چوری تو کی قانون نہیں توڑا

Sonya Khan

Minister (2k+ posts)
Hamid Mir has lost his credibility ..... He is no more a journalist .... and he has political ambitions which became obvious in FazlurRehman dharna ...... But big question is why didn’t he break this news before after investigative journalism....... ???
 

A.jokhio

Minister (2k+ posts)
وزیراعظم عمران خان اور اُن کے ہم نوائوں کا خیال ہے کہ اُنہوں نے بڑا کمال کر دیا ہے۔ وزیراعظم صاحب نے اتوار کو دوپہر اپنی تعریف میں خود ہی ٹویٹ کر دیا اور کہا کہ میں نے چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اچانک اضافے کی وجوہات جاننے کے لئے جو کمیٹیاں بنائی تھیں اُن کی ابتدائی رپورٹس جاری کر دی گئی ہیں جس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، ماضی کی حکومتوں نے اخلاقی جرأت کے فقدان کے باعث ایسی رپورٹس جاری کرنے سے گریز کیا۔ بڑے ادب سے جناب وزیراعظم کی خدمت میں عرض ہے کہ ایف آئی اے کے افسر واجد ضیا کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹیوں کی رپورٹ میں ایسی کوئی نئی بات نہیں جو پاکستانی عوام کو پہلے سے معلوم نہ تھی۔ پاکستان کا گستاخ اور بدتمیز میڈیا پچھلے کئی ماہ سے وہ تمام حقائق عوام کو بتا رہا تھا جو واجد ضیا کی رپورٹ میں بھی شامل ہیں اور میڈیا کی ان گستاخیوں سے تنگ آکر حکومت نے فروری 2020میں دو کمیٹیاں تشکیل دیں تاکہ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں ناجائز اضافہ کرکے منافع خوری کرنے والوں کو بےنقاب کیا جا سکے۔ وفاقی کابینہ کے پچھلے اجلاس میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے وزیراعظم کو یاد دلایا تھا کہ آپ نے چینی اور آٹے کا بحران پیدا کرنے والوں کو بےنقاب کرنے کے لئے جو کمیٹیاں تشکیل دی تھیں ان کی رپورٹیں عوام کے سامنے لانے کا وقت آگیا ہے۔ علی محمد خان کے اس مطالبے پر کئی پیشانیوں پر بل پڑ گئے اور بات ختم ہو گئی لیکن پھر یہ ہوا کہ واجد ضیا کی یہ رپورٹیں میڈیا تک پہنچ گئیں۔ ’’ہم ٹی وی‘‘ پر محمد مالک نے ان رپورٹوں کو بریک کر دیا اور جب میڈیا پر ان رپورٹوں کا چرچا شروع ہو گیا تو حکومتی ترجمان مشکل میں پڑ گئے۔ اگر تردید کرتے تو میڈیا ان رپورٹوں کا متن دکھانا شروع کر دیتا، تردید نہ کرتے تو بھی مصیبت بنتی، لہٰذا مجبوری کے عالم میں حکومت نے ابتدائی رپورٹ کو جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ کچھ داد سمیٹی جا سکے۔ اصل کریڈٹ حکومت کا نہیں‘ میڈیا کا ہے جس نے حکومت سے پہلے اس رپورٹ کو بےنقاب کر دیا۔ حکومت کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے یوٹرن لینے سے گریز کیا، لہٰذا یوٹرن نہ لینے پر یہ خاکسار بھی دل کی گہرائیوں سے وزیراعظم صاحب کا شکر گزار ہے۔ وزیراعظم جانتے ہیں کہ کون کون ان رپورٹوں کو جاری نہ کرنے کا مشورہ دے رہا تھا۔


واجد ضیا کی مرتب کردہ دو رپورٹوں کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق چینی اور آٹے کے خود ساختہ بحران کی ذمہ دار شخصیات کا تعلق وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ ہے لیکن تمام ذمہ داروں کے نام ان رپورٹوں میں شامل نہیں ہیں۔ رپورٹ میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار کے بھائی، شریف گروپ اور اومنی گروپ کا ذکر تو کردیا گیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی اور شوگر ایڈوائزری بورڈ نے چینی کی برآمد کا فیصلہ کیوں کیا، کس کے کہنے پر کیا؟ کیا شوگر ایڈوائزری بورڈ کے اہم اجلاسوں کی صدارت وزیراعظم کے مشیر تجارت رزاق دائود نہیں کرتے رہے؟ یہ تو بتایا گیا کہ شوگر ملوں کو سبسڈی دینے کا فائدہ کس کس نے اٹھایا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ سبسڈی کا فیصلہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کس کے کہنے پر کیا؟ واجد ضیا کی حتمی رپورٹیں 25اپریل تک مکمل ہوں گی اور پھر وزیراعظم کا اصل امتحان شروع ہوگا کیونکہ عوام کو صرف چینی چوروں اور آٹا چوروں کے نام جاننے میں دلچسپی نہیں، عوام کو یہ نام گستاخ میڈیا پہلے ہی بتا چکا ہے، عوام کو یہ انتظار ہے کہ چوروں کے خلاف عمران خان نے کیا کارروائی کی اور جن اربابِ اختیار کے احکامات سے ان چوروں نے اربوں روپے کمائے ان اربابِ اختیار کو عبرت کی مثال بنایا جائے گا یا نہیں؟ یہ معاملہ صرف چینی اور آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرکے منافع خوری کا نہیں بلکہ قومی خزانے کو لوٹنے اور پاکستان کی زراعت کو برباد کرنے کا بھی ہے اور اس جرم میں صرف موجودہ حکومت نہیں ماضی کی حکومتیں بھی ملوث رہی ہیں۔ شوگر مافیا نے صرف عمران خان کے دور میں لوٹ مار نہیں کی، یہ مافیا پرویز مشرف کے دور سے لوٹ مار کر رہا ہے اور اس مافیا کے کرتا دھرتا سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس مافیا کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس نے کپاس کے کاشتکار کو گنے کی کاشت پر مجبور کیا اور گنے کی قیمت بھی اپنی مرضی کے مطابق دی، یوں کپاس پیدا کرنے والے ملک کو کپاس درآمد کرنے پر لگا دیا اور شوگر ملوں کے ذریعے ایک طرف کاشتکاروں کو لوٹا دوسری طرف حکومت سے سبسڈی اور ریبیٹ لے کر چینی برآمد کی اور اربوں روپے کما لیے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک طرف شوگر ملز ایسوسی ایشن کاشتکاروں کو گنے کی وہ قیمت ادا نہیں کرتی جو حکومت مقرر کرتی ہے دوسری طرف آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن بھی کپاس کی امدادی قیمت مقرر نہیں ہونے دیتی تاکہ کاشتکار سے کپاس نہ خریدنی پڑے۔ ہر حکومت کے دور میں وفاقی کابینہ میں گروپنگ پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک گروپ کاشتکاروں کیلئے روتا ہے، دوسرا گروپ صنعت کاروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، لیکن تحریک انصاف کی حکومت میں چند بیورو کریٹ صنعتکار گروپ کو دبانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ واجد ضیا رپورٹ کے ذریعہ حکومت میں شامل چند بااثر صنعت کاروں کو بےنقاب کرنا کاشتکارروں کی نہیں بلکہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی فتح قرار دی جا رہی ہے۔ اعظم خان کا اصل نشانہ جہانگیر ترین ہیں لیکن واجد ضیا نے حتمی رپورٹ اعظم خان سے پوچھ کر نہیں لکھنی۔ وہ اس معاملے میں عبدالرزاق دائود، عبدالحفیظ شیخ اور عثمان بزدار کے کردار کا جائزہ بھی لیں گے اور اگر ان کرداروں کو نظر انداز کریں گے تو پھر گستاخ میڈیا کے سوالات سے بچ نہیں پائیں گے۔

واجد ضیا کی حتمی رپورٹ 25اپریل تک سامنے آئے گی لیکن یقین رکھیے 25اپریل سے پہلے پہلے بہت سے حقائق سامنے آنے والے ہیں اور یہ حقائق بھی میڈیا سامنے لائے گا۔ جن لوگوں پر الزامات کا بوجھ ہے وہ کہتے ہیں ہم نے کوئی قانون نہیں توڑا۔ میڈیا کو اس بحث میں الجھایا جائے گا کہ جن ’’معزز‘‘ شخصیات کو چور قرار دیا جا رہا ہے انہوں نے غیراخلاقی فائدہ تو اٹھایا لیکن کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا۔ میڈیا کو اس بحث میں نہیں الجھنا کیونکہ قانون کے دائرے میں رہ کر ناجائز منافع خوری دراصل چوری ہے، ہمیں چور کو چور ہی کہنا ہے لیکن اس بات کا خیال رہے کہ کسی پر غلط الزام نہ لگے۔

But people were giving same logic against zardari and Nawaz Sharif corruption...hypocrite are recognized by their change in principal stances....
 

Zaidi Qasim

Prime Minister (20k+ posts)
They are dumping JKT today as if he never existed before. Obviously it is a high time liability . Till yesterday ,JKT was their biggest Financier , Spent money like anything to bought Lotas for Bongi Khan . Even when he was disqualified , Bongi khan still kept him in his company nd allowed him to preside over the cabinet Meetings . He has lot of influence on all the lotas he bought for Bongi and Boots. The cries for punishment from the poor of the nation have become too powerful . Now, the policy statement is that dump him as quickly as possible and don't even remember him .. But for one thing, JKT said and he is correct , he didn't approve the subsidy himself. It was the whole Cabinet which was involved including Bongi Khan ...
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
PHATWARIS ABBA CRIMINAL CONVICT TOOK MONEY FROM ISI AND OSAMA BIN LADEN, BAYGHERAT SCUM OF THE EARTH SHOULD DIE IN PISS.
 

Munawarkhan

Chief Minister (5k+ posts)
jang walay rotay rahi, paisay nahi milengay.


وزیراعظم عمران خان اور اُن کے ہم نوائوں کا خیال ہے کہ اُنہوں نے بڑا کمال کر دیا ہے۔ وزیراعظم صاحب نے اتوار کو دوپہر اپنی تعریف میں خود ہی ٹویٹ کر دیا اور کہا کہ میں نے چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اچانک اضافے کی وجوہات جاننے کے لئے جو کمیٹیاں بنائی تھیں اُن کی ابتدائی رپورٹس جاری کر دی گئی ہیں جس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، ماضی کی حکومتوں نے اخلاقی جرأت کے فقدان کے باعث ایسی رپورٹس جاری کرنے سے گریز کیا۔ بڑے ادب سے جناب وزیراعظم کی خدمت میں عرض ہے کہ ایف آئی اے کے افسر واجد ضیا کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹیوں کی رپورٹ میں ایسی کوئی نئی بات نہیں جو پاکستانی عوام کو پہلے سے معلوم نہ تھی۔ پاکستان کا گستاخ اور بدتمیز میڈیا پچھلے کئی ماہ سے وہ تمام حقائق عوام کو بتا رہا تھا جو واجد ضیا کی رپورٹ میں بھی شامل ہیں اور میڈیا کی ان گستاخیوں سے تنگ آکر حکومت نے فروری 2020میں دو کمیٹیاں تشکیل دیں تاکہ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں ناجائز اضافہ کرکے منافع خوری کرنے والوں کو بےنقاب کیا جا سکے۔ وفاقی کابینہ کے پچھلے اجلاس میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے وزیراعظم کو یاد دلایا تھا کہ آپ نے چینی اور آٹے کا بحران پیدا کرنے والوں کو بےنقاب کرنے کے لئے جو کمیٹیاں تشکیل دی تھیں ان کی رپورٹیں عوام کے سامنے لانے کا وقت آگیا ہے۔ علی محمد خان کے اس مطالبے پر کئی پیشانیوں پر بل پڑ گئے اور بات ختم ہو گئی لیکن پھر یہ ہوا کہ واجد ضیا کی یہ رپورٹیں میڈیا تک پہنچ گئیں۔ ’’ہم ٹی وی‘‘ پر محمد مالک نے ان رپورٹوں کو بریک کر دیا اور جب میڈیا پر ان رپورٹوں کا چرچا شروع ہو گیا تو حکومتی ترجمان مشکل میں پڑ گئے۔ اگر تردید کرتے تو میڈیا ان رپورٹوں کا متن دکھانا شروع کر دیتا، تردید نہ کرتے تو بھی مصیبت بنتی، لہٰذا مجبوری کے عالم میں حکومت نے ابتدائی رپورٹ کو جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ کچھ داد سمیٹی جا سکے۔ اصل کریڈٹ حکومت کا نہیں‘ میڈیا کا ہے جس نے حکومت سے پہلے اس رپورٹ کو بےنقاب کر دیا۔ حکومت کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے یوٹرن لینے سے گریز کیا، لہٰذا یوٹرن نہ لینے پر یہ خاکسار بھی دل کی گہرائیوں سے وزیراعظم صاحب کا شکر گزار ہے۔ وزیراعظم جانتے ہیں کہ کون کون ان رپورٹوں کو جاری نہ کرنے کا مشورہ دے رہا تھا۔


واجد ضیا کی مرتب کردہ دو رپورٹوں کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق چینی اور آٹے کے خود ساختہ بحران کی ذمہ دار شخصیات کا تعلق وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ ہے لیکن تمام ذمہ داروں کے نام ان رپورٹوں میں شامل نہیں ہیں۔ رپورٹ میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار کے بھائی، شریف گروپ اور اومنی گروپ کا ذکر تو کردیا گیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی اور شوگر ایڈوائزری بورڈ نے چینی کی برآمد کا فیصلہ کیوں کیا، کس کے کہنے پر کیا؟ کیا شوگر ایڈوائزری بورڈ کے اہم اجلاسوں کی صدارت وزیراعظم کے مشیر تجارت رزاق دائود نہیں کرتے رہے؟ یہ تو بتایا گیا کہ شوگر ملوں کو سبسڈی دینے کا فائدہ کس کس نے اٹھایا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ سبسڈی کا فیصلہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کس کے کہنے پر کیا؟ واجد ضیا کی حتمی رپورٹیں 25اپریل تک مکمل ہوں گی اور پھر وزیراعظم کا اصل امتحان شروع ہوگا کیونکہ عوام کو صرف چینی چوروں اور آٹا چوروں کے نام جاننے میں دلچسپی نہیں، عوام کو یہ نام گستاخ میڈیا پہلے ہی بتا چکا ہے، عوام کو یہ انتظار ہے کہ چوروں کے خلاف عمران خان نے کیا کارروائی کی اور جن اربابِ اختیار کے احکامات سے ان چوروں نے اربوں روپے کمائے ان اربابِ اختیار کو عبرت کی مثال بنایا جائے گا یا نہیں؟ یہ معاملہ صرف چینی اور آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرکے منافع خوری کا نہیں بلکہ قومی خزانے کو لوٹنے اور پاکستان کی زراعت کو برباد کرنے کا بھی ہے اور اس جرم میں صرف موجودہ حکومت نہیں ماضی کی حکومتیں بھی ملوث رہی ہیں۔ شوگر مافیا نے صرف عمران خان کے دور میں لوٹ مار نہیں کی، یہ مافیا پرویز مشرف کے دور سے لوٹ مار کر رہا ہے اور اس مافیا کے کرتا دھرتا سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس مافیا کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس نے کپاس کے کاشتکار کو گنے کی کاشت پر مجبور کیا اور گنے کی قیمت بھی اپنی مرضی کے مطابق دی، یوں کپاس پیدا کرنے والے ملک کو کپاس درآمد کرنے پر لگا دیا اور شوگر ملوں کے ذریعے ایک طرف کاشتکاروں کو لوٹا دوسری طرف حکومت سے سبسڈی اور ریبیٹ لے کر چینی برآمد کی اور اربوں روپے کما لیے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک طرف شوگر ملز ایسوسی ایشن کاشتکاروں کو گنے کی وہ قیمت ادا نہیں کرتی جو حکومت مقرر کرتی ہے دوسری طرف آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن بھی کپاس کی امدادی قیمت مقرر نہیں ہونے دیتی تاکہ کاشتکار سے کپاس نہ خریدنی پڑے۔ ہر حکومت کے دور میں وفاقی کابینہ میں گروپنگ پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک گروپ کاشتکاروں کیلئے روتا ہے، دوسرا گروپ صنعت کاروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، لیکن تحریک انصاف کی حکومت میں چند بیورو کریٹ صنعتکار گروپ کو دبانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ واجد ضیا رپورٹ کے ذریعہ حکومت میں شامل چند بااثر صنعت کاروں کو بےنقاب کرنا کاشتکارروں کی نہیں بلکہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی فتح قرار دی جا رہی ہے۔ اعظم خان کا اصل نشانہ جہانگیر ترین ہیں لیکن واجد ضیا نے حتمی رپورٹ اعظم خان سے پوچھ کر نہیں لکھنی۔ وہ اس معاملے میں عبدالرزاق دائود، عبدالحفیظ شیخ اور عثمان بزدار کے کردار کا جائزہ بھی لیں گے اور اگر ان کرداروں کو نظر انداز کریں گے تو پھر گستاخ میڈیا کے سوالات سے بچ نہیں پائیں گے۔

واجد ضیا کی حتمی رپورٹ 25اپریل تک سامنے آئے گی لیکن یقین رکھیے 25اپریل سے پہلے پہلے بہت سے حقائق سامنے آنے والے ہیں اور یہ حقائق بھی میڈیا سامنے لائے گا۔ جن لوگوں پر الزامات کا بوجھ ہے وہ کہتے ہیں ہم نے کوئی قانون نہیں توڑا۔ میڈیا کو اس بحث میں الجھایا جائے گا کہ جن ’’معزز‘‘ شخصیات کو چور قرار دیا جا رہا ہے انہوں نے غیراخلاقی فائدہ تو اٹھایا لیکن کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا۔ میڈیا کو اس بحث میں نہیں الجھنا کیونکہ قانون کے دائرے میں رہ کر ناجائز منافع خوری دراصل چوری ہے، ہمیں چور کو چور ہی کہنا ہے لیکن اس بات کا خیال رہے کہ کسی پر غلط الزام نہ لگے۔

 

Munawarkhan

Chief Minister (5k+ posts)
They are dumping JKT today as if he never existed before. Obviously it is a high time liability . Till yesterday ,JKT was their biggest Financier , Spent money like anything to bought Lotas for Bongi Khan . Even when he was disqualified , Bongi khan still kept him in his company nd allowed him to preside over the cabinet Meetings . He has lot of influence on all the lotas he bought for Bongi and Boots. The cries for punishment from the poor of the nation have become too powerful . Now, the policy statement is that dump him as quickly as possible and don't even remember him .. But for one thing, JKT said and he is correct , he didn't approve the subsidy himself. It was the whole Cabinet which was involved including Bongi Khan ...

and according to you taking subsidy is a crime, so JKT should be punished.

wah wah .
 

Ko Ko Korina

Councller (250+ posts)
its very SIMPLE

the most important
Advisors and Minister of Imran Khan were busy milking the poor public by securing favorable policy making decisions from the Cabinet that works under the leadership of Prime Minister they were caught and NEWS was leaked to the media and as a preventive act Imran decided to dump them in hope for saving his own face.

Responsibility stops at Prime Minister and he is as guilty as his advisors.


This is the Naya Pakistan Imran promised ?
 

Ko Ko Korina

Councller (250+ posts)
its very SIMPLE

the most important Advisors and Minister of Imran Khan were busy milking the poor public by securing favorable policy decisions from the Cabinet that works under the leadership of Prime Minister they were caught and NEWS was leaked to the media and as a preventive act Imran decided to dump them in hope for saving his own face.

Responsibility stops at Prime Minister and he is as guilty as his advisors.


This is the Naya Pakistan Imran promised ?






shafiqueimran
TONIC and bandookhan
Wake up Pak
wamufti
ForReal

ahameed
Vulcan Vendetta
Sonya Khan
A.jokhio
Munawarkhan
 

Zaidi Qasim

Prime Minister (20k+ posts)
and according to you taking subsidy is a crime, so JKT should be punished.

wah wah .
Having an influence on policy making is a crime . Policy which end up benefiting the person . Remember, he was caught before for inside trading. Having a good guy in eyes of Boots helped him get out of the Sc unscathed.
 

peaceandjustice

Chief Minister (5k+ posts)
وزیراعظم عمران خان اور اُن کے ہم نوائوں کا خیال ہے کہ اُنہوں نے بڑا کمال کر دیا ہے۔ وزیراعظم صاحب نے اتوار کو دوپہر اپنی تعریف میں خود ہی ٹویٹ کر دیا اور کہا کہ میں نے چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اچانک اضافے کی وجوہات جاننے کے لئے جو کمیٹیاں بنائی تھیں اُن کی ابتدائی رپورٹس جاری کر دی گئی ہیں جس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، ماضی کی حکومتوں نے اخلاقی جرأت کے فقدان کے باعث ایسی رپورٹس جاری کرنے سے گریز کیا۔ بڑے ادب سے جناب وزیراعظم کی خدمت میں عرض ہے کہ ایف آئی اے کے افسر واجد ضیا کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹیوں کی رپورٹ میں ایسی کوئی نئی بات نہیں جو پاکستانی عوام کو پہلے سے معلوم نہ تھی۔ پاکستان کا گستاخ اور بدتمیز میڈیا پچھلے کئی ماہ سے وہ تمام حقائق عوام کو بتا رہا تھا جو واجد ضیا کی رپورٹ میں بھی شامل ہیں اور میڈیا کی ان گستاخیوں سے تنگ آکر حکومت نے فروری 2020میں دو کمیٹیاں تشکیل دیں تاکہ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں ناجائز اضافہ کرکے منافع خوری کرنے والوں کو بےنقاب کیا جا سکے۔ وفاقی کابینہ کے پچھلے اجلاس میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے وزیراعظم کو یاد دلایا تھا کہ آپ نے چینی اور آٹے کا بحران پیدا کرنے والوں کو بےنقاب کرنے کے لئے جو کمیٹیاں تشکیل دی تھیں ان کی رپورٹیں عوام کے سامنے لانے کا وقت آگیا ہے۔ علی محمد خان کے اس مطالبے پر کئی پیشانیوں پر بل پڑ گئے اور بات ختم ہو گئی لیکن پھر یہ ہوا کہ واجد ضیا کی یہ رپورٹیں میڈیا تک پہنچ گئیں۔ ’’ہم ٹی وی‘‘ پر محمد مالک نے ان رپورٹوں کو بریک کر دیا اور جب میڈیا پر ان رپورٹوں کا چرچا شروع ہو گیا تو حکومتی ترجمان مشکل میں پڑ گئے۔ اگر تردید کرتے تو میڈیا ان رپورٹوں کا متن دکھانا شروع کر دیتا، تردید نہ کرتے تو بھی مصیبت بنتی، لہٰذا مجبوری کے عالم میں حکومت نے ابتدائی رپورٹ کو جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ کچھ داد سمیٹی جا سکے۔ اصل کریڈٹ حکومت کا نہیں‘ میڈیا کا ہے جس نے حکومت سے پہلے اس رپورٹ کو بےنقاب کر دیا۔ حکومت کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے یوٹرن لینے سے گریز کیا، لہٰذا یوٹرن نہ لینے پر یہ خاکسار بھی دل کی گہرائیوں سے وزیراعظم صاحب کا شکر گزار ہے۔ وزیراعظم جانتے ہیں کہ کون کون ان رپورٹوں کو جاری نہ کرنے کا مشورہ دے رہا تھا۔


واجد ضیا کی مرتب کردہ دو رپورٹوں کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق چینی اور آٹے کے خود ساختہ بحران کی ذمہ دار شخصیات کا تعلق وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ ہے لیکن تمام ذمہ داروں کے نام ان رپورٹوں میں شامل نہیں ہیں۔ رپورٹ میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار کے بھائی، شریف گروپ اور اومنی گروپ کا ذکر تو کردیا گیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی اور شوگر ایڈوائزری بورڈ نے چینی کی برآمد کا فیصلہ کیوں کیا، کس کے کہنے پر کیا؟ کیا شوگر ایڈوائزری بورڈ کے اہم اجلاسوں کی صدارت وزیراعظم کے مشیر تجارت رزاق دائود نہیں کرتے رہے؟ یہ تو بتایا گیا کہ شوگر ملوں کو سبسڈی دینے کا فائدہ کس کس نے اٹھایا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ سبسڈی کا فیصلہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کس کے کہنے پر کیا؟ واجد ضیا کی حتمی رپورٹیں 25اپریل تک مکمل ہوں گی اور پھر وزیراعظم کا اصل امتحان شروع ہوگا کیونکہ عوام کو صرف چینی چوروں اور آٹا چوروں کے نام جاننے میں دلچسپی نہیں، عوام کو یہ نام گستاخ میڈیا پہلے ہی بتا چکا ہے، عوام کو یہ انتظار ہے کہ چوروں کے خلاف عمران خان نے کیا کارروائی کی اور جن اربابِ اختیار کے احکامات سے ان چوروں نے اربوں روپے کمائے ان اربابِ اختیار کو عبرت کی مثال بنایا جائے گا یا نہیں؟ یہ معاملہ صرف چینی اور آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرکے منافع خوری کا نہیں بلکہ قومی خزانے کو لوٹنے اور پاکستان کی زراعت کو برباد کرنے کا بھی ہے اور اس جرم میں صرف موجودہ حکومت نہیں ماضی کی حکومتیں بھی ملوث رہی ہیں۔ شوگر مافیا نے صرف عمران خان کے دور میں لوٹ مار نہیں کی، یہ مافیا پرویز مشرف کے دور سے لوٹ مار کر رہا ہے اور اس مافیا کے کرتا دھرتا سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس مافیا کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس نے کپاس کے کاشتکار کو گنے کی کاشت پر مجبور کیا اور گنے کی قیمت بھی اپنی مرضی کے مطابق دی، یوں کپاس پیدا کرنے والے ملک کو کپاس درآمد کرنے پر لگا دیا اور شوگر ملوں کے ذریعے ایک طرف کاشتکاروں کو لوٹا دوسری طرف حکومت سے سبسڈی اور ریبیٹ لے کر چینی برآمد کی اور اربوں روپے کما لیے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک طرف شوگر ملز ایسوسی ایشن کاشتکاروں کو گنے کی وہ قیمت ادا نہیں کرتی جو حکومت مقرر کرتی ہے دوسری طرف آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن بھی کپاس کی امدادی قیمت مقرر نہیں ہونے دیتی تاکہ کاشتکار سے کپاس نہ خریدنی پڑے۔ ہر حکومت کے دور میں وفاقی کابینہ میں گروپنگ پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک گروپ کاشتکاروں کیلئے روتا ہے، دوسرا گروپ صنعت کاروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، لیکن تحریک انصاف کی حکومت میں چند بیورو کریٹ صنعتکار گروپ کو دبانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ واجد ضیا رپورٹ کے ذریعہ حکومت میں شامل چند بااثر صنعت کاروں کو بےنقاب کرنا کاشتکارروں کی نہیں بلکہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی فتح قرار دی جا رہی ہے۔ اعظم خان کا اصل نشانہ جہانگیر ترین ہیں لیکن واجد ضیا نے حتمی رپورٹ اعظم خان سے پوچھ کر نہیں لکھنی۔ وہ اس معاملے میں عبدالرزاق دائود، عبدالحفیظ شیخ اور عثمان بزدار کے کردار کا جائزہ بھی لیں گے اور اگر ان کرداروں کو نظر انداز کریں گے تو پھر گستاخ میڈیا کے سوالات سے بچ نہیں پائیں گے۔

واجد ضیا کی حتمی رپورٹ 25اپریل تک سامنے آئے گی لیکن یقین رکھیے 25اپریل سے پہلے پہلے بہت سے حقائق سامنے آنے والے ہیں اور یہ حقائق بھی میڈیا سامنے لائے گا۔ جن لوگوں پر الزامات کا بوجھ ہے وہ کہتے ہیں ہم نے کوئی قانون نہیں توڑا۔ میڈیا کو اس بحث میں الجھایا جائے گا کہ جن ’’معزز‘‘ شخصیات کو چور قرار دیا جا رہا ہے انہوں نے غیراخلاقی فائدہ تو اٹھایا لیکن کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا۔ میڈیا کو اس بحث میں نہیں الجھنا کیونکہ قانون کے دائرے میں رہ کر ناجائز منافع خوری دراصل چوری ہے، ہمیں چور کو چور ہی کہنا ہے لیکن اس بات کا خیال رہے کہ کسی پر غلط الزام نہ لگے۔

ساری عمر صحافیوں کے نام کا استعمال کرکے کاروبار کرنے والے میڈیا کے مراسی جنھوں نے اپنے بیمار لیڈر کو اپنی بکواسیات کر کر کے لندن بھگا دیا یہ میڈیا کے نمونے اس قوم کو بتا رھے ھیں کہ حکومت کو کیا کرنا ھے عوام کواب ان بیشرم میڈیا کی کیسی بکواسیات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان سرکس کے مداریوں کا ٹائم ختم ہو گیا ھے اور عوام اب ان پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ھے اورمیڈیاکے جوکروں پر کوئی اعتبار نہیں کرتا کہ یہ اپنے ٹاک شوز میں کیا جھوٹ کے نمونے پیش کرتے ہیں یا اپنے اخبارات کےکالمز میں الفاظ کی کیا فنکاریاں دکھاتے ہیں پاکستان کے میڈیا کا چالیس سالوں کا جھوٹ اور اور قلابازیاں عوام کے سامنے ہیں کہ کس طرح یہ کرپٹ میڈیا مافیاز ھر دور میں اپنے کرپٹ آقاؤں سے بھتہ وصول کرتا رہا ھے
 

INDUS1

MPA (400+ posts)
وزیراعظم عمران خان اور اُن کے ہم نوائوں کا خیال ہے کہ اُنہوں نے بڑا کمال کر دیا ہے۔ وزیراعظم صاحب نے اتوار کو دوپہر اپنی تعریف میں خود ہی ٹویٹ کر دیا اور کہا کہ میں نے چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اچانک اضافے کی وجوہات جاننے کے لئے جو کمیٹیاں بنائی تھیں اُن کی ابتدائی رپورٹس جاری کر دی گئی ہیں جس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی،

ماضی کی حکومتوں نے اخلاقی جرأت کے فقدان کے باعث ایسی رپورٹس جاری کرنے سے گریز کیا۔ بڑے ادب سے جناب وزیراعظم کی خدمت میں عرض ہے کہ ایف آئی اے کے افسر واجد ضیا کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹیوں کی رپورٹ میں ایسی کوئی نئی بات نہیں جو پاکستانی عوام کو پہلے سے معلوم نہ تھی۔ پاکستان کا گستاخ اور بدتمیز میڈیا پچھلے کئی ماہ سے وہ تمام حقائق عوام کو بتا رہا تھا جو واجد ضیا کی رپورٹ میں بھی شامل ہیں اور میڈیا کی ان گستاخیوں سے تنگ آکر حکومت نے فروری 2020میں دو کمیٹیاں تشکیل دیں تاکہ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں ناجائز اضافہ کرکے منافع خوری کرنے والوں کو بےنقاب کیا جا سکے۔

وفاقی کابینہ کے پچھلے اجلاس میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے وزیراعظم کو یاد دلایا تھا کہ آپ نے چینی اور آٹے کا بحران پیدا کرنے والوں کو بےنقاب کرنے کے لئے جو کمیٹیاں تشکیل دی تھیں ان کی رپورٹیں عوام کے سامنے لانے کا وقت آگیا ہے۔ علی محمد خان کے اس مطالبے پر کئی پیشانیوں پر بل پڑ گئے اور بات ختم ہو گئی لیکن پھر یہ ہوا کہ واجد ضیا کی یہ رپورٹیں میڈیا تک پہنچ گئیں۔ ’’ہم ٹی وی‘‘ پر محمد مالک نے ان رپورٹوں کو بریک کر دیا اور جب میڈیا پر ان رپورٹوں کا چرچا شروع ہو گیا تو حکومتی ترجمان مشکل میں پڑ گئے۔

تردید کرتے تو میڈیا ان رپورٹوں کا متن دکھانا شروع کر دیتا، تردید نہ کرتے تو بھی مصیبت بنتی، لہٰذا مجبوری کے عالم میں حکومت نے ابتدائی رپورٹ کو جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ کچھ داد سمیٹی جا سکے۔ اصل کریڈٹ حکومت کا نہیں‘ میڈیا کا ہے جس نے حکومت سے پہلے اس رپورٹ کو بےنقاب کر دیا۔ حکومت کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے یوٹرن لینے سے گریز کیا، لہٰذا یوٹرن نہ لینے پر یہ خاکسار بھی دل کی گہرائیوں سے وزیراعظم صاحب کا شکر گزار ہے۔ وزیراعظم جانتے ہیں کہ کون کون ان رپورٹوں کو جاری نہ کرنے کا مشورہ دے رہا تھا۔



واجد ضیا کی مرتب کردہ دو رپورٹوں کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق چینی اور آٹے کے خود ساختہ بحران کی ذمہ دار شخصیات کا تعلق وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ ہے لیکن تمام ذمہ داروں کے نام ان رپورٹوں میں شامل نہیں ہیں۔ رپورٹ میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار کے بھائی، شریف گروپ اور اومنی گروپ کا ذکر تو کردیا گیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی اور شوگر ایڈوائزری بورڈ نے چینی کی برآمد کا فیصلہ کیوں کیا، کس کے کہنے پر کیا؟ کیا شوگر ایڈوائزری بورڈ کے اہم اجلاسوں کی صدارت وزیراعظم کے مشیر تجارت رزاق دائود نہیں کرتے رہے؟ یہ تو بتایا گیا کہ شوگر ملوں کو سبسڈی دینے کا فائدہ کس کس نے اٹھایا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ سبسڈی کا فیصلہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کس کے کہنے پر کیا؟ واجد ضیا کی حتمی رپورٹیں 25اپریل تک مکمل ہوں گی اور پھر وزیراعظم کا اصل امتحان شروع ہوگا کیونکہ عوام کو صرف چینی چوروں اور آٹا چوروں کے نام جاننے میں دلچسپی نہیں،

عوام کو یہ نام گستاخ میڈیا پہلے ہی بتا چکا ہے، عوام کو یہ انتظار ہے کہ چوروں کے خلاف عمران خان نے کیا کارروائی کی اور جن اربابِ اختیار کے احکامات سے ان چوروں نے اربوں روپے کمائے ان اربابِ اختیار کو عبرت کی مثال بنایا جائے گا یا نہیں؟ یہ معاملہ صرف چینی اور آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرکے منافع خوری کا نہیں بلکہ قومی خزانے کو لوٹنے اور پاکستان کی زراعت کو برباد کرنے کا بھی ہے اور اس جرم میں صرف موجودہ حکومت نہیں ماضی کی حکومتیں بھی ملوث رہی ہیں۔ شوگر مافیا نے صرف عمران خان کے دور میں لوٹ مار نہیں کی، یہ مافیا پرویز مشرف کے دور سے لوٹ مار کر رہا ہے اور اس مافیا کے کرتا دھرتا سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس مافیا کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس نے کپاس کے کاشتکار کو گنے کی کاشت پر مجبور کیا اور گنے کی قیمت بھی اپنی مرضی کے مطابق دی، یوں کپاس پیدا کرنے والے ملک کو کپاس درآمد کرنے پر لگا دیا اور شوگر ملوں کے ذریعے ایک طرف کاشتکاروں کو لوٹا دوسری طرف حکومت سے سبسڈی اور ریبیٹ لے کر چینی برآمد کی اور اربوں روپے کما لیے۔ قابلِ غور بات یہ ہے

کہ ایک طرف شوگر ملز ایسوسی ایشن کاشتکاروں کو گنے کی وہ قیمت ادا نہیں کرتی جو حکومت مقرر کرتی ہے دوسری طرف آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن بھی کپاس کی امدادی قیمت مقرر نہیں ہونے دیتی تاکہ کاشتکار سے کپاس نہ خریدنی پڑے۔ ہر حکومت کے دور میں وفاقی کابینہ میں گروپنگ پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک گروپ کاشتکاروں کیلئے روتا ہے، دوسرا گروپ صنعت کاروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، لیکن تحریک انصاف کی حکومت میں چند بیورو کریٹ صنعتکار گروپ کو دبانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ واجد ضیا رپورٹ کے ذریعہ حکومت میں شامل چند بااثر صنعت کاروں کو بےنقاب کرنا کاشتکارروں کی نہیں بلکہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی فتح قرار دی جا رہی ہے۔ اعظم خان کا اصل نشانہ جہانگیر ترین ہیں لیکن واجد ضیا نے حتمی رپورٹ اعظم خان سے پوچھ کر نہیں لکھنی۔ وہ اس معاملے میں عبدالرزاق دائود، عبدالحفیظ شیخ اور عثمان بزدار کے کردار کا جائزہ بھی لیں گے اور اگر ان کرداروں کو نظر انداز کریں گے تو پھر گستاخ میڈیا کے سوالات سے بچ نہیں پائیں گے۔

واجد ضیا کی حتمی رپورٹ 25اپریل تک سامنے آئے گی لیکن یقین رکھیے 25اپریل سے پہلے پہلے بہت سے حقائق سامنے آنے والے ہیں اور یہ حقائق بھی میڈیا سامنے لائے گا۔ جن لوگوں پر الزامات کا بوجھ ہے وہ کہتے ہیں ہم نے کوئی قانون نہیں توڑا۔ میڈیا کو اس بحث میں الجھایا جائے گا کہ جن ’’معزز‘‘ شخصیات کو چور قرار دیا جا رہا ہے انہوں نے غیراخلاقی فائدہ تو اٹھایا لیکن کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا۔ میڈیا کو اس بحث میں نہیں الجھنا کیونکہ قانون کے دائرے میں رہ کر ناجائز منافع خوری دراصل چوری ہے، ہمیں چور کو چور ہی کہنا ہے لیکن اس بات کا خیال رہے کہ کسی پر غلط الزام نہ لگے۔

bhai barood wah, KIA story garhi hai. wah
 

AhmadSaleem264

Minister (2k+ posts)
وزیراعظم عمران خان اور اُن کے ہم نوائوں کا خیال ہے کہ اُنہوں نے بڑا کمال کر دیا ہے۔ وزیراعظم صاحب نے اتوار کو دوپہر اپنی تعریف میں خود ہی ٹویٹ کر دیا اور کہا کہ میں نے چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اچانک اضافے کی وجوہات جاننے کے لئے جو کمیٹیاں بنائی تھیں اُن کی ابتدائی رپورٹس جاری کر دی گئی ہیں جس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی،

ماضی کی حکومتوں نے اخلاقی جرأت کے فقدان کے باعث ایسی رپورٹس جاری کرنے سے گریز کیا۔ بڑے ادب سے جناب وزیراعظم کی خدمت میں عرض ہے کہ ایف آئی اے کے افسر واجد ضیا کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹیوں کی رپورٹ میں ایسی کوئی نئی بات نہیں جو پاکستانی عوام کو پہلے سے معلوم نہ تھی۔ پاکستان کا گستاخ اور بدتمیز میڈیا پچھلے کئی ماہ سے وہ تمام حقائق عوام کو بتا رہا تھا جو واجد ضیا کی رپورٹ میں بھی شامل ہیں اور میڈیا کی ان گستاخیوں سے تنگ آکر حکومت نے فروری 2020میں دو کمیٹیاں تشکیل دیں تاکہ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں ناجائز اضافہ کرکے منافع خوری کرنے والوں کو بےنقاب کیا جا سکے۔

وفاقی کابینہ کے پچھلے اجلاس میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے وزیراعظم کو یاد دلایا تھا کہ آپ نے چینی اور آٹے کا بحران پیدا کرنے والوں کو بےنقاب کرنے کے لئے جو کمیٹیاں تشکیل دی تھیں ان کی رپورٹیں عوام کے سامنے لانے کا وقت آگیا ہے۔ علی محمد خان کے اس مطالبے پر کئی پیشانیوں پر بل پڑ گئے اور بات ختم ہو گئی لیکن پھر یہ ہوا کہ واجد ضیا کی یہ رپورٹیں میڈیا تک پہنچ گئیں۔ ’’ہم ٹی وی‘‘ پر محمد مالک نے ان رپورٹوں کو بریک کر دیا اور جب میڈیا پر ان رپورٹوں کا چرچا شروع ہو گیا تو حکومتی ترجمان مشکل میں پڑ گئے۔

تردید کرتے تو میڈیا ان رپورٹوں کا متن دکھانا شروع کر دیتا، تردید نہ کرتے تو بھی مصیبت بنتی، لہٰذا مجبوری کے عالم میں حکومت نے ابتدائی رپورٹ کو جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ کچھ داد سمیٹی جا سکے۔ اصل کریڈٹ حکومت کا نہیں‘ میڈیا کا ہے جس نے حکومت سے پہلے اس رپورٹ کو بےنقاب کر دیا۔ حکومت کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے یوٹرن لینے سے گریز کیا، لہٰذا یوٹرن نہ لینے پر یہ خاکسار بھی دل کی گہرائیوں سے وزیراعظم صاحب کا شکر گزار ہے۔ وزیراعظم جانتے ہیں کہ کون کون ان رپورٹوں کو جاری نہ کرنے کا مشورہ دے رہا تھا۔



واجد ضیا کی مرتب کردہ دو رپورٹوں کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق چینی اور آٹے کے خود ساختہ بحران کی ذمہ دار شخصیات کا تعلق وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ ہے لیکن تمام ذمہ داروں کے نام ان رپورٹوں میں شامل نہیں ہیں۔ رپورٹ میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار کے بھائی، شریف گروپ اور اومنی گروپ کا ذکر تو کردیا گیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی اور شوگر ایڈوائزری بورڈ نے چینی کی برآمد کا فیصلہ کیوں کیا، کس کے کہنے پر کیا؟ کیا شوگر ایڈوائزری بورڈ کے اہم اجلاسوں کی صدارت وزیراعظم کے مشیر تجارت رزاق دائود نہیں کرتے رہے؟ یہ تو بتایا گیا کہ شوگر ملوں کو سبسڈی دینے کا فائدہ کس کس نے اٹھایا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ سبسڈی کا فیصلہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کس کے کہنے پر کیا؟ واجد ضیا کی حتمی رپورٹیں 25اپریل تک مکمل ہوں گی اور پھر وزیراعظم کا اصل امتحان شروع ہوگا کیونکہ عوام کو صرف چینی چوروں اور آٹا چوروں کے نام جاننے میں دلچسپی نہیں،

عوام کو یہ نام گستاخ میڈیا پہلے ہی بتا چکا ہے، عوام کو یہ انتظار ہے کہ چوروں کے خلاف عمران خان نے کیا کارروائی کی اور جن اربابِ اختیار کے احکامات سے ان چوروں نے اربوں روپے کمائے ان اربابِ اختیار کو عبرت کی مثال بنایا جائے گا یا نہیں؟ یہ معاملہ صرف چینی اور آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرکے منافع خوری کا نہیں بلکہ قومی خزانے کو لوٹنے اور پاکستان کی زراعت کو برباد کرنے کا بھی ہے اور اس جرم میں صرف موجودہ حکومت نہیں ماضی کی حکومتیں بھی ملوث رہی ہیں۔ شوگر مافیا نے صرف عمران خان کے دور میں لوٹ مار نہیں کی، یہ مافیا پرویز مشرف کے دور سے لوٹ مار کر رہا ہے اور اس مافیا کے کرتا دھرتا سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس مافیا کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس نے کپاس کے کاشتکار کو گنے کی کاشت پر مجبور کیا اور گنے کی قیمت بھی اپنی مرضی کے مطابق دی، یوں کپاس پیدا کرنے والے ملک کو کپاس درآمد کرنے پر لگا دیا اور شوگر ملوں کے ذریعے ایک طرف کاشتکاروں کو لوٹا دوسری طرف حکومت سے سبسڈی اور ریبیٹ لے کر چینی برآمد کی اور اربوں روپے کما لیے۔ قابلِ غور بات یہ ہے

کہ ایک طرف شوگر ملز ایسوسی ایشن کاشتکاروں کو گنے کی وہ قیمت ادا نہیں کرتی جو حکومت مقرر کرتی ہے دوسری طرف آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن بھی کپاس کی امدادی قیمت مقرر نہیں ہونے دیتی تاکہ کاشتکار سے کپاس نہ خریدنی پڑے۔ ہر حکومت کے دور میں وفاقی کابینہ میں گروپنگ پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک گروپ کاشتکاروں کیلئے روتا ہے، دوسرا گروپ صنعت کاروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، لیکن تحریک انصاف کی حکومت میں چند بیورو کریٹ صنعتکار گروپ کو دبانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ واجد ضیا رپورٹ کے ذریعہ حکومت میں شامل چند بااثر صنعت کاروں کو بےنقاب کرنا کاشتکارروں کی نہیں بلکہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی فتح قرار دی جا رہی ہے۔ اعظم خان کا اصل نشانہ جہانگیر ترین ہیں لیکن واجد ضیا نے حتمی رپورٹ اعظم خان سے پوچھ کر نہیں لکھنی۔ وہ اس معاملے میں عبدالرزاق دائود، عبدالحفیظ شیخ اور عثمان بزدار کے کردار کا جائزہ بھی لیں گے اور اگر ان کرداروں کو نظر انداز کریں گے تو پھر گستاخ میڈیا کے سوالات سے بچ نہیں پائیں گے۔

واجد ضیا کی حتمی رپورٹ 25اپریل تک سامنے آئے گی لیکن یقین رکھیے 25اپریل سے پہلے پہلے بہت سے حقائق سامنے آنے والے ہیں اور یہ حقائق بھی میڈیا سامنے لائے گا۔ جن لوگوں پر الزامات کا بوجھ ہے وہ کہتے ہیں ہم نے کوئی قانون نہیں توڑا۔ میڈیا کو اس بحث میں الجھایا جائے گا کہ جن ’’معزز‘‘ شخصیات کو چور قرار دیا جا رہا ہے انہوں نے غیراخلاقی فائدہ تو اٹھایا لیکن کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا۔ میڈیا کو اس بحث میں نہیں الجھنا کیونکہ قانون کے دائرے میں رہ کر ناجائز منافع خوری دراصل چوری ہے، ہمیں چور کو چور ہی کہنا ہے لیکن اس بات کا خیال رہے کہ کسی پر غلط الزام نہ لگے۔

Media also leaked the report of Baqir najfi and panama volume 10 would hamid mir and PML N demand to make them public too?
 

AhmadSaleem264

Minister (2k+ posts)
Aj sai 100 saal baad honay wali cheez bhi Bao g nay shuru ki thi or media ki waja sai hoi hadd hai bhai. Economy Imran nay tabah ki lekin investigation media nay ki kitna jhoot bolain gai munafiq