " بس اتنی سی بات بھلا اتنے سے کام کے لیے گدھوں کی طرح کتابوں کا بوجھ کیوں اٹھاؤ میں سالوں سے پنچائت کے فیصلے کرتا آرہا ہوں ایک نظر میں بھلے چنگے کی تمیز کرلیتا ہوں"
وائسرائے نے سوچا کہ بھلا کون مہاراجہ سے الجھے جن نے سفارش کی ہے وہ جانے اور اس کا ماموں، عرضی پر دستخط کردیے اور کھڑک سنگھ جسٹس کا فرمان جاری کردیا۔
اب کھڑک سنگھ پٹیالہ لوٹے اور اگلے دن بطور جسٹس کمرہ عدالت میں پہنچے اتفاق سے پہلا کیس قتل کا تھا،،
کٹہرے میں ایک طرف چار ملزم اور دوسری جانب ایک روتی خاتون تھی ۔
جسٹس صاحب نے کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے فریقین کو غور سے دیکھ لیا اور معاملہ سمجھ گئے ۔
۔
ایک پولیس افسر کچھ کاغذ لے کر آیا اور بولا 'مائی لاڈ یہ عورت کرانتی کور ہے اس کا الزام ہے کہ ان چار لوگوں نے اس کے شوہر کو قتل کیا ہے'
جسٹس کھڑک سنگھ نے عورت سے تفصیل پوچھی۔
عورت بولی- "سرکار دائیں جانب والے کے ہاتھ میں برچھا تھا اور برابر والے کے ہاتھ میں رانتی اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں سوٹے تھے، یہ چاروں کماد کے اولے سے نکلے اور کھسم کو مار مار کر جان سے مار دیا"
جسٹس کھڑک سنگھ نے چاروں کو غصہ سے دیکھا اور پوچھا 'کیوں بدمعاشو تم نے بندہ مار دیا'؟
دائیں طرف کھڑے بندے نے کہا 'نہ جی سرکار میرے ہاتھ میں تو کئی تھی دوسرے نے کہا میرے ہاتھ میں بھی درانتی نہیں تھی ہم تو صرف بات کرنے گئے تھے اور ہمارا مقصد صرف سمجھایا تھا"
کھڑک سنگھ نے غصہ سے کہا جو بھی ہو بندہ تو مرگیا نا؟
پھر قلم پکڑ کر کچھ لکھنے لگے تو اچانک ایک کالا کوٹ پہنے شخص کھڑا ہوا اور بولا مائی لاڈ رکھئے "یہ کیس بڑا پیچیدہ ہے یہ ایک زمین کا پھڈا تھا اور جس زمین پر ہوا وہ زمین بھی ملزمان کی ہے بھلا مقتول وہاں کیوں گیا؟
جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر سے پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے ؟
'جناب یہ ان چاروں کا وکیل ہے' پولیس والے نے جواب دیا۔
تو انہیں کا بندہ ہوا نا جو ان کی طرف سے بات کررہا ہے، پھر کھڑک سنگھ نے وکیل صفائی کو بھی ان چاروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا کہا پھر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کردیے ۔
فیصلے میں لکھا تھا ( ان چاروں قاتلوں اور ان کے وکیل کو کل صبح صادق پھانسی پر لٹکا دیا جاۓ)
پٹیالہ میں ہلچل مچ گئی ہر لوگ کھڑک سنگھ کے نام سے تھر تھر کامپنے لگے کہ کھڑک سنگھ مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی پھانسی دیتا ہے، اچانک جرائم کی شرح صفر ہوگئی، کوئی وکیل کسی مجرم کا کیس نا پکڑتا، جب تک کھڑک سنگھ پٹیالہ جج رہیں ریاست میں خوب امن رہا آس پڑوس کی ریاست سے لوگ اپنے کیس کھڑک سنگھ کی عدالت میں لاتے اور فوری انصاف پاتے۔
اس واقعہ میں دور حاضر کے پڑھے لکھے ججوں کے لیے ایک گہرا سبق ہے کہ اگر انصاف فوری اور مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی سزا ملنے لگے تو ملک میں جرائم کی شرح صفر
ہوجاۓ گی
140140615_4148025221879017_8843503513367048716_n.jpg
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں
آپ نے یہ منقولہ تو بچپن سے سنا ہوگا مگر کے پیچھے کی داستان کا نہیں پتا ہوگا ۔
کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے، پٹیالہ کے سب سے بااثر بڑے جاگیردار اور گاؤں کے پنچایتی سرپنچ بھی تھے،
ایک دن معملات سے تنگ آکر بھانجے کے پاس پہنچے اور کہا کہ شہر کے سیشن جج کی کرسی خالی ہے مجھے جج لگوا دے،
(ان دنوں کسی بھی سیشن جج کے آڈر انگریز وائسراۓ کرتے تھے)
بھانجے سے چھٹی لکھوا کر کھڑک سنگھ وائسرائے کے پاس جاپہنچے، وائسرائے نے خط پڑھا
وائسرائے۔ نام؟
کھڑک سنگھ'
وائسرائے۔ تعلیم؟
کھڑک سنگھ۔ "تسی مینو جج لانا ہے یا سکول ماسٹر؟"
وائسرائے ہنستے ہوئے 'سردار جی میرا مطلب قانون کی کوئی تعلیم بھی حاصل کی ہے یا نہیں اچھے برے کی پہچان کیسے کرو گے'؟
کھڑک سنگھ نے موچھوں کو تاؤ دیا اور بولے " بس اتنی سی بات بھلا اتنے سے کام کے لیے گدھوں کی طرح کتابوں کا بوجھ کیوں اٹھاؤ میں سالوں سے پنچائت کے فیصلے کرتا آرہا ہوں ایک نظر میں بھلے چنگے کی تمیز کرلیتا ہوں"
وائسرائے نے سوچا کہ بھلا کون مہاراجہ سے الجھے جن نے سفارش کی ہے وہ جانے اور اس کا ماموں، عرضی پر دستخط کردیے اور کھڑک سنگھ جسٹس کا فرمان جاری کردیا۔
اب کھڑک سنگھ پٹیالہ لوٹے اور اگلے دن بطور جسٹس کمرہ عدالت میں پہنچے اتفاق سے پہلا کیس قتل کا تھا،،
کٹہرے میں ایک طرف چار ملزم اور دوسری جانب ایک روتی خاتون تھی ۔
جسٹس صاحب نے کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے فریقین کو غور سے دیکھ لیا اور معاملہ سمجھ گئے ۔
۔
ایک پولیس افسر کچھ کاغذ لے کر آیا اور بولا 'مائی لاڈ یہ عورت کرانتی کور ہے اس کا الزام ہے کہ ان چار لوگوں نے اس کے شوہر کو قتل کیا ہے'
جسٹس کھڑک سنگھ نے عورت سے تفصیل پوچھی۔
عورت بولی- "سرکار دائیں جانب والے کے ہاتھ میں برچھا تھا اور برابر والے کے ہاتھ میں رانتی اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں سوٹے تھے، یہ چاروں کماد کے اولے سے نکلے اور کھسم کو مار مار کر جان سے مار دیا"
جسٹس کھڑک سنگھ نے چاروں کو غصہ سے دیکھا اور پوچھا 'کیوں بدمعاشو تم نے بندہ مار دیا'؟
دائیں طرف کھڑے بندے نے کہا 'نہ جی سرکار میرے ہاتھ میں تو کئی تھی دوسرے نے کہا میرے ہاتھ میں بھی درانتی نہیں تھی ہم تو صرف بات کرنے گئے تھے اور ہمارا مقصد صرف سمجھایا تھا"
کھڑک سنگھ نے غصہ سے کہا جو بھی ہو بندہ تو مرگیا نا؟
پھر قلم پکڑ کر کچھ لکھنے لگے تو اچانک ایک کالا کوٹ پہنے شخص کھڑا ہوا اور بولا مائی لاڈ رکھئے "یہ کیس بڑا پیچیدہ ہے یہ ایک زمین کا پھڈا تھا اور جس زمین پر ہوا وہ زمین بھی ملزمان کی ہے بھلا مقتول وہاں کیوں گیا؟
جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر سے پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے ؟
'جناب یہ ان چاروں کا وکیل ہے' پولیس والے نے جواب دیا۔
تو انہیں کا بندہ ہوا نا جو ان کی طرف سے بات کررہا ہے، پھر کھڑک سنگھ نے وکیل صفائی کو بھی ان چاروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا کہا پھر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کردیے ۔
فیصلے میں لکھا تھا ( ان چاروں قاتلوں اور ان کے وکیل کو کل صبح صادق پھانسی پر لٹکا دیا جاۓ)
پٹیالہ میں ہلچل مچ گئی ہر لوگ کھڑک سنگھ کے نام سے تھر تھر کامپنے لگے کہ کھڑک سنگھ مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی پھانسی دیتا ہے، اچانک جرائم کی شرح صفر ہوگئی، کوئی وکیل کسی مجرم کا کیس نا پکڑتا، جب تک کھڑک سنگھ پٹیالہ جج رہیں ریاست میں خوب امن رہا آس پڑوس کی ریاست سے لوگ اپنے کیس کھڑک سنگھ کی عدالت میں لاتے اور فوری انصاف پاتے۔
اس واقعہ میں دور حاضر کے پڑھے لکھے ججوں کے لیے ایک گہرا سبق ہے کہ اگر انصاف فوری اور مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی سزا ملنے لگے تو ملک میں جرائم کی شرح صفر
ہوجاۓ گی
140140615_4148025221879017_8843503513367048716_n.jpg


اعلیٰ اعلیٰ، بہت اعلیٰ
کھڑک ماڈل تو چائنا ماڈل، سعودی ماڈل، ایرانی ماڈل، نارتھ کوریائی ماڈل، سارے ماڈلوں کو پیچھے چھوڑ گیا
پاکستان کے ہر صوبے میں پندرہ پندرہ کیسز میں اگر کھڑک ماڈل اپلائی ہو جائے تو جرائم کا خاتمہ تو یہاں بھی ممکن ہے

ویسے سہیل بڑا زبردست ماڈل ڈھونڈا ہے آپ نے . کل جیتے گۓ پنکھے کے ساتھ ایکسٹینشن وائر بھی آپ کی ہوئی
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں
آپ نے یہ منقولہ تو بچپن سے سنا ہوگا مگر کے پیچھے کی داستان کا نہیں پتا ہوگا ۔
کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے، پٹیالہ کے سب سے بااثر بڑے جاگیردار اور گاؤں کے پنچایتی سرپنچ بھی تھے،
ایک دن معملات سے تنگ آکر بھانجے کے پاس پہنچے اور کہا کہ شہر کے سیشن جج کی کرسی خالی ہے مجھے جج لگوا دے،
(ان دنوں کسی بھی سیشن جج کے آڈر انگریز وائسراۓ کرتے تھے)
بھانجے سے چھٹی لکھوا کر کھڑک سنگھ وائسرائے کے پاس جاپہنچے، وائسرائے نے خط پڑھا
وائسرائے۔ نام؟
کھڑک سنگھ'
وائسرائے۔ تعلیم؟
کھڑک سنگھ۔ "تسی مینو جج لانا ہے یا سکول ماسٹر؟"
وائسرائے ہنستے ہوئے 'سردار جی میرا مطلب قانون کی کوئی تعلیم بھی حاصل کی ہے یا نہیں اچھے برے کی پہچان کیسے کرو گے'؟
کھڑک سنگھ نے موچھوں کو تاؤ دیا اور بولے " بس اتنی سی بات بھلا اتنے سے کام کے لیے گدھوں کی طرح کتابوں کا بوجھ کیوں اٹھاؤ میں سالوں سے پنچائت کے فیصلے کرتا آرہا ہوں ایک نظر میں بھلے چنگے کی تمیز کرلیتا ہوں"
وائسرائے نے سوچا کہ بھلا کون مہاراجہ سے الجھے جن نے سفارش کی ہے وہ جانے اور اس کا ماموں، عرضی پر دستخط کردیے اور کھڑک سنگھ جسٹس کا فرمان جاری کردیا۔
اب کھڑک سنگھ پٹیالہ لوٹے اور اگلے دن بطور جسٹس کمرہ عدالت میں پہنچے اتفاق سے پہلا کیس قتل کا تھا،،
کٹہرے میں ایک طرف چار ملزم اور دوسری جانب ایک روتی خاتون تھی ۔
جسٹس صاحب نے کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے فریقین کو غور سے دیکھ لیا اور معاملہ سمجھ گئے ۔
۔
ایک پولیس افسر کچھ کاغذ لے کر آیا اور بولا 'مائی لاڈ یہ عورت کرانتی کور ہے اس کا الزام ہے کہ ان چار لوگوں نے اس کے شوہر کو قتل کیا ہے'
جسٹس کھڑک سنگھ نے عورت سے تفصیل پوچھی۔
عورت بولی- "سرکار دائیں جانب والے کے ہاتھ میں برچھا تھا اور برابر والے کے ہاتھ میں رانتی اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں سوٹے تھے، یہ چاروں کماد کے اولے سے نکلے اور کھسم کو مار مار کر جان سے مار دیا"
جسٹس کھڑک سنگھ نے چاروں کو غصہ سے دیکھا اور پوچھا 'کیوں بدمعاشو تم نے بندہ مار دیا'؟
دائیں طرف کھڑے بندے نے کہا 'نہ جی سرکار میرے ہاتھ میں تو کئی تھی دوسرے نے کہا میرے ہاتھ میں بھی درانتی نہیں تھی ہم تو صرف بات کرنے گئے تھے اور ہمارا مقصد صرف سمجھایا تھا"
کھڑک سنگھ نے غصہ سے کہا جو بھی ہو بندہ تو مرگیا نا؟
پھر قلم پکڑ کر کچھ لکھنے لگے تو اچانک ایک کالا کوٹ پہنے شخص کھڑا ہوا اور بولا مائی لاڈ رکھئے "یہ کیس بڑا پیچیدہ ہے یہ ایک زمین کا پھڈا تھا اور جس زمین پر ہوا وہ زمین بھی ملزمان کی ہے بھلا مقتول وہاں کیوں گیا؟
جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر سے پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے ؟
'جناب یہ ان چاروں کا وکیل ہے' پولیس والے نے جواب دیا۔
تو انہیں کا بندہ ہوا نا جو ان کی طرف سے بات کررہا ہے، پھر کھڑک سنگھ نے وکیل صفائی کو بھی ان چاروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا کہا پھر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کردیے ۔
فیصلے میں لکھا تھا ( ان چاروں قاتلوں اور ان کے وکیل کو کل صبح صادق پھانسی پر لٹکا دیا جاۓ)
پٹیالہ میں ہلچل مچ گئی ہر لوگ کھڑک سنگھ کے نام سے تھر تھر کامپنے لگے کہ کھڑک سنگھ مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی پھانسی دیتا ہے، اچانک جرائم کی شرح صفر ہوگئی، کوئی وکیل کسی مجرم کا کیس نا پکڑتا، جب تک کھڑک سنگھ پٹیالہ جج رہیں ریاست میں خوب امن رہا آس پڑوس کی ریاست سے لوگ اپنے کیس کھڑک سنگھ کی عدالت میں لاتے اور فوری انصاف پاتے۔
اس واقعہ میں دور حاضر کے پڑھے لکھے ججوں کے لیے ایک گہرا سبق ہے کہ اگر انصاف فوری اور مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی سزا ملنے لگے تو ملک میں جرائم کی شرح صفر
ہوجاۓ گی
140140615_4148025221879017_8843503513367048716_n.jpg


کیا آپ مجھے کہیں سیشن جج لگوا سکتے ہیں
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
اس وقت ملک پر قبضہ تھا
آج کل عوام اپنی مرضی سے چوروں کو ووٹ دیتی ہے
سو ان کو بھگتنا پڑے گا
لیکن کہانی اچھی ہے


ساری عوام اپنی مرضی سے ووٹ نہیں دیتی ..کہیں برادری کی دھونس تو کہیں ڈنڈے کا زور ..اور اس سب کے بعد پردہ نشین فیصلہ کرتے ہیں کہ اب کے کس کی باری ہے .
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
اگر ملک کی قسمت بدلنی ہے تو عدلیہ کی قسمت کا فیصلہ پہلے ہمیں کرنے دیں
میں خود کو کھڑک سنگھ کے عہدے پر فائز کرتے ہوئے تمام کرپٹ ججز اور کرپٹ وکلا کو بیچ چوراہے پر پھانسی دینے کا حکم دیتی ہوں .
:pakistanflag
 

rtabasum2

Chief Minister (5k+ posts)
Only Army can do it....if it wants to plus the whole system will collapse if somebody honest shows up,,,,,Bureaucracy does not want to work because of NAB so that Govt had to announce that no NAB cases will be filed against them........so RIP
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
اعلیٰ اعلیٰ، بہت اعلیٰ
کھڑک ماڈل تو چائنا ماڈل، سعودی ماڈل، ایرانی ماڈل، نارتھ کوریائی ماڈل، سارے ماڈلوں کو پیچھے چھوڑ گیا
پاکستان کے ہر صوبے میں پندرہ پندرہ کیسز میں اگر کھڑک ماڈل اپلائی ہو جائے تو جرائم کا خاتمہ تو یہاں بھی ممکن ہے

ویسے سہیل بڑا زبردست ماڈل ڈھونڈا ہے آپ نے . کل جیتے گۓ پنکھے کے ساتھ ایکسٹینشن وائر بھی آپ کی ہوئی
حضور، افسوس کے ساتھ عرض ہے کہ یہ صرف ایک فرضی کہانی ہے۔

لیکن ماڈل ہمیں پسند آیا۔ سب سے پہلے ان وکیلوں کو لٹکانا چاہیئے جو پیسوں کے لیئے جرم پر پردہ ڈالتے ہیں۔
بے گناہ کو سزا دلواتے ہیں۔ اور اسے پیشہ ورانہ قابلیت گردانتے ہیں۔ ہمارے یہاں سب سے بڑا وکیل وہی ہوتا ہے جو سب سے بڑا اور پکّا جھوٹا ہو۔

یہاں یہ وکیل دوسری پارٹی سے پیسے کھا کر خود ہار بھی جاتے ہیں۔
دو نمبر گواہ اور شواہدات بنانے میں ان سے پکاّ کوئی نہیں۔

اور پھر بدمعاشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بات ہی نہ کریں

ویسے صاحب، یہ سردیوں میں جیتے گئے پنکھے اور اس کے ساتھ ایکٹنشن وائر کے فارمولے سے سمجھ نہیں آرہی۔۔۔۔ آپکو واقعی انعام دینا ہے یا کوئی پرانی رنجش ہے؟ اس سے پہلے کہ آپ اگلی پوسٹ پر کہیں ہمیں اس ایکسٹنشن وائر کے ساتھ تھری پلگ دے کر یہ پنکھا چلوا ہی نہ دیں، ہم پہلے ہاتھ جوڑتے ہیں حضور۔۔۔۔۔ رحم عالی جاہ ۔۔۔۔ رحم!!!
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
کیا آپ مجھے کہیں سیشن جج لگوا سکتے ہیں
میں تو آپکو چیف جسٹس لگوانے لگا تھا۔

چلیں لگوا دونگا، لیکن اس کے لیئے پہلے مجھے خود کہیں مہاراجہ لگنا پڑے گا
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
Only Army can do it....if it wants to plus the whole system will collapse if somebody honest shows up,,,,,Bureaucracy does not want to work because of NAB so that Govt had to announce that no NAB cases will be filed against them........so RIP
ایک تو اتنے عرصے کے بعد نظر آئیں ہیں، اور اوپر سے آتے کے ساتھ ہی اتنا سارا سچ بول کر ہماری معصوم سی خوشیوں اور خواہشوں پر گھڑوں پانی بہا دیا۔۔۔۔۔۔ وہ بھی ٹھنڈا ۔۔۔۔۔ ذرا ترس نہ آیا آپ کو اس فورم کے معصوم بلونگڑے اور بلونگڑیوں پر؟
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)

نادان کو لگوا دیا تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مجرموں اور وکیلوں کے ساتھ ساتھ دوسری عدالتوں کے ججوں کی بھی خیر نہیں
ہاں مجھے بھی یقین ہے کہ یہ سیشن جج بن کر ہی چیف جسٹس کو بھی پھانسی کی سزا سنا دیں گی۔ لہٰذا میری بھی مہاراجہ بننے کے بعد اوّلین ترجیح یہی ہوگی کہ نادان کو سیشن جج لگوا دیا جائے۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
اگر ملک کی قسمت بدلنی ہے تو عدلیہ کی قسمت کا فیصلہ پہلے ہمیں کرنے دیں
میں خود کو کھڑک سنگھ کے عہدے پر فائز کرتے ہوئے تمام کرپٹ ججز اور کرپٹ وکلا کو بیچ چوراہے پر پھانسی دینے کا حکم دیتی ہوں .
:pakistanflag
اور اس حکم کی تعمیل کے بعد پتہ یہ چلا کہ صرف نادان ہی بچی ہیں ملک میں انصاف کا نظام چلانے کے لیئے
جناب، جناب جناب۔۔۔۔۔ ذرا کوئی چھتر لگانے کی بھی گنجائش پیدا کریں، نہیں تو کوئی نہیں بچے گا یہاں۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
If Imran has read this thread,he can try this kind of justice system,as Imran has tendencey to accept crazy type of advices.
Well to share a little secret about my life: I was once involved in a litigation involving some land dispute. My own lawyer mysteriously disappeared and turned off his phone. So, it was only me in the court as a defendant and the case was to be concluded on that date.

During arguments, the opponent's council remarked : Judge Saab, yeh chahtay hain k yeh faisla in k haq main likh ker yahan poray mulk main jang kerwa di jaye.....

and I rebutted, saying : Ji Judge sahab main yehi chahta houn, iss sey pehlay k meri aur aap ki laash kahi chorahay per tangi ho aur log uss per thoktay houn.....

You know what I got?

Guess what?

A decision against me and also a fine for Contempt of Court

Since then.... I am also waiting for a judge like Kharak Singh.