کوئی نیا قانون نہیں، انصاف چاہیئے

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
ابھی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے نیا قانون بنانے کی بات کی ہے کہ اس وحشیانہ جرم میں سب سے پہلے درجہ بندی کی جائے اور پہلے درجے کے مجرموں کو کیمیائی طریقہ سے یا سرجری کر کے نامرد بنا دیا جائے۔

لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس پہلے سے اس جرم کی سزا اسلام میں موجود نہیں؟ بلکل ہے اور وہ اس سے زیادہ پر اثر ہے۔

یہاں اس نئی اختراع کے بارے میں کچھ عرض کروں، لیکن اس سے زیادہ موافق الفاظ میری نظر سے نہیں گزرے


https://twitter.com/x/status/1305539356321611779
جی ہاں، اس طرح کی سزا دینے سے پہلے اس کے نتائج سوچ لیں۔ ایسی کسی سزا کے بعد اگر کوئی مجرم رِہا کر دیا جائے تو وہ مزید درندہ بن جائے گا۔ اپنی اس نئی درندگی میں وہ عورتوں پر تیزاب پھینکنے سے لے کر اور ایسی کئی حرکتیں کر سکتا ہے جن کا احاطہ کرنا یہاں ممکن نہیں۔

بے شک، ہمیں کسی نئے قانون کی ضرورت ہوتی، اگر ہمارا پہلے سے موجود قانون اس سلسلے میں ناکافی ہوتا یا اس میں کوئی ثْقم موجود ہوتے۔ مسئلہ قانون نہیں، مسئلہ انصاف کا ہے۔

انصاف چاہیئے۔ ایک عورت کے لیئے ایسے کسی جرم کو ثابت کرنے کے لیئے اور اسی طرح مردوں کو بھی کسی بدکردار عورت کے شر سے بچانے کے لیئے۔ جی ہاں، بد قسمتی سے ہمارے یہاں صرف عورتیں ہی اس شر کا شکار نہیں، بلکہ بہت سارے مرد بھی پھانسے جاتے ہیں اور پھر ایسے الزامات ان پر لگتے ہیں کہ جرم ثابت ہو یا نہ ہو، ان کی اور ان کے گھر والوں کی زندگی ہمیشہ کے لیئے بدکرداری کی سیاہ چادر میں لپیٹ دی جاتی ہے اور ان کو لوگ کسی آبادی میں رہنے والے کوڑھی سے زیادہ نہیں سمجھتے۔

جناب عرض ہے کہ نئے قانون سے اس ملک میں کچھ نہیں ہونے والا، جب تک قانون شکنی کا یہاں راج ہے۔
مختصر یہ، کہ پہلے اپنے مجوزّہ قانون کا احاطہ کریں، اگر اس میں کوئی کمی ہے تو ٹھیک، نہیں تو جو اسلامی سزا ہے وہی سنائیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ہر بات مکمّل ہے اور اسکی حکمت کا کوئی ثانی نہیں۔


ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ دیکھا جائے کہ یہ قانون شکنی کہاں، کب، اور کیسے ہوتی ہے۔ ان چور دروازوں کو بند کریں۔ اپنے نظام کو ٹھیک کریں، جس کی اشہد ضرورت ہے۔
 

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
ابھی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے نیا قانون بنانے کی بات کی ہے کہ اس وحشیانہ جرم میں سب سے پہلے درجہ بندی کی جائے اور پہلے درجے کے مجرموں کو کیمیائی طریقہ سے یا سرجری کر کے نامرد بنا دیا جائے۔

لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس پہلے سے اس جرم کی سزا اسلام میں موجود نہیں؟ بلکل ہے اور وہ اس سے زیادہ پر اثر ہے۔

یہاں اس نئی اختراع کے بارے میں کچھ عرض کروں، لیکن اس سے زیادہ موافق الفاظ میری نظر سے نہیں گزرے


https://twitter.com/x/status/1305539356321611779
جی ہاں، اس طرح کی سزا دینے سے پہلے اس کے نتائج سوچ لیں۔ ایسی کسی سزا کے بعد اگر کوئی مجرم رِہا کر دیا جائے تو وہ مزید درندہ بن جائے گا۔ اپنی اس نئی درندگی میں وہ عورتوں پر تیزاب پھینکنے سے لے کر اور ایسی کئی حرکتیں کر سکتا ہے جن کا احاطہ کرنا یہاں ممکن نہیں۔

بے شک، ہمیں کسی نئے قانون کی ضرورت ہوتی، اگر ہمارا پہلے سے موجود قانون اس سلسلے میں ناکافی ہوتا یا اس میں کوئی ثْقم موجود ہوتے۔ مسئلہ قانون نہیں، مسئلہ انصاف کا ہے۔

انصاف چاہیئے۔ ایک عورت کے لیئے ایسے کسی جرم کو ثابت کرنے کے لیئے اور اسی طرح مردوں کو بھی کسی بدکردار عورت کے شر سے بچانے کے لیئے۔ جی ہاں، بد قسمتی سے ہمارے یہاں صرف عورتیں ہی اس شر کا شکار نہیں، بلکہ بہت سارے مرد بھی پھانسے جاتے ہیں اور پھر ایسے الزامات ان پر لگتے ہیں کہ جرم ثابت ہو یا نہ ہو، ان کی اور ان کے گھر والوں کی زندگی ہمیشہ کے لیئے بدکرداری کی سیاہ چادر میں لپیٹ دی جاتی ہے اور ان کو لوگ کسی آبادی میں رہنے والے کوڑھی سے زیادہ نہیں سمجھتے۔

جناب عرض ہے کہ نئے قانون سے اس ملک میں کچھ نہیں ہونے والا، جب تک قانون شکنی کا یہاں راج ہے۔
مختصر یہ، کہ پہلے اپنے مجوزّہ قانون کا احاطہ کریں، اگر اس میں کوئی کمی ہے تو ٹھیک، نہیں تو جو اسلامی سزا ہے وہی سنائیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ہر بات مکمّل ہے اور اسکی حکمت کا کوئی ثانی نہیں۔


ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ دیکھا جائے کہ یہ قانون شکنی کہاں، کب، اور کیسے ہوتی ہے۔ ان چور دروازوں کو بند کریں۔ اپنے نظام کو ٹھیک کریں، جس کی اشہد ضرورت ہے۔
Aap ki baat men kafi wazan hay.
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
مسلہ قوانین میں نہیں ..ججز میں ہے ..جن کے منہ کو حرام لگا ہوا ہے ....مجرم ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ یہ حرام خور ججز ہی کریں گے نہ ..سب سے پہلے ان کو لٹکاؤ ..دو چار ججز لٹک گئے تو انصاف ملتا نظر آئے گا ..جرائم کم ہوتے نظر آئیں گے .
ابھی بھی موجودہ مجرم ایسے ہی ریپ کیس میں عدالتوں سے رہا کئے گئے ہیں ..تونسہ ریپ کیس میں مجرم ضمانت پر رہا کر دیئے گئے سب سے پہلے تمام ججز کی ذریعہ آمدن سے زیادہ رہائش کی چھان بین کی جائے اور سب کو اندر کیا جائے
اس ملک کی سب سے بڑی عدالت کا سب سے بڑا جج حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ عوام کو انصاف فراہم کیا جائے ..اس کو صرف مال بنانے کے لئے رکھا ہے کیا
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
ابھی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے نیا قانون بنانے کی بات کی ہے کہ اس وحشیانہ جرم میں سب سے پہلے درجہ بندی کی جائے اور پہلے درجے کے مجرموں کو کیمیائی طریقہ سے یا سرجری کر کے نامرد بنا دیا جائے۔

لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس پہلے سے اس جرم کی سزا اسلام میں موجود نہیں؟ بلکل ہے اور وہ اس سے زیادہ پر اثر ہے۔

یہاں اس نئی اختراع کے بارے میں کچھ عرض کروں، لیکن اس سے زیادہ موافق الفاظ میری نظر سے نہیں گزرے


https://twitter.com/x/status/1305539356321611779
جی ہاں، اس طرح کی سزا دینے سے پہلے اس کے نتائج سوچ لیں۔ ایسی کسی سزا کے بعد اگر کوئی مجرم رِہا کر دیا جائے تو وہ مزید درندہ بن جائے گا۔ اپنی اس نئی درندگی میں وہ عورتوں پر تیزاب پھینکنے سے لے کر اور ایسی کئی حرکتیں کر سکتا ہے جن کا احاطہ کرنا یہاں ممکن نہیں۔

بے شک، ہمیں کسی نئے قانون کی ضرورت ہوتی، اگر ہمارا پہلے سے موجود قانون اس سلسلے میں ناکافی ہوتا یا اس میں کوئی ثْقم موجود ہوتے۔ مسئلہ قانون نہیں، مسئلہ انصاف کا ہے۔

انصاف چاہیئے۔ ایک عورت کے لیئے ایسے کسی جرم کو ثابت کرنے کے لیئے اور اسی طرح مردوں کو بھی کسی بدکردار عورت کے شر سے بچانے کے لیئے۔ جی ہاں، بد قسمتی سے ہمارے یہاں صرف عورتیں ہی اس شر کا شکار نہیں، بلکہ بہت سارے مرد بھی پھانسے جاتے ہیں اور پھر ایسے الزامات ان پر لگتے ہیں کہ جرم ثابت ہو یا نہ ہو، ان کی اور ان کے گھر والوں کی زندگی ہمیشہ کے لیئے بدکرداری کی سیاہ چادر میں لپیٹ دی جاتی ہے اور ان کو لوگ کسی آبادی میں رہنے والے کوڑھی سے زیادہ نہیں سمجھتے۔

جناب عرض ہے کہ نئے قانون سے اس ملک میں کچھ نہیں ہونے والا، جب تک قانون شکنی کا یہاں راج ہے۔
مختصر یہ، کہ پہلے اپنے مجوزّہ قانون کا احاطہ کریں، اگر اس میں کوئی کمی ہے تو ٹھیک، نہیں تو جو اسلامی سزا ہے وہی سنائیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ہر بات مکمّل ہے اور اسکی حکمت کا کوئی ثانی نہیں۔


ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ دیکھا جائے کہ یہ قانون شکنی کہاں، کب، اور کیسے ہوتی ہے۔ ان چور دروازوں کو بند کریں۔ اپنے نظام کو ٹھیک کریں، جس کی اشہد ضرورت ہے۔

Good writing Suhail.

I would like to bring to your attention another pertinent issue related to the subject. Don't you think time has come to initiate a public debate and then enact new laws on..... the lawyers who know that their client is a culprit and he has done the particular crime, still however, in exchange of very hefty fee they plead their innocence in the court of law and most of the time win these cases hiding behind the curtains of technicalities??

Do you think we need new legislation to rein in these type of criminal lawyers as well??
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
مسلہ قوانین میں نہیں ..ججز میں ہے ..جن کے منہ کو حرام لگا ہوا ہے ....مجرم ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ یہ حرام خور ججز ہی کریں گے نہ ..سب سے پہلے ان کو لٹکاؤ ..دو چار ججز لٹک گئے تو انصاف ملتا نظر آئے گا ..جرائم کم ہوتے نظر آئیں گے .
ابھی بھی موجودہ مجرم ایسے ہی ریپ کیس میں عدالتوں سے رہا کئے گئے ہیں ..تونسہ ریپ کیس میں مجرم ضمانت پر رہا کر دیئے گئے سب سے پہلے تمام ججز کی ذریعہ آمدن سے زیادہ رہائش کی چھان بین کی جائے اور سب کو اندر کیا جائے
اس ملک کی سب سے بڑی عدالت کا سب سے بڑا جج حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ عوام کو انصاف فراہم کیا جائے ..اس کو صرف مال بنانے کے لئے رکھا ہے کیا
جی ہاں مسئلہ یہی ہے کہ قوانین ہیں لیکن انصاف نہیں ہے۔ پاکستان میں پرانا نعرہ یہی ہے کہ اگر کیس جیتنا ہو تو وکیل کے بجائے جج کروا لو۔

ہمیں ان گناہوں کے لیئے نئی سزا سے زیادہ ان مسائل کو دیکھنا پڑے گا جن کے ذریعے یہ گناہگار اپنی دولت اور طاقت کے بل بوطے پہ صاف بچ کر نکل جاتے ہیں۔ جج، وکیل، پولیس۔۔۔۔ سب کو دیکھنا ہوگا۔

ہمیں تعلیم کے دوران درس میں یہی ایک جملہ رٹایا جاتا تھا کہ:

Not the person, but the system should be working

احتسابی عمل کو ہر نطام کے ضابطے میں ہی پیوست کرنا ہوگا۔ یہ ممکن نہیں کہ ہر ایک مسئلے کے لیئے احتسابی عمل کو علیٰحدہ شروع کیا جائے۔ ہر نظام کے عوامل کے چیدہ چیدہ مرحلوں پر نگرانی اور ضبط کی منازل ہونی چاہیئں، جنھیں ہم

monitoring and controlling checkpoints

کہتے ہیں۔ اور اس کے بعد ظاہر سی بات ہے کہ سزا اور جزا بھی اسی اعتبار سے ہونی چاہیئے جیسے آپ نے تجویز کی۔


ایک مثال کے طور پر، اگر کوئی فوجداری مقدمہ تین ماہ سے زائد التوا کا شکار ہوتا ہے تو اس کے اوپر خودکار طور پہ چھان بین شروع ہوجانی چاہیئے۔ آیا ثبوت ناکافی تھے؟ بیان بدلے گئے؟ جج نے کسی غیر ضروری شق کا سہارا لیتے ہوئے مقدمے کو لٹکایا؟ یا کوئی اور وجہ ہے؟ ساتھ ہی ہر کیس کی اپیل کے ساتھ اس سے پچھلی عدالتی کاروائی کی مکمّل ویڈیو دستاویز بھی ہونی چاہیئے۔ دیگر یہ کہ اس ویڈیو ریکارڈ تک رسائی ایک متعلقہ شخص کے لیئے آسان ہونی چاہیئے اور دونوں فریقین میں سے کوئی بھی چاہے اسے عوام النّاس میں سوشل میڈیا یا میڈیا کے توسط سے مقدمے کے فیصلے کے بعد نشر کرسکتا ہے۔

یہ کونسا عدالت یا انصاف کے تقدّس کے خلاف ہے کہ عدالتی کاروائی کو منظر عام پر نہ لایا جائے؟ ہاں مقدمے کے دوران تو سمجھ آتی ہے، لیکن فیصلے کے بعد؟ اس کی کیا تُک ہے؟

یہ بہت سادہ سی مثال دی ہے۔ اصل میں تو یہاں بہت کچھ ہونا چاہیئے جو اس نظام کو بہتر کرے۔ نیا قانون بنا دینا تو آسان کام ہے، قانون پر عملدرآمد کروانا اور منصفانہ طور عملدرآمد کروانا مسئلہِ شدیدا ہے۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
Good writing Suhail.

I would like to bring to your attention another pertinent issue related to the subject. Don't you think time has come to initiate a public debate and then enact new laws on..... the lawyers who know that their client is a culprit and he has done the particular crime, still however, in exchange of very hefty fee they plead their innocence in the court of law and most of the time win these cases hiding behind the curtains of technicalities??

Do you think we need new legislation to rein in these type of criminal lawyers as well??
We already have laws like PPC 182, 191, 209 and 210 etc. All are pertinent to the issues of false claims, false evidence, misguiding a public servant (a Judge etc.) to wrongfully use his powers etc, but the implementation of these laws is the issue. Making another law will not suffice to improve the implementation part.

Implementation of the law can be best served by improving the flow of the system and reforming its dynamics.... embedding the proper checks and balances within the processes at appropriate places. Accountability should not be a separate process, but should be a part of every critical process at every critical stage.

Right now, we have flaws in our evidence collection system, then the interpretations of law are subjective to the person's thinking who is chairing the Jury. We have to standardize these systems according to international benchmarks or perhaps exceed these benchmark standards.
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
Spot on. If implementation start, there is no additional bill/law needed. Existing laws need to be implemented.
Yep and for that, we need reforms in the system, not the laws. Enacting a new legislation is all a political gimmick and is a low hanging fruit. The real thing is to swim against the flow of the system and change its course.
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
جی ہاں مسئلہ یہی ہے کہ قوانین ہیں لیکن انصاف نہیں ہے۔ پاکستان میں پرانا نعرہ یہی ہے کہ اگر کیس جیتنا ہو تو وکیل کے بجائے جج کروا لو۔

ہمیں ان گناہوں کے لیئے نئی سزا سے زیادہ ان مسائل کو دیکھنا پڑے گا جن کے ذریعے یہ گناہگار اپنی دولت اور طاقت کے بل بوطے پہ صاف بچ کر نکل جاتے ہیں۔ جج، وکیل، پولیس۔۔۔۔ سب کو دیکھنا ہوگا۔

ہمیں تعلیم کے دوران درس میں یہی ایک جملہ رٹایا جاتا تھا کہ:

Not the person, but the system should be working

احتسابی عمل کو ہر نطام کے ضابطے میں ہی پیوست کرنا ہوگا۔ یہ ممکن نہیں کہ ہر ایک مسئلے کے لیئے احتسابی عمل کو علیٰحدہ شروع کیا جائے۔ ہر نظام کے عوامل کے چیدہ چیدہ مرحلوں پر نگرانی اور ضبط کی منازل ہونی چاہیئں، جنھیں ہم

monitoring and controlling checkpoints

کہتے ہیں۔ اور اس کے بعد ظاہر سی بات ہے کہ سزا اور جزا بھی اسی اعتبار سے ہونی چاہیئے جیسے آپ نے تجویز کی۔


ایک مثال کے طور پر، اگر کوئی فوجداری مقدمہ تین ماہ سے زائد التوا کا شکار ہوتا ہے تو اس کے اوپر خودکار طور پہ چھان بین شروع ہوجانی چاہیئے۔ آیا ثبوت ناکافی تھے؟ بیان بدلے گئے؟ جج نے کسی غیر ضروری شق کا سہارا لیتے ہوئے مقدمے کو لٹکایا؟ یا کوئی اور وجہ ہے؟ ساتھ ہی ہر کیس کی اپیل کے ساتھ اس سے پچھلی عدالتی کاروائی کی مکمّل ویڈیو دستاویز بھی ہونی چاہیئے۔ دیگر یہ کہ اس ویڈیو ریکارڈ تک رسائی ایک متعلقہ شخص کے لیئے آسان ہونی چاہیئے اور دونوں فریقین میں سے کوئی بھی چاہے اسے عوام النّاس میں سوشل میڈیا یا میڈیا کے توسط سے مقدمے کے فیصلے کے بعد نشر کرسکتا ہے۔

یہ کونسا عدالت یا انصاف کے تقدّس کے خلاف ہے کہ عدالتی کاروائی کو منظر عام پر نہ لایا جائے؟ ہاں مقدمے کے دوران تو سمجھ آتی ہے، لیکن فیصلے کے بعد؟ اس کی کیا تُک ہے؟

یہ بہت سادہ سی مثال دی ہے۔ اصل میں تو یہاں بہت کچھ ہونا چاہیئے جو اس نظام کو بہتر کرے۔ نیا قانون بنا دینا تو آسان کام ہے، قانون پر عملدرآمد کروانا اور منصفانہ طور عملدرآمد کروانا مسئلہِ شدیدا ہے۔
قوانین تو ہمارے پاس ہر طرح کے موجود ہیں ..آپ بیس نئے اور لے آئیں ..مسلہ پھر بھی وہاں کا وہاں ہی رہے گا ...پورا سسٹم ، پورا معاشرہ بگڑا ہوا ہے ..اوپر سے نیچے تک .
ایک بندہ جرم کرتا ہے ..پولیس پکڑتی ہے ..مجرم کی مالی حالت دیکھ کر معاملہ طے کرتی ہے ..کیس کمزور کرتی ہے ..عدالت میں ایک اور حرام خور بیٹھا ہے ..دونوں مل جل کر مجرم کو فائدہ دے دیتے ہیں ..لیجئے ..انصاف ہو گیا ..لیکن اصل میں انصاف نہیں ، انصاف کا قتل ہوتا ہے ..آپ کی بات درست ہے ..ہمیشہ سے سنتے ائے ہیں ..وکیل نہیں جج کر لو .
پولیس ہے ججز کی صفائی کی ضرورت ہے ..یہ ایک کام کر لیں ..نئے قانون کی کوئی ضرورت نہیں ..پہلے قوانین نے مجرموں کا کیا بگاڑ لیا ہے جو نئے بگاڑ لیں گے ..سوائے اس کے کہ پولیس اور ججز کے ریٹ بڑھ جائیں گے