کھوتے اور گھوڑے دونوں کو عزت دو

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
بیتے دنوں کے کراچی کے ایک گدھے اور گھوڑے کی کہانی

حساس طبیعت کے مالک ہمارے دوست جناب سردار ساجد عارف صاحب کی کھوتوں کے متعلق جذباتی اپیل "کھوتے کو عزت دو کو" آگے بڑھاتے ہوئے التماس ہے کہ کھوتے اور گھوڑے دونوں کو عزت دیں

واقعہ بیان کرنے سے پہلے آگاہی کے لیے عرض ہے کہ جناب جمشید مہتا کراچی میونسپلٹی کے صدر تھے اور سالہا سال بلا مقابلہ اس عہدے پر منتخب ہوتے چلے آ رہے تھے

پیر علی محمد راشدی سندھ کے ایک مشہور سیاست دان، بیوروکریٹ، سکالر، صحافی اور جانے مانے قلمکار تھے . وہ اس قصے کے راوی ہیں اور آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کرتے ہیں . لکھتے ہیں ١٩٣٠ کی بات ہے ایک روز میں بندر روڈ کراچی سے گزرتے ہوۓ دیکھتا ہوں کہ جمشید مہتا پیدل ایک زخمی گدھے کو لے کر اسپتال کی طرف جا رہے ہیں ۔ ان کی موٹر، ان کا ڈرائیور پیچھے پیچھے چلاتا آ رہا تھا ۔ کہتے ہیں تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔
جمشید صاحب نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹّی کرائی اور ڈاکٹر سے بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کرے تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے، اور دانے گھاس کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرا دی۔
دوسری طرف گدھے کے مالک سے بھی کہا کہ جب تک گدھے کا علاج پورا نہ ہو جائے اور وہ کام کرنے کے قابل نہ ہو جائے، تب تک وہ اپنی مزدوری کا حساب اُن سے لے لیا کرے، اور یہ کہتے ہوے کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔

دوسری بار میں نے ایک اَور سربرآوردہ پارسی جہانگیر پنتھکی کو دیکھا کہ وہ الفنسٹن اسٹریٹ پر ایک کرائے کی وکٹوریا گاڑی کو پولیس کی مدد سے روکے کھڑے ہیں اور کوچوان سے بحث کر رہے ہیں۔
بحث کا موضوع یہ تھا کہ گھوڑا بہت لاغر اور بیمار ہے، اس لیے مناسب ہے کہ گھوڑے کو گاڑی سے الگ کر کے دو چار دن اس کا علاج کرایا جائے اور دانہ گھاس کھلا کر اسے کام کے قابل بنایا جائے۔
کوچوان کہیں باہر سے آیا ہوا تھا۔ اسے کراچی کا دستور معلوم نہ تھا، اس لیے وہ پنتھکی صاحب کی بات سمجھ نہ سکا، ان سے تکرار کرتا رہا اور آخر غصّے میں آ کر چابک مار کر گاڑی آگے بڑھانے لگا ۔ پنتھکی صاحب فرسٹ کلاس مجسٹریٹ بھی تھے۔ انھوں نے پولیس سے کوچوان کو گرفتار کرا کے جیل بھجوایا، گھوڑے کو اسپتال بھیجا اور گاڑی کو دھکیلوا کر صدر پولیس تھانے کے احاطے میں کھڑا کرا دیا۔

یہ دو واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ ایک وقت تھا پاکستان کے حیوانوں کی بھی عزت اور شان تھی، ان کے بھی قانونی حقوق تھے جن کا احترام کیا جاتا تھا۔
اس کے مقابلے میں اب کے پاکستان میں حیوان ناطق کی عزت، شان اور ان کے قانونی حقوق ؟؟؟
فیصلہ آپ کا

(پیر علی محمد راشدی)


راقم نے راشدی صاحب کے چند الفاظ کو آگے پیچھے اور آخری سطر اپنی جانب سے شامل کی ہے
SardarSajidArif
 

Pilot2020

Voter (50+ posts)
نئے زمانے نے کہنہ کہاوتیں بدلیں ۔ ۔ ۔

وہ زمانے لد گئے جب لوگ گدھوں سے بھی پیار سے پیش آتے تھے
اب گدھے کاٹ کاٹ کر مسلمانوں کو کھلائے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں
جانور تو جانور یہاں انسان بھی زمانے کی بے مروتی پر شاکی ہے
حلال جانوروں کی جگہ گدھے کھلانے والا قصائی ہے
حجام جو کبھی جراح بھی ہوتا تھا، اب نائی ہے
ڈاکٹر جو کبھی مسیحا ہوتا تھا، اب اتائی ہے
وہ طبقہ جو مشہور مسلمان تھا، اب مرزائی ہے

کیا یہ سب محض اتفاقات زمانہ ہیں یا انسانیت اپنے کسی ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہی ہے

نوٹ: راقم نے جو بھی لکھا ہے اس میں کسی کا کچھ بھی شامل نہیں کیا اور نہ کچھ آگے پیچھے کیا ہے۔ اگر کوئی پڑھنے والا آگے پیچھے ہو تو اسکی مرزئی
 

Pilot2020

Voter (50+ posts)
جانوروں کے پاس زبان تو ہوتی ہے ناں، جس سے وہ اپنی بات منوانے کیلئے کسی جج، منصف اور عادیل (عدل کرنے والے) کے تلوے وغیرہ چاٹ سکتے ہیں

نوٹ: قارئین، میرے جملے میں تلوے کے ساتھ لفظ "وغیرہ" سے مراد دوسرا تلوا ہے لہذا اپنے تخیل کی پرواز کو قابو میں رکھیں تلووں سے "اوپر" اڑنے کی کوشش نہ کریں وگرنہ آپکو غلط جگہ منہہ ماری کا مرتکب سمجھا جائے گا
 

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
نئے زمانے نے کہنہ کہاوتیں بدلیں ۔ ۔ ۔

وہ زمانے لد گئے جب لوگ گدھوں سے بھی پیار سے پیش آتے تھے
اب گدھے کاٹ کاٹ کر مسلمانوں کو کھلائے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں
جانور تو جانور یہاں انسان بھی زمانے کی بے مروتی پر شاکی ہے
حلال جانوروں کی جگہ گدھے کھلانے والا قصائی ہے
حجام جو کبھی جراح بھی ہوتا تھا، اب نائی ہے
ڈاکٹر جو کبھی مسیحا ہوتا تھا، اب اتائی ہے
وہ طبقہ جو مشہور مسلمان تھا، اب مرزائی ہے

کیا یہ سب محض اتفاقات زمانہ ہیں یا انسانیت اپنے کسی ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہی ہے

نوٹ: راقم نے جو بھی لکھا ہے اس میں کسی کا کچھ بھی شامل نہیں کیا اور نہ کچھ آگے پیچھے کیا ہے۔ اگر کوئی پڑھنے والا آگے پیچھے ہو تو اسکی مرزئی
ہاہاہا...تم پی ای اے کے پائلٹ ہو کیا؟
لگتا ہے تمہارا لائسنس جعلی ہے........?
 

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
نہیں سبو بھائی، اصلی لائسنس ہے لیکن جعلی حکومت نے جاری کیا تھا اس لیے پھڑا گیا
اب اس میں کیا
ہاہاہا...اب اس میں تو یہی ہے کہ اگر لاسنس اصلی ہے تو نو پرابلم لیکن اگر جعلی ہے
تو آپ جہاز پھر بھی اڑا سکتے ہو اگر کوئی بھی پسنجر نہ ہو؟ میرا مطلب ہے آپکی
فیورٹ ایئر ہوسٹس روبی بھی نہیں .... ?
 

Citizen X

President (40k+ posts)
بیتے دنوں کے کراچی کے ایک گدھے اور گھوڑے کی کہانی

حساس طبیعت کے مالک ہمارے دوست جناب سردار ساجد عارف صاحب کی کھوتوں کے متعلق جذباتی اپیل "کھوتے کو عزت دو کو" آگے بڑھاتے ہوئے التماس ہے کہ کھوتے اور گھوڑے دونوں کو عزت دیں

واقعہ بیان کرنے سے پہلے آگاہی کے لیے عرض ہے کہ جناب جمشید مہتا کراچی میونسپلٹی کے صدر تھے اور سالہا سال بلا مقابلہ اس عہدے پر منتخب ہوتے چلے آ رہے تھے

پیر علی محمد راشدی سندھ کے ایک مشہور سیاست دان، بیوروکریٹ، سکالر، صحافی اور جانے مانے قلمکار تھے . وہ اس قصے کے راوی ہیں اور آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کرتے ہیں . لکھتے ہیں ١٩٣٠ کی بات ہے ایک روز میں بندر روڈ کراچی سے گزرتے ہوۓ دیکھتا ہوں کہ جمشید مہتا پیدل ایک زخمی گدھے کو لے کر اسپتال کی طرف جا رہے ہیں ۔ ان کی موٹر، ان کا ڈرائیور پیچھے پیچھے چلاتا آ رہا تھا ۔ کہتے ہیں تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔
جمشید صاحب نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹّی کرائی اور ڈاکٹر سے بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کرے تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے، اور دانے گھاس کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرا دی۔
دوسری طرف گدھے کے مالک سے بھی کہا کہ جب تک گدھے کا علاج پورا نہ ہو جائے اور وہ کام کرنے کے قابل نہ ہو جائے، تب تک وہ اپنی مزدوری کا حساب اُن سے لے لیا کرے، اور یہ کہتے ہوے کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔

دوسری بار میں نے ایک اَور سربرآوردہ پارسی جہانگیر پنتھکی کو دیکھا کہ وہ الفنسٹن اسٹریٹ پر ایک کرائے کی وکٹوریا گاڑی کو پولیس کی مدد سے روکے کھڑے ہیں اور کوچوان سے بحث کر رہے ہیں۔
بحث کا موضوع یہ تھا کہ گھوڑا بہت لاغر اور بیمار ہے، اس لیے مناسب ہے کہ گھوڑے کو گاڑی سے الگ کر کے دو چار دن اس کا علاج کرایا جائے اور دانہ گھاس کھلا کر اسے کام کے قابل بنایا جائے۔
کوچوان کہیں باہر سے آیا ہوا تھا۔ اسے کراچی کا دستور معلوم نہ تھا، اس لیے وہ پنتھکی صاحب کی بات سمجھ نہ سکا، ان سے تکرار کرتا رہا اور آخر غصّے میں آ کر چابک مار کر گاڑی آگے بڑھانے لگا ۔ پنتھکی صاحب فرسٹ کلاس مجسٹریٹ بھی تھے۔ انھوں نے پولیس سے کوچوان کو گرفتار کرا کے جیل بھجوایا، گھوڑے کو اسپتال بھیجا اور گاڑی کو دھکیلوا کر صدر پولیس تھانے کے احاطے میں کھڑا کرا دیا۔

یہ دو واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ ایک وقت تھا پاکستان کے حیوانوں کی بھی عزت اور شان تھی، ان کے بھی قانونی حقوق تھے جن کا احترام کیا جاتا تھا۔
اس کے مقابلے میں اب کے پاکستان میں حیوان ناطق کی عزت، شان اور ان کے قانونی حقوق ؟؟؟
فیصلہ آپ کا

(پیر علی محمد راشدی)


راقم نے راشدی صاحب کے چند الفاظ کو آگے پیچھے اور آخری سطر اپنی جانب سے شامل کی ہے
SardarSajidArif
Masla aab tak yeh tha ke, Khotay khud hukum raan ho gaye, to is liye Insaano ki izzat aur shaan nahi rahi, sirf khoton ki.

 

Pilot2020

Voter (50+ posts)
ہاہاہا...اب اس میں تو یہی ہے کہ اگر لاسنس اصلی ہے تو نو پرابلم لیکن اگر جعلی ہے
تو آپ جہاز پھر بھی اڑا سکتے ہو اگر کوئی بھی پسنجر نہ ہو؟ میرا مطلب ہے آپکی
فیورٹ ایئر ہوسٹس روبی بھی نہیں .... ?
واہ سبو واہ، روبی اپنے پاس رکھ لی اور جہاز مجھے دے دیا
آپ لوگوں کی ایسی نا انصافیوں کی وجہ سے ہی پی آئی تباہ ہوئی ہے
 

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
واہ سبو واہ، روبی اپنے پاس رکھ لی اور جہاز مجھے دے دیا
آپ لوگوں کی ایسی نا انصافیوں کی وجہ سے ہی پی آئی تباہ ہوئی ہے
ہاں یہ تو ہے...پی ای اے کی تباہی کا مجھے بھی دکھ ہے لیکن یہ جہاز جو
آپ ابھی جعلی لائسنس کے سنگ اڑانے لگے ہو ...یہ گر بھی جائے تو اب اس میں
بھی کوئی مضایقہ نہیں ...روبی کی فکر نہ کریں...وہ ہمیشہ میرے محفوظ ہاتھوں میں
رہے گی.......اب اس میں کیا .... ?
 

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
دیکھئے نا اب نہ تو جانوروں کے پاس پیسے ہوتے ہیں کہ وہ کسی کو رشوت دے سکیں. نہ کوئی پولیس والا یا جج ا ن کا واقف. انہیں انصاف کیسے ملے​
ہاں یہ تو ہے...ویسے تو سردار ساجد آپ نے جانوروں کی
کیا خوبصورت ترجمانی کی ہے؟...لگتا ہے گویا آپ انہی میں سے
ایک ہو ؟......ہاہا اب اس میں کیا ......?
 

3rd_Umpire

Chief Minister (5k+ posts)
بیتے دنوں کے کراچی کے ایک گدھے اور گھوڑے کی کہانی

حساس طبیعت کے مالک ہمارے دوست جناب سردار ساجد عارف صاحب کی کھوتوں کے متعلق جذباتی اپیل "کھوتے کو عزت دو کو" آگے بڑھاتے ہوئے التماس ہے کہ کھوتے اور گھوڑے دونوں کو عزت دیں

واقعہ بیان کرنے سے پہلے آگاہی کے لیے عرض ہے کہ جناب جمشید مہتا کراچی میونسپلٹی کے صدر تھے اور سالہا سال بلا مقابلہ اس عہدے پر منتخب ہوتے چلے آ رہے تھے

پیر علی محمد راشدی سندھ کے ایک مشہور سیاست دان، بیوروکریٹ، سکالر، صحافی اور جانے مانے قلمکار تھے . وہ اس قصے کے راوی ہیں اور آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کرتے ہیں . لکھتے ہیں ١٩٣٠ کی بات ہے ایک روز میں بندر روڈ کراچی سے گزرتے ہوۓ دیکھتا ہوں کہ جمشید مہتا پیدل ایک زخمی گدھے کو لے کر اسپتال کی طرف جا رہے ہیں ۔ ان کی موٹر، ان کا ڈرائیور پیچھے پیچھے چلاتا آ رہا تھا ۔ کہتے ہیں تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔
جمشید صاحب نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹّی کرائی اور ڈاکٹر سے بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کرے تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے، اور دانے گھاس کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرا دی۔
دوسری طرف گدھے کے مالک سے بھی کہا کہ جب تک گدھے کا علاج پورا نہ ہو جائے اور وہ کام کرنے کے قابل نہ ہو جائے، تب تک وہ اپنی مزدوری کا حساب اُن سے لے لیا کرے، اور یہ کہتے ہوے کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔

دوسری بار میں نے ایک اَور سربرآوردہ پارسی جہانگیر پنتھکی کو دیکھا کہ وہ الفنسٹن اسٹریٹ پر ایک کرائے کی وکٹوریا گاڑی کو پولیس کی مدد سے روکے کھڑے ہیں اور کوچوان سے بحث کر رہے ہیں۔
بحث کا موضوع یہ تھا کہ گھوڑا بہت لاغر اور بیمار ہے، اس لیے مناسب ہے کہ گھوڑے کو گاڑی سے الگ کر کے دو چار دن اس کا علاج کرایا جائے اور دانہ گھاس کھلا کر اسے کام کے قابل بنایا جائے۔
کوچوان کہیں باہر سے آیا ہوا تھا۔ اسے کراچی کا دستور معلوم نہ تھا، اس لیے وہ پنتھکی صاحب کی بات سمجھ نہ سکا، ان سے تکرار کرتا رہا اور آخر غصّے میں آ کر چابک مار کر گاڑی آگے بڑھانے لگا ۔ پنتھکی صاحب فرسٹ کلاس مجسٹریٹ بھی تھے۔ انھوں نے پولیس سے کوچوان کو گرفتار کرا کے جیل بھجوایا، گھوڑے کو اسپتال بھیجا اور گاڑی کو دھکیلوا کر صدر پولیس تھانے کے احاطے میں کھڑا کرا دیا۔

یہ دو واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ ایک وقت تھا پاکستان کے حیوانوں کی بھی عزت اور شان تھی، ان کے بھی قانونی حقوق تھے جن کا احترام کیا جاتا تھا۔
اس کے مقابلے میں اب کے پاکستان میں حیوان ناطق کی عزت، شان اور ان کے قانونی حقوق ؟؟؟
فیصلہ آپ کا

(پیر علی محمد راشدی)


راقم نے راشدی صاحب کے چند الفاظ کو آگے پیچھے اور آخری سطر اپنی جانب سے شامل کی ہے
SardarSajidArif

سرجی، کھوتوں، اورگھوڑوں کی جتنی عزّت لوھار خاندان، اُنکے درباریوں، اور پٹواریوں نے کی ہے،، اتنی عزّت افزائی شاید ہی دنیا کے کسی کونے میں ان ڈنگروں کو کہیں پر ملی ہو
کھوتے کے گوشت کو بکرے،دُنبے، گائے کے گوشت پر فوقیّت دیکر عزّت دلائی
اور چھانگا مانگا، اور بھوربن کے علاقے میں لاغر، بیمار، ناکارہ گھوڑوں کی خرید وفروخت کی منڈیاں لگا کر اپنے نام تاریخ میں رقم کر دئیے
 

SardarSajidArif

Politcal Worker (100+ posts)
ہاں یہ تو ہے...ویسے تو سردار ساجد آپ نے جانوروں کی
کیا خوبصورت ترجمانی کی ہے؟...لگتا ہے گویا آپ انہی میں سے
ایک ہو ؟......ہاہا اب اس میں کیا ......?
بالکل ہم سب حیوان ناطق ہیں
 

ranaji

President (40k+ posts)
بیتے دنوں کے کراچی کے ایک گدھے اور گھوڑے کی کہانی

حساس طبیعت کے مالک ہمارے دوست جناب سردار ساجد عارف صاحب کی کھوتوں کے متعلق جذباتی اپیل "کھوتے کو عزت دو کو" آگے بڑھاتے ہوئے التماس ہے کہ کھوتے اور گھوڑے دونوں کو عزت دیں

واقعہ بیان کرنے سے پہلے آگاہی کے لیے عرض ہے کہ جناب جمشید مہتا کراچی میونسپلٹی کے صدر تھے اور سالہا سال بلا مقابلہ اس عہدے پر منتخب ہوتے چلے آ رہے تھے

پیر علی محمد راشدی سندھ کے ایک مشہور سیاست دان، بیوروکریٹ، سکالر، صحافی اور جانے مانے قلمکار تھے . وہ اس قصے کے راوی ہیں اور آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کرتے ہیں . لکھتے ہیں ١٩٣٠ کی بات ہے ایک روز میں بندر روڈ کراچی سے گزرتے ہوۓ دیکھتا ہوں کہ جمشید مہتا پیدل ایک زخمی گدھے کو لے کر اسپتال کی طرف جا رہے ہیں ۔ ان کی موٹر، ان کا ڈرائیور پیچھے پیچھے چلاتا آ رہا تھا ۔ کہتے ہیں تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔
جمشید صاحب نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹّی کرائی اور ڈاکٹر سے بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کرے تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے، اور دانے گھاس کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرا دی۔
دوسری طرف گدھے کے مالک سے بھی کہا کہ جب تک گدھے کا علاج پورا نہ ہو جائے اور وہ کام کرنے کے قابل نہ ہو جائے، تب تک وہ اپنی مزدوری کا حساب اُن سے لے لیا کرے، اور یہ کہتے ہوے کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔

دوسری بار میں نے ایک اَور سربرآوردہ پارسی جہانگیر پنتھکی کو دیکھا کہ وہ الفنسٹن اسٹریٹ پر ایک کرائے کی وکٹوریا گاڑی کو پولیس کی مدد سے روکے کھڑے ہیں اور کوچوان سے بحث کر رہے ہیں۔
بحث کا موضوع یہ تھا کہ گھوڑا بہت لاغر اور بیمار ہے، اس لیے مناسب ہے کہ گھوڑے کو گاڑی سے الگ کر کے دو چار دن اس کا علاج کرایا جائے اور دانہ گھاس کھلا کر اسے کام کے قابل بنایا جائے۔
کوچوان کہیں باہر سے آیا ہوا تھا۔ اسے کراچی کا دستور معلوم نہ تھا، اس لیے وہ پنتھکی صاحب کی بات سمجھ نہ سکا، ان سے تکرار کرتا رہا اور آخر غصّے میں آ کر چابک مار کر گاڑی آگے بڑھانے لگا ۔ پنتھکی صاحب فرسٹ کلاس مجسٹریٹ بھی تھے۔ انھوں نے پولیس سے کوچوان کو گرفتار کرا کے جیل بھجوایا، گھوڑے کو اسپتال بھیجا اور گاڑی کو دھکیلوا کر صدر پولیس تھانے کے احاطے میں کھڑا کرا دیا۔

یہ دو واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ ایک وقت تھا پاکستان کے حیوانوں کی بھی عزت اور شان تھی، ان کے بھی قانونی حقوق تھے جن کا احترام کیا جاتا تھا۔
اس کے مقابلے میں اب کے پاکستان میں حیوان ناطق کی عزت، شان اور ان کے قانونی حقوق ؟؟؟
فیصلہ آپ کا

(پیر علی محمد راشدی)


راقم نے راشدی صاحب کے چند الفاظ کو آگے پیچھے اور آخری سطر اپنی جانب سے شامل کی ہے
SardarSajidArif
گدھے گھوڑے کے ساتھ ساتھ کھسرے کو بھی عزت دو جو عزت گل خان کھسری کو دیتا ہے وہ والا عزت دو
 

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
گدھے گھوڑے کے ساتھ ساتھ کھسرے کو بھی عزت دو جو عزت گل خان کھسری کو دیتا ہے وہ والا عزت دو
ہاہاہا..بات تو آپکی بھی صحیح ہے راناجی لیکن گل خان والی
عادتیں جو ہم میں نہیں؟...ویسے بھی جو مزہ اصل میں ہے وہ
نقلی میں کہاں؟

?
 

yankee babu

Senator (1k+ posts)
laiken us gadhai ka bhi kyu kasur jis ko shair ki khaal pehna kar chidya ghar me rakha aur zaroorat padhne par rangeela (Marhoom) nein movie bana di Insaan aur ???
 

Educationist

Chief Minister (5k+ posts)
Ec6qsG0X0AIx6IG