کتاب کا زوال

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
کتاب کا زوال۔
ہمیں کتاب سے بچپن سے ہی محبت ہے۔ ہم پشاور شہر کے قریب آباد گلبہار میں رہتے تھے جو کسی زمانے میں مڈل کلاس لوگوں کے لیے ایک اچھی رہائشی کالونی تھی۔ہم سکول جانے لگے۔ کاپی پنسل شارپنر خریدنے کے لیے کوئی دکان نہ تھی سب کچھ سکول سے خریدنا پڑتا تھا۔ پھر گلبہار میں سٹیشنری کی ایک دکان کھلی۔ رؤف سنز کے نام سے کھلنی والی دکان سے نہ صرف درسی کتب، بلکہ فیروز سنز کی چھپی ہوئی کتابیں بھی دستیاب ہونے لگیں۔ فیروز سنز کی خوب صورت اور چھوٹی چھوٹی کتابیں دیکھنے میں بہت بھلی لگتیں اور بے اختیار خریدنے کو جی چاہتا۔قیمت بھی واجبی سے چھے آنے اور آٹھ آنے کی کتاب، جب کہ ہمارا جیب خرچ دو آنے روزانہ۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ دکان کے مالک عبد الرشید صاحب فیروز سنز میں کیشئر ہیں۔ وہاں سے کتابیں لاتے ہیں اور اپنی دکان پر فروخت کرتے ہیں۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب پشاور میں بھی فیروز سنز موجود تھا۔
عبد الرشید صاحب کی دکان پر نہ صرف بچوں کی کہانیوں کی کتابیں دستیاب تھیں بلکہ اعلیٰ ادبی کتب اور تاریخی کتب بھی برائے فروخت تھیں۔ ہم نے اس عمر میں فانی بدایونی، نذیر اکبر آبادی، غالب، جیسے شعرا کی کتابیں پڑھیں۔ ٹیپو سلطان، حیدر علی، اورنگ زیب عالمگیر،شیر شاہ سوری،نور الدین زنگی اور اس قبیل کی بہت سی کتابیں زیر مطالعہ رہیں ۔ کچھ ہی عرصے میں ایک اور دکان افغان جنرل سٹور اینڈ سٹیشنری مارٹ کے نام سے کھلی۔ یہاں نہ صرف کتابیں دستیاب تھیں بلکہ آنہ لائبریری ٹائب سلسلہ بھی چلتا تھا۔ آپ کوئی بھی کتاب لیں۔ چوبیس گھنٹے رکھیں ، پڑھیں، اگلے دن واپس کریں اور فقط چار آنے کرایہ دیں۔یہاں ہم نے ٹارزن ،داستان امیر حمزہ، طلسم ہوش ربا، ابن صفی کی عمران سیریز اور جاسوسی دنیا پڑھی۔ کوئی کتاب اچھی لگتی تو ابّا جی سے فرمائش کر کے خرید لیتے۔اس کے علاوہ اخبار فروش سے نونہال، تعلیم و تربیت اور بچوں کی دنیا ہمارے گھر باقاعدگی سے آتے ۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا شوق بڑھتا رہا۔ لیکن پشاور میں موجود فیروز سنز بند ہوگیا۔جس کے نتیجے میں روف سنز میں کتابوں کی تعداد کم ہونے لگی۔ اور کچھ ہی عرصے میں یہ دکان صرف درسی کتابوں اور کاپیوں پنسلوں تک محدود ہوگئی۔لیکن اب ہمارے ذوق کی تسکین کے لیے یونیورسٹی بک ایجنسی موجود تھی۔یہاں سے ہم نے شفیق الرحمان کی کتاب حماقتیں سے اپنی خریداری شروع کی پھر ابن انشا کے سفر ناموں کی طرف گئے،احمد فراز،فیض احمد فیض پروین شاکر کی کتابوں سے شناسائی بنی،مصطفیٰ زیدی کی شاعری پڑھی۔اس کے ساتھ ساتھ ہم نے لندن بک ایجنسی اور پشاور صدر کےگورا بازار کے اندر سمیع بک ایجنسی سے بھی کتابوں کی خریداری شروع کی۔
اللہ کے فضل سے بےئ شمار کتابیں پڑھیں۔ پھر شعبۂ اردو میں داخلہ لیا۔تو مزید ذوق و شوق سے ناول، داستانیں، افسانے، تنقیدو تحقیق کی کتابیں خریدیں۔شعبہ کی طرف سے لاہور کے ٹور پر گئے تو وہاں بھی اُردو بازار سے اچھی خاصی کتابیں خریدیں۔
ملازمت شروع ہوئی تو ابتدائی چند سال ہاتھ تنگ رہا،چونکہ شادی ہوگئی تھی اس لیے اب والدین سے مانگنا کچھ عجیب لگتا تھا کہ اب امّی کو حساب دینا پڑتا تھا اور بچی کچھی رقم بیوی کے ہاتھ میں رکھ دیتے۔ لیکن اسی دور میں گل بہار میں چند نوجوانوں نے شبان المسلمین کے نام سے ایک انجمن بنائی اس انجمن سے یہاں ایک لائبریری بنائی تو ہماری طرح کی تشنوں کی آبیاری کرتی تھی۔
کچھ عرصہ پہلے بی بی سی اُردو پر ایک سوال کیا گیا تھا کہ برصغیر میں سب سے زیادہ کتب بینی کس شہر میں ہوتی ہے۔ ہمارے لیے یہ حیرت کی بات تھی کہ اس لسٹ میں پشاور پہلے نمبر پر تھا۔اس وقت پشاور میں آنہ لائبریوں کی بھر مار تھی۔ہر گلی محلےمیں ایک لائبریری تھی جہاں ایک آنہ کرایہ پر آپ کوئی بھی کتاب ایک دن کے لیے حاصل کر سکتے تھے۔
ہم نے کتابوں کی خریداری کیا موقوف کی لگنے لگا کہ اہلیان پشاور کے ذوقِ کتب بینی کو کسی کی نظر لگ گئی۔ روف سنز بند ہوگئی۔ افغان جنرل سٹور اینڈ سٹیشنری مارٹ اب افغان جنرل سٹور اینڈ کھلونا سینٹر بن گیا۔ گورا بازار میں موجود سمیع ایجنسی تو اب کسی کو یاد بھی نہیں رہی۔ فیروز سنز پہلے سے ہی بند ہو چکا تھا۔یونیورسٹی بک ایجنسی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔اور اب دوسرا حصہ ختم ہو چکا ہے۔ ایم جے بکس، سعید بک بینک اور بے شمار چھوٹی کتابوں کی دکانیں ختم ہو گئیں اور اب وہاں جنرل سٹور، کلاتھ سٹور یا فوڈ پوائنٹ بن چکے ہیں۔آنہ لائبریریاں بھی ختم ،اب وہاں مرغی کے انڈے یاچکن کارن سوپ بکتا ہے۔
دوران ملازمت جب کچھ فراغت ملنے لگی اور پیسے بچنے لگے تو دوبارہ کتابوں کی خریداری شروع کی۔ اس بار یونیورسٹی روڈ پر موجود شاہین بکس ہماری توجہ اور خریداری کا مرکز بن گئی۔گزشتہ بیس سالوں سے وہاں سے کتابوں کی خریداری کرتے رہے ہیں دکان کے مالک ریاض گل سے ہماری اچھی خاصی دوستی ہوگئی۔
چند روز پہلے شاہین بکس سے کچھ کتابیں خریدے گیے تو شاہین بکس کو غیر موجود پایا۔ وہاں میڈیس کی دکان کھل گئی تھی۔ شدید حیرت اور صدمے سے دوچار ہوئے۔ اگر چہ دکان میں سامان بدل گیا لیکن دکان دار وہی تھا۔ ریاض گل سے پوچھا یہ کیا۔ بوجھل آواز سے کہا،کیا کریں سر! گزشتہ پینتیس سال سے چلنے والے بزنس کو ختم کرنا آسان نہیں تھا۔لیکن دنیا داری بھی تو کرنی ہے۔اب کاروبار چل رہا ہے۔ذہنی امراض کی دوائیاں سب سے زیادہ بکتی ہیں۔
جب لوگ کتابیں پڑھنی بند کریں تو پھر ڈپریشن کی دوائیاں کھانی پڑتی ہیں۔
 

aamir_uetn

Prime Minister (20k+ posts)
آٹھ آنے کی کتاب ؟ آپ بھی عزیز من کے زمانے کے لگتے ہیں ، پشاور میں عمر الٹی لکھنے کا رواج ہے کیا

:lol:

خیر مذاق اپنی جگہ لیکن تھریڈ واقعی بہت سیریس موضوع پے بنایا ہے آپ نے ، اچھی کتابیں شخصیت کی ورکشاپ ہوتی ہیں ، مینٹیننس ہوتی رہتی ہے ورنہ ویئر اینڈ ٹیئر ہوتے ہوتے بات ایک دن دوائیوں تک پہنچ جاتی ہے

دکانیں بند ہونے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آج کل اکثر کتابیں آنلائن آسانی سے مل جاتی ہیں ، جو کتاب پڑھنی ہو ، گوگل کرو ، دو منٹ میں کتاب حاضر وہ بھی فری لیکن جنہیں کتاب پڑھنے کی عادت ہو انہیں کمپیوٹر یا ٹیب پے پڑھنے میں پرابلم ہوتی ہے ، اگر یہ عادت اپنا لیں تو آنلائن اتنا کچھ مل جاتا ہے جتنا ساری آنہ لائبریریوں میں کل ملا کے نہیں ہو گا ، مجھے لگتا عزیز من انہی لائبریریوں سے عجیب و غریب کتابیں لے کے پڑھتے رہے ہیں
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
آٹھ آنے کی کتاب ؟ آپ بھی عزیز من کے زمانے کے لگتے ہیں ، پشاور میں عمر الٹی لکھنے کا رواج ہے کیا

:lol:

خیر مذاق اپنی جگہ لیکن تھریڈ واقعی بہت سیریس موضوع پے بنایا ہے آپ نے ، اچھی کتابیں شخصیت کی ورکشاپ ہوتی ہیں ، مینٹیننس ہوتی رہتی ہے ورنہ ویئر اینڈ ٹیئر ہوتے ہوتے بات ایک دن دوائیوں تک پہنچ جاتی ہے

دکانیں بند ہونے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آج کل اکثر کتابیں آنلائن آسانی سے مل جاتی ہیں ، جو کتاب پڑھنی ہو ، گوگل کرو ، دو منٹ میں کتاب حاضر وہ بھی فری لیکن جنہیں کتاب پڑھنے کی عادت ہو انہیں کمپیوٹر یا ٹیب پے پڑھنے میں پرابلم ہوتی ہے ، اگر یہ عادت اپنا لیں تو آنلائن اتنا کچھ مل جاتا ہے جتنا ساری آنہ لائبریریوں میں کل ملا کے نہیں ہو گا ، مجھے لگتا عزیز من انہی لائبریریوں سے عجیب و غریب کتابیں لے کے پڑھتے رہے ہیں

پیارے بھائی میں یہ باتیں 1971 سے لیکر 1974 کے درمیان کی ہیں فیروز سنز کی پاکٹ سائز کتابیں بہت خوب صورت ہوا کرتی تھی ہو سکتا ہے میں آپ کے عزیز سہراب سے بھی کوئی دو چار سال بڑا ہوں۔

ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے جب تک آپ کتاب کو ٹچ نہ کریں،ہاتھ میں نہ اُٹھائیں روح میں تازگی نہیں آتی۔ نیٹ سے پڑھنے اور کتاب سے پڑھنے میں یہ فرق ہے کہ آپ کی محبوبہ بذات خود آپ کے سامنے کھڑی ہے یا اس کی تصویر آپ کے سامنے ہے۔ فرق تو ہوگا ناں۔
 

taban

Chief Minister (5k+ posts)
کتاب سے دوری بهی همارے المیوں میں سے ایک بڑا المیه هے ویسے جس پشاور کا آپ نے ذکر کیا هے وه زمین په جنت تها


آنکهوں میں اُڑ رہی هے لٹی محفلوں کی دهول

 

tariisb

Chief Minister (5k+ posts)

کتاب ، کتاب ہی ہے ، ناول ہو رسالہ ہو یا مضامین و تاریخ ، پڑھنے کا شوق نا رہا ، نا ہی دستیابی ممکن رہی

پہلے لائبریرییز ہوا کرتی تھیں ، ڈھیروں موضوع ، ہزاروں کتب ایک جگہ مل جایا کرتی تھیں ، گلی محلوں (کراچی) میں ، کوئی نا کوئی دکان ضرور ہوتی تھی ، جہاں ابن صفی ، اشفاق احمد کے ناول کراۓ پر مل جایا کرتے تھے ، کرایہ ؟ پچاس پیسہ ، اکثر دکانوں پر چند صفحات پر مشتمل کہانیاں بھی دستیاب رہتیں ، ان کی کل قیمت ہی پچاس پیسہ یا روپیہ تک ہوا کرتی ، بچوں کے ماہنامے نونہال ، ٹوٹ بٹوٹ ، تعلیم و تربیت ، آنکھ مچولی ، چھپا کرتے ، مہینہ بھر اپنے جیب خرچ سے پیسے بچاۓ رکھنا ، بمشکل مہینہ پورا ہوتے ہی ، بک سٹال سے خرید لینا ، گھر لا کر بستے میں چھپا لینا ، چھپا کیوں ؟ اجازت نا تھی "کہانیاں" پڑھنے کی ، اسی لیے چھپ چھپ کر پڑھنا پڑھتا ، دوست ایک دوسرے سے تبادلہ بھی کرتے ، ایک کتاب ، رسالہ سب ہاتھ پھرتا جاتا

اب شوق نا رہا ، نا دستیابی ، ہو بھی تو ، دماغ مرکوز ہی نہیں ، یہ گمان بھی غلط کہ ، سب آن لائن ہوا ہے ، لوگ نیٹ سے پڑھا کرتے ہیں ، یہ مفروضہ غلط ہے ، ضعیف ہے ، آن لائن کتاب ، اسی کی ضرورت ، جسے کسی حوالہ و ریفرنس کی اشد ضرورت ، اس کے سوا مطالعہ ؟ نا جی نا ، دنیا ٹوٹوں ، تراشوں ، حوالوں تک ہی محدود ہو رہی ، کتاب پڑھنا ، اب ذوق نا رہا ، اب ممتاز مفتی کی "علی پور کا ایلی" کمپوٹر کی سکرین پر ٹکٹکی باندھے پڑھنے والی تو چیز ہی نہیں ، اس کے علاوہ لاکھوں کتب ہیں ، ان کا ایک فیصد بھی آن لائن نہیں ، لائبریری اشد ضروری ، طلب علم ، تحقیق ، تفتیش ، شوق و جستجو ، لائبریری کے سوا ممکن نہیں

:(نہیں ، کتاب کا زوال ، شائد نہیں ، اذہان کا زوال ، تہذیب ، تعمیر ، اخلاق پتہ نہیں کس کس کا زوال ، کتاب تو آج بھی قیمتی ، کل شائد ایک عجوبہ
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم

کتاب ، کتاب ہی ہے ، ناول ہو رسالہ ہو یا مضامین و تاریخ ، پڑھنے کا شوق نا رہا ، نا ہی دستیابی ممکن رہی

پہلے لائبریرییز ہوا کرتی تھیں ، ڈھیروں موضوع ، ہزاروں کتب ایک جگہ مل جایا کرتی تھیں ، گلی محلوں (کراچی) میں ، کوئی نا کوئی دکان ضرور ہوتی تھی ، جہاں ابن صفی ، اشفاق احمد کے ناول کراۓ پر مل جایا کرتے تھے ، کرایہ ؟ پچاس پیسہ ، اکثر دکانوں پر چند صفحات پر مشتمل کہانیاں بھی دستیاب رہتیں ، ان کی کل قیمت ہی پچاس پیسہ یا روپیہ تک ہوا کرتی ، بچوں کے ماہنامے نونہال ، ٹوٹ بٹوٹ ، تعلیم و تربیت ، آنکھ مچولی ، چھپا کرتے ، مہینہ بھر اپنے جیب خرچ سے پیسے بچاۓ رکھنا ، بمشکل مہینہ پورا ہوتے ہی ، بک سٹال سے خرید لینا ، گھر لا کر بستے میں چھپا لینا ، چھپا کیوں ؟ اجازت نا تھی "کہانیاں" پڑھنے کی ، اسی لیے چھپ چھپ کر پڑھنا پڑھتا ، دوست ایک دوسرے سے تبادلہ بھی کرتے ، ایک کتاب ، رسالہ سب ہاتھ پھرتا جاتا

اب شوق نا رہا ، نا دستیابی ، ہو بھی تو ، دماغ مرکوز ہی نہیں ، یہ گمان بھی غلط کہ ، سب آن لائن ہوا ہے ، لوگ نیٹ سے پڑھا کرتے ہیں ، یہ مفروضہ غلط ہے ، ضعیف ہے ، آن لائن کتاب ، اسی کی ضرورت ، جسے کسی حوالہ و ریفرنس کی اشد ضرورت ، اس کے سوا مطالعہ ؟ نا جی نا ، دنیا ٹوٹوں ، تراشوں ، حوالوں تک ہی محدود ہو رہی ، کتاب پڑھنا ، اب ذوق نا رہا ، اب ممتاز مفتی کی "علی پور کا ایلی" کمپوٹر کی سکرین پر ٹکٹکی باندھے پڑھنے والی تو چیز ہی نہیں ، اس کے علاوہ لاکھوں کتب ہیں ، ان کا ایک فیصد بھی آن لائن نہیں ، لائبریری اشد ضروری ، طلب علم ، تحقیق ، تفتیش ، شوق و جستجو ، لائبریری کے سوا ممکن نہیں

:(نہیں ، کتاب کا زوال ، شائد نہیں ، اذہان کا زوال ، تہذیب ، تعمیر ، اخلاق پتہ نہیں کس کس کا زوال ، کتاب تو آج بھی قیمتی ، کل شائد ایک عجوبہ
زوال پڑھنے کی عادت کا ہے. جنہیں پڑھنے کا شوق ہے آج بھی پڑھتے ہیں لیکن کتاب نہیں فون، ٹیبلٹ، ای ریڈر کنڈل وغیرہ پر

ہم نے اور ہی مشاغل کو تعمیر و ترقی کا زینہ سمجھ لیا ہے. ہر سال نئے سے نیا زینہ چڑھتے جا رہے ہیں یہ دیکھے بغیر کے جن کی اندھی تقلید کر رہے ہیں وہ تعلیم و تحقیق پر کس قدر سرمایہ کاری کر رہے ہیں
 

aamir_uetn

Prime Minister (20k+ posts)

پیارے بھائی میں یہ باتیں 1971 سے لیکر 1974 کے درمیان کی ہیں فیروز سنز کی پاکٹ سائز کتابیں بہت خوب صورت ہوا کرتی تھی ہو سکتا ہے میں آپ کے عزیز سہراب سے بھی کوئی دو چار سال بڑا ہوں۔

ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے جب تک آپ کتاب کو ٹچ نہ کریں،ہاتھ میں نہ اُٹھائیں روح میں تازگی نہیں آتی۔ نیٹ سے پڑھنے اور کتاب سے پڑھنے میں یہ فرق ہے کہ آپ کی محبوبہ بذات خود آپ کے سامنے کھڑی ہے یا اس کی تصویر آپ کے سامنے ہے۔ فرق تو ہوگا ناں۔

اگر آپ عزیز من سے دو چار سال بڑے ہیں تو آپ نے یہ دونوں سنہ بھی الٹے لکھ دیئے

:lol:

ویسے مجھے شکر ہے محبوبہ والا کوئی پرابلم نہیں ، میں سکون سے پڑھتا ہوں لیپ ٹاپ پے بلکہ میرے خیال میں لیپ ٹاپ میں زیادہ مارجن ہیں
 

taban

Chief Minister (5k+ posts)
اگر آپ عزیز من سے دو چار سال بڑے ہیں تو آپ نے یہ دونوں سنہ بھی الٹے لکھ دیئے

:lol:

ویسے مجھے شکر ہے محبوبہ والا کوئی پرابلم نہیں ، میں سکون سے پڑھتا ہوں لیپ ٹاپ پے بلکہ میرے خیال میں لیپ ٹاپ میں زیادہ مارجن ہیں
یہاں کوئی آن لائین حواله هی دے دیں جہاں جا کر کچهه اچهی چیزیں هم بهی پڑهه سکیں کچهه تو تشنگی کم هو همیں تو لوگوں کی منتیں کرنی پڑتی هیں پاکستان سے کتابیں منگوانے کے لئے
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
اگر آپ عزیز من سے دو چار سال بڑے ہیں تو آپ نے یہ دونوں سنہ بھی الٹے لکھ دیئے

:lol:

ویسے مجھے شکر ہے محبوبہ والا کوئی پرابلم نہیں ، میں سکون سے پڑھتا ہوں لیپ ٹاپ پے بلکہ میرے خیال میں لیپ ٹاپ میں زیادہ مارجن ہیں

سنہ درست ہیں۔ اگر آپ کو محبوبہ والا پرابلم نہیں تو پھر آپ بد قسمت ہیں۔


:(
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)

کتاب ، کتاب ہی ہے ، ناول ہو رسالہ ہو یا مضامین و تاریخ ، پڑھنے کا شوق نا رہا ، نا ہی دستیابی ممکن رہی

پہلے لائبریرییز ہوا کرتی تھیں ، ڈھیروں موضوع ، ہزاروں کتب ایک جگہ مل جایا کرتی تھیں ، گلی محلوں (کراچی) میں ، کوئی نا کوئی دکان ضرور ہوتی تھی ، جہاں ابن صفی ، اشفاق احمد کے ناول کراۓ پر مل جایا کرتے تھے ، کرایہ ؟ پچاس پیسہ ، اکثر دکانوں پر چند صفحات پر مشتمل کہانیاں بھی دستیاب رہتیں ، ان کی کل قیمت ہی پچاس پیسہ یا روپیہ تک ہوا کرتی ، بچوں کے ماہنامے نونہال ، ٹوٹ بٹوٹ ، تعلیم و تربیت ، آنکھ مچولی ، چھپا کرتے ، مہینہ بھر اپنے جیب خرچ سے پیسے بچاۓ رکھنا ، بمشکل مہینہ پورا ہوتے ہی ، بک سٹال سے خرید لینا ، گھر لا کر بستے میں چھپا لینا ، چھپا کیوں ؟ اجازت نا تھی "کہانیاں" پڑھنے کی ، اسی لیے چھپ چھپ کر پڑھنا پڑھتا ، دوست ایک دوسرے سے تبادلہ بھی کرتے ، ایک کتاب ، رسالہ سب ہاتھ پھرتا جاتا

اب شوق نا رہا ، نا دستیابی ، ہو بھی تو ، دماغ مرکوز ہی نہیں ، یہ گمان بھی غلط کہ ، سب آن لائن ہوا ہے ، لوگ نیٹ سے پڑھا کرتے ہیں ، یہ مفروضہ غلط ہے ، ضعیف ہے ، آن لائن کتاب ، اسی کی ضرورت ، جسے کسی حوالہ و ریفرنس کی اشد ضرورت ، اس کے سوا مطالعہ ؟ نا جی نا ، دنیا ٹوٹوں ، تراشوں ، حوالوں تک ہی محدود ہو رہی ، کتاب پڑھنا ، اب ذوق نا رہا ، اب ممتاز مفتی کی "علی پور کا ایلی" کمپوٹر کی سکرین پر ٹکٹکی باندھے پڑھنے والی تو چیز ہی نہیں ، اس کے علاوہ لاکھوں کتب ہیں ، ان کا ایک فیصد بھی آن لائن نہیں ، لائبریری اشد ضروری ، طلب علم ، تحقیق ، تفتیش ، شوق و جستجو ، لائبریری کے سوا ممکن نہیں

:(نہیں ، کتاب کا زوال ، شائد نہیں ، اذہان کا زوال ، تہذیب ، تعمیر ، اخلاق پتہ نہیں کس کس کا زوال ، کتاب تو آج بھی قیمتی ، کل شائد ایک عجوبہ

کیا خوب یاد دلایا۔ علی پور کا ایلی۔ چھے بچوں کی ماں شہزاد کا تصور آج بھی ذہن میں محفوظ ہے۔ ہم نے تین دنوں میں پوری کتاب پڑھی تھی۔کتاب ختم ہوئی تو ذہن پر عجیب سے اداسی کئی دنوں تک رہی
 

tariisb

Chief Minister (5k+ posts)

کیا خوب یاد دلایا۔ علی پور کا ایلی۔ چھے بچوں کی ماں شہزاد کا تصور آج بھی ذہن میں محفوظ ہے۔ ہم نے تین دنوں میں پوری کتاب پڑھی تھی۔کتاب ختم ہوئی تو ذہن پر عجیب سے اداسی کئی دنوں تک رہی


فوری حوالہ ہو یا نظر دوڑانی ہو ، تو سائبر پیجز کافی ، پڑھنا ہو ، پڑھتے جانا ہو تو ، کتاب ، ہاتھ ، بستر ، لحاف ، چاۓ ، تنہائ ، پھر ماحول بنتا ہے

جی علی پور کا ایلی ، جی ممتاز مفتی ، لیکن خاص بات ؟ جو مطالعہ ، جو معلومات بچپن کے رسالوں سے ملیں ، وہ بعد نا ملیں ، ہاں زندگی کیا ، ہاۓ زندگی کیا کیا ؟ وہ علی پور کا ایلی ، شہاب نامہ ، راجہ گدھ ، وغیرہ وغیرہ سے پڑھنے کو ملی ، پھر زندگی کو کبھی سنجیدگی سے نا لیا ،

ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ھے مجھ پر
ان میں اک رمز ھے جس رمز کا مارا ھوا ذھن
مژدہ عشرتِ انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا

جون ایلیا

اب ٹی وی سکرین پر ، ڈرامے زندگی سمجھاتے ہیں ، سمجھاتے کیا ، الجھا جاتے ہیں ، زندگی ؟ کچن ، ڈرائنگ روم ، گیراج میں کھڑی گاڑی ، ہاتھ میں پھنسا آئ فون ، پردے ، تکیے ، قالین ، پیزا ، جوس ، پارک ، پارٹی ، سب رائیٹرز نے زندگی کو محدود کردیا ، لاکھوں کتابیں گرد تلے ، گمنام ہوئی جاتیں ، رہ گیا کیا ؟ فیس بک اور ٹوٹے تراشے ، نا حوالہ کوئی ، نا سند کوئی ، نا بنیاد ملی ، نا ترتیب سمجھی ، بھاگم بھاگ مقابلے کا امتحان سر پر آگیا ، سوال ہوا ؟ لیاقت علی خان کس طرح جاں بحق ہوے تھے ؟ جواب لکھا جی ایک فضائی حادثہ میں انتقال فرمایا ، بعد میں شکوہ کیا ، ملک کی حالت خراب ، خانہ خراب ، دبئی چلو ، یا سات سمندر پار بھاگ چلو
 

aamir_uetn

Prime Minister (20k+ posts)

سنہ درست ہیں۔ اگر آپ کو محبوبہ والا پرابلم نہیں تو پھر آپ بد قسمت ہیں۔


:(


یہ نہیں ہو سکتا ، عزیز من جس سیاسی بصیرت کی معراج پے وہ اتنی کم سنی میں ممکن نہیں
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)


فوری حوالہ ہو یا نظر دوڑانی ہو ، تو سائبر پیجز کافی ، پڑھنا ہو ، پڑھتے جانا ہو تو ، کتاب ، ہاتھ ، بستر ، لحاف ، چاۓ ، تنہائ ، پھر ماحول بنتا ہے

جی علی پور کا ایلی ، جی ممتاز مفتی ، لیکن خاص بات ؟ جو مطالعہ ، جو معلومات بچپن کے رسالوں سے ملیں ، وہ بعد نا ملیں ، ہاں زندگی کیا ، ہاۓ زندگی کیا کیا ؟ وہ علی پور کا ایلی ، شہاب نامہ ، راجہ گدھ ، وغیرہ وغیرہ سے پڑھنے کو ملی ، پھر زندگی کو کبھی سنجیدگی سے نا لیا ،

ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ھے مجھ پر
ان میں اک رمز ھے جس رمز کا مارا ھوا ذھن
مژدہ عشرتِ انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا

جون ایلیا

اب ٹی وی سکرین پر ، ڈرامے زندگی سمجھاتے ہیں ، سمجھاتے کیا ، الجھا جاتے ہیں ، زندگی ؟ کچن ، ڈرائنگ روم ، گیراج میں کھڑی گاڑی ، ہاتھ میں پھنسا آئ فون ، پردے ، تکیے ، قالین ، پیزا ، جوس ، پارک ، پارٹی ، سب رائیٹرز نے زندگی کو محدود کردیا ، لاکھوں کتابیں گرد تلے ، گمنام ہوئی جاتیں ، رہ گیا کیا ؟ فیس بک اور ٹوٹے تراشے ، نا حوالہ کوئی ، نا سند کوئی ، نا بنیاد ملی ، نا ترتیب سمجھی ، بھاگم بھاگ مقابلے کا امتحان سر پر آگیا ، سوال ہوا ؟ لیاقت علی خان کس طرح جاں بحق ہوے تھے ؟ جواب لکھا جی ایک فضائی حادثہ میں انتقال فرمایا ، بعد میں شکوہ کیا ، ملک کی حالت خراب ، خانہ خراب ، دبئی چلو ، یا سات سمندر پار بھاگ چلو


ایک شعر سُن لیجیے۔

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روز گار کے

ویسے آپ کی ساری باتیں درست، لیکن کچن کا یہاں کیا کام۔ بلکہ کچن میں آپ کا کیا کام؟

:p
 

aamir_uetn

Prime Minister (20k+ posts)

ایک شعر سُن لیجیے۔

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روز گار کے

ویسے آپ کی ساری باتیں درست، لیکن کچن کا یہاں کیا کام۔ بلکہ کچن میں آپ کا کیا کام؟

:p

بڑا شدید انیائے ہے ویسے ، حکومت کو کچھ کرنا چاہیے اس معاملے میں ، دلفریبی تو ساری غم روزگار میں ختم ہو جاتی ہے ، پھر محبوبہ سامنے ہو یا کمپیوٹر سکرین پے کیا فرق پڑتا ہے
 

aamir_uetn

Prime Minister (20k+ posts)

او ہ اچھا!!! میں اب سمجھا۔

بس عزیز من کی صحبت میں ہماری عجیب و غریب بصیرت بھی ذرا ہائی لیول ہو گئی ہے ، مجھے خود کچھ دیر بعد سمجھ آتا ہے کیا لکھا

:lol:
 

aamir_uetn

Prime Minister (20k+ posts)
یہاں کوئی آن لائین حواله هی دے دیں جہاں جا کر کچهه اچهی چیزیں هم بهی پڑهه سکیں کچهه تو تشنگی کم هو همیں تو لوگوں کی منتیں کرنی پڑتی هیں پاکستان سے کتابیں منگوانے کے لئے

مجھے تو جب کچھ چاہیے ہوتا ہے گوگل کرتا ہوں ، گوگل کم ہی مایوس کرتا ہے
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
یہاں کوئی آن لائین حواله هی دے دیں جہاں جا کر کچهه اچهی چیزیں هم بهی پڑهه سکیں کچهه تو تشنگی کم هو همیں تو لوگوں کی منتیں کرنی پڑتی هیں پاکستان سے کتابیں منگوانے کے لئے

https://rekhta.org/ebooks?lang=Ur

http://muftbooks.blogspot.com/p/urdu-novel-stories.html

http://lib.bazmeurdu.net/tag/اردو-ناول-آن-لائن-مفت/

http://www.urdulibrary.org/
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
بڑا شدید انیائے ہے ویسے ، حکومت کو کچھ کرنا چاہیے اس معاملے میں ، دلفریبی تو ساری غم روزگار میں ختم ہو جاتی ہے ، پھر محبوبہ سامنے ہو یا کمپیوٹر سکرین پے کیا فرق پڑتا ہے


حقیقت ہے۔ لیکن حکومت کیا کر سکتی ہے؟
 

aamir_uetn

Prime Minister (20k+ posts)

حقیقت ہے۔ لیکن حکومت کیا کر سکتی ہے؟

غم روزگار ختم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے ، حکومت کو چاہیے کبھی اپنے روز گار کو چھوڑ کے عوام کے غم روز گار کی بھی فکر کرے تا کہ ہم دوسرے غموں کو خاطر خوا وقت دے سکیں
 
Last edited: